• 29 اپریل, 2024

؎ آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت خیر دین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب احرار کا فتنہ بھڑکا تو خاکسار نے دیکھا کہ حضرت امیر المومنین کے ایک طرف یوسف نامی شخص لیٹا ہوا ہے اور دوسری طرف حضور کے شیر محمد لیٹا ہوا ہے۔ تو اس میں جنابِ الٰہی نے یہ بتایا کہ واقع میں یہ یوسف تو ہے مگر بعض لوگ حضور کی ترقی کو دیکھ کر جل رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ کیونکہ غیر معمولی خدائی طاقت ہے اس لئے جلنے والے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ گویا یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس شعر کے مطابق ہے۔

یوسف تو سن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)

حضرت ڈاکٹر نعمت خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ 1896ء کی ان کی بیعت ہے کہ جب خلافتِ ثانیہ کا وقت آیا تو مَیں نے بیعت کا خط حضرت امیر المومنین کی خدمت میں لکھا اور اُن دنوں میں شاید رخصت پر ریاست نادون ضلع کانگڑہ میں اپنے گھر پر تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا خط آیا۔ (یعنی یہ حضرت مولوی غلام حسین صاحب پشاوری کا ذکر کر رہے ہیں کہ ان کا خط آیا۔ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سسر تھے لیکن انہوں نے پہلے شروع میں بیعت نہیں کی تھی بلکہ پیغامیوں کے ساتھ چلے گئے تھے۔) کہتے ہیں اُن کا مجھے خط آیا اور اُس میں بیعت فسخ کرنے کے متعلق یہ لکھا ہوا تھا کہ فسخ کر دو۔ حضرت خلیفہ ثانی کی جو بیعت ہے وہ فسخ کر دو۔ چونکہ میرا تعلق اُن سے بہت عرصہ رہا تھا اس لئے اصلیت کو نہ سمجھا اور مَیں نے فسخ بیعت کے متعلق پیغامِ صلح میں لکھ دیا۔ اعلان ہو گیا اور اُن کے ساتھ یعنی پیغامیوں کے ساتھ میں ہو گیا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خاندانِ نبوت کے متعلق میرے وہی خیالات رہے جو پہلے تھے اور کبھی مجھ سے بے ادبی کے الفاظ نہ نکلے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود کی جو اولاد تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی وغیرہ، ان کے متعلق کوئی بے ادبی کے الفاظ نہیں نکلے) یہی حالت مدت تک رہی۔ ان کے ایک دو جلسوں میں بھی شامل ہوا۔ (یہ جو مَیں نے شروع میں ان کایعنی مولوی غلام حسین صاحب کا ذکر کیا ہے ناں، تو انہوں نے بیعت نہیں کی تھی لیکن 1940ء میں انہوں نے پھر بیعت کر لی تھی اور مبائعین میں شامل ہو گئے تھے پھر قادیان ہی آ کر رہے ہیں۔) بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مَیں جلسوں میں بھی شامل ہوا۔ 1930ء یا اس سے پہلے، ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑی حویلی سمندر کے کنارے پر ہے اور پانی کی لہریں زور شور سے اس کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور بہت شور ہوتا ہے۔ اُس حویلی کے اندر سے مولوی محمد علی نکلے توکیا دیکھتا ہوں کہ اُن کے چہرے کا نصف حصہ سفید اور نصف سیاہ تھا۔ معاً میرے دل میں خیال ہوا کہ ان کی پہلی زندگی یعنی پہلی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی اچھی تھی اور اُس کے بعد کی سیاہ ہو گئی۔ اُس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ہدایت کی طرف لاتا ہے تو اُس کے اسباب بھی ایسے پیدا کر دیتا ہے جو اس کی ہدایت کا موجب ہو جاتے ہیں۔ مَیں 1932ء میں اپنے گھر پر تھا۔ میرے اہلِ خانہ سرگودھا میں تھے کہ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب امریکہ والوں کا، جو میرے رشتہ دار ہیں، خط پہنچا کہ آپ بہت جلد قادیان آجاویں۔ کیونکہ مَیں نے امریکہ جانا ہے اور مکان کا بنوانا آپ کے ذمہ ہے۔ (قادیان میں جو مکان بنوانا تھا، اُس کی نگرانی آپ کریں) کہتے ہیں اس پر مَیں اپریل 1932ء میں قادیان آ گیا اور مکان تیار کرایا۔ میرے اہلِ خانہ بھی یہاں آ گئے۔ یہاں آ کر دیکھا تو عجیب ہی کیفیت نظر آئی۔ نیا آسمان اور نئی دنیا نظر آنے لگی۔ نمازوں میں شامل ہونا، حضرت صاحب کے خطبات کا سننا اور تقریروں کا سننا، اس نے ایسا اثر ڈالا کہ جو مغالطے دئیے گئے تھے وہ آہستہ آہستہ دور ہونے لگے۔ اتفاق سے مَیں قادیان سے نادون گیا تو مہاشہ محمد عمر تبلیغ کے واسطے وہاں آئے ہوئے تھے۔ اثنائے گفتگو مجھے کہنے لگے کہ آپ بیعت کا فارم بھر دیں۔ مَیں نے بیعت کا فارم بھر دیا اور دل کی سب کدورتیں دور ہو گئیں اور خداوند تعالیٰ نے اپنے فضل کے سائے میں لے لیا اور مجھ جیسے عاصی کو دوبارہ زندگی بخشی ورنہ میرے ساتھی ابھی تک نخوت کی ذلت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دل تو اُن کا اندر سے محسوس کرتا ہے کہ ہم نے بڑی غلطی کی لیکن ظاہراً امارت اُن کے حق کے قبول کرنے میں مانع ہے اور یہی اُن کا جہنم ہے جس میں وہ ہر وقت پڑے جلتے ہیں۔ دل تو اُن کا چاہتا ہے کہ مان لیں لیکن ناک کے کٹنے کا خوف ہے۔ خداوند تعالیٰ ہدایت دے۔ میرے حال پر تو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا۔ قریباً دو سال کا عرصہ ہوا کہ ایک رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ آسمان سے ایک سنہری صندوق منقش ہوئے بہت ہی چمکدار اور روشن اترا اور معلق ہوا میں آ کر ٹھہر گیا۔ اتنے میں ایک تاج منقش سنہری اترا اور وہ صندوق پر ٹھہرنا چاہتا ہی تھا کہ مَیں نے پرواز کر کے اُس کو اپنے دونوں بازوؤں سے تھام لیا۔ اس کا تھامنا تھا کہ تمام دنیا کے کناروں سے یک زبان آواز سنائی دی کہ ’’اسلام کی فتح‘‘ اور ایسا شور ہوا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اور اُسی وقت میرے دل میں یہ ڈالا گیا تھا کہ تاج برطانیہ کا ہے۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 4 صفحہ 4 تا 6 از روایات حضرت ڈاکٹر نعمت خان صاحبؓ)

حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مئی 1938ء (میں) جس وقت احرار کا بہت زور تھا، اُس وقت مَیں نے دعا کرنی شروع کی اور درود شریف کثرت سے پڑھنا شروع کر دیا۔ (احرار نے جماعت کے خلاف بہت زیادہ شورش اُٹھائی تھی) کہ یا ربّ! میرے پیر کی عزت رکھیں، دشمن کا بہت زور ہے۔ تو مجھ کو سرورِ کائنات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تین اونٹ ہیں۔ ایک اونٹ پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی اُس کے اوپر ہیں۔ اور صحابی دوسرے اونٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب نے فرمایا کہ سوہنے خاں ! تم آ گئے ہو؟ جاؤ اور قدم آہستہ آہستہ چلنا تا کہ دشمن پر رعب ہو جاوے۔ حضور کا غلام آگے آگے چلا۔ جب دس قدم چلا تو حکم ہوا کہ سوہنے خاں ! تم پیچھے ہو جاؤ، تمہارا پاؤں شور کرتا ہے۔ سرورِ کائنات اونٹ سے اُتر کر پیادہ ہو کر آگے چلنے لگے۔ جب مسجد مبارک کے(قادیان کی مسجد مبارک کے) پاس پہنچے تو سب صحابی اونٹوں سے اُتر کر اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد مبارک میں بھی چلے گئے۔ سب صحابیوں کو مسجد مبارک میں چھوڑ کر(صحابی بھی ساتھ تھے، مسجد مبارک میں چلے گئے) پھر مسجد مبارک کی جو کھڑکی لگی ہوئی ہے، وہاں سے گزر کر خلیفہ ثانی کے گھر پہنچ گئے۔ (یہاں ان کی خواب ختم ہوتی ہے)۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 200-201 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)

حضرت خیر دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ امیر کابل کہتا ہے کہ مَیں نے اپنا پیسہ بھیج دیا ہے۔ پیچھے آپ بھی آ رہا ہوں۔ جب مستریوں نے ایک فتنہ برپا کیا(یہ مستریوں کا جو فتنہ تھا، یہ وہاں قادیان میں ایک اندرونی فتنہ تھا، انہوں نے بڑا شور مچایا تھا) تو اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ ثانی آسمان پر ٹہل رہے ہیں۔ گویا اس میں یہ بتایا کہ اُن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اُن کے مقام تک پہنچنا نہایت ہی مشکل ہے، گویا محال ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کے لوگ جتنا چاہیں زور لگا لیں خدا کے فضل سے ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اُن کا قدمِ مبارک بہت بلندی پر ہے۔ یہ حضور علیہ السلام کے اس شعر کے ماتحت ہے کہ ؎

آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 15؍ فروری 2013ء)

پچھلا پڑھیں

’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ کینیڈا کی سرزمین پر تکمیل کا نظارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مارچ 2022