• 25 اپریل, 2024

’’میں تیری تبلیغ کو ۔۔۔‘‘ کینیڈا کی سرزمین پر تکمیل کا نظارہ

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
کینیڈا کی سرزمین پر تکمیل کا نظارہ

کینیڈا کی خوبصورت اور وسیع سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا’’ کی صداقت کی دلیل ہے۔ بر اعظم شمالی امریکہ کا یہ شمالی ترین عریض ملک دنیا کا ایک ایسا کنارہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے پاک مسیح علیہ السلام کی زندگی میں ہی آپ کا پیغام یہاں پہنچ چکا تھا۔ اور خدا تعالیٰ نے یہاں اسلام احمدیت کی عظیم الشان ترقیات کو مقدر کر رکھا تھا۔ لیکن اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ آپ کو کینیڈا کا تعارف کروا دیا جائے۔ میرے ساتھ آئیے۔ ہم کینیڈا کی سیر پر چلتے ہیں۔

کینیڈا کا تعارف- جغرافیہ

رقبے کے لحاظ سے کینیڈا دنیا کا دوسرا بڑا ترین ملک ہے۔اس کی زمین کا کُل رقبہ 98.9ملین مربع کلومیٹر ہے۔ مشرق سے لے کر مغرب تک اس کا عرض ساڑھے 7 ہزار کلومیٹر ہے اور یہاں چھ مختلف منطقاتِ وقت یعنیtime zonesپائے جاتے ہیں۔شمال سے لے کر جنوب تک اس کی زمین شمالی نصف کرہ یا Northern Hemisphere کے آدھے سے زیادہ حصے پر محیط ہے۔ اس کے مشرق میں بحرِ اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور مغرب میں بحرِ منجمد شمالی (Pacific Ocean) واقع ہیں۔ جس کی وجہ سے‘‘سمندر سے سمندر تک’’ اس کا سرکاری motto ہے۔اس کی سرحدیں صرف ایک ہی ملک یعنی امریکہ سے ملتی ہیں۔

سرزمینِ کینیڈا میں خوبصورت شوخ نیلے رنگ کی جھیلیں پائی جاتی ہیں، متعدد دریا اس کی زمین کو سیراب کرتے ہیں،مغربی حصے میں شانداراور معروف ترین پہاڑی سلسلے اسے زینت بخشتے ہیں اور سرسبز و شاداب گھنے جنگلات اس کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ یہاں نشیبی علاقے بھی پائے جاتے ہیں اور فرازی بھی۔ اس کا شمالی ترین علاقہ منجمد ہے جہاں برف زاروں یاglaciersکے علاوہ سفید چمکتی ہوئی برفیلی زمین پر قطبی ریچھ (polar bears) شکار کی تلاش میں نکلے ہوئے ملیں گے۔

کینیڈا کے دس صوبے اور تین علاقہ جات ہیں۔ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ کیوبیک (Quebec) ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے آنٹاریو (Ontario) تمام صوبوں میں سرِ فہرست ہے۔اس مضمون کو تحریر کرتے ہوئے تازہ ترین معلومات کے مطابق کینیڈا کی آبادی 38 ملین سے زائد ہے۔ کینیڈا کا دار الحکومت آٹوا (Ottawa) ہے۔ اور اس کے تین بڑے شہر ٹورانٹو (Toronto)، مانٹریال (Montreal) اور وینکوور (Vancouver) ہیں۔

کینیڈا کی مختصر تاریخ

کینیڈا کے قدیم ترین باشندےسب سے پہلےاندازاً 14ہزار سال قبل ایشیا سے ہجرت کر کے آئے تھے۔مرورِ زمانہ اور حالات کے مطابق اس خطہٴ ارض پر مختلف مقامات میں منتشر ہو گئے۔ ان کی نسلیں یہاں آج تک آباد ہیں اگرچہ اب اقلیت میں ہیں۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہو گی کہ لفظ ‘‘کینیڈا’’ در اصل قدیمی ایرو کوا(Iroquois) زبان کے لفظ ‘‘کاناٹا’’ سے مشتق ہے۔ جس کے معنے ‘‘گاؤں’’ یا ‘‘آبادی’’ ہیں۔

ہزاروں سال تک کینیڈا کے قدیمی باشندے غیر قوموں کے دخل سے محفوظ رہے۔ پھر تخمینا ً 1000 ء میں یورپی اقوام پہلی بار یہاں آئیں۔ ان اقوام کے یہاں آنے سے قدیمی باشندوں کا اپنےملک پر تسلّط ختم ہونے لگا۔ سولہویں صدی عیسوی میں فرانسیسی اور برطانوی آبادکاروں نے یہاں اپنے قدم جمائے جس کے نتیجے میں مقامی باشندوں اور یورپیوں کے مابین کشمکش ہونے لگی اور جنگیں بھی لڑی گئیں۔ بالآخر اٹھارہویں صدی کے وسط میں برطانیہ نے کینیڈا پر اپنا پورا تسلّط جما لیا۔ اگر چہ فرانسیسیوں کا قبضہ تو نہ رہا تاہم ان کا اثر آج تک یہاں پایا جاتا ہے۔

سن 1867ء میں پہلی بار چار صوبوں نے اکٹھے ہو کر ایک خود مختار حکومت قائم کی جس میں ایک پارلیمنٹ کے ساتھ وزیرِ اعظم (Sir John A. Macdonald) کا انتخاب کیا گیا۔ نیزاس وقت ایک دستورِ اساسی بھی تیار ہوا جس میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گئیں۔ رفتہ رفتہ اس حکومت میں دیگر صوبہ جات شامل ہوتے گئے اورملک مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہوتا گیا۔ 1982ء میں بالآخر ملکہ الیزبیتھ ثانی نے کینیڈا کے حتمی دستورِ اساسی پر دستخط کر کے اس کو برطانیہ سے مکمل طور پر آزاد قرار دیا۔ لیکن چونکہ حکومتِ کینیڈا آئینی بادشاہت کے طور پر قائم ہوئی تھی لہٰذا آج بھی ملکہ برطانیہ ہی رسمی فرماں روا ہے مگر ان کے عملی اختیارات بہت کم ہیں۔ اس وقت کینیڈا کے وزیرِ اعظم عزت مآب جسٹن ٹروڈو (Justin Trudeau) ہیں جو 2015ء سے اس عہدہ پر فائز ہیں۔

معیشت

کینیڈا کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں کینیڈین ڈالر چلتا ہےجو بوقتِ تحریرقریباً 0.79امریکی ڈالر کے برابر ہے۔سولہویں صدی عیسوی سے کینیڈا دنیا کو مچھلی، پشم اور دیگر قدرتی وسائل مہیا کرتا رہا ہے۔ آجکل کینیڈا کی سب سے بڑی برآمدہ اشیاء میں پٹرولیم، گاڑیاں اور سونا شامل ہیں۔ جو زیادہ تر امریکہ در آمد کرتا ہے۔

باشندے

کینیڈا بین الثقافتی ملک ہے۔ اس کے باشندے دنیا کی مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے اور متفرق زبانیں بولنے والے ہیں۔ تاہم آدھی سے زائد آبادی ایسے باشندوں پر مبنی ہے جو برطانوی یا فرانسیسی آبادکاروں کی نسل سے ہیں۔اوراسی لحاظ سے انگریزی اور فرانسیسی سرکاری زبانیں ہیں۔

یہاں خاص طور پر امیگریشن کی بناء پر قریباً 5 دہائیوں سے آبادی میں خوب اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کینیڈا آباد ہی امیگریشن سے ہوا ہے۔

کینیڈا کی وسیع سرزمین کی طرح اس کے لوگوں کے دل بھی کشادہ ہیں۔ دنیا بھر میں وہ اپنی خوش اخلاقی اور صلح پسندی کی وجہ سے مشہور ہیں۔یہ ایک پُر امن ملک ہے۔ یہاں عمومی طور پر تمام اقوام محبت، بھائی چارےاور ہمدردی کے جذبات سے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں۔ ہر ایک کو آزادیٴ ضمیر، مذہب اور خیال ہے۔

مذاہب

2011ء کے ایک survey کے مطابق کینیڈا کی آبادی میں 67.3% عیسائی پائے جاتے ہیں۔ جس کے بعد 23.9% لا مذہب ہیں، پھر مسلمان 3.2%، ہندو 1.5% اور سکھ 1.4% ہیں۔پھر درجہ بدرجہ دیگر مذاہب کے پیروکار پائے جاتے ہیں۔

(بحوالہ 2011 National Household Survey، شائع کردہ مؤرخہ 8مئی 2013ء)

موسم

کینیڈا بہت ٹھنڈا ملک ہے۔ زیادہ تر سردی رہتی ہے۔ عام طور پر موسم گرما مختصر اور گرم جبکہ موسم سرما لمبا اور سرد ہوتا ہے۔ ملک کی وسعت کی وجہ سے اس کے موسم میں تنوّع اور انتہاء بھی پایا جاتا ہے۔موسم سرما میں بھاری برفباری ہوتی ہے۔ جو اکثر خاموشی سے راتوں رات برفوں کے ڈھیر گھروں کے سامنے لگا دیتی ہے۔ ان ڈھیروں کو اٹھانے کے لئے بھی خاصی محنت اور جانفشانی درکار ہوتی ہے۔ موسم بہار کی بارشیں موسم گرما کے گلزاروں اور گلستانوں کے لئے زمین کو تیار کرتی ہیں۔ تیز دھوپ، لمبے دن اور چھوٹی راتیں کینیڈا میں موسم گرما کی خصوصیت ہیں۔اور خاصی گرمی ہو جاتی ہے۔ پھر خزاں میں جھڑتے ہوئے رنگارنگ دیدہ زیب پتے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ غرض یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر موسم اپنی پوری آب و تاب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ہر موسم میں کینیڈا اپنی خوبصورتی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی شانِ قدرت نمودار ہوتی ہے۔

جماعت احمدیہ کینیڈا کی تاریخ پر طائرانہ نظر

قبل اس کے کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں، یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ ایک مختصر مضمون کی حد میں رہتے ہوئے کئی ناموں، تاریخوں اور واقعات کو چھوڑنا پڑا ہے۔ کیونکہ اس مضمون سے غرض یہ ہے کہ قارئیں کو دکھایا جائے کہ کس شان سے الہام ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کےکناروں تک پہنچاؤں گا’’ کینیڈا کی سرزمین میں پورا ہوا اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور یہ دکھانا مقصود ہے کہ یہ محض انسانوں کی کوشش سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل، آنحضرت ﷺ کے فیض، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور آپ کے مقدس خلفاء کی قیادت کے ذریعے ہوا ہے۔ اور یقیناً یہ خلافت احمدیہ کی برکات کی زبردست دلیل ہے۔

کینیڈا کے اخبارات میں حضرت مسیح موعود ؑکا ذکر

کینیڈا میں جماعت احمدیہ کی تاریخ کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو مبعوث فرمایا تو آپ نے ادیانِ باطلہ پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے اور اشاعت تکمیل ہدایت کی غرض سے متعدد اشتہارات اور مکتوبات تحریر فرمائے۔ وہ مقدس تحریریں اردو، فارسی اور عربی کے علاوہ انگریزی میں بھی شائع کی گئیں اور مغربی دنیا میں تقسیم کی گئیں۔ اس طرح آپ کی آمد کی خبر اور آپ کے دعاوی دنیا کے کناروں تک پہلی بار پہنچے۔

خاکسار راقم الحروف کی تحقیق کے مطابق کینیڈا کے اخبارات میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا ذکرپہلی بار آپ کے جان پگٹ کے ساتھ مباہلہ کے حوالہ سےہوا۔ کینیڈا کے دار الحکومت آٹوا کے اخبار Ottawa Citizen نے مؤرخہ 29 جنوری 1903ء کے شمارے میں صفحہ 5پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پگٹ کو چیلنج شائع کیا اور آپؑ کے بعض دعاوی کا بھی ذکر کیا۔ آٹوا کے ہی ایک اور اخبار The Ottawa Journal نے بھی مؤرخہ 2 مارچ 1903ء کو صفحہ8 پر اسی حوالہ سے خبر شائع کی۔

پھر اسی سال یعنی 1903ء میں جب حضرت اقدس علیہ السلام نے جان الیگزینڈر ڈوئی کو دوسری بار مباہلہ کی دعوت دی تو مشرقی کنارے سے لے کر مغربی کنارے تک کینیڈا کے اخبارات نے اس مباہلہ کی خبر شائع کی۔

(دیکھئے The Victoria Daily Times، مؤرخہ 2 جولائی 1903ء، صفحہ 4۔ The Calgary Herald، مؤرخہ 7 اگست 1903ء، صفحہ5۔ The Halifax Herald اور The Evening Mail Halifax، مؤرخہ 25؍ اگست 1903ء)

پس کینیڈا میں احمدیت کی تبلیغ کا یہ وہ پہلا بیج تھا جو اللہ تعالیٰ کے پاک مسیح علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنےدستِ مبارک سے بویا۔ اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے بعد خلافتِ احمدیہ کی عظیم الشان قیادت کے سائے تلے یہ بیج بڑھا اور دن بہ دن پھلتا اور پھولتا رہا ہے۔اور اب خلافتِ خامسہ کے عہدِ با سعادت میں ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ

کینیڈا میں پہلے احمدی

کینیڈا میں آکر مستقل رہائش اختیار کرنے والے پہلے احمدی مکرم شیخ کرم دین صاحب تھے جو 1919ء میں کینیڈا کے مشرقی صوبہ نووا سکوشیا (Nova Scotia) میں آباد ہوئے۔انہوں نے تاحیات وہیں سکونت اختیار کی اور 1998ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

1920ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کو تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ کے مشن کے قیام کے لئے امریکہ بھیجا۔ چنانچہ حضرت مفتی صاحب رضی اللہ عنہ کی تبلیغی کوششوں کے نتیجے میں کینیڈا سے محترمہ Minnie Krueger فاطمہ عائشہ صاحبہ نے احمدیت قبول کی۔تاریخ میں یہ پہلی کینیڈین ہیں جنہیں احمدیت کی آغوش میں آنے کا شرف ملا۔

(بحوالہ The Muslim Sunrise، جنوری 1922ء صفحہ 64)

کینیڈا میں جماعت کا باقاعدہ قیام

وقت کے ساتھ ساتھ،خصوصاً 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں، بعض احمدی احباب کام کے سلسلے میں یا دیگر وجوہات کی بناء پر ہجرت کر کے یہاں آباد ہوتے گئے اور اس طرح جماعت قائم ہوئی۔

تاریخی ریکارڈ زکے مطابق کینیڈا میں پہلی جماعتی تنظیم مانٹریال شہر میں 1963ء میں قائم ہوئی جبکہ چند احباب نے مل کر باجماعت نمازوں کا اہتمام کیا اور جناب ڈاکٹر خلیفہ عبد المؤمن صاحب کو اپنا صدر مقرر کیا۔ اور اسی سال لجنہ اماء اللہ کینیڈا کی شاخ ٹورانٹو میں قائم ہوئی۔

(تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 365 اور تاریخ احمدیت جلد 28 صفحہ 147)

جماعت احمدیہ کینیڈا کی باقاعدہ حکومتی رجسٹریشن ٹورانٹو شہر میں 5؍دسمبر 1966ء کو ہوئی۔ اور مکرم میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم (سابق امیر جماعت راولپنڈی) صدر مقرر ہوئے۔ اسی تاریخ کے حوالہ سے 2016ء میں جماعت کینیڈا کی پچاس سالہ گولڈن جوبلی منائی گئی۔

1967ء میں جماعت احمدیہ کینیڈا کی تنظیم میں وسعت آنے لگی اور ملک کے دیگر شہروں میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ اسی سال مکرم سید طاہر احمد بخاری صاحب نیشنل پریذیڈنٹ مقرر کئے گئے۔ اور دو سال بعد 1969ء میں مکرم خلیفہ عبد العزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ مقرر ہوئے۔

اس وقت تک کینیڈا کی جماعت انتظامی طور پر جماعت احمدیہ امریکہ کے تحت تھی۔ چنانچہ 1974ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر دورے پر تشریف لائے اور اپنی نگرانی میں نیشنل پریذیڈنٹ کا انتخاب کروایا جس میں مکرم خلیفہ عبد العزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔

(تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 364-365)

احمدیہ گزٹ کینیڈا کا اجراء

بڑھتی ہوئی جماعت کی تعلیمی و تربیتی ضروریات کے پیشِ نظرجون 1972ء میں ایک پرچہ The News Bulletin کے نام سے شائع ہوا۔ جو بعد میں مجلہ کی صورت اختیار کر گیا اور جولائی 1975ء سے The Ahmadiyya Gazette کے نام سے اشاعت پذیر ہونے لگا۔اس مجلہ کے پہلے مدیر اعلیٰ مکرم مبارک احمد خان صاحب مرحوم تھے۔ آج یہ رسالہ جماعت احمدیہ کینیڈا کا ترجمان ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سال یعنی 2022ء میں اس کی اشاعت کے پچاس سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس وقت مکرم و محترم مولانا ہادی علی چوہدری صاحب احمدیہ گزٹ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد 28 صفحہ 93)

سر زمینِ کینیڈا پر خلیفۃا لمسیح کا پہلی مرتبہ ورودِ مسعود

کینیڈا کی تاریخ میں مؤرخہ 8؍ اگست 1976ء کا دن نہایت اہم اور غیر معمولی برکتوں والا دن تھا جبکہ پہلی مرتبہ سرزمین کینیڈا کو حضرت خلیفۃ المسیح کے قدم بوسی کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا ٹورانٹو میں استقبال قریباً 400 احباب نے کیا۔ حضورؒ کے اس دورہ کے دوران پریس کانفرنس اور جماعتی عہدیداران کی میٹنگ منعقد ہوئی۔ اور مشتاق روحوں نے اپنے آقا کی ملاقات، دیدار اور آپ کی صحبت سے جھولیاں بھر بھر کے برکتیں حاصل کیں۔ کینیڈا میں حضورؒ کا قیام 11؍ اگست 1976ء تک رہا۔

(سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ 595-596)

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے دورۂ مبارک کے دوران کینیڈا کے نیشنل ٹیلیویژن CBC کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے آپؒ نے دنیا کے اِس خطہ زمین کے متعلق ایک عظیم الشان خوش خبری بھی دی۔ آ پؒ نے فرمایا کہ:

‘‘The potential is that within the next 100 years, the majority of the inhabitants of this part of the globe will accept Islam.’’

یعنی امکان ہے کہ اگلے سو سال میں دنیا کے اس خطے میں بسنے والوں کی اکثریت اسلام قبول کر لے گی۔

(بحوالہ انٹرویو مؤرخہ 9؍ اگست 1976ء)

جماعت احمدیہ کینیڈا کے پہلے مبلغ

حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ کے چند ماہ بعد مارچ 1977ء میں مکرم مولانا سیّد منصور احمد بشیر صاحب مرحوم کو بطور پہلے مبلغ کینیڈا بھیجا۔

اس وقت جماعت کے پاس نہ کوئی مخصوص مشن ہاؤس تھا، نہ کوئی مسجد۔ جماعت کے اجلاسات وسط شہر کے YMCA میں منعقد ہوتے تھے۔ یا پھر مقامی سکولوں کو کرائے پر لیا جاتا تھا۔ پھر چونکہ جماعت کے احباب کینیڈا بھر میں مختلف مقامات میں رہتے تھے، جن کے درمیان سینکڑوں یا ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ تھا لہٰذا ان کو مرکز کے ساتھ منسلک کرنا نہایت اہم اور ضروری امر تھا۔ چنانچہ مکرم سید منصور بشیر صاحب نے کینیڈا کے اُن شہروں کا دورہ کیا جہاں احمدی آباد تھے اور جماعتوں کی تنظیم کے انتخابات کے ذریعہ احباب کو ایک تنظیم میں منسلک کرنے کی پوری کوشش کی۔اور جماعتوں سے باقاعدہ تعلق اور رابطہ رکھا اور مرکز کی طرف سے تمام ہدایات پہنچاتے رہے۔ پھر اس وقت تک چندہ کا کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا۔ مکرم مولانا صاحب موصوف نے اس سلسلہ میں بھی قابل قدر کام کیا۔ غرض آپ نے ان تھک محنت کر کے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی۔

آپ 1980ء تک کینیڈا میں بطور مبلغ انچارج خدمات بجالاتے رہے، جس کے بعد آپ کا تقرر پاکستان ہو گیا۔آپ کی وفات ربوہ میں 30 دسمبر 2014ء کو بعمر 74سال ہوئی۔ آپ ایک خاموش طبع، خوش گفتار، سادہ، محنتی، بلند حوصلہ، با اصول اور علم دوست بزرگ تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔

(تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 365-366 نیز روزنامہ الفضل مؤرخہ 9 جنوری 2015ء صفحہ 8)

جلسہ سالانہ کینیڈا کا آغاز

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جب الٰہی منشاء کے مطابق جلسہ سالانہ کا قیام فرمایا تو آپ نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ اس کام کے لئے قومیں تیار ہوں گی۔اس پیشگوئی کے مطابق دنیا بھر میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد کئے جاتے ہیں اور ہر قوم اس روحانی چشمہ سے سیراب ہو رہی ہے۔

کینیڈا میں جلسہ سالانہ کے بابرکت سلسلہ کا آغاز 1977ء میں ہوا جبکہ مؤرخہ 24 اور 25دسمبر کو پہلا جلسہ Earl Haig High Schoolٹورانٹو میں منعقد کیا گیا۔ اس جلسہ میں ملک بھر کے قریباً تین سو افراد شریک ہوئے۔

خدا تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ آج جلسہ سالانہ کینیڈا بہت بڑے پیمانے پر منعقد ہوتا ہے۔ ہر سال تقریباً 20ہزار کے قریب افراد اس میں شرکت کرتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اور جلسے کا نظام مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ نیز خلفائے احمدیت متعدد مرتبہ اس جلسے میں بنفس نفیس رونق افروز ہوتے رہے ہیں۔اورجب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کینیڈا کے جلسے میں تشریف لاتے ہیں تو جلسے کی رونق آپ کے وجود باجود کی برکت سے دوبالا ہو جاتی ہے اور حاضری میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

مشن ہاؤسز کا قیام

ماہ نومبر 1980ء میں کینیڈا کے دوسرے مبلغ مکرم و محترم مولانا منیر الدین صاحب شمس یہاں پہنچے۔ آپ نے بطور امیر و مبلغ انچارج قریباً 5سال کینیڈا میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس عرصہ میں ٹورانٹو میں ایک مشن ہاؤس قائم ہوا جسے بیت العافیت کا نام دیا گیا۔پھر جنوری 1982ء میں مانٹریال شہر میں ایک عمارت خریدی گئی جس کا نام ’’النصرت‘‘ تجویز ہوا۔ اسی طرح کینیڈا کے مغربی صوبے البرٹا (Alberta) کے شہر ایڈمنٹن (Edmonton) میں اور برٹش کولمبیا (British Columbia) کے شہر وینکوور (Vancouver) میں مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔

اس کے علاوہ پریس اور میڈیا کے ساتھ روابط قائم کئے گئے۔ سکولوں میں اسلام کی تعلیمات اور احمدیت کے تعارف پر لیکچرز کا سلسلہ شروع ہوا۔ جلسہ ہائے پیشوایان مذاہب کا آغاز ہوا۔ غرض کینیڈا کی جماعت میں وسعت آنے کے ساتھ ساتھ غیروں سے بھی تعلقات قائم ہونے لگے۔

(تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 367)

مسجد کے لئے زمین کا حصول

مئی 1985ء میں سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مکرم و محترم مولانا نسیم مہدی صاحب کا تقرر بطور امیر و مبلغ انچارج فرمایا۔ جنہیں کینیڈا میں بطور امیر 2007ء تک اور بطور مبلغ انچارج 2009ء تک خدمت کی توفیق ملی۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت احمدیہ کینیڈا کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ اور ٹورانٹو کا مشن ہاؤس اب جماعت کی ضروریات کے لئے تنگ ہو گیا تھا۔ اب وقت تھا کہ جماعت ایسی زمین حاصل کرے جہاں پر مسجد کی تعمیر ہو سکے۔ چنانچہ حسب ہدایت حضرت خلیفۃا لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک مسجد کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اور بالآخر خدا تعالیٰ کے فضل سے اور حضور کی دعاؤں کے طفیل 13 دسمبر 1985ء کو میپل (Maple) کے قصبہ میں،جو ٹورانٹو سے قریباً 45 کلومیٹر کے فاصلہ پرشمال مغرب میں واقع ہے، 25 ؍ایکڑ کا ایک نہایت موزوں قطعہ خریدا گیا۔ جس میں ایک تین منزلہ عمارت بھی تھی جسے مشن ہاؤس بنایا گیا۔ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مشن ہاؤس کا نام ’’بیت الاسلام‘‘ رکھا۔

(تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 368)

مسجد بیت الاسلام کا سنگِ بنیاد

سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نےمؤرخہ 18 ستمبر 1986ء کو کینیڈا کے پہلے دورہ کا آغاز فرمایاجس میں ٹورانٹو کے علاوہ آپ نے مانٹریال، کیلگری اور وینکوور میں بھی قیام فرمایا۔ اس تاریخی دورہ کے دوران آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئے خریدی گئی زمین کا معائنہ فرمایا اور 20ستمبر کو مسجد کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا۔

(بحوالہ خلافت احمدیہ نمائش سوونیئر تیار کردہ جامعہ احمدیہ کینیڈا صفحہ57)

اس کامیاب دورہ کےبعد حضور ؒ نے 10؍اکتوبر 1986ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں کینیڈا کے متعلق فرمایا کہ:
’’اسلام کے مستقبل کے لئے کینیڈا ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 5 صفحہ 663)

کینیڈا کی سرزمین کو اس دورہ کے بعد کُل 8 مرتبہ حضرت خلیفۃا لمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی میزبانی کا شرف نصیب ہوا۔ 1989ء جماعت احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کا سال تھا۔ اور اس لحاظ سے بے شمار برکتوں اور اہمیت کا حامل تھا۔ اس سال حضورؒ نے اپنے دورہ پر ایک تقریب میں کینیڈا کے بارہ میں از راہ شفقت یہ فرمایا کہ

‘‘My prayer is that Canada becomes all the world, and all the world becomes Canada.’’

یعنی میری دعا ہے کہ کینیڈا ساری دنیا بن جائے اور ساری دنیا کینیڈا بن جائے۔

(بحوالہ خلافت احمدیہ نمائش سوونیئر تیار کردہ جامعہ احمدیہ کینیڈا صفحہ 61)

مسجد بیت الاسلام کا افتتاح

مسجد بیت الاسلام کی تعمیر کے مراحل کے ذکر کے لئے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔ یہ ایمان افروز داستان ہے جسے سر دست چھوڑ کر اس عظیم الشان اور خوبصورت مسجد کے افتتاح کی طرف چلتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مؤرخہ 17 اکتوبر 1992ء کو مسجد بیت الاسلام کا افتتاح فرمایا۔ آپ نے اس موقع پر روح پرور خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جوپہلی مرتبہ satellite کے ذریعہ سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ اور اس طرح دنیا کے ایک کنارے سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خلیفہ کی آواز زمین کے کناروں تک پہنچی اور ایک لطیف رنگ میں الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ پورا ہوا۔ حضور ؒ نے پر شوکت الفاظ میں فرمایا:۔
’’آج وہ مبارک دن ہے کہ جب میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ساتھ آج حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی آواز اس عاجز کے ذریعے چار بر اعظموں میں نہیں بلکہ دنیا کے تمام بر اعظموں میں پہنچ رہی ہے اور ایک بھی گوشہ زمین کا ایسا باقی نہیں رہا جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تبلیغ صوتی لحاظ سے بھی نہ پہنچ رہی ہو اور تصویری زبان سے بھی نہ پہنچ رہی ہو۔ پس یہ بہت بڑا اور عظیم مبارک دن ہے جو در حقیقت آئندہ دور کے آغاز کی ایک منزل ہے۔ آگے بہت کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہونے والا ہے۔‘‘

(خطباتِ طاہر جلد 11 صفحہ 724)

مسجد بیت الاسلام جماعت احمدیہ کینیڈا کی پہچان ہے۔ اس کا نہایت دیدہ زیب design ہر زاویے سے دلکش ہے۔یہ مسجد اپنی مثال آپ ہے۔اور کینیڈا کے ہر احمدی کو یقیناً اس مسجد سے خاص تعلق اور لگاؤ ہے۔

پیس ویلج کا قیام

یہاں یہ بات بیان کرنا ازدیاد ایمان کا باعث ہو گا کہ جس زمین پر مسجد بیت الاسلام کی تعمیر کی گئی۔ وہ آبادی سےبہت دور، بظاہر ویران اور زرعی زمین کے بیچ جگہ تھی۔اس وقت شاید بعض لوگوں نے یہ بھی سوچا ہو کہ مسجد کے لئے جگہ نامناسب ہے۔ لیکن خلیفہ وقت کی دعاؤں اور مسجد کے ساتھ منسلک برکات کی وجہ سے چند سالوں میں احباب جماعت کے دیکھتے دیکھتے وہ زمین ایسی پر رونق اور آباد ہو گئی کہ گویا ہمیشہ سے ایسے ہی تھی۔ اور مسجد کے ارد گرد ایک پورا شہر بس گیا۔

اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ مسجد بیت الاسلام کی تعمیر کے چند سال بعدیعنی 1990ء کی دہائی کے اواخر میں مسجد کے علاقے کی زمین جو اس وقت تک شہر کے قوانین کے مطابق صرف زراعت کے لئے مختص تھی، اب zoning کے قوانین میں تبدیلی کے باعث اس پر مکانوں کی تعمیر کی اجازت مل گئی۔ اب کیا تھا کہ جماعت نے مسجد کے ارد گرد گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ جماعت کی زمین سے ملحق 50؍ ایکڑ کی زمین پر معماروں اور تعمیراتی منصوبہ بندی کرنے والوں نےگھروں کی تعمیر کے منصوبے بنائے۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے احمدی احباب جوش و خروش سے مسجد کے علاقے میں گھر تعمیر کروانے لگے۔ اور اس پراجیکٹ کے مینجر مکرم چوہدری نصیر احمد صاحب مقرر ہوئے۔ چنانچہ 2000ء میں بیت الاسلام کے پاس پیس ویلج (Peace Village) کا قیام ہوا۔ جو کہ اب دنیا بھر میں مشہور ہے۔

پیس ویلج کی سڑکوں کے نام خلفائے احمدیت اور جماعت کے بزرگوں پر رکھے گئے ہیں۔ اور یہ ایک پر امن آبادی ہے جس کی اکثریت احمدی گھرانوں پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں پیس ویلج کے قریب جو محلے ہیں، ان میں بھی کافی تعداد احمدی گھرانوں کی ہے۔گویا وہ پیس ویلج کے اضافی محلے ہیں۔

ویسے تو سال بھر ہی پیس ویلج میں رونق رہتی ہے لیکن سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جب یہاں تشریف لاتے ہیں تو گویا یہ ایک اور ہی دنیا بن جاتی ہے۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے۔ گلیوں میں نعروں کی آوازیں گونجتی ہیں۔ اور ہر ایک کے چہرے پر اپنے پیارے آقا کی محبت چھلک رہی ہوتی ہے۔ یہ سب اس محبت کا اظہار ہے جو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دلوں میں خلیفہ وقت کے لئے ڈالی ہوئی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ مؤرخہ 9 جولائی 2004ء میں پیس ویلج کے متعلق فرمایا کہ وہاں:
’’تقریباً 300 سے اوپر ہی احمدی گھر آباد ہیں۔ ماشاء اللہ بڑے مخلص، اخلاص میں ڈوبے ہوئے (ہیں۔ناقل) …وہاں جا کر یوں احساس ہوتا ہے کہ جیسے اپنے ہی شہر میں آ گئے ہیں۔ اور کوئی آبادی ارد گرد نہیں تمام احمدی ہیں۔ بلکہ ایک چھوٹے ربوہ کا احساس ہوتا ہے۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد2 صفحہ 476)

خلافتِ خامسہ کے عہدِ مبارک میں
جماعت احمدیہ کینیڈا کی ترقیات

پیارے آقا حضرت اقدس خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے عہدِ باسعادت میں جماعت احمدیہ کینیڈا اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں کی برکت سے دن بہ دن ترقیات کی نئی منازل طے کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے افضال کی بارش اس کثرت سے ہو رہی ہے کہ اس کے ذکر کے لئے ایک طویل دفتر چاہئے۔ تاہم تحدیثِ نعمت کے طور پر بعض منتخب واقعات اور سنگ ہائے میل کا مختصرذکر درج ذیل ہے۔

جامعہ احمدیہ کینیڈا کا قیام

جامعہ احمدیہ وہ عظیم درسگاہ ہے جس کی بنیاد سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے خود رکھی۔ اور آپ کی خواہش تھی کہ ’’یہاں سے ایسے قرآن دان، واعظ اور علماء پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ ہوں۔‘‘

(بحوالہ اخبار الحکم 10 فروری 1906ء صفحہ 11)

مغربی دنیا میں سب سے پہلے قائم ہونے والا جامعہ احمدیہ، کینیڈا میں قائم ہوا۔ اس کا افتتاح مؤرخہ 7 ستمبر 2003ء کو مسی ساگا (Mississauga) میں ہوا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں فرمایا:
’’میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم تعلیمی ادارہ کا قیام نہایت مبارک فرمائے اور اسے ساری جماعت کے لئے مفید اور نتیجہ خیز خدمات بجالانے کی سعادت عطا فرمائے… اللہ تعالیٰ کرے کہ کینیڈا کے اس جامعہ سے بھی ایسے مربیان پیدا ہوتے چلے جائیں جو اپنے اندر وقف کی حقیقی روح رکھنے والے ہوں …اور اسلام کی نشأة ثانیہ کے اس دور میں غلبہ اسلام کی آسمانی مہم کا حصہ بننے والے ہوں۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین ثم آمین۔‘‘

(بحوالہ مکتوب محررہ 30 اگست 2003ء)

جامعہ احمدیہ کینیڈا کے پہلے پرنسپل مکرم و محترم مولانا مبارک احمد نذیر صاحب مقرر ہوئے۔آپ نے 2009ء تک خدمت کی توفیق پائی جس کے بعد مکرم محمد سلیم اختر صاحب 2009ء سے 2014ء تک اور پھر مکرم مولانا ہادی علی چوہدری صاحب 2014ء سے 2017ء تک پرنسپل رہے۔ اس وقت مکرم و محترم داؤد احمد حنیف صاحب بطور پرنسپل خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

جامعہ کا آغاز مسجد بیت الحمد مسی ساگا میں ہوا جہاں 2012ء تک درس و تدریس جاری رہا۔ پھر پیس ویلج میں ایوانِ طاہر کی تعمیر کے بعد کلاسیں وہاں منتقل ہو گئیں اور اب تک وہیں campus واقع ہے۔

اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سےکُل 112 طلباء جامعہ احمدیہ کینیڈا میں زیر تعلیم ہیں اور کُل 123 مربیان جامعہ احمدیہ کینیڈا سے فارغ التحصیل ہیں اور دنیا کے متفرق ممالک میں خدمات بجالا رہے ہیں۔ نیز آج تک دنیا کے 23ممالک سے طلباء جامعہ احمدیہ کینیڈا میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں۔

امسال 2022ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ کینیڈا کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعہ کے لئے نئی عمارت خریدی گئی ہے۔ جو 104؍ایکڑ کی زمین پر واقع ہے اورآئندہ سالوں میں اس زمین پر مزید تعمیرات کا کام کیا جائے گا، اِنْ شَاءَ اللّٰہ۔

پس اس درسگاہ کے ذریعے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ کہ یہاں سے فارغ التحصیل مربیان کو احمدیت کی تبلیغ زمین کے کناروں تک پہنچانے کی سعادت مل رہی ہے۔

حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس کا کینیڈا میں ورودِ مسعود

اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ سرزمین کینیڈا کو 6 مرتبہ سیدنا امیر المؤمنین خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی قدم بوسی کا شرف نصیب ہوا ہے۔

مؤرخہ 21جون 2004ء وہ مبارک دن تھا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا پہلی بار کینیڈا میں ورودِ مسعود ہوا۔ حضور انور نے 5جولائی تک ٹورانٹو میں ہی قیام فرمایا۔

اگلے سال حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دوبارہ کینیڈا تشریف لائے۔ آپ کا قیام 4 جون سے 6جولائی 2005ء تک رہا جس دوران آپ نے کینیڈا کے بڑے شہروں کا دورہ بھی فرمایا۔ فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ

مسجد بیت النور کیلگری کا افتتاح

صد سالہ خلافت جوبلی 2008ء میں منائی گئی۔ اس مبارک موقع کی مناسبت سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کینیڈا کا تیسرا دورہ فرمایا۔

مؤرخہ 4 جولائی 2008ء کا دن جماعت احمدیہ کینیڈا کی تاریخ میں ایک نہایت اہم دن تھا۔ جبکہ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کیلگری میں بنائی گئی مسجد بیت النور کا افتتاح فرمایا۔کیلگری کینیڈا کے مغربی صوبہ البرٹا (Alberta) میں واقع کینیڈا کا، آبادی کے لحاظ سے، چوتھا بڑا شہر ہے۔

مسجد بیت النور وسیع و عریض اور نہایت خوبصورت مسجد ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا مسقف حصہ جس میں عورتوں اور مردوں کا ہال شامل ہے کُل 10ہزار 400 مربع فٹ پر مشتمل ہے۔ اور مسجد کے ساتھ ایک بڑا complex ہے جس میں multipurpose ہال، ڈائننگ ہال، رہائش کے حصے اور دفاتر بھی شامل ہیں۔

(بحوالہ خطباتِ مسرور جلد6 صفحہ 261)

اپنے خطبہ جمعہ مؤرخہ 4 جولائی 2008ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کا افتتاح فرماتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے جماعت احمدیہ کینیڈا کو اس علاقے میں ایک خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق دی ہے۔‘‘ نیز حضور نے فرمایا کہ فی الحال تو یہ مسجد جماعتی ضروریات کے لئے کافی ہے لیکن دعا کی کہ ’’اللہ تعالیٰ ہماری ضرورتیں بھی بڑھاتا رہے اور اس کے حضور مزید پیش کرنے کی اور مزید مسجدیں بنانے کی توفیق بھی ہم پاتے رہیں۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد6 صفحہ 260-261)

مسجد بیت النور کے افتتاحی تقریب میں کینیڈا کے اس وقت کے وزیر اعظم عزت مآب سٹیفن ہارپر (Stephen Harper) نے شرکت کی۔انہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ملاقات کا شرف نصیب ہوا اور انہوں نے تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امن اور مذہبی آزادی کے champion ہیں اور کہا کہ:
’’کیلگری، البرٹا اور کینیڈا کے باشندے اسلام کا میانہ رَو اور ہمدرد چہرہ اس مسجد اور اس کے نمازیوں کے ذریعے دیکھیں گے۔ وہ آپ کی کینیڈا کے لئے محبت اور حب الوطنی دیکھیں گے اور وہ دیکھیں گے کہ جیسے احمدیوں نے کینیڈا کو اپنا لیا ہے ویسےہی کینیڈا نے آپ کو اپنایا ہے۔‘‘

(بحوالہ نیوز ریلیس مؤرخہ 5 جولائی 2008ء مرکزی ویب سائٹ حکومت کینیڈا)

ایوانِ طاہر اور جامعہ کی نئی عمارت کا افتتاح

چونکہ بہت تیزی سے جماعت احمدیہ کینیڈا کی ضروریات اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہی تھیں۔ اور جماعت کے کاموں کی وسعت کے پیش نظر مرکز یعنی ٹورانٹو میں نئے دفاتر، multipurpose ہال اور جامعہ احمدیہ کینیڈا کے لئے نئی عمارت کی ضروریات در پیش تھیں، لہٰذا 2012ء میں ایوانِ طاہر کی تعمیر عمل میں آئی۔

سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 11جولائی2012ء کو ایوانِ طاہر کا افتتاح اپنے چوتھے دورہ کینیڈا کے موقع پر فرمایا۔ ایوانِ طاہر تین منزلہ عمارت ہے جس میں multipurpose ہال کے علاوہ جماعتی دفاتر، جامعہ احمدیہ کینیڈا، اور MTA کینیڈا کا سٹوڈیو بھی قائم ہے۔

یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ جولائی 2007ء سے مکرم و محترم ملک لال خان صاحب بطور امیر جماعت کینیڈا اور 2020ء سے محترم مولانا عبد الرشید انور صاحب بطور مبلغ انچارج کینیڈا خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔نیزمکرم مولانا مبارک احمد نذیر صاحب اور مکرم مولانا خلیل احمد مبشر صاحب کو بھی کینیڈا کے مبلغ انچارج کے طور پر خدمات کرنے کی سعادت ملی ہے۔

مسجد بیت الرحمٰن کا افتتاح

مئی 2013ء میں سیدنا حضرت خلیفۃا لمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مغربی کینیڈا کا دورہ فرمایا۔ اور اس مبارک دورے پر حضور انور نے مؤرخہ 17 مئی 2013ء کو وینکوور میں بنائی جانے والی مرکزی مسجد بیت الرحمان کا افتتاح فرمایا۔

جماعت کینیڈا کی گولڈن جوبلی کے موقع پر
حضور انور کا دورہ مبارک

2016ء کا سال جماعت احمدیہ کینیڈا کے لئے غیر معمولی برکتوں والا سال تھا کیونکہ اس سال کینیڈا میں جماعت کے باقاعدہ قیام اور رجسٹریشن کے پچاس سال پورے ہونے پر جشن تشکر منایا گیا۔ اور سرزمین کینیڈا کو یہ شرف نصیب ہوا کہ پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قریباً ڈیڑھ ماہ تک یعنی 3؍اکتوبر سے 13؍نومبر تک قیام فرمایا۔ اس تاریخی اور بابرکت دورے کے دوران اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے نظارے ظاہر ہوئے۔ جن میں سے نمونہ کے طور پر چند درج ذیل ہیں:۔
مؤرخہ 7تا 9 اکتوبر 2016ء کو جلسہ سالانہ کینیڈا منعقد ہوا جس میں کل 25 ہزار 960 احباب کے شرکت کی اور 32 ممالک کی نمائندگی ہوئی۔

اخبارات اور TV کے متعدد انٹرویو منعقد ہوئے جن میں سے ایک اہم انٹرویو 12 اکتوبر کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کینیڈا کے معروف صحافی Peter Mansbridge کا انٹرویو تھا۔ جو بعد میں نیشنل TV پر نشر ہوا۔ اس انٹرویو میں حضور نےحالاتِ حاضرہ کے پیشِ نظر اسلام کی پر امن تعلیم پر روشنی ڈالی۔

کینیڈا کے وزیر اعظم عز ت مآب جسٹن ٹروڈو نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دار الحکومت آٹوا میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ جسے حضور نے از راہ شفقت قبول فرمایا۔ چنانچہ وزیر اعظم صاحب نے17 اکتوبر کو آٹوا میں حضور سے ملاقات کی۔ اور اسی روز کینیڈا کے پارلیمنٹ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا۔

اسی دورہ پر مؤرخہ 28 اکتوبر کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الاسلام ٹورانٹو سے واقفین نو کی ذمہ داریوں پر تاریخی خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جسے بعد میں وقف نو کی constitution ٹھہرایا گیا۔

اس مبارک دورے پر حضور نے دو مساجد کا افتتاح فرمایا یعنی مسجد محمود (ریجائنا) اور مسجد بیت الامان (لائڈمنسٹر)۔ پھر آپ نے ٹورانٹو اور کیلگری میں منعقد ہونے والی دو امن کانفرنسوں میں خطاب فرمایا اور ٹورانٹو کی معروف یارک یونیورسٹی میں 180 سے زائد دانشوروں اور مہمانان سے خطاب بھی فرمایا۔

(بحوالہ خلافت احمدیہ نمائش سوونیئر تیار کردہ جامعہ احمدیہ کینیڈا صفحہ 108تا 109)

غرض حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ تاریخی دورہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ہر لمحہ خلیفہٴ وقت کے شامل حال ہے۔ اور جماعت احمدیہ کی ترقی در اصل خلافت کی بدولت ہے۔

دیگر مساجد کی تعمیر

یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں جماعت احمدیہ کینیڈا مالی قربانیاں پیش کر کے مساجد تعمیر کرنے کی توفیق بھی پا رہا ہے۔چنانچہ2017ء میں سسکاٹون (Saskatoon) میں دیدہ زیب مسجد بیت الرحمت تعمیر ہوئی۔ اور پھر 2018ءمیں ٹورانٹو کے نواح میں واقع بریمپٹن (Brampton) شہر میں ایک بڑی اور شاندار مسجد بنائی گئی جس کا نام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد مبارک‘‘ رکھا۔ الْحَمْدُلِلّٰہِ

تمام ترقیات خلافتِ احمدیہ سے وابستہ ہیں

جماعت احمدیہ کینیڈا کی تاریخ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ حرف بحرف پورا ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا دنیا کا ایسا کنارہ ہے جہاں نہ صرف آپؑ کا پیغام پہنچا بلکہ آج یہاں آپؑ کے عشاق کی جماعت مستحکم بنیادوں پر قائم ہے۔ اور خلافتِ احمدیہ کی اقتداء میں ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جا رہی ہے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مؤرخہ 20 جولائی 2012ء کو جماعت احمدیہ کینیڈا کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ان ترقیات کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے‘‘ نیز فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے… کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں۔ یہ کیسی پیاری جماعت ہے جس نے خلافت سے محبت کی بھی انتہا کی ہوئی ہے۔‘‘

(خطباتِ مسرور جلد 10 صفحہ 445-446)

اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کینیڈا کو ہمیشہ اخلاص و وفا کے ساتھ اپنے پیارے آقا کی ہر آواز پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہمیشہ ترقیات کی طرف رواں دواں رہے۔ آمین ثم آمین

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا