• 2 مئی, 2024

آج کی دعا

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۲﴾ اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۳﴾ لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۴﴾ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ

(سورۃ اخلاص)

ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنے والا، بِن مانگے دینے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ تُو کہہ دے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔اللہ بے احتیاج ہے۔ نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔ اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الفلق والناس اور سورۃ الاخلاص) کا دم کیا کرتے تھے۔ پھرجب آپ کے لیے دشوار ہو گیا تو میں ان کادم آپ پر کیا کرتی تھی (صحیح بخاری حدیث نمبر: 5735)

ہمارے پیارے امام عالی مقام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ فرماتے ہیں۔
پس یہ اہمیت ہے سورۃ اخلاص کی۔ اور جب ہم رات کو یہ پڑھیں تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ پڑھنی چاہئے۔ جب ہم کہیں کہ خدا تعالیٰ اَحَد ہے تو ساتھ ہی اس کے صمد ہونے کا مقام بھی اور مرتبہ بھی ہمارے سامنے آنا چاہئے۔ صمد وہ چیز ہے جو کسی کی محتاج نہیں ہے اور کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ کبھی ہلاک ہونے والی نہیں ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
صمد کے معنی ہیں کہ ’’بجز اس کے تمام چیزیں ممکن الوجود اور ھالِک الذات ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ صفحہ433۔ حاشیہ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلدنمبر 8 صفحہ413)

یعنی جو پیدا ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں اور ختم ہونے والی ہیں انہیں فنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے جو صمد ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صمد کا مطلب بے نیاز ہے۔ بے نیازی اس کی یہ ہے کہ نہ وہ ہلاک ہونے والا ہے، ختم ہونے و الا ہے اور نہ اس جیسی کوئی چیز پیدا ہو سکتی ہے۔ پس یہ ہمارا خدا ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

(خطبہ جمعہ 16فروری 2018ء)

(مرسلہ:مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 13)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2022