• 12 مئی, 2025

چائے کی تاریخ

2737 قبل مسیح میں چین کا بادشاہ شین ننگ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اس کاملازم اس کے لئے پینے کا پانی (گرم کرکے) کرلایا، اچانک اس درخت سے کچھ پتّیاں اس کھولے ہوئے پانی میں گریں اور پانی کا رنگ تبدیل ہوگیا، بادشاہ بہت حیران ہوا، اس نے وہ پانی پیا تو اسے فرحت اور تازگی محسوس ہوئی اور اس کے منہ سے ’’چھا‘‘ نکلا غالباً وہ حیران ہوگیا تھا کہ یہ کیا ہے؟ اور اس نے اس درخت کا نام ہی ’’چھا‘‘ رکھ دیا جو بگڑ کر چاء ہوگیا اور اب چائے کہلاتا ہے۔ وہ ماہرِنباتات بھی تھا لہٰذااس نے وقتاً فوقتاً کھولے ہوئے پانی میں چائے کا پتّا ملا کر پینا شروع کردیا۔

چائے دنیا کا پسندیدہ مشروب ہے۔ یہ چائے کے پودے کی پتیوں کو چند منٹ گرم پانی میں ابالنے سے تیار ہوتی ہے۔ پھر اس میں ضرورت اور خواہش کے مطابق چینی اور دودھ ملاتے ہیں چائے میں کیفین کی موجودگی پینے والے کو تروتازہ کر دیتی ہے۔ چائے اور اس کی انگریزی ’’ٹی‘‘ (Tea)، دونوں چینی زبان کے الفاظ ہیں۔ چائے کے پودے کا اصل وطن مشرقی چین، جنوب مشرقی چین، میانمار اور آسام (بھارت) شامل ہیں۔

چائے کی اقسام

  • سفید چائے
  • پیلی چائے
  • ہری چائے
  • اولانگ
  • کالی چائے
  • کشمیری چائے

چائے کی کاشت یا پیداوار

سب سے زیادہ کاشتکار ملک بھارت میں ہوتی ہے، چین دوسرے، کینیا تیسرے اور سری لنکا چوتھے مقام پر ہیں۔

ٹی ٹارک، یا، کھینچی ہوئی چائے، ملائشیا میں ایجاد ہونے والے اس گرم مشروب کو کہتے ہیں جو چائے کی ایک جدید شکل ہے۔

ٹی ٹارک

ایک تحقیق کے مطابق سیاہ چائے (بلیک ٹی) پینے سے ’’دن بھر کے کام کاج کی تھکن کے دباؤ کو کم کرنے میں تیزی سے مدد مل سکتی ہے۔پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل نے 1986ء میں چائے کی کاشت کے لیے موزوں علاقے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں شنکیاری کے مقام پر 50 ایکڑ اراضی پر نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کارپس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (این ٹی ایچ آر آئی) قائم کیا۔اس وقت اس ادارے میں 20 ایکڑ زمین پر کاشت سے سالانہ پانچ سے آٹھ ٹن تک چائے تیار کی جارہی ہے۔ نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کارپس اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق ’’چائے کی کاشتکاری ایک مشکل اور طویل عمل ضرور ہے لیکن اس سے تین نسلیں روزگار کما سکتی ہیں۔‘‘ انہوں نے ’’اردو نیوز‘‘ کو بتایا کہ چائے کے پودے سے ایک سو سال سے زائد تک منافع کمایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق ’’اگر پاکستان میں 64 ہزار ایکڑ اراضی پر چائے کاشت کی جائے تو ملک میں چائے کی ضرورت کو پورا کیا جا سکتا ہے۔‘‘

چائے کی کاشت کن علاقوں میں ممکن ہے؟

ڈاکٹر عبد الوحید کہتے ہیں کہ چائے کی کاشت کے لیے وہ علاقہ موزوں ہے جہاں سالانہ ایک ہزار ملی میٹر یا اس سے زائد بارشیں ہوں، زمین ڈھلوان اور مٹی میں تیزابیت موجود ہو۔

ان کے بقول ’’پاکستان میں 60 سے 70 ہزار ایکڑ اراضی چائے کی کاشت کے لیے موذوں ہیں۔ جس میں 60 فیصد علاقہ ضلع مانسہرہ کا ہے، جبکہ 20 فیصد سوات، باقی ضلع بٹگرام، ایبٹ آباد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کچھ علاقہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق اس وقت پاکستان کے پاس 20 ٹن تک چائے تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے تاہم محدود وسائل کی وجہ سے صرف آٹھ ٹن تک چائے تیار ہوتی ہے۔

چائے بنتی کیسے ہے؟

چائے تیار کرنے کے لیے سب سے پہلے اس کا بیج نرسری میں لگایا جاتا ہے۔ پودا تیار ہونے کے بعد اس کی باقاعدہ کاشت کی جاتی ہے۔ ہر پودا پانچ سے چھ سال بعد پیداوار دینا شروع کر دیتا ہے۔

چائے کے پتوں کے تیار ہو جانے کے بعد ان کو پودوں کے اوپر سے ہاتھ اور مشین سے چنا جاتا ہے۔ چائے چنے جانے کے بعد 12 گھنٹے تک اس کو ایلومونیوم پر سوکھنے کے لیے رکھا جاتا ہے اس کے بعد اسے پلانٹ میں ڈالا جاتا ہے جہاں چائے کی پتی کو پکانے کا عمل 7 سے 8 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ پتوں کے آٹھ گھنٹے کے بعد کالی پتی چائے بنانے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

گرین ٹی کی تیاری

سبز چائے میں پکانے کا عمل نہیں ہوتا، سبز چائے کو تیار کرنے کے لیے پتوں کو پلانٹ پر رکھا جاتا ہے جس کے بعد پتوں کو ڈی آکسیڈائز کرنے کے لیے سٹیمرز میں رکھا جاتا ہے جس سے چائے کی خوشبو اور ذائقہ محفوظ ہوجاتا ہے، اس کے بعد پتوں کی رولنگ کا مرحلہ شروع ہوتا اور اس کے بعد چائے کے پتوں کو مشین کے ذریعے خشک کیا جاتا ہے۔

قومی تحقیقی کونسل برائے اور چائے اور دیگر فصلات مانسہرہ میں چائے کی چین کی 9 اقسام کی چائے کاشت کی جارہی ہیں ان میں ’’پی نائین، پی فائیو، کلون، سکیمن، ہاؤشنگ، جوکنگ اور چوئی شامل ہیں۔

پاکستان کی سبز چائے پر جاپان میں تحقیق

این ٹی ایچ آر آئی کے ڈائیرکٹر ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق پاکستان میں کاشت کی جانے والی چائے کو اب عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملنے لگی ہے اور امید ہے آئندہ سالوں میں پاکستان میں چائے کی کاشت کو وسعت ملے گے۔

’’جاپان کے شہر سوزوکا میں چائے پر تحقیق کے سلسلے میں سیمپوزیم ہوا جہاں ہماری چائے کو جاپان کی ماچھا چائے کے مقابلے میں کافی پذیرائی ملی اور اب ہماری چائے جاپان میں تحقیق کے لیے منگوائی جاتی ہے۔

چائے کے فوائد

چائے کو اگر متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے تو آسانی کے ساتھ مندرجہ ذیل طبی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

کینسر کے خطرات میں کمی

بغیر دودھ کی چائے باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے کینسر کے خطرات میں نمایاں حد تک کمی آتی ہے، بغیر دودھ کی چائے کو کالی چائے بھی کہا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سیاہ چائے کے باقاعدہ استعمال سے کینسر کی سب سے عام اقسام کا خطرہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سیاہ چائے میں پائے جانے والے مرکبات اور اینٹی آکسیڈنٹس اس جان لیوا بیماری کے خطرے میں کمی لانے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول کی نیوٹریشنل اور لائف اسٹائل سائیکاٹری ڈائریکٹر کے مطابق سیاہ چائے کے استعمال سے پھیپھڑوں اور بریسٹ کینسر کے خطرات میں کمی آتی ہے۔

کینسر کے خلاف بہترین طبی فوائد حاصل کرنے کے لیے آئس ٹی کے بجائے گرم چائے استعمال کرنی چاہئے، کیوں کہ گرم چائے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے۔

اینٹی آکسیڈنٹس کا بہترین ذریعہ

اینٹی آکسیڈنٹس کو صحت کا محافظ کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ فری ریڈیکلز کی وجہ سے جسم کے سیلز کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انسانی جسم دائمی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

چائے میں پولی فینولز نامی اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اینٹی آکسیڈنٹس بلڈ شوگر لیولز کو بھی کم کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

بہت سی غذاؤں میں اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں، ایسی غذاؤں کو چائے کے ساتھ اگر زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو مضرِ صحت اثرات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ایسی غذاؤں کو زیادہ مقدار میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔

دانتوں کی مضبوطی میں اضافہ

اگر چائے کو دن بھر استعمال کیا جائے اور پھر دانتوں کی صفائی کی طرف توجہ نہ دی جائے تو ان پر زردی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

لیکن دانتوں کے لیے چائے مفید بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک طبی تحقیق کے مطابق چائے میں جراثیم کش مرکبات پائے جاتے ہیں جو منہ میں کیوٹی کا باعث بننے والے بیکٹیریا کی افزائش کو روکتے ہیں۔ اگر چائے کو باقاعدگی کے ساتھ متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے تو کیویٹیز کی شدت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

دل کی صحت میں بہتری

چائے میں فلیوو نائڈز نامی اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں جو دل کی صحت کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں، چائے کے علاوہ یہ فلیوو نائڈز سبزیوں، پھلوں، اور ڈارک چاکلیٹ میں بھی پائے جاتے ہیں۔

ان اینٹی آکسیڈنٹس کو باقاعدگی کے ساتھ ہر روز استعمال کرنے سے دل کی بیماریوں، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے، اور ہائی کولیسٹرول لیولز کے خطرات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ایک طبی تحقیق کے مطابق بارہ ہفتوں تک چائے کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے بلڈ شوگر لیولز میں چھتیس فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ ایک اور طبی تحقیق کے مطابق ہر روز چائے استعمال کرنے سے دل کی بیماریوں کے خطرات میں گیارہ فیصد تک کمی آئی۔

نیند کے معیار میں بہتری

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چائے پینے سے نیند نہیں آتی، لیکن اس بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر آپ کو رات کے وقت دیر تک بستر پر کروٹیں بدلنے سے بھی نیند نہیں آتی تو چائے کے استعمال کی عادت کو اپنائیں۔

ایک طبی تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا ہے کہ سونے سے قبل چائے پینے سے نیند کے معیار میں بہتری آتی ہے اور بے خوابی کے عارضے سے چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے۔

میٹابولزم کی رفتار میں بہتری

چائے میں موجود کیفین میٹابولزم کے پراسس کو تیز کرنے کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے اور یہ چربی کم کرنے میں بھی مددگار ہے۔ چائے کی مدد سے ہر روز سو کیلوریز کم کی جا سکتی ہیں۔ تاہم طبی ماہرین کے مطابق کیفین کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے کیفین کو تین سے چار سو ملی گرام تک استعمال کرنا چاہئے۔

نقصان دہ کولیسٹرول میں کمی

جسم میں دو طرح کا کولیسٹرول پایا جاتا ہے، ایک کو فائدہ مند کولیسٹرول کہا جاتا ہے، جب کہ دوسرے کو نقصان دہ، جب جسم میں نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہو جائے تو خون کی شریانوں کے مسائل، دل کے دورے، اور فالج کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ طبی تحقیقات کے مطابق چائے کے استعمال سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آتی ہے۔

ایک اور طبی تحقیق کے مطابق روزانہ پانچ مرتبہ چائے استعمال کرنے سے نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں گیارہ فیصد تک کمی آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چائے کے استعمال سے ان لوگوں میں بھی کولیسٹرول کی سطح کم ہو سکتی ہے جو موٹاپے اور دل کی بیماری کے خطرے کا شکار ہوں۔

چائے کے مزید فوائد کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی ماہرِ غذائیت سے معلومات حاصل کیا جا سکتی ہیں، کسی بھی ماہرِ غذائیت سے رابطہ کرنے کے لیے آپ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہیلتھ وائر نے رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

چائے کے نقصانات

چائے کے استعمال سے صحت پر مندرجہ ذیل نقصان دہ اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔

چائے کے استعمال کی مستقل عادت

چائے میں کیفین نامی ایک جز پایا جاتا ہے جسے زہریلا یا نشیلا مادہ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کیفین کو ہر روز استعمال کیا جائے تو اسے مستقل طور پر استعمال کرنے کی عادت لاحق ہو سکتی ہے، کیوں کہ پھر اگر اسے روزانہ استعمال نہ کیا جائے تو بہت سے طبی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیفین ترک کرنے کے عرصے کے دوران سر درد، بے چینی، تھکاوٹ، اور دل کی دھڑکن میں اضافے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

سر چکرانا

عام طور پر چائے پینے والے افراد کو سر چکرانے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن چائے کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے افراد جو دن میں چار سو سے پانچ سو ملی گرام (چھ سے بارہ کپ چائے) تک کیفین استعمال کریں، ان میں سر چکرانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تاہم حساسیت کا شکار لوگ اگر کم مقدار میں بھی چائے استعمال کریں تو پھر بھی ان کو اس مسئلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

طبی ماہرین اس بات سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں چائے کو زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے۔ اگر آپ کو چائے پینے کے بعد سر چکرانے کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا استعمال ترک کر دیں، یا ایسی چائے استعمال کریں جس میں کیفین کی مقدار کم ہو۔

حمل کے مسائل

حمل کے دوران چائے کے استعمال سے حاصل ہونے والی کیفین سے حمل ضائع ہونے اور بچے کے وزن کم ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ تاہم اگر حمل کے دوران دو سو سے تین سو ملی گرام تک کیفین استعمال کی جائے تو اسے محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ امریکن کالج آف گائنی کالوجسٹ کے مطابق حمل کے دوران کسی صورت میں دو سو ملی گرام سے زائد کیفین استعمال نہیں کرنی چاہئے۔

عام طور پر چائے کے ایک کپ میں بیس سے ساٹھ ملی گرام کیفین پائی جاتی ہے۔ تاہم حفاظتی اقدامات کے پیش نظر حمل کے دوران تین کپ سے زائد چائے استعمال نہیں کرنی چاہئے۔

کچھ خواتین حمل کے دوران ہربل چائے استعمال کرتی ہیں جن میں کیفین نہیں پائی جاتی تا کہ مضرِ صحت اثرات سے بچا جا سکے۔ لیکن اس بات کو مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ حمل کے دوران تمام ہربل چائے محفوظ نہیں ہوتیں۔

سر درد

کچھ لوگوں میں کیفین کے استعمال سے سر درد کی علامات میں کمی آتی ہے، تاہم اگر اسے مستقل طور پر استعمال کیا جائے سر درد لاحق بھی ہو سکتا ہے۔ روزانہ چائے کے استعمال سے حاصل ہونے والی کیفین سے بار بار سر درد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کچھ طبی تحقیقات کے مطابق ہر روز ایک سو ملی گرام کیفین کے استعمال سے بار بار سر درد لاحق ہوتی ہے، تاہم مختلف افراد کی کیفین سے حساسیت مختلف ہوتی ہے۔

اگر آپ کو بار بار سر درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ درد چائے کے استعمال سے لاحق ہوتا ہے تو اس استعمال کو مکمل طور پر ترک کر دیں یا اس میں کمی لانے کی کوشش کریں۔

جوڑوں کے مسائل کا سامنا

چائے کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے جسم میں ضرورت سے زیادہ تیزابیت بننا شروع ہو جاتی ہے، جو بعد میں تیزابی مادوں کا ذریعہ بن کر یورک ایسڈ کا سبب بننےلگتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ گھنٹیا اور جوڑوں کے درد کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جان لیوا بیماریوں کے خطرات میں اضافہ

اس مشروب میں چوں کہ پیشاب آور خصوصیات پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے جسم میں پانی کی مطلوبہ مقدار میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ جسم میں پانی کی کمی واقع ہونے سے خون گاڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

خون اگر گاڑھا ہونا شروع ہو جائے تو خون کی نالیاں تنگ ہونا شروع ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے گردوں کی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے اور کولیسٹرول کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک، انجائنا، بلڈ شوگر، اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

سینے کی جلن

چائے میں پائی جانے والی کیفین کی وجہ سے سینے کی جلن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیفین کی وجہ سے معدے میں بننے والے ایسڈ کی مقدار میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ چائے استعمال کرتے ہیں اور آپ کو سینے کی جلن کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے تو یقینی طور پر یہ استعمال سینے کی جلن کی ایک وجہ ہو گا، اس لیے یہ ضروری ہے اس استعمال میں کمی لا کر اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ سینے کی جلن کی علامات میں کمی آتی ہے یا نہیں۔

نیند کے مسائل

چائے کی وجہ سے آپ کی نیند میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ دماغ میں میلاٹونن نامی ایک کیمیکل پایا جاتا ہے جو نیند کے لیے ذمہ دار ہوتا ہے۔ کچھ طبی تحقیقات کے مطابق چائے کے استعمال سے میلاٹونن کی افزائش نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نیند کے مسائل لاحق ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ذہنی دباؤ میں بے چینی میں اضافہ

چائے کو زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے ذہنی دباؤ، بے چینی، اور اضطراب میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ طبی تحقیقات کے مطابق اگر چائے میں موجود کیفین کو دو سو ملی گرام سے کم مقدار میں استعمال کیا جائے تو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، تاہم اگر یہ مقدار دو سو ملی گرام سے بڑھ جائے تو یہ مسائل لاحق ہو سکتے ہیں۔

چائے کے نقصانات کے متعلق مزید معلومات کسی ماہرِ غذائیت سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ آسانی کے ساتھ کسی ماہرِ غذائیت سے رابطہ کرنے کے لیے آپ ہیلتھ وائر کا پلیٹ فارم استعمال کر سکتے ہیں، کیوں کہ ہیلتھ وائر نے رابطوں کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

قہوہ

قہوہ یا کافی (Coffee) دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والا مشروب ہے۔ یہ کافی کے پودے کے بھنے اور پیسے ہوئے بیجوں سے حاصل ہوتا ہے۔ گرم یا ٹھنڈا یہ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ چائے کے مقابلے میں کافی میں کیفین کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ پینے والے کو تازہ دم کر دیتی ہے اور نیند بھگا دیتی ہے۔

قہوہ (قَهْوَة) کا لفظ عربی فعل قَهِيَ (بھوک کی کمی) سے نکلا ہے، جو حوالہ ہے اس مشروب کی بھوک دبانے کی خصوصیت کی طرف۔ عربی سے یہ لفظ عثمانی ترکوں میں رائج ہوا جہاں سے ڈچ لفظ koffie ایجاد ہوا۔ 1582ء میں ڈچ زبان سے انگریزی زبان میں کافی (coffee) کے طور پر رائج ہوا۔ کافی پیالے (coffee pot) کی اصطلاح 1705ء میں شروع ہوئی اور کافی وقفہ (coffee break) کی اصطلاح 1952ء میں مشہور ہوئی۔

قہوہ کے آغاز کی دیومالائی داستانیں

ایک داستان کے مطابق، کا اصل وطن ایتھوپیا کے علاقے کفا کے لوگوں نے پہلے قہوے کے پودے کو دریافت کیا مگر 15ویں صدی سے قبل اس بات کو کوئی ثبوت نہیں ملا۔کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روز بکریاں چرا رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہو گئے تھے۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی۔ یہ کہانی 1671ء سے پہلے نہیں ملتی اور اسے غیر مستند مانا جاتا ہے۔ ایک اور داستان کے مطابق شیخ عمر نے قہوہ دریافت کیا۔ ایک قدیم سلسلہ وار تاریخی مسودے (عبدالقادر مسودہ) میں عمر موکا (یمن) سے جلا وطن کر دیا جاتا ہے اوہ وہ زابد سے 90 کلومیٹر دور ایک صحرائی غار میں رہنا شروع کر دیتا ہے اتفاقاَ سخت بھوک کے ہاتھوں مجبور عمر بیری کے پتے کھاتے ہیں تو انہیں اس کا ذائقہ کڑوا محسوس ہوتا ہے، وہ اسے ابال کر ایک بھورے مشرب کا روپ دے کر پیتے ہیں جس سے ان کی توانائی بحال ہو جاتی ہے۔ اس جادوئی بوٹی کہانیاں جب موکا، یمن پہنچتی ہیں تو عمر کو واپس بلا لیا جاتا ہے اور انہیں ایک صوفی کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔

قہوہ کا تاریخی سفر

قہوہ کے درخت یا کافی پینے کے بارے میں ابتدائی معتبر ثبوت 15 ویں صدی کے وسط میں یمن میں احمد الغفار کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ قہوہ کا استعمال عرب میں صوفی کے ذریعے رواج پایا جنھوں نے اسے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے دیر تک جاگنے کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ یمن سے قہوہ کے آغاز پر مختلف رائے ہے،جس میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ قہوے کا پودا شاید ایتھوپیا سے براستہ بحیرہ عرب یمن پہنچا۔ ایک روایت کے مطابق قہوہ افریقہ ساحلوں سے عدن لانے والے محمد ابن سعد تھے۔ دیگر ابتدائی روایات کے مطابق شاذلیہ صوفی طریقت کے علی بن عمر نے عرب میں قہوہ متعارف کروایا۔

عرب سے یہ سلطنت عثمانیہ پہنچا اور وہیں سے یہ یورپ پہنچا اور پھر ساری دنیا میں مقبول ہو گیا۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لیے اس کو پیتے تھے۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645ء میں وینس (اٹلی) پہنچی۔ 1650ء میں یہ انگلینڈ لائی گئی۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی (Pasqua Rosee) تھا جس نے لندن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا۔

فوائد

فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن میں شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق روزانہ صبح ایک کپ قہوہ پینے کے نتیجے میں انسانی جسم میں مثبت تبدیلیاں سامنے آتی ہیں جن میں منفی کولیسٹرول اور موٹاپے میں کمی واقع ہونا سر فہرست ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ قہوے کے استعمال سے متعدد قسم کے کینسر سے بھی نجات حاصل ہوتی ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق قہوے میں کیفین کی مقدار پائی جاتی ہے، کیفین کے سبب بھوک میں کمی واقع ہوتی ہے اور جسم سے مضر صحت مادوں کا صفایا ممکن ہوتا ہے لہٰذا صحت پر مختلف قسم کے قہوے مختلف طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں جن سے متعلق چند اقسام مندرجہ ذیل درج ہیں:

دار چینی کا قہوہ: غذائی ماہرین کے مطابق دار چینی سے بنا قہوہ گلے کی خراشوں، نزلہ، زکام اور کھانسی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے، اس کی تاثیر بڑھانے کے لیے اگر اس میں شہد بھی شامل کر لیا جائے تو ایک دن میں تین پیالیوں سے ہی علاج ممکن اور شفاء حاصل ہو جاتی ہے۔

لیموں اور شہد سے بنا قہوہ: ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق سردی لگنے سے بچاؤ کے لیے سبز چائے میں اگر لیموں اور شہد ملا کر استعمال کیا جائے تو ’’بیڈ کولڈ‘‘ یعنی موسمی نزلے زکام اور سردی سے بچا جا سکتا ہے۔

کیمومائل سے بنا قہوہ: کیمومائل کے پھولوں سے بنا قہوہ بے خوابی کا بہترین علاج ہے، کیمو مائل کے پھول اگر میسر نہ ہوں تو مارکیٹ میں ٹی بیگ کی شکل میں ملنے والی کیمومائل پتی کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہلدی اور ادرک سے بنا قہوہ: ہلدی اور ادرک کا قہوہ پینے کے نتیجے میں موسمی الرجیز، سائنَس، سانس کی بندش، مٹی سے ہونے والی الرجی سے نجات حاصل ہوتی ہے۔

پودینے سے بنا قہوہ: پودینے کی سبز پتیوں سے بنے قہوے کا استعمال اپھار کا بہترین علاج ہے، اس کے استعمال سے پھولا ہوا پیٹ منٹوں میں ٹھیک ہو جاتا ہے جبکہ گیس، بدضمی اور بھاری پن کا علاج بھی ممکن ہوتا ہے۔

ادرک سے بنا قہوہ: صرف ایک جڑی بوٹی ادرک سے بنے قہوے کا استعمال سر درد کا منٹوں میں علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ادرک سے بنے قہوے کے استعمال کے نتیجے میں پیٹ کی چربی سے بھی چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

سادہ سبز چائے: سادہ سبز چائے جہاں بے شمار فوائد کی حامل ہے وہیں اس کے باقاعدگی سے استعمال کے نتیجے میں ایکنی، کیل مہاسوں سے بچاؤ اور اِن کی افزائش میں کمی ممکن ہوتی ہے۔

باسِل (تُلسی) کے پتوں سے بنا قہوہ: عام گھروں اور پارکس میں لگے پودے تُلسی کے پتوں سے بنے قہوے کے استعمال کے نتیجے میں ذہنی دباؤ کم ہوتا ہے، تُلسی کے پتوں سے بنا قہوہ خوشی محسوس کروانے والے ہامونز کو متحرک کرتا ہے اور فکر مندی، ذہنی دباؤ، پٹھوں سے کھنچاؤ سے نجات دلاتا ہے۔

کافی پینے کے حیران کن فوائد اور نقصانات

کیفین، دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نفسیاتی مادہ، کافی کا سب سے مشہور جزو ہے۔ انسانی جسم پر اس کے فائدہ مند اثرات پر کافی تحقیق کی گئی ہے، لیکن مجموعی طور پر کافی ایک پیچیدہ مشروب ہے جس میں ہزار مختلف مادے ہوتے ہیں۔

کچھ مطالعات کا کہنا ہے کہ ڈی کیف اور کیفین والی کافی کے صحت پر ایک جیسے اثرات ہو سکتے ہیں اور یہ تجویز کرتے ہیں کہ یہ وہ کیفین نہیں ہے جو کافی کے زیادہ تر صحت کے فوائد کے لیے ذمہ دار ہے۔

کافی ہر جگہ ہے۔ یہ دنیا کا سب سے مشہور مشروب ہے، اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ لوگ اسے اتنا پسند کرتے ہیں۔ کافی 1000 سال سے زیادہ عرصے سے ہے اور دنیا بھر کی بہت سی ثقافتوں میں ایک محرک کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔

آج کافی کی بہت سی قسمیں ہیں، لیکن سب میں ایک چیز مشترک ہے, وہ مزیدار اور بہت نشہ آور کیفین ہیں۔ اس مضمون میں، ہم آپ کو کافی، اس کے فوائد، نقصانات اور دیگر دلچسپ حقایق کے بارے میں جاننے کے لیے درکار ہر چیز کا بتائیں گے۔

کافی کے بارے میں تحقیق اور انسانوں کے لیے اس کے فوائد اور نقصانات کہیں بھی ختم نہیں ہوئے، لیکن یہاں اس کی فہرست ہے جو ہم اس وقت جانتے ہیں۔

کافی پینے کے فوائد

1۔ کافی جسمانی کارکردگی کو بڑھاتی ہے

ورزش سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ایک کپ بلیک کافی پی لیں اور آپ کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔ کیفین آپ کے خون میں ایڈرینالین کی سطح کو بڑھاتی ہے۔ ایڈرینالین آپ کے جسم کا ’’لڑائی یا پرواز‘‘ ہارمون ہے جو آپ کو جسمانی مشقت کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔

2۔ کافی آپ کو وزن کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے

کافی میں میگن یشیم اور پوٹاشیم ہوتا ہے، جو انسانی جسم کو انسولین کے استعمال میں مدد کرتا ہے، خون میں شوگر کی سطح کو منظم کرتا ہے اور آپ کی میٹھی کھانوں اور اسنیکس کی خواہش کو کم کرتا ہے۔ کیفین چربی کے خلیوں کو جسم کی چربی کو توڑنے اور تربیت کے لیے بطور ایندھن استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے۔

مطالعات نے ثابت کیا ہے کہ کافی کیلوریز کی مقدار اور بھوک کو کم کرکے وزن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ دن میں دو یا تین کپ کافی پیتے تھے ان کے جسم میں چربی کافی نہیں پینے والوں کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ مزید برآں، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی میں موجود کیفین سوزش اور درد کو کم کرتی ہے، جس سے وزن کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

3۔ دماغی صحت کو فائدہ پہنچا سکتی ہے

کافی پینے سے کئی صحت کے فوائد ہوتے ہیں، بشمول ڈیمنشیا، الزائمر کی بیماری اور پارکنسنز کی بیماری کے خطرے کو کم کرنا۔ محققین کا خیال ہے کہ یہ کافی میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات یا ڈوپامائن نامی نیورو ٹرانسمیٹر کی سطح کو بڑھانے کی صلاحیت کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے، یہ کافی کو بھی نشہ آور بنا سکتی ہے۔

4۔ ممکنہ طور پر ڈپریشن کے خطرے کو کم کرتا ہے

اگر آپ مایوسی کا شکار ہیں تو ایک کپ کافی آپ کو خوشی دے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ کافی کے بہت سے فوائد ہیں، اور بہت سے مطالعے اسے زیادہ مثبت موڈ اور ڈپریشن سے متعلق علامات کو کم کرنے کے طریقوں سے جوڑتے ہیں۔ ایک تحقیق میں ان افراد کا موازنہ کیا جاتا ہے جو اوسطاً دن میں کافی پیتے ہیں اور جو کیفین نہیں پیتے ہیں۔

5۔ ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد کرتی ہے

وہ پک می اپ جو آپ کو جھاگ دار کیپوچینو سے ملتا ہے وہ آپ کے تخیل کا تصور نہیں ہو سکتی ہے۔ متعدد مطالعات سے پتا چلا ہے کہ کوئی شخص جتنی زیادہ کافی پیتا ہے، اس کے ڈپریشن کا خطرہ اتنا ہی کم ہوتا ہے۔

6۔ دل کی صحت کو بہتر بناتی ہے

کافی دل کی بیماری سے بچانے اور دل کی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ دل کی بیماری دنیا بھر میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دل کی صحت کی حفاظت کرتے ہوئے، کافی موت کے خطرے کو بھی کم کر سکتی ہے۔

جو لوگ روزانہ تین سے پانچ کپ کافی پیتے ہیں ان میں دل کی بیماری کا خطرہ 15 فیصد کم ہوتا ہے۔ 21,000 سے زیادہ لوگوں پر 2021ء کے ایک اور بڑے مطالعے نے ان نتائج کی تائید کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کافی کے زیادہ استعمال سے دل کی ناکامی کے خطرے میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے بلڈ پریشر بھی کم ہو سکتا ہے۔

7۔ جلد کی صحت کو بہتر بناتی ہے

کافی آپ کی جلد کے لیے بھی فوائد رکھتی ہے۔ کافی کی پھلیوں میں کیفین اور پولی فنول جیسے کلوروجینک ایسڈز ہوتے ہیں جو سوزش اور اینٹی میکروبیل اثرات رکھتے ہیں اور فوٹو گرافی سے بچاتے ہیں۔

مائع کافی کو جلد پر یا زمین سے بنے اسکرب کے طور پر لگانے سے جلد کے مسائل جیسے اگزما، سوریاسس اور ایکنی میں مدد مل سکتی ہے۔ کافی کا استعمال بیسل سیل کارسنوما کے کم خطرے سے بھی منسلک ہے، جو جلد کا ایک عام کینسر ہے۔

8۔ پارکنسن کی بیماری کے خطرے کو کم کرتی ہے

پارکنسن کی بیماری ایک ترقی پسند اعصابی حالت ہے جو حرکت اور توازن کے ساتھ مسائل کا باعث بنتی ہے۔ الزائمر کی طرح، اس کا کوئی علاج نہیں ہے، لیکن بیماری کے بڑھنے کو سست کرنے کے لیے علاج موجود ہیں۔

تاہم 2020ء کے جائزے کے مطابق، با قاعدگی سے کافی پینے والوں میں اس بیماری کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔ یہ بیماری کے بڑھنے کو بھی سست کر سکتی ہے۔

9۔ توانائی کی سطح کو بڑھاتی ہے

کافی محرک کیفین سے بھرپور ہوتی ہے۔ کیفین کو اعتدال سے لینے سے آپ کی توانائی کی سطح بڑھ سکتی ہے کیونکہ یہ آپ کے میٹابولک ریٹ کو بڑھاتی ہے اور دماغ میں توانائی کے اخراج کے لیے ذمہ دار ہارمون ایڈرینالین کے اخراج کو بڑھاتی ہے۔

کافی پینے کے نقصانات

1۔ اگر آپ حاملہ ہیں تو دن میں ایک کپ سے زیادہ نہ پئیں

جنین پر کافی کے اثرات کے بارے میں مطالعہ متنازعہ رہا ہے، لیکن ایک بات یقینی ہے: اگر آپ حاملہ ہوتے وقت کافی پیتے ہیں، تو کیفین جنین تک بھی پہنچ جائے گی، اور آپ کا بچہ کیفین کے لیے انتہائی حساس ہے۔

لہذا، اگر آپ ایک ہیوی ویٹ کافی پینے والے ہیں اور حمل کے دوران اسے پینا نہیں روک سکتے تو کم از کم اپنی کافی کی مقدار کو دن میں ایک کپ تک کم کریں۔

2۔ بے خوابی کا سبب بن سکتی ہے

بہت سے لوگ ذائقہ، بو اور محرک اثرات سے لطف اندوز ہوتے ہیں جو صبح کے وقت ایک کپ کافی فراہم کرتی ہے، تاہم دوسروں کے لیے یہ اثرات ناپسندیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔

ان افراد کے لیے جو کافی کے استعمال سے سر درد یا نیند کے مسائل کا شکار ہیں، اس کا ایک حل یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی بجائے ڈی کیفین والی یا کم کیفین والی کافی مصنوعات پر جائیں۔ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ زیادہ دیر تک جاگنا صحت کے لیے برا ہے۔

3۔ دل کے لیے برا ہو سکتی ہے

کافی میں کئی قسم کے مرکبات ہوتے ہیں، کچھ جو آپ کے جسم کے لیے اچھے ہوتے ہیں اور دوسرے جو آپ کے دل کی بیماری کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ ان مادوں میں کیفین، تھیوبرومین، اور پولیفینول شامل ہیں جو آپ کی خون کی شریانوں کو صحت مند رکھنے میں مدد کرتے ہیں لیکن جب بڑی مقدار میں لیا جائے تو اسی دوران خون کے نظام میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

تاہم اگر آپ کو کارڈیک اریتھمیا کی خرابی ہے تو آپ کو کافی کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے یا کم از کم کم کرنا چاہئے۔

4۔ ہڈیوں کو مزید نازک بناتا ہے

کافی کے کچھ منفی ضمنی اثرات بھی ہوتے ہیں جنہیں عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ روزانہ 5 کپ سے زیادہ پینا خواتین اور مردوں میں فریکچر کے مسلے ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کیفین پیشاب کے ذریعے خارج ہونے والے کیلشیم کی مقدار کو بڑھا سکتی ہے۔

5۔ اسہال کو خراب کر سکتی ہے

کافی حرکت کی وجہ سے ہونے والی متلی میں مدد کر سکتی ہے، لیکن اگر آپ کو اسہال ہے تو یہ آپ کی حالت کو مزید خراب کر سکتی ہے۔ اگر آپ کو اس طرح کی علامات کا سامنا ہو یا کسی مسئلے کی وجہ سے آپ کو غذا پر عمل کرنے کی ضرورت ہو تو آپ کو کافی سے پرہیز کرنا چاہئے۔

(محمد طٰہٰ)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2023