• 19 اپریل, 2024

’’زمینی جنت‘‘ (قسط 1)

’’زمینی جنت‘‘
قسط 1

نیا سلسلہ بعنوان ’’قرآنی انبیاء‘‘

مکرم مرزا خلیل احمد۔ نمائندہ الفضل آن لائن گھانا نے مکرم فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا کے وہ مضامین بعنوان ’’قرآنی انبیاء‘‘ برائے اشاعت ارسال کئے ہیں۔ جو کسی وقت 1993۔ء 1994ء میں تشحیذالاذہان میں انبیاء کے سوانح پر شائع ہوئے تھے۔ اور موصوف نے ادارہ کو یہ لکھ کر درخواست کی ہے کہ چونکہ روزنامہ الفضل آن لائن دنیا بھر میں ایک بڑی تعداد کے مطالعہ میں آتا ہے اس لئے انہیں افادہ عام کے لئے مکرر شائع کر دینے میں کوئی حرج نہیں۔

خاکسار نے جب ان مضامین پر نظر دوڑائی تو سہل زبان اور علمی ہونے کے ناطے انہیں اپنے عالمگیر قارئین کے لئے مفید پایا۔ اور ان کی مکرر اشاعت کو اس امید کے ساتھ مناسب سمجھا کہ قارئین کو یہ سلسلہ پسند آئے گا اور ازدیاد علم کا باعث ہوگا۔ (ایڈیٹر)

انسان اس وقت غاروں میں رہا کرتا تھا۔ تہذیب و تمدن سے بالکل عاری یہ انسان اعلیٰ اخلاق سے ناآشنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ترقی کے لئے اپنے ایک بندے کو مبعوث کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پہلے نبی کے طور پر ان لوگوں کی اصلاح کرنے لگے اور رفتہ رفتہ ایک خوبصورت ماحول پیدا ہو گیا۔ ایک بے نظیر معاشرہ بن گیا گویا زمین پر جنت قائم ہو گئی۔ پھر ایک دن اس جنت میں کچھ شیطان صفت لوگ آگھسے۔ اور وہاں کے امن کو برباد کر دیا۔

آج سے قریباً سات ہزار سال قبل پیش آنے والے واقعات جن میں ہر دور کے لوگوں کے لئے سبق ہے۔

ہماری یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں اسے بنے ہوئے لاکھوں کروڑوں سال گزر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو ہر ایک چیز کا خالق اور مالک ہے اس نے اس زمین کو آباد کرنے کے لئے اور اپنی صفات اور اپنی ذات کی شناخت کے لئے انسانوں کو پیدا کیا۔ انسان کی پیدائش کتنی پرانی ہے اس بارے میں ابھی تک کوئی قطعی بات سامنے نہیں آئی۔ البتہ ہمارے اس دور میں جس میں ہم رہ رہے ہیں پہلا منظم اور متمدن معاشرہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت آدمؑ کے ذریعے قائم ہوا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آدمؑ سے پہلے انسان دنیا میں آباد نہ تھے یا وہ کسی نظام کے ما تحت نہ رہتے تھے بلکہ انسانیت پر مختلف دور آتے رہے ہیں ایک مرتبہ منظم اور متمدن معاشرہ پیدا ہوا اور ترقی کرتا کرتا اپنے کمال کو پہنچ گیا پھر بعض حادثات کے نتیجے میں وہ معاشرہ تباہی کا شکار ہو گیا اور تمام ترقیات خاک میں مل گئیں۔ پھر ایسا ہی ایک معاشرہ بنا ترقیات کیں اور پھر مٹ گیا۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہا اور کب سے یہ سلسلہ جاری ہے اس بارے میں قطعی طور پر کہنا ممکن نہیں ہے۔

اس وقت ہم جن آدمؑ کی بات کر رہے ہیں یہ ہمارے اس دور کے وہ اول نبی تھے جو خدا تعالیٰ کے حکم سے تباہ شدہ انسانی معاشرے کو ترتیب اور تنظیم دینے کے لئے مبعوث کیے گئے تھے۔ یہ آج سے کوئی سات ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے۔ انسان پراگندہ صورت میں زمین پر آباد تھے۔ جنگلی درندوں اور ضرر پہنچانے والے جانوروں کے خوف سے وہ غار میں رہا کرتے تھے۔ کوئی منظم حکومت قائم نہ تھی اور نہ ہی کوئی رہن سہن کا طریقہ تھا جس کا جو جی چاہتا تھا کرتا تھا اور جیسے جی چاہتا تھا رہتا تھا۔

اپنے ان بکھرے ہوئے غیر تہذیب یافتہ انسانوں کی متحد اور منظم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کو جن کا نام آدمؑ تھا کھڑا کیا۔ روایات کے مطابق آپ مشرقی علاقوں کے رہنے والے تھے اور تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ہندوستان یا اس کے قرب و جوار کے کسی ملک کے رہنے والے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام کی نعمت سے نوازا اور نبوت کی دولت سے سرفراز فرمایا۔

چنانچہ آپ ایک مہذب اور با اخلاق معاشرے کے قیام میں مصروف ہو گئے۔ وہ لوگ جو غاروں میں رہ رہے تھے ار تہذیب سے ناآشنا تھے آپ نے انہیں غاروں سے نکل کر زمین پر آباد ہونے کا مشورہ دیا انہیں سمجھایا کہ تم درندوں کے خوف کی وجہ سے غاروں میں چھپ کر رہتے ہو لیکن اگر تم اکٹھے ہو کر آبادی بنا کر رہنا شروع کر دو تو درندوں کے حملوں کے یہ خطرے جاتے رہیں گے۔ تم متحد ہو کر رہو ایک دوسرے کی مدد کرو۔ مختلف پیشے اپناؤ اور ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کرو۔ گو یہ بات ابتدائی طور پر تو سب لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی لیکن پھر بھی بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہو گئے اور مل جل کر ایک خوبصورت معاشرہ بنانے لگے۔

روز بروز یہ خوبصورتی بڑھتی جا رہی تھی اور ایک جنت نظیر معاشرہ تشکیل پا رہا تھا جس میں حضرت آدمؑ اپنے نیک اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ سب ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کر تے تھے۔ نیکیاں بجا لاتے تھے اور اپنے خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ گویا زمین پر ایک جنت قائم ہو گئی تھی جس میں حضرت آدمؑ اور آپ کے ساتھی رہ رہے تھے۔ لیکن اس جنت نظیر معاشرے کی تعمیر بعض شیطان صفت لوگوں کو اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ کیوں ہم آدم کی بات مانیں؟ کیوں آدم کی اطاعت کریں جو ہم جیسا ہی ایک انسان ہے بلکہ کئی لحاظ سے ہم سے ادنیٰ ہے اور ہم اس سے اعلیٰ ہیں۔ اس لئے ہم کیوں آدم کی اطاعت کریں۔ یہ شیطانی سوچیں رکھنے والے لوگ مسلسل حضرت آدمؑ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح آدم کی اس جنت کو جو آپ نے بڑی محنت سے بنائی تھی تباہ کر دیں۔ کسی طرح اس معاشرے میں توڑ پھوڑ کریں اور ان کی خوشیوں کو خاک میں ملا دیں۔

دوسری طرف حضرت آدمؑ اپنے نیک ساتھیوں کو ساتھ لے کر ان فتنہ پرداز شیطانوں کے خلاف مجاہدہ کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دے رکھا تھا کہ یہ شیطان مومنوں کے درمیان فتنہ ڈالنا چاہتے ہیں اس لئے ہمیشہ ان سے ہوشیار رہنا۔ یہ شجرہ شیطانی (یعنی شیطانی نسل کے لوگ) تمہارے مشن میں روک پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

اس لئے ان کے خلاف جہاد جاری رکھنا کیونکہ ان شیطانوں کے ساتھ اگر تم نے تعلق جوڑ لیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ حضرت آدمؑ نے اس حکم کے ماتحت شیطان سے یعنی ان لوگوں سے جو شیطانی خیالات رکھتے تھے جہاد شروع کر دیا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اس طرح ہم آدمؑ اور آپ کے ساتھیوں کو شکست نہیں دے سکتے تو انہوں نے صلح صلح کا شور مچا دیا اور کہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے۔ امن تو صلح سے قائم ہو سکتا ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم صلح کر لیں۔ حضرت آدم ؑ غلطی سے ان کی یہ بات مان گئے اور ان شیطانوں سے صلح کر لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شیطان بھی دوستوں کے روپ میں آپ کے جنت نظیر معاشرے میں آ گھسے اور اندر آ کر انہوں نے قوم میں فتنہ فساد پیدا کر دیا۔ اور وہ مقصد جس کو باہر رہ کر حاصل نہیں کر سکتے تھے اندر آ کر انہوں نے حاصل کر لیا۔ اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے تمہیں ان لوگوں سے تعلق جوڑنے سے منع کیا تھا لیکن تم نے غلطی کی اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جاؤ اور زمین میں پھیل جاؤ تا کہ یہ فتنہ و فساد مزید نہ بڑھے۔ اور ان لوگوں کو مزید شیطانی حرکات کا موقعہ نہ مل سکے۔ چنانچہ اس حکم الہٰی کے ماتحت آدمؑ اور آپ ماننے والوں کو اس زمینی جنت سے ہجرت کرنا پڑی۔ اور اسے چھوڑنا پڑا۔

آدمؑ اپنی اس غلطی پر جو نادانستہ طور پر آپ سے ہو گئی تھی سخت غمگین تھے۔ آپ اپنے خدا تعالیٰ کے سامنے جھک گئے اور توبہ اور استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کی اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کی فریاد فوراً سنتا ہے۔ اس نے اپنے پیارے بندے آدمؑ کی غلطی کو بھی فوراً معاف کر دیا بلکہ انہیں مزید ترقیات کے راستے بھی بتائے۔ یوں اللہ تعالیٰ کے یہ نیک اور بزرگ نبی اپنا کام پورا کرتے ہوئے وفات پا گئے اور اپنے مولائے حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔

حضرت آدمؑ کے واقعات سے متعلق لوگوں میں بہت سے الٹی سیدھی کہانیاں مشہور ہیں۔ اور لوگوں نے قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے عجیب عجیب قصے حضرت آدمؑ کے متعلق بنا لئے ہیں۔ آئیے دہرائی کے طور پر ہم مختصراً ان باتوں کا ذکر کر دیں تا کہ اصل باتیں ہمیشہ یاد رہ سکیں۔

٭ حضرت آدمؑ پہلے انسان نہیں تھے بلکہ آپ سے پہلے بھی دنیا میں انسان موجود تھے۔
٭ آپ ہمارے اس دور کے پہلے نبی تھے جو لوگوں کو تہذیب اور اخلاق سکھلانے کے لئے مبعوث کیے گئے تھے۔
٭ آپ مشرقی ممالک کے رہنے والے تھے اور بعض روایات کے مطابق آپ کا تعلق ہندوستان سے تھا۔
٭ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدمؑ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا تھا۔ ظاہری سجدہ مراد نہیں تھا۔
٭ نیک اور اچھے لوگوں نے حضرت آدمؑ کی اطاعت کی تھی اور آپ کے ساتھ مل کر ایک تہذیب یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھی تھی۔
٭ بعض سرکش لوگ آپ کے خلاف ہو گئے تھے اور شیطانی حرکتوں پر اتر آئے تھے۔ انہی کو قرآن کریم میں ابلیس کہا گیا ہے۔
٭ یہ شیطان لوگ صلح کے نام پر آپ سے تعلق جوڑنا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی شیطانی سوچوں کی وجہ سے حضرت آدمؑ کو ان سے تعلق رکھنے سے منع کر دیا تھا۔ (انہی کا ذکر قرآن کریم میں ایک شجرہ یعنی درخت کے طور پر کیا گیا ہے کہ ہم نے آدمؑ کو ایک درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا)
٭ حضرت آدمؑ ان شیطانی لوگوں کی صلح کی باتیں سن کر غلطی کر گئے اور نادانستہ طور پر ان سے تعلق جوڑ لیا۔ جس کی وجہ سے ان لوگوں کو حضرت آدمؑ کے خوبصورت معاشرے میں فساد ڈالنے کا موقع مل گیا۔
٭ حضرت آدمؑ جس جنت میں رہتے تھے وہ زمین پر ہی تھی اور اس جنت سے مراد وہ جنت نظیر معاشرہ ہے جو آپ کے ذریعہ سے قائم ہوا۔
٭ حضرت آدمؑ نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ ایک بھول تھی جو آپ سے نادانستہ طور پر ہوئی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا ساتھ چھوڑا بلکہ بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ہمیشہ آپ سے اپنا تعلق قائم رکھا۔

(جاری ہے)

(فرید احمد نوید۔پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

خدا ایسے بھی دوڑ کر آتا ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جنوری 2022