• 1 مئی, 2024

حضرت سید احمد بریلوی شہیدؒ (تیرہویں صدی کے مجدد)

تیرہویں صدی کے مجدد
حضرت سید احمد بریلوی شہیدؒ

جناب ابو فاضل بشارت قارئین الفضل کے علم و عرفان میں اضافہ کے لئے مجددین کا تعارف کروا رہے تھے۔ بارہویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے تعارف و سوانح پر مضمون 17؍ اکتوبر 2020ء کو نذرِ الفضل ہوا تھا۔ ایک تعطل کے ساتھ تیرھویں اور چودھویں صدی کے مجددین کے حالات زندگی قارئین الفضل کی نذر کئے جارہے ہیں۔ (ایڈیٹر)

نام ونسب

آپ کا نام سید احمد تھا۔ آپ کے والد محترم سید محمد عرفان تھے۔ آپ سادات خاندان کے چشم و چراغ تھے۔آپ کا سلسلہ نسب خلیفۂ راشد حضرت علی مرتضیٰؓ سے جاملتا ہے۔ سلسلہ نسب یہ ہے:
سید احمد بن سید محمد عرفان بن سید محمد نور بن سید محمد ہدی بن سید علیم اللہ نقشبندی بن سید محمد فضیل بن سید محمد معظم بن سید احمدبن قاضی سید محمود بن سید علاء الدین بن قطب الدین ثانی بن سید صدر الدین بن سید زیان العابدین بن سید احمد بن سید علی بن سید قیام الدین بن سید صدر الدین بن سید رکن الدین بن سید نظام الدین بن سید قطب الدین کرمی بن سید احمد مدنی بن سید یوسف بن سید عیسیٰ بن سید حسن بن سید حسین بن سید جعفر بن سید قاسم بن سید عبداللہ بن سید محمد ثانی بن سید عبداللہ الاشتر بن سید محمد صاحب النفس الذکی بن سید عبد اللہ محض بن سید حسن مثنی بن سید حسن مجتبیٰ بن علی مرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین۔

(مخزن احمدی فارسی از مولوی سید محمد علی صفحہ 12)

سید حسن مثنیؒ کی شادی حضر ت امام حسینؓ کی صاحبزادی فاطمہ صغریٰ سے ہوئی اسی مناسبت سے کہ خاندان حسنی و حسینی کہلاجاتا ہے۔

قبل از ولادت بشارت

حضرت سید احمد صاحب کی والدہ محترمہ نے دوران حمل خواب میں دیکھا کہ ان کے خون سے ایک کاغذ لکھا گیا ہے جو تمام عالم میں اڑتا پھرتا ہے۔اس پر وہ مشوش ہوئیں۔یہ خواب سید عبد السبحان نے بھی سنا تو وہ بولے:
تشویش کی ضرورت نہیں۔اس کی تعبیر یہ ہے کہ جوکچھ آپ کے پیٹ میں ہےوہ دنیا میں بہت نامور ہوگا۔

(سید احمد شہید از مولوی غلام رسول مہر صفحہ 60 حاشیہ)

ولادت باسعادت

حضرت سید احمد صاحبؒ کی ولادت 6 صفر1201ھ مطابق 29 نومبر1786ء کوقصبہ رائے بریلی سرکار ضلع مانک پور صوبہ الہ آبادمیں ہوئی۔

(مخزن احمدی صفحہ 12، سید احمد شہید صفحہ60)

تعلیم

سید صاحب موصوف کی عمر جب چارسال چار ماہ چار دن ہوئی توشرفائے ہندکے دستور کے مطابق آپ کے والد محترم نے آپ کومکتب میں معلم کے سپرد کردیا۔ لیکن سید صاحب کی طبیعت دوسرے بچوں کی طرح استادسے کچھ سیکھنے کی طرف راغب نہ ہوئی اورنہ ہی آپ پڑھنے پڑھانے کی طرف توجہ کرپائے۔

اساتذہ نے آپ کو پڑھانے کی بہت کوشش کی لیکن بارآور نہ ہوئی۔تین سال مکتب میں گزرنے پر استاد کی پوری توجہ اور ہزار ہاکوششوں کے باوجودقرآن مجید کی صرف چند سورتیں ہی یاد ہوسکیں اورمفردومرکب الفاظ لکھنا سیکھ سکے۔آپ کے بڑے بھائی سید ابراہیم و سید اسحاق صاحب آپ کوتحصیل تعلیم اور پڑھنے لکھنے کی بہت تاکید کرتے تھے۔والد ماجدمحمد عرفان نے فرمایا کہ ان کا معاملہ خدا پر چھوڑدو، وہ اُن کے حق میں جوبہتراور اولیٰ سمجھےگا،ظاہر کردے گا۔ تاکید ظاہری مفید نہیں۔

(مخزن احمدی صفحہ 12)

تاہم آپ فارسی کے ساتھ عربی زبان بھی سیکھ گئے اور مشکوة کا مطالعہ خود کرلیتے تھے۔ مولوی عبدالقیوم کا بیان ہے کہ تحصیل علم کے دوران حضرت سید صاحب کو کتاب پر حروف نظر نہ آتے۔اطباء سے رابطہ کیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔شاہ عبدالعزیزؒ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا کہ جالی وغیرہ باریک چیزوں پر نظریں جماؤ کیا وہ بھی نظروں سے غائب ہوتی ہیں؟ لیکن تمام باریک چیزیں آپ کو نظر آتیں جس پر شاہ عبد العزیزؒ نے فرمایا :
معلوم ہوتا ہے کہ علم ظاہری ان کی قسمت میں نہیں۔ان کو تعلّم سے پڑھنا نہیں آئے گا بلکہ علم لدنی حاصل ہوگا۔

(سید احمد شہید صفحہ62)

پس آپ کی ظاہری تعلیم تو اس قدر نہ تھی لیکن شرعی امور اور اوامر و نواہی کا بخوبی علم رکھتے تھے۔عربی و فارسی کے ساتھ آیات و احادیث کے معارف بھی جانتے تھے۔

مشاغل

سید احمد صاحبؒ کو بچپن میں کھیل کا بہت شوق تھا۔ آپ کبڈی کے شوقین تھے اور لڑکوں کو دو جتھوں میں تقسیم کر دیتے اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے قلعے پر حملہ کرتا اور فتح کرتا۔ اس طرح نادانستہ آپ کی جسمانی و فوجی تربیت ہوتی رہی۔

(سیرت سید احمد شہیدؒ از ابوالحسن علی ندوی جلد اول صفحہ110)

آپ کے بھانجےسید عبدالرحمٰن سپہ سالار افواج نواب وزیر الدولہ بیان کرتے ہیں :
آپ کی عادت تھی کہ سورج نکلنے کے گھنٹوں بعد تک ورزش اور کشتی میں مشغول رہتے، میں بچہ تھا، آپ کے بدن پر مٹی ملتا، یہاں تک کہ خشک ہوکر جھڑ جاتی، پیروں پر مجھے کھڑا کرکے پانسو ڈنڑ لگاتے، پھر کچھ ٹھہر کر پانسواور من بھر،بیس اور تیس سیر کے مگدر ہلاتے تھے، ان میں تعداد کا خیال نہیں تھا بلکہ وقت کا اندازہ تھا مثلا دو گھنٹے، تین گھنٹے،چار گھنٹے۔

(سیرت سید احمد شہیدؒ جلد اول صفحہ113)

آپ ایک ماہر تیراک اور غوطہ خور بھی تھے۔

عنفوان شباب

سن بلوغت کو پہنچے تو حضرت سید احمد صاحب ؒ کو خدمت خلق کا شوق پیدا ہوا کہ خلق عیال اللہ ہے اس لیے ان کی خدمت سے خدا کی خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے۔آپ نےبلا تخصیص امیر و غریب بچوں،ناتوانوں اور یتیموں وغیرہ کی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔اور اس قدر کام کیا کہ بزرگان اور خدا پرست لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ آپ صبح شام غرباء خصوصاً بیوگان کے گھروں پر تشریف لےجاتے اوران کا حال دریافت کرتے اور کہتے:
اگر ایندھن، پانی، آگ وغیرہ کی ضرورت ہوتوبے تکلف بتائیں کہ میں لادوں گا؟

اہل محلہ ہمسائیگان اور قرب وجوار کے لوگ آپ اور آپ کے بزرگوں کے مرید اور خادم تھے۔ باوجود اس کے کہ انہیں حاجت بھی ہوتی لیکن وہ ان باتوں کو معیوب سمجھتے اور کہتے کہ یہ امر معکوس ہے کہ آپ ہماری خدمت کریں جبکہ ہم تو آپ اور آپ کے باپ دادا کے بھی غلام ہیں، ہم کیسے جرأت کرسکتے ہیں کہ آپ سے کوئی کام لیں؟

آپ ان کو خدمت گزاری اور اعانت کی فضیلت اس طرح سناتے کہ وہ زاروقطار روتے اور باصرار ان کی ضرورتیں معلوم کرکے پوری کرتے،بازار سے ان کےلیے سودا لاتے،لکڑی لاد کر اورپانی بھر کر لاتے اور ان کی دعائیں لیتے اور کسی طرح سے اس کام سے سیری نہ ہوتی،عزیزوں،ہمسایوں کے گھروں میں جاکر دیکھتے کہ برتنوں میں پانی ہے،جلانے کےلیے لکڑی ہے یا نہیں،پانی نہ ہوتا تو اپنے ہاتھ سے بھرتے،لکڑی نہ ہوتی تو جنگل جاکر خود کاٹتے،چادر میں گٹھا باندھ کر سر پر رکھتے اور گھروں میں پہنچادیتے،آپ کے بھائی اور عزیز اس پر چیں بجبیں ہوتے،سخت سست بھی کہتے مگر آپ اس کی پروا نہ کرتے اور کام کیے جاتے۔

(مخزن احمدی صفحہ13)

والدہ محترمہ کا جذبہ قربانی اور آپ کی اطاعت

آپ کی طبیعت سپاہیانہ تھی اور شوق جہاد بھی نمایاں تھا۔ایک دفعہ رائے بریلی میں ہندومسلم لڑائی ہوئی تو آپ فوراً گھر پہنچے اور تلوار نکال کر والدہ محترمہ سے اجازت کے لیے کھڑے ہوگئے جوکہ نماز میں مصروف تھیں۔ آپ کی کھلائی نے دیکھ کر باہر جانے سے بہت روکا لیکن آپ نہ مانے اور اپنی والدہ کی اجازت کے منتظر رہے۔ والدہ محترمہ نے سلام پھیر کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ سب سن کر والدہ نے کھلائی سے کہا:
بوا! بے شک تمہیں احمد سے محبت ہے مگر میرے برابر نہیں ہوسکتی۔ میرا حق تمہارے حق پر فائق ہے۔ یہ روکنے کا کون سا موقع ہے؟ انہیں جانے دو۔

پھر گوشۂ جگر کو فرمایا :
جلدی جاؤ لیکن دیکھنا،مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرنا ورنہ عمر بھر تمھاری صورت نہ دیکھوں گی۔

سید صاحب موصوف وہاں پہنچے لیکن لڑائی تک نوبت نہ پہنچی۔بات چیت سے ہی معاملات طے ہوگئے اور عافیت رہی۔

(سید احمد شہیدؒ صفحہ 65)

لکھنؤ کا سفر

حضرت سید احمد صاحب شہیدؒ نے اپنے والد محترم کے انتقال کے بعد 1219ھ میں حصول معاش کی خاطر لکھنؤ کا سفر اختیار کیا۔ رائے بریلی سے لکھنؤ کی مسافت قریباً انچاس میل تھی۔ آپ کے ساتھ سات عزیز رشتہ دار بھی تھے اور سواری صرف ایک۔چنانچہ سب باری باری سوار ہوتے۔ جب آپ کی باری آتی تو آپ کسی اور کو سوار کرا دیتے۔ نصف راستہ تک پہنچتے سب تھک ہار کر بیٹھ گئے کیونکہ ہر ایک کا سامان بھی اس کے ساتھ تھا۔ چنانچہ کسی مزدور کی تلاش شروع کی لیکن کوئی نہ مل پایا۔ حضرت سید صاحبؒ نے نہایت عاجزی سے سب سے درخواست کی کہ وہ اپنا سامان ایک کمبل میں باندھ دیں وہ اسے اٹھالیں گے۔ چنانچہ سب نے مجبوراً اپنا سامان آپ کے سپرد کردیا اور آپ اکیلےاسے لکھنؤتک لے آئے۔

(ملخص از تواریخ عجیبہ موسوم بہ سوانح احمد از محمد جعفر تھانیسری از صفحہ 7)

لکھنؤ میں معاشی طور پر حالات سازگار نہ تھے لیکن پھر بھی آپ چار ماہ تک لکھنؤ میں رہے۔ اس دوران اپنے عزیزوں کو کہتے کہ ملازمت کا خیال چھوڑو اور دہلی جاکر سیدالمحدثین شاہ عبدالعزیزؒ سے کسب فیض کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی نے آپ کی نصیحت پر عمل نہ کیا۔

سفر دہلی

چنانچہ ایک روز آپ چپکے سے دہلی کی طرف عازم سفر ہوئے اور چودہ منزل کا نہایت کٹھن سفر بے سروسامانی کی حالت میں طے کرکے دہلی جا پہنچے۔ دہلی پہنچ کر سب سے پہلے شاہ عبد العزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ شناسائی نہ ہونے کے سبب شاہ صاحب نے تعارف پوچھا۔سید ابوسعید کے نواسے اور سید نعمان کے بھتیجے ہونے پر شاہ نے آپ کو پرتپاک استقبال کیا اور فرمایا:
آپ کے خاندان مقدس میں تو منصب ولایت موروثی ہے دو ایک پشت کے بعد ضرور اس خاندان میں مادرزاد ولی پیدا ہوتا ہے اگر فضل الہٰی شامل حال ہے تو آپ بھی بطور وارث اپنے آباء و اجداد کے اپنے اپنے مقصد کو پہنچ جائیں گے۔

بعدہ آپ کو قیام کے لیےاپنے بھائی شاہ عبدالقادر کے پاس اکبر آبادی مسجد بھجوادیا۔

(تواریخ عجیبہ صفحہ 9)

شاہ عبدالقادر سے مزید تعلیم

اکبر آبادی مسجد میں سید صاحب نے شاہ عبد القادرؒ سے عربی و فارسی کتب پڑھنا شروع کیں اور ذکر الہٰی اور عبادات میں مشغول رہے اور شاہ صاحب کے دروس میں شامل ہوتے۔

سعید الفطرت

حضرت سید صاحب پاکیزہ اور سعید فطرت کے مالک تھے۔اطاعت الہٰی اور اطاعت رسول میں صف اولین میں تھے۔ آپ سنت کی پیروی کرنیوالے تھے۔ لغویات سے احتراز برتتے۔ ایک دفعہ جمنا کے کنارے ہندوؤں کا میلہ لگا ہوا تھا جس میں عورتیں کثیر تعداد میں شامل ہوتی تھیں۔دوستوں نے اصرارکیا کہ آپ بھی اس میلہ میں جائیں لیکن آپ نے اس لغو کام سے انکار کرتے ہوئے کہا :
مجھ کو اس نا مشروع مجمع کی شرکت سے معاف رکھو میں ایسی جگہ ہرگز نہ جاؤں گا۔

آپ کے ان بے تکلف دوستوں نے زبردستی اٹھا کر آپ کو میلے میں لے جانا چاہا لیکن میلے کی جگہ کے قریب پہنچنے پر آپ پر غشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔جسے دیکھ کر دوست ڈ ر کر آپ کو واپس دہلی چھوڑ آئے۔

اسی طرح آپ کسی مجلس میں تشریف لے گئے جہاں اچانک مزامیر و غنا شروع کردیا گیا جس پر آپ بے ہوش ہوگئے۔

(تواریخ عجیبہ موسوم بہ سوانح احمدی صفحہ16،15)

شاہ عبدالعزیزؒ کی بیعت

1222ھ میں سید صاحب نے شاہ عبدالعزیزؒ کی بیعت کرلی اور آپ اس وقت کے رائج تصوف کے طرق ثلاثہ نقشبندیہ، قادریہ اور چشتیہ میں داخل ہوگئے پس پہلے دن لطیفہ اول یعنی ذکر وقلب کی تعلیم ہوئی، دوسرے دن باقی لطائف یعنی لطیفہ روح، لطیفہ سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفیٰ اور لطیفہ نفس کا ذکر سکھایا گیا۔ تیسرے جلسہ میں سلطان الاذکار اور چوتھے جلسے میں ذکر نفی و اثبات بتایا گیا پھر شغل برزخ کا حکم ہوا جس میں صورت شیخ کا تصور صوفیہ میں مروج تھا۔ تصور صورت شیخ کا حکم سن کر سید صاحب نے پوچھا :
اس شغل اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟ شاہ عبد العزیزؒ نے حافظ کا یہ مشہور شعر پڑھ کر سنایا:

بہ مے سجادہ رنگیں کن، گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا

اس پر سید صاحب نے مکرر عرض کیا:
مجھے تو تصور شیخ محض بت پرستی ہی محسوس ہوتی ہے۔ شرک تو دور کی بات ہے اگر قرآن و سنت یا حدیث سے کوئی سند بتائیں تویہ خدشہ دور ہوکر اطمینا ن ہوجائے گا کہ دونوں ایک چیز نہیں۔

شاہ صاحب نے یہ بات سن کر آپ سے معانقہ کیا اور بوسہ دے کر فرمایا:
خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے۔

(سید احمد شہیدؒ صفحہ80)

ولایت انبیاء اور ولایت اولیاء میں فرق

سید صاحبؒ نے شاہ صاحب سے ولایت انبیاء اور ولایت اولیاء کے بارہ میں وضاحت کے متعلق عرض کیا تو شاہ عبدالعزیز ؒ نے فرمایا:
ولایت اولیاء یہ ہے کہ اللہ جس شخص کو ولایت اولیاء سے نوازتا ہے وہ دن رات مجاہدات و مراقبات، صوم و صلوة اور کثرت نوافل میں مشغول رہتا ہے اور خلوت نشین ہوکر خدا تعالیٰ کی عبادت لگارہتا ہے وہ جلوت پسند نہیں کرتا۔ اسے بدکرداروں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اصطلاح صوفیاء میں اسے قرب بالنوافل کہا جاتا ہے۔ ولایت انبیاء کاحامل شخص محبت الٰہی سے پُر ہوتا ہےاور ماسوا کی کوئی اہمیت اس کےلیے نہیں رہتی۔اور وہ خدا کی مخلوق کو راہ راست پر لانے کےلیے ہروقت کوشاں رہتا ہے اور کسی لومتہ لائم کی پرواہ نہیں کرتا اور اشاعت توحید اور احیائے سنت نبویؐ کے لیے بلا جھجک ہرممکن کوشش کرتارہتا ہے۔بوقت ضرورت اس راہ میں مال و جان کو قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ وہ لوگوں میں ہرمحفل اور مجلس میں وعظ و نصیحت کرتا ہے اور مصائب پر صبر کا نمونہ دکھاتا ہے۔ اسے اصطلاح صوفیاء میں قرب بالفرائض کہتے ہیں۔

(ملخص از تواریخ عجیبہ صفحہ 11-12و سید احمد شہیدؒ)

رؤیت الہی

ایک شب خواب میں اللہ تعالیٰ نےاپنے دست قدرت خاص سےحضرت سید احمد بریلویؒ کا ہاتھ پکڑ کر ایک چیز امور قدسیہ سے جو نہایت رفیع اور بدیع تھی آپ کے سامنے رکھ کر فرمایا کہ تجھ کو یہ چیز اب عنائیت ہوئی ہے اور اس کے سوا اور بہت سی چیزیں تجھ کو عطا فرمادیں گے۔

(تواریخ عجیبہ صفحہ 14)

زیارت رسولؐ

حضرت سید صاحب نے ریاضات و مجاہدات کرنی شروع کردیں۔ساری ساری رات عبادت کرتے رہتے۔ آپ کی عبادات کا یہ حال تھا کہ قیام لیل سے پاؤں ورم ہوکر خون جاری ہوجاتا تھا۔ان حالات کو دیکھ کر شاہ عبد القادر فرمایا کرتے تھے :
اس بزرگ کے احوال سے آثار کمال ظاہر ہوتے ہیں۔

(تواریخ عجیبہ صفحہ13)

21رمضان المبارک کو آپ نے حضرت شاہ عبد العزیزؒ سے پوچھا:

لیلتہ القدر کونسی ہوگی؟

مقصد یہ تھا کہ اس رات عبادت کا خاص اہتمام کریں۔شاہ صاحب نے فرمایا:
شب بیداری کا معمول جاری رکھیں۔ لیکن محض جاگتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو۔

چنانچہ آپ ساری ساری رات جاگ کر عبادات کرتے رہے۔27رمضان المبارک کو نماز عشاء کے بعد آپ پر نیند ایسی غالب آئی کہ دوچار رکعات ادا کرنے کے بعدآنکھ لگ گئی۔رات کے آخری پہر کسی نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر اچانک اٹھا دیا تو دیکھا کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ دائیں اور بائیں تشریف فرما ہیں اور فرما رہے ہیں:
اےاحمد! جلد اٹھ اور غسل کر۔

آپ نے فوراً اٹھ کر یخ بستہ پانی سے غسل کیا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اے فرزند! آج شب قدر ہے، تو یادالہٰی میں مشغول ہو جا اور دعا اور مناجات کرتا رہ۔

اس تلقین کے بعد دونوں تشریف لے گئے۔صاحب مخزن لکھتے ہیں کہ آپ اکثر فرماتے :
اس رات مجھ پر افضال الہٰی کی عجیب بارش ہوئی اور حیرت انگیز واردات اور واقعات غریب میرے دیکھنے میں آئے کہ تمام اشجار و احجار بھی بارگاہ ایزدی میں سربسجود نظر آتے تھے۔اور اس طریق پر تسبیح و تہلیل کررہے تھے کہ اسے معرض بیان میں لانا مشکل ہے۔صبح کی اذان تک یہی کیفیت رہی۔میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ عالم غیب کا معاملہ تھا یا عالم شہادت کا۔

(سید احمد شہید صفحہ81-82، تواریخ عجیبہ صفحہ 13)

ایک دفعہ ایک رؤیا میں رسول اللہﷺ نے تین چھوارے سید صاحب کے منہ میں اپنے دستے مبارک سے ایک ایک کرکے رکھ کر پیار اور محبت سے کھلائے جب آپ بیدار ہوئے تو ان چھوہاروں کی شیرینی آپ کو محسوس ہوئی۔

(تواریخ عجیبہ صفحہ 14)

زیارت اہل بیتؓ

حضرت سید احمد بریلویؒ نے ایک دفعہ خواب میں حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بھی زیارت کی۔حضرت علیؓ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو نہلایا اور حضرت فاطمہؓ نے ایک لباس فاخرہ اپنے ہاتھ سے آپ کو پہنایا۔

(تواریخ عجیبہ صفحہ 14)

دہلی سے رائے بریلی

1223ھ کے اوائل میں آپ مراتب سلوک طے کرنےکے بعد رائے بریلی واپس آگئے اور اپنی مسجد میں مقیم ہوگئے۔آپ کو چارپانچ سال بعدفقیرانہ لباس میں دیکھ کر عزیز رشتہ دار وں نے مشکل سے پہچانا۔اہل خاندان اور والدہ یہ حال دیکھ کر بہت غمگین ہوئیں۔

شادی

سید صاحب کی نسبت تو بہت پہلے طے کردی گئی تھی لیکن جب آپ اس حال میں وطن واپس آئے تو لڑکی والے شادی کرنے سے کچھ متأمل ہوئے لیکن خاندان والوں کے سمجھانے پر رضامند ہوگئے اور یوں سید صاحب کی شادی 1223ھ میں نصیر آباد کے سید محمد روشن صاحب کی صاحبزادی سیدہ زہرہ سے ہوئی۔ 1224ھ میں ان سے ایک بیٹی سیدہ سارہ کی ولادت ہوئی۔

نواب امیر خاں کی مصاحبت

1226ھ میں سید صاحب حکم الہٰی کے تحت دہلی سے ہوتے ہوئے راجپوتانہ پہنچ کر نواب امیر خاں کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ (مخزن صفحہ32) کچھ ہی عرصہ میں آپ کی شناسائی نواب صاحب سے ہوگئی اور وہ آپ کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے اور اہم معاملات میں آپ کے مشورے لینے لگے۔لشکر میں اصلاح وتبلیغ کا کام شروع کردیا۔نواب صاحب کے پاس چھ سالہ قیام کے دوران آپ نے مختلف مہمات میں بھی شرکت کی۔ قلعہ دھمکولہ کے محاصرہ کے وقت وہاں موجود تھے۔ پھر نواب صاحب کے ساتھ جے پور کی جنگ میں شرکت کی۔مادھوراج پوری کے محاصرہ میں ایک گولہ سید صاحب کے بالکل پاس گرا کہ لوگوں نے سمجھا کہ آپ کو لگ گیا ہے لیکن اللہ کے فضل سے آپ محفوظ رہے۔اسی محاصرے میں ایک گولی آپ کی پنڈلی میں لگی جس کا زخم کئی روز علاج کے بعد مندمل ہوا۔

نواب صاحب سے علیحدگی

انگریز ہندوستان پر حکومت کرنے کےلیے اپنی مختلف تدابیر سے راجستھان کی ریاستوں کو اپنے ساتھ ملاتے جارہے تھے۔نواب امیر خاں کی فوج میں بھی انگریزوں نے بعض سرداروں کو لالچ دے کر پھوٹ ڈال دی۔یوں امیر خان کی فوج دو حصوں میں بٹ گئی۔نواب صاحب نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ انگریزوں سے مصالحت کرلی جائے۔لیکن سید صاحب نے اس کی مخالفت کی۔جب نواب امیر خاں کی انگریزوں سے مصالحت ہوگئی تو آپ نواب صاحب سے علیحدہ ہوگئے۔

تیسرا سفر دہلی اور سلسلہ بیعت کا آغاز

نواب صاحب سے علیحدگی کے بعد حضرت سید احمد بریلویؒ 1332ھ میں دہلی آگئے اورشاہ عبد العزیز سے ملاقات کے بعد مسجد اکبر آبادی میں فروکش ہوگئے۔شاہ عبد العزیزؒ ہر طالب حق کو آپ کے پاس بھجوادیا کرتے۔جیسے ملا بخاری وغیرہ۔دہلی میں ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا کہ شاہ ولی اللہ کے بھائی شاہ اہل اللہ کے پوتے مولو ی محمد یوسف پھلتی نے آپ کی بیعت کرلی۔اس کے بعد مولوی عبد الحئی اور شاہ اسماعیل نے بھی آپ کی بیعت کی۔ان علماء کی بیعت سے آپ کے نام کی شہرت ہوئی اوردور دراز سے لوگ آپ کی بیعت کے لیے آنے لگے۔حضرت سید صاحب نے دہلی میں اصلاح و ارشاد اور ہدایت کا کام شروع کردیا تھا اور اسی طرف آپ کی سب سے زیادہ توجہ تھی۔بیعت کے بعد مخلصین کی جماعت آپ کے پاس جمع ہوگئی جن میں سے اکثر ہر وقت آپ کے پاس رہتے تھے۔

اصلاح وارشاد کی خاطر دورہ جات

حضرت سید صاحبؒ نے مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لیے دریائے گنگا اور جمنا کے درمیانی علاقے یعنی دوآبے کا دورہ کیا۔دورہ کا آغاز محرم 1234ھ کو کیا جو چھ ماہ میں مکمل ہوا جس میں آپ کے ساتھ بیس رفقاء شامل تھے۔ اس دورہ میں آپ نے بیسیوں مقامات میں اصلاح و ارشاد کا کام کیا۔ جن میں سے معروف یہ ہیں: میرٹھ، دیوبند، مظفرنگر، سہارنپور، گنگوہ، پھلت، مرادنگر، غازی الدین نگر، بھون، بڑھانہ، شیرکوٹ، نگینہ، شکارپور، چل کانہ، بھڑسور، کاندھلہ، رام پور لہاری، سردہنہ وغیرہ۔

اس دورہ میں آپ جن مقامات پر جاتے تبلیغی و اشاعت دین اور اصلاح عقائد کے ساتھ ترویج سنت اور امحائے بدعات و رسومات کی تلقین کرتے۔ ہر جگہ وعظ فرماتے جن میں اسلامی احکام بیان کیے جاتے تھے۔ آپ نے ان تمام رسومات کے خلاف جہاد کیا جو مسلمانوں میں ایک عرصہ سے غیر مسلموں کے ساتھ رہتے ہوئے سرایت کرگئی تھیں۔ اس طویل دورہ کے بعد آپ نےرائے بریلی، غازی آباد، سلون، الہ آباد، بنارس، لکھنو اور کانپور وغیرہ کے دورہ جات بھی کیے۔ آپ کے ان دورہ جات نے نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی اصلاح کی بلکہ ان میں جذبہ جہاد بھی پھونک دیا۔

طریقہ محمدیہ

جیساکہ قبل ازیں ذکر ہوچکا ہے کہ ہندوستان میں تصوف کے صرف تین طریقے قادری،چشتی اور تقشبندی رائج تھے۔نقشبندی طریقہ کا ایک سلسلہ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی سے انتشاب کے باعث طریقہ مجددیہ کہلاتا تھا۔ سید صاحب ان طرق ثلاثہ کے علاوہ طریقہ محمدیہ پر بیعت لیتے تھے۔ آپ نے طریقہ محمدیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
طریقہ محمدیہ یہ ہے کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے رب العالمین کے لیے کیا جائے۔۔۔ہر فردان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للّٰہ رب العالمین کا عملی نمونہ بن جائے۔

(سیداحمد شہیدؒ صفحہ131)

السلام علیکم کی سنت کی ترویج

حضرت سید احمد صاحبؒ جب پہلی دفعہ دہلی آئے اور شاہ عبد العزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سنت نبویؐ کے مطابق السلام علیکم کہا۔ جو شاہ عبد العزیزؒ کو بہت پسند آیا اور آپؒ نے فرمایا کہ آئندہ سے اسی طریق پر سلام کہی جائے۔جبکہ اس سے پہلے ہندوستان میں یہ طریق بھلا دیا گیا تھا اور تسلیمات عرض کرنے کا رواج تھا۔

(سیرت سید احمد شہیدؓجلد اول صفحہ120)

نکاح بیوگان اور نکاح ثانی

سید احمد صاحب نے احیائے سنت کی ترویج میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔اس ضمن میں جو اہم کارنامے سرانجام دئیے ان میں سے ایک نکاح بیوگان تھا جس کا آغاز آپ نے اپنے گھر کی بیوگان کے نکاح سے کیا اور اس ہندوانہ رسم کا قلع قمع کیا۔چنانچہ آپ نے اپنے برادر سید اسحاق صاحب کی بیوہ سیدہ ولیہ سے کیا۔اور نکاح کی شیرینی ان کے ہاتھ سے تقسیم کروائی تاکہ سب کوباور کروائیں کہ یہ عمر سنت نبوی کے عین مطابق اور قابل عزت ہے۔

سید صاحب نے نکاح بیوگان کی تحریک کے بارہ میں مختلف علاقوں میں خطوط ارسال کیے۔شاہ اسماعیل نے ان خطوط کے مسودے تیار کرکے دہلی،رام پور،پھلت اور دیگر مرکزی مقامات پر ارسال کیے جس کی وجہ سے متعدد علاقوں کے شرفاء نے برضا و رغبت بیوہ خواتین سے نکاح کیے۔

(سیداحمد شہیدؒ صفحہ148)

کھانا ضائع کرنے کی رسم کا خاتمہ

الہ آباد سے کلکتہ تک نو مسلموں میں یہ رسم ابھی تک قائم تھی کہ شادی یا غمی کے موقع پر دیہاتی لوگ پتروں پر کھانا کھلاتے اور شہری مٹی کی رکابیوں پر۔اور جو کھانا بچتا وہ پھینک دیتے۔ سید صاحب کو اس بد رسم کا پتہ چلا تو آپ نے اس سے منع فرمایا کہ کھانا نعمت الہٰی ہے اسے یوں ضائع کرنا بے ادبی ہے۔

(سیداحمد شہیدؒ صفحہ193)

فرقہ بندی کی مخالفت

آپ کے سسرال نصیر آباد میں پہلے سنیوں کی اکثریت تھی لیکن سید دلدار علی جو شیعہ مجتہد مانے جاتے ہیں ان کی تبلیغ سے اکثر لوگ شیعہ ہوگئے اور نصیرآباد میں شیعہ آبادی کی کثرت ہوگئی اور سنی تھوڑے رہ گئے۔ایک روزشیعہ اکثریت نے سنیوں کو تنگ کرنے کی ٹھانی اور محرم کی آٹھویں تاریخ کو جلوس نکال کر تبرا کرنے کا منصوبہ بنایا۔سنیوں نے بھی اپنے عزیز و اقرباء سےمدد طلب کی۔سید صاحب کو اطلاع ہوئی تو آپ کچھ احباب کے ساتھ نصیرآباد پہنچ گئے اور مختلف مراحل کے بعد بالآخر مصالحت ہوئی جو دیرپا قائم رہی۔

فریضہ حج کی تجدید

سید صاحب کے ہر کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی تھی۔ان ایام میں علمائے ہند نے بحری سفر میں درپیش خطرات کی وجہ سے فریضۂ حج کے اسقاط کا فتویٰ دے رکھا تھا جس پر سید صاحب سمیت مولوی عبد الحئی اور شاہ اسماعیل کو تحفظات تھے۔مولوی عبد الحئی اور شاہ اسماعیل نے اس فتویٰ کو کلیتاً رد قرار دے دیا۔اس پر شاہ عبد العزیزؒ سے اس بارہ میں استفسار کیا گیاتو انہوں نے بھی اس کی شاہ اسماعیل کی تائید کی۔لیکن مسلمانوں کو اس بارہ میں ایک عملی مثال کی ضرورت تھی چنانچہ سید صاحب نے حج کے لیے رخت سفر باندھا تو ہندوستان کے طول و عرض میں یہ بات پھیل گئی اور مسلمانوں میں فتویٰ بابت ساقط حج ہوا میں اُڑگیا۔اور چار سو افراد کا قافلہ شوال 1236ھ کو رائے بریلی سے بے سروسامانی کی حالت میں حج کےلیے روانہ ہوا۔

(ملخص از سیرت سید احمد شہیدؒ از ابوالحسن ندوی صفحہ 253تا257)

عظیم آباد سے تبت میں تبلیغ کا انتظام

مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے سید صاحب عظیم آباد پہنچے۔یہاں بھی دیگر مقامات کی طرح متعدد لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔اسی جگہ چھ مردوں اور تین عورتوں پر مشتمل تبتیوں کا ایک قافلہ آپ سے ملا۔آپ نے انہیں اشاعت توحید اور اتباع سنت اور اجتناب شرک و بدعت کی تلقین کی اور انہیں تبت جاکر بھی انہی باتوں پر عمل کرنے کی تلقین کی۔چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور تبت میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی۔

(سید احمد شہیدؒ صفحہ202)

مکہ معظمہ میں قیام

سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے سید صاحب مع قافلہ 29شعبان1237ھ کومکہ معظمہ داخل ہوئے اورحج بیت اللہ کی سعادت پائی۔5صفر تک پانچ مہینے دوران قیام مکہ آپ نے وہاں کے علماء و صلحاء سے ملاقاتیں کیں۔پھر مدینہ تشریف لے گئے اور روضۂ رسولؐ کی زیارت کی۔سید صاحب تو بیت المقدس جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن اہل قافلہ کی وجہ سے نہ جاسکے۔

(ملخص از سیرت سید احمد شہیدؒ از ابوالحسن ندوی صفحہ 363)

مراجعت

مدینہ منورہ میں سردی کی شدت کافی ہوگئی تو رسول اللہﷺ نے خواب میں آکر آپ سے فرمایا:
احمد! اب یہاں سے جاؤ تمہارے ساتھیوں کو سردی سے تکلیف ہے۔

(سیرت سید احمد شہیدؒ صفحہ363)

چنانچہ آپ نے حج وداع کرکے واپسی کا سفر شروع کیا اورآخر شعبان1239ھ کوواطن واپس پہنچے۔

رائے بریلی میں قیام

رائے بریلی میں جمادی الثانی 1241ھ تک ایک سال دس ماہ قیام کے دوران آپ نے مکانوں کی مرمت،مساجد کی تعمیر، دعوت جہاد،تبلیغ و ارشاد، علمی و روحانی تربیت رفقاء کے غیر معمولی کام سرانجام دئیے۔

آغاز جہاد

سید صاحب کی ولادت سے قبل ہی ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔مغل حکومت کے بعدمسلمانوں کی طوائف الملوکی بھی اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔غیر مسلم اپنی طاقت بڑھاتے چلے جارہے تھے۔مسلمانوں کی سیاسی ابتری کے ساتھ دینی حالت بھی پسماندگی کا شکار تھی۔سید صاحب کو سن شعور سے ہی اس بات کا احساس تھا اور انہوں نے اپنی زندگی اسی کام کے لیے وقف کررکھی تھی۔چنانچہ وطن واپس آکر جہاد کی تیاریوں میں پہلے سے بڑھ کرمشغول ہوگئے۔

پنجاب میں سکھوں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھا تھا۔رنجیت سنگھ کے دور میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر لی گئی۔اذانیں بند،ذبیحہ گائے منع کردیاگیا۔مساجد کی حرمت کو پامال کردیا۔جان،مال و عزت کا کوئی تحفظ نہ رہا تھا۔ان حالات میں پنجاب میں فوری مدد کی ضرورت تھی۔چنانچہ سید صاحب نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور سرحد کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔

سید احمد بریلویؒ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کو مستثنیٰ قرار دے دیا تھا کیونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی نہیں لگائی تھی۔چنانچہ ایک صاحب نے ایک موقع پرآپ سے پوچھا :
آپ اتنی دور سکھوں پر جہاد کرنے کو کیوں جاتے ہیں انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں اور دین اسلام سے کیا منکر نہیں ہیں گھر کے گھر میں ان سے جہاد کرکے ملک ہندوستان لے لو یہاں لاکھوں آدمی آپ کا شریک اور مددگار ہوجاوے گا۔

سید صاحب نے جواباً فرمایا :
سکھوں سے جہاد کرنے کی صرف یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے برادران اسلام پر ظلم کرتے اور اذان وغیرہ فرائض مذہبی کے ادا کرنے کے مزاحم ہوتے ہیں۔اگر سکھ اب یا ہمارے غلبے کے بعد ان حرکات مستوجب جہاد سے باز آجائیں گے تو ہم کو ان سے بھی لڑنے کی ضرورت نہ رہے گی۔سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو عبادت لازمی سے روکتی ہے۔۔۔ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہٰی اور احیاء سنن سید المرسلین ہے سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں پھر ہم سرکار انگریزی سے کس سبب سے جہاد کریں۔

(مخزن احمدی صفحہ91)

دعویٰ منصب امامت

حضرت سید احمد بریلوی ؒنے 12جمادی الثانی1242ھ کو منصب امامت پر قائم ہونے کے بارہ میں فرمایا:
اللہ کا شکر و احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے اس فقیر یعنی سید احمد کو پہلے اشارات غیبی و الہامات لاریبی سے اس منصب شریف کی بشارت دی،پھر مومنین صادقین،سادات علمائے عظام،مشائخ کرام،خوانین عالی مقام اور خواص و عوام کی ایک جماعت کثیر کا دل مائل کرکے مجھ کو اس منصب سے مشرف فرمایا۔۔۔چنانچہ روز پنجشنبہ بتاریخ12جمادی الآخرة1242ھ مخلص مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے۔۔۔اس فقیر کے ہاتھ پر بیعت امامت کی اور فقیر کو اپنا امام قرار دیا اور اس کی امامت و ریاست کو تسلیم کیا اور اطاعت کا حلقہ اپنی گردنوں میں ڈالا اور اسی مہینے کی 13تاریخ کو جو جمعہ کا دن تھا خطبے میں فقیر کا نام داخل کیا۔

(سیرت حضرت سید احمد بریلویؒ صفحہ531)

جہادی کاروائیاں

بیعت امامت کے بعدکافی تعداد میں دیگر خوانین نے بھی آپ کا ساتھ دیا اور ہندوستان سے امداد رقوم بھی آنے لگیں۔مجاہدین کی نوآبادیاں بھی قائم ہوئیں۔آپ داعیوں اور مبلغوں کو مختلف علاقوں میں وعظ و نصیحت کےلیے بھجواتے رہے۔جنگ شیدو ہونے سے قبل سید صاحب کو زہر بھی دیا گیا جس سے آپ دوران جنگ کبھی کبھار بے ہوش بھی ہوجاتے۔ اسی دوران جنگ شیدو ہوگئی اور یار محمد خان اور درانیوں نے غداری کی اور اسکے میدان جنگ سے بھاگنے کی وجہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوئے اور جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے بعد مختلف مہمات اور شب خون جاری رہے اور مجاہدین کو فتح نصیب ہوتی رہی۔اسی دوران ہنڈ کا قلعہ بھی فتح ہوا۔پھرزیدہ کی جنگ ہوئی جس میں یار محمد خان مارا گیا اور مسلمانوں کے ہاتھ بہت سا مال غنیمت آیا۔پنجتار میں سید احمد صاحبؒ نے ان علاقوں کے قاضیوں کا تقرر لوگوں کی درخواست پر کیا۔اسی دوران حضرت سید صاحب نے سکھ لشکر کے مسلمان عہدیداران کو بتیس خطوط لکھے جس میں انہوں نےاسلامی تعلیمات اور جہاد کی حقیقت کے متعلق بتایا۔

پھرپائندہ خاں سے جنگ کے بعد مسلمانوں نے عشرہ اورامب پر بھی فتح حاصل کرلی۔اگلے روز سید صاحبؒ امب تشریف لے گئے۔شاہ کوٹ پر قبضہ ہوجانے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دریائے اٹک کے پار کی نولاکھ کی آمدنی کی جاگیر کے عوض مصالحت کی پیشکش کی نیز اپنی فوج کی سپہ سالاری کا عہدہ پیش کیا۔لیکن کسی نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔

اسی طرح مختلف جنگیں ہوتی رہیں جیسے جنگ مردان، جنگ مایار، جنگ مظفر آبادوغیرہ جس میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔لیکن مقامی سرداروں اور خوانین اور مولویوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی تھی کیونکہ ان کی من مانیاں ختم ہوگئی تھیں اور جو وہ بے دھڑک غیر شرعی کام کرتے تھے ان پر اب پابندیاں تھیں۔ اس لیے انہوں نے بدعہدی کرکےسازشیں شروع کر دیں اور فتنوں کا دروازہ کھول دیا۔ ان سرداروں نے منصوبہ بناکر مجاہدین کا قتل عام شروع کردیا۔ پنجتار میں جہاں سید صاحب مقیم تھے وہاں پر بلوائیوں نے اپنا ڈیرہ جما لیا۔ جس کی وجہ سے سید صاحب کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔

بالاکوٹ اور شہادت

حضرت سید احمد صاحبؒ نے پنجتار سے ہجرت کرکے بالاکوٹ کو اپنا مرکز بنایا جہاں کے سردار آپ کی مدد کے طلبگار تھے اور یہیں سے کشمیر کی طرف بھی بڑھا جاسکتا تھا۔ 24ذی قعدہ1246ھ کو شیرسنگھ کی قیادت میں سکھ بالاکوٹ آئے۔پہلے تو مجاہدین غالب آئے اور سکھوں کو پسپائی ہوئی۔لیکن دوسرے حملے میں مجاہدین کی کافی تعداد کے ساتھ حضرت سید احمد بریلویؒ اور شاہ اسماعیلؒ نے بھی جام شہادت نوش فرمایا۔

تبرکات امام الموحدین حضرت سید احمد شہید بریلوی ؒ کا چغہ مبارک جس میں وہ بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے ان کی پگڑی، تلوار اور لاٹھی مبارک بونیر میں مولانا ولایت علی صادق پوری ؒ کی اولاد کے پاس محفوظ ہیں۔

ازواج و اولاد

حضرت سید احمد بریلوی شہیدؒ نے تین شادیاں کیں۔پہلی سیدہ زہرہ سے جن سے ایک صاحبزادی سیدہ سائرہ پیدا ہوئیں، دوسری شادی اپنے بھائی کی بیوہ سیدہ ولیہ سے اور تیسری شادی زہرخورانی کے بعد اطباء کے مشورہ پر سرحد میں سیدہ فاطمہ سے ہوئی جن سے ایک صاحبزادی سیدہ ہاجرہ ہوئیں۔ حضرت سید صاحب کی صرف دو ہی مذکورہ بالاصاحبزادیاں تھیں۔

(ابوفاضل بشارت)

پچھلا پڑھیں

ربط ہے جانِ محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 13)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2022