آج کل کے معاشرے میں جو برائیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں
یہ حضرت مسیح موعود ؑکے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرتی ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
آج کل کے معاشرے میں جو برائیاں ہمیں نظر آ رہی ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ایک لفظ کی تصدیق کرتی ہیں۔ پس ہر احمدی لڑکی لڑکے اور مرد اور عورت کو اپنی حیا کے معیار اونچے کرتے ہوئے معاشرے کے گند سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ یہ سوال یا اس بات پر احساس کمتری کا خیال کہ پردہ کیوں ضروری ہے؟ کیوں ہم ٹائٹ جِین اور بلاؤز نہیں پہن سکتیں؟ یہ والدین اور خاص طور پر ماؤں کا کام ہے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو اسلامی تعلیم اور معاشرے کی برائیوں کے بارے میں بتائیں تبھی ہماری نسلیں دین پر قائم رہ سکیں گی اور نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے زہر سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان ممالک میں رہ کر والدین کو بچوں کو دین سے جوڑنے اور حیا کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ جہاد کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے اپنے نمونے بھی دکھانے ہوں گے۔
پھر اسی طرح ایک بچی نے پچھلے دنوں مجھے خط لکھا کہ میں بہت پڑھ لکھ گئی ہوں اور مجھے بینک میں اچھا کام ملنے کی امید ہے۔ مَیں پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر وہاں حجاب لینے اور پردہ کرنے پر پابندی ہو، کوٹ بھی نہ پہن سکتی ہوں تو کیا مَیں یہ کام کر سکتی ہوں؟ کام سے باہر نکلوں گی تو حجاب لے لوں گی۔ کہتی ہے کہ مَیں نے سنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ کام والی لڑکیاں اپنے کام کی جگہ پر اپنا برقع، حجاب اتار کر کام کر سکتی ہیں۔ اس بچی میں کم از کم اتنی سعادت ہے کہ اس نے پھر ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ آپ منع کریں گے تو کام نہیں کروں گی۔ یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ ایک نہیں کئی لڑکیوں کے سوال ہیں، تو پہلی بات یہ ہے کہ مَیں نے اگر کہا تھا تو ڈاکٹرز کو بعض حالات میں مجبوری ہوتی ہے۔ وہاں روایتی برقع یا حجاب پہن کر کام نہیں ہو سکتا۔ مثلاً آپریشن کرتے ہوئے۔ ان کا لباس وہاں ایسا ہوتا ہے کہ سر پر بھی ٹوپی ہوتی ہے، ماسک بھی ہوتا ہے، ڈھیلا ڈھالا لباس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تو ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے تو اگر نیّت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اسی طرح مَیں نے ریسرچ کرنے والیوں کو کہا تھا کہ کوئی بچی اگر اتنی لائق ہے کہ ریسرچ کر رہی ہے اور وہاں لیبارٹری میں ان کا خاص لباس پہننا پڑتا ہے تو وہ وہاں اس ماحول کا لباس پہن سکتی ہیں بیشک حجاب نہ لیں۔ وہاں بھی انہوں نے ٹوپی وغیرہ پہنی ہوتی ہے لیکن باہر نکلتے ہی وہ پردہ ہونا چاہئے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ بینک کی نوکری کوئی ایسی نوکری نہیں ہے کہ جس سے انسانیت کی خدمت ہو رہی ہو۔ اس لئے عام نوکریوں کے لئے حجاب اتارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جبکہ نوکری بھی ایسی جس میں لڑکی روزمرّہ کے لباس اور میک اَپ میں ہو، کوئی خاص لباس وہاں نہیں پہنا جانا۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حیا کے لئے حیادار لباس ضروری ہے اور پردہ کا اس وقت رائج طریق حیادار لباس کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر پردہ میں نرمی کریں گے تو پھر اپنے حیا دار لباس میں بھی کئی عذر کر کے تبدیلیاں پیدا کر لیں گی اور پھر اس معاشرے میں رنگین ہو جائیں گی جہاں پہلے ہی بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا تو پہلے ہی اس بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ کس طرح وہ لوگ جو اپنے مذہب کی تعلیمات پر چلنے والے ہیں اور خاص طور پر مسلمان ہیں انہیں کس طرح مذہب سے دُور کیا جائے۔ سوئٹزرلینڈ میں ایک لڑکی نے مقدمہ کیا کہ مَیں لڑکوں کے ساتھ سوئمنگ کرنے میں حجاب محسوس کرتی ہوں مجھے سکول پابند کرتا ہے کہ مِکس سوئمنگ ہو گی۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے کہ علیحدہ لڑکیوں کے ساتھ مَیں سوئمنگ کروں۔ ہیومن رائٹس والے جو انسانی حقوق کے بڑے علمبردار بنے پھرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم یہ چاہتی ہو کہ علیحدہ کرو، یہ تمہارا ذاتی حق تو ہے لیکن یہ کوئی ایسا بڑا اِیشو نہیں ہے جس کے لئے تمہارے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ جہاں اسلام کی تعلیم اور عورت کی حیا کا معاملہ آیا تو وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بہانے بنانے لگ جاتی ہیں۔ پس ایسے حالات میں احمدیوں کو پہلے سے بڑھ کر زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ اگر سکولوں میں چھوٹے بچوں کے لئے بعض ملکوں میں سوئمنگ لازمی ہے تو پھر چھوٹے بچے بچیاں پورا لباس پہن کر یعنی جو سوئمنگ کا لباس پورا ہوتا ہے جسے آجکل برقینی (Burkini) کہتے ہیں وہ پہن کر سوئمنگ کریں۔ تا کہ ان کو احساس پیدا ہو کہ ہم نے بھی حیادار لباس رکھنا ہے۔ ماں باپ بھی بچوں کو سمجھائیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی علیحدہ سوئمنگ ہونی چاہئے۔ اس کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے۔
(خطبہ جمعہ 13؍جنوری 2017ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)