• 4 مئی, 2024

تبلیغ احمدیت اکناف عالم تک زمین کا جنوب مشرقی آباد کنارہ نیوزی لینڈ

تبلیغ احمدیت اکناف عالم تک زمین کا جنوب مشرقی آباد کنارہ
نیوزی لینڈ

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بروز کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانہ میں تکمیل اشاعت ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا اور الہی منشاء لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کے مطابق اس زمانہ میں وہ ذرائع میسر فرما دئے جس سے اسلام کا ابدی پیغام دنیا کے ہر کونہ میں پہنچنا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کی شان اور قدرت کا اظہار اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ قادیان جیسی نہاں بستی میں اللہ تعالیٰ انبیاء کے لبادہ میں ملبوث کرکے ایک جری کو کھڑا کرتا ہے اور اسے بشارت دیتا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا، چنانچہ آنے والا ہر دن اس کی دعوت کے اکناف عالم تک پہنچنے کا مژدہ لاتا ہے۔ آج مسیح و مہدی زماں کی دعوت پر ایک سو تیس سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اور دو سو پندرہ سے زائد ممالک میں احمدیت کے نفوذ سے اس الہی وعدہ کی صداقت ظاہر و باہر ہے۔ تاہم جب ہم مڑ کر خاص طور زمین کے کناروں کی حیثیت رکھنے والے خطوں کی تاریخ کو کھنگالتے ہیں تو ہم پر اس وعدہ کی صداقت و ایفاء اور الہی تائید کا ایک اور معجزانہ رنگ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح آپ ؑ کی مبارک زندگی میں ہی آپ کا نام اور آپ کے دعاوی کا تذکرہ ان ملکوں تک پہنچ چکا تھا۔ ایک ایسی ہی داستان نیوزی لینڈ کی ہے۔

ملک کا مختصر تعارف اور اس کے قدیم آباد کار

جنوب مغربی بحر الکاہل میں واقع نیوزی لینڈ کا ملک دو بڑے اور کئی سو چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ نیوزی لینڈ بحیرہ تسمانیہ سے ورے آسٹریلیا سے 2000 کلومیٹر (1200 میل) مشرق میں واقع ہے۔ اسی طرح ٹونگا، فجی اور نیو کیلیڈونیا کے بحر الکاحل کے جزائر سے 1000 کلومیٹر (600 میل) جنوب میں ہے۔ ایک لمبا عرصہ تک یہ خطہ زمین باقی دنیا سے دوری کی وجہ سے ایک نا معلوم علاقہ کے طور پر بے آباد رہااور انسانوں کے ذریعے آباد کیے جانے والے جزائر میں نیوزی لینڈ کا مقام آخری ہے۔ چنانچہ 1280ء تا 1350ء کے درمیان یہاں پر پولینیشین لوگ آباد ہوئے۔ انہوں نے یہاں ماؤری تہذیب کو فروغ دیا۔ 1642ء میں ولندیزی سیاح ایبل ٹیزمن وہ پہلا یورپی باشندہ تھا جس نے نیوزی لینڈ کی زمین پر قدم رکھا۔ 1841ء میں یو کے کے نمائندوں نے ماؤری سرداروں کے ساتھ وائتانگی معاہدہ پر دستخط کیے جس کی رو سے نیوزی لینڈ برطانیہ کے زیر اختیار آگیا۔ نیوزی لینڈ کی آبادی اس وقت پانچ ملین سے تجاوز کرچکی ہے جس میں 70 فی صد کے قریب لوگ یورپی نسل کے ہیں جبکہ ماؤری نسل کے لوگوں کا تناسب 16 فی صد کے قریب ہے۔ ملک کا سب سے بڑا شہر آکلینڈ ہے جس کی آبادی 1.7 ملین کے قریب ہے جبکہ ملک کا دارلحکومت ویلنگٹن ہے۔ ماؤری لوگ اس خطہ زمین کو ’آؤتےاَرَوْآ‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں جس کا مطلب ہے ’طویل سفید بادل کی سر زمین‘۔ ماؤری کئی قبائل میں منقسم ہیں اور ان کی زبان جو کہ ’تے رےاو‘ کہلاتی ہے کے بھی مختلف لہجے ہیں۔ ماؤری کلچر، خاص طور پر مہمانوں کا استقبال کرنے کے حوالہ سے ان کے رسم و رواج کی جھلکیاں مین سٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کی وجہ سے اب ساری دنیا میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کا سلام کرنے کا مخصوص انداز جس میں دو افراد ناک کے ساتھ ناک اور ماتھے کے ساتھ ماتھا لگاتے ہیں کو ’’ہونگی‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے یہاں اس امر کا ذکر ضروری کہ ایک مرتبہ آپ خواب میں اسی طریق پر حضرت کرشن علیہ السلام سے ملے۔ چنانچہ اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’ایک بار ہم نے کرشن جی کو دیکھاکہ وہ کالے رنگ کے تھے اور پتلی ناک، کشادہ پیشانی والے ہیں۔ کرشن جی نے اٹھ کر اپنی ناک ہماری ناک سے اور اپنی پیشانی ہماری پیشانی سے ملا کر چسپاں کردی۔‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ 142)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس خواب کی اہمیت اور تعبیر کا بیان تو راقم الحروف کے لئے ممکن نہیں تاہم ایک امر جو ظاہر میں معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ماؤری لوگوں کےاس طریق پر ملنے اور استقبال کرنے کی رسم بہت قدیم سے رائج ہوگی۔

حضرت مسیح موعودؑکی زندگی میں نیوزی لینڈ کے اخبارات میں آپؑ کا تذکرہ

اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے حیرت انگیز تائید کا یہ ایک نشان ہے کہ آپ کے زمانہ میں ہی آپ کانام نیوزی لینڈ جیسے دور دراز کنارہ زمین تک پہنچ گیا اور مختلف اخبارات نے آپ کے دعاوی کا تذکرہ کیا۔ بعض اخبارات نے زلازل کے متلعق آپ کی پیشگوئیوں اور الیگزنڈر ڈوئی کو دعوت مباہلہ کا بھی ذکر کیا۔ ایک اخبار مارلبرو ایکسپریس نے اپنے 16ستمبر 1903ء کے شمارہ میں لکھا:
’’مرزا غلام احمد ؑجن کا تعلق پنجاب،انڈیا سے ہے،اور ان کا دعوی مسیح موعود ہونے کا ہے، نے شکاگو کے ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے۔ جس کے مطابق دونو ں فریق خدا تعالیٰ کے حضور یہ التجاء کریں گے کہ ’’ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے فنا ہوجائے‘‘۔ یہ چیلنج ابھی تک (ڈوئی کی طرف سے) قبول نہیں کیا گیا۔‘‘

اخبار نیوزی لینڈ ہیرلڈ نے اپنے 21؍ اپریل 1906ء کے شمارہ میں رسالہ ریو آف ریلجنز کے ایک مضمون کے حوالہ سے زلزلوں کے متعلق آپ کی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ آپ نے یہ پیشگوئیاں خداسے الہام پا کر کی ہیں اور ان زلزلوں کو سان فرانسسکو میں آنے والی تباہی کے تناظر میں دیکھنا چاہئے جن کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر اموات ہونگی اور ایسی تباہی ہوگی کہ قیامت کا نظارہ آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔

پس اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے نذیر کا انذار آپ کی زندگی میں ہی دنیا کے اس دور دراز خطہ تک بھی پہنچ گیا اور یہاں کے مکینوں کے لئے اتمام حجت کا سامان کرگیا۔ یاد رہے کہ نیوزی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جس میں اکثر چھوٹے موٹے زلزلے آتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے گھروں کی تعمیر میں بھی اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے چنانچہ بڑے زلزلوں میں بھی چند اموات ہی ریکارڈ ہوتی ہیں۔تاہم مسیح محمدی ؑ کی آمد کے نشان کے طور پر بالعموم زلازل اور آفات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کے مطابق اس ملک کی نوبت بھی آپہنچی اور نیوزی لینڈ کی معلوم تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ 1931ء میں آیا جس میں سینکڑوں کے حساب سے ہلاکتیں ہوئیں۔

حضرت مسیح موعود ؑسے صحبت یافتہ
دو سعید روحوں کا نیوزی لینڈ میں ورود اور قیام

کسی بھی ملک اور خطہ زمین میں احمدیوں کی موجودگی بھی اس ملک میں حضرت مسیح موعود ؑ کی دعوت کے پہنچنے کا باعث بنتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی سر زمین اس لحاظ سے بھی بہت خوش نصیب ہے کہ احمدیت کے آغاز میں ہی دو سعید روحوں کو جو کہ امام الزمان ؑ کی صحبت سے فیض یافتہ تھیں نیوزی لینڈ میں آکر آباد ہونے کا موقع ملا۔ان میں سے ایک سعید روح تو حضرت مسیح موعود ؑ کی حیات مبارکہ میں ہی یہاں آکر آباد ہوگئی تھی بلکہ اس نے اپنی احمدیت میں شمولیت کا اعلان بھی اس سر زمین سے کیا تھا۔ یہ سعید وجود، حضرت عبد الحق سیو رائٹ کا تھاجن کا تعلق میلبورن آسٹریلیا کےایک کیتھولک خاندان سے تھا۔ان کا پورا نام چارلس فرانسس سیورائٹ تھا اور انہیں 1896ء میں اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی جس کے بعد انہوں نے اپنا اسلامی نام عبد الحق رکھ لیا تھا۔ 1903ء میں اپنے سفر ہندوستان کے دوران انہیں مورخہ 22 اکتوبر کو قادیان آنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ قادیان میں اپنے دو روز کے قیام کے دوران انہیں حضرت مسیح موعود ؑ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے ان کے بعض سوالات کے جوابات بھی عطا فرمائے جن کی تفصیل ملفوظات، جلد نمبر3، صفحہ445 پر درج ہے۔ 1906ء کے اوائل سے آپ کی نیوزی لینڈ میں موجودگی کا پتہ چلتا ہے او ر اس دور دراز ملک سےہی آپ نے احمدیت میں شمولیت کا اعلان کیا جو کہ اپریل 1906ء کے ریویو آف ریلجنز میں آپ کے ایک مضمون بعنوان ’اسلام میں دس سال‘ میں مذکورہے۔ بعد میں آپ امریکہ منتقل ہوگئے۔

ایک اور سعید روح جنہیں حضرت مسیح موعود ؑسے شرف ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تھی اور وہ بعد میں نیوزی لینڈ آکر آباد ہوگئے تھے، مشہور ہیئت دان اور ماہر موسمیات، پروفیسر کلیمنٹ ریگ ہیں۔ انگلستان میں پیدا ہونے والے پروفیسر کلیمنٹ ریگ اپنا زمانہ کی ایک بڑی علمی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں اور موسمیات کے میدان میں ان کی تحقیق اور کاوشوں کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔ 1908ء میں اپنے سفر ہندوستان کے دوران انہیں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ کی معرفت حضرت مسیح موعود ؑ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ یہ ملاقات جو کہ مورخہ 12مئی 1908ء کو ہوئی، اس سے پروفیسر ریگ صاحب کی اس قدر تشفی ہوئی اور ان کے سوالات پر جو جوابات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمائے تھے ان سے وہ اس قدر خوش ہوا کہ انہوں نے بہت الحاح کے ساتھ درخواست کی کہ انہیں ایک دفعہ پھر حضرت اقدس ؑ کی ملاقات کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ حضور ؑ کے حکم سے مورخہ 18مئی 1908ء کو دوبارہ محترم پروفیسر صاحب کو ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان ملاقاتوں کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ ان کے خیالات و افکار میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہوگیا یہاں تک کہ بعد میں وہ احمدیت کی آغوش میں آگئے اور مرتے دم تک اس پر قائم رہے۔

(ذکر حبیب از مفتی محمد صادق ؓ صفحہ341)

پروفیسر کلیمنٹ ریگ 1908ء کے اختتام پر آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ تشریف لائے اور پھر 1910ء میں مستقل طور پر آکلینڈ کے علاقہ برکن ہیڈ میں مقیم ہوگئے۔آپ کی وفات 10 دسمبر 1922ء کو ہوئی اور آپ برکن ہیڈ کے ایک قبرستان میں مدفون ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مئی2006ء میں اپنے دورہ نیوزی لینڈ کے دوران پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحب کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے گئے تھے۔

نیوزی لینڈ میں جماعت کا باقاعدہ قیام

نیوزی لینڈ میں جماعت کا باقاعدہ قیام مئی 1987ء میں عمل میں آیا۔ اگر چہ اس سے قبل بھی مختلف ممالک کے احمدی طلباء اور بعض دیگر احمدی افراد بسلسلہ ملازمت یہاں قیام کرتے رہے اور ان کے ذریعہ سے اسلام احمدیت کے پیغام کی تبلیغ کا سامان بھی ہوتا رہا۔ تاہم 1987ء میں فجی میں فوجی بغاوت کے بعد وہاں سے جب ہندوستانی نسل کے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تو بعض احمدی خاندان نیوزی لینڈ میں آکر آباد ہونے لگے اور یہاں جماعت کی تعداد بڑھنے لگی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپریل1988ء میں جماعت یہاں باقاعدہ طور پر رجسٹر ہو گئی۔ اگلے دو سے تین عشروں میں فجی کے ساتھ ساتھ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی کئی احمدی خاندان یہاں آکر آباد ہوئے اور افراد جماعت کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ اگست 2015ء سے اقوام متحدہ کے ریفیوجی پروگرام کے تحت ہر سال کچھ احمدی خاندان ملائشیا، تھائی لینڈ اور سری لنکا سے آکر یہاں آباد ہورہے ہیں اور جماعت کی کل تعداد اس وقت آٹھ سو نفوس تک پہنچ چکی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے، جماعت کے آغاز سے ہی نیوزی لینڈ میں جماعت کی تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔جلسہ سالانہ بھی ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے جو کہ عموماً دو روز کا ہوتا ہے۔ اب تک جماعت نیوزی لینڈ تینتیس جلسہ ہائے سالانہ منعقد کر نے کی توفیق پا چکی ہے۔ اس وقت نیوزی لینڈ میں سات مقامی جماعتیں قائم ہیں جبکہ تقریباً پندرہ مختلف شہروں میں احمدی آباد ہیں۔ تینوں ذیلی تنظیمیں بھی مکمل طور پر فعال ہیں اور جماعت کی ترقی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو نیوزی لینڈ کے ہر فرد تک پہنچانے کے لئے مسلسل کو شاں ہیں۔ ملک میں اس وقت تین مرکزی مربیان خدمت کی توفیق پارہے ہیں جو کہ آکلینڈ، ہیملٹن اور ویلنگٹن میں تعینات ہیں۔

جماعتی مراکز اور مسجد

نیوزی لینڈ میں جماعت کے قیام کے بعد مرکز کی ہدایت پر جماعتی مرکز کے لئے زمیں یا عمارت کی تلاش کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران نماز باجماعت اور جماعتی اجلاسات کا اہتمام مختلف احمدی گھروں میں ہوتا رہا، جبکہ جلسہ سالانہ اور بڑے اجتماعات کے لئے کونسل اور سکول وغیرہ کے ہال حاصل کئے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے، 1999ء میں جماعت کو اپنا مرکز خریدنے کی توفیق ملی۔ مشن ہاؤس کا کل رقبہ ڈیڑھ ایکڑ سے زائد ہے اور یہ آکلینڈ شہر کے ایک مضافاتی علاقہ وِری میں واقع ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اس مرکز کا نام بیت المقیت عطافرمایا۔خرید کے وقت ہی اس میں ایک بڑا ہال موجود تھا جس کو نماز کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ بعد ازاں اسی مرکز کے احاطہ میں جماعت کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق باقاعدہ مینار والی مسجد تعمیر کرنے کی توفیق ملی جس کا افتتاح حضور پرنور نے یکم نومبر 2013ء کو اپنے دورہ نیوزی لینڈ کے دوران فرمایا۔ یہ دو منزلہ مسجد نیوزی لینڈ میں باقاعدہ مسجد کے طور پر تعمیر ہونے والی مساجد میں سب سے بڑی ہے جس میں سات سو افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہےاور اگر پرانے ہال کو بھی شامل کیا جائے تو دونوں عمارتوں میں ایک ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ ہیملٹن میں بھی جماعت کوایک عارضی نماز سنٹر تعمیر کرنے کی توفیق ملی ہے جس میں ایک سو کے قریب افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ جبکہ ویلنگٹن میں کرایہ کی ایک عمارت کو نماز سنٹر اور مربی ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

ماؤری ترجمہ قرآن

جماعت کو ماؤری زبان میں ترجمہ قرآن شائع کرنے کی بھی توفیق مل چکی ہے جس کے ذریعہ ماؤری لوگوں سے روابط میں آسانی پیدا ہوئی ہے۔ قرآن کا ماؤری زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت محترم پروفیسر شکیل احمد صاحب منیر (مرحوم)، واقف زندگی و سابق امیر و مشنری انچارج آسٹریلیا کو حاصل ہوئی جنہوں نے بیس سال کی انتھک محنت سے ذاتی طور پر زبان سیکھ کر اتنی مہارت حاصل کی کہ قرآن کے ترجمہ جیسے عظیم کام کو سر انجام دے سکیں۔ قرآن کے نصف اول کا ترجمہ 2008ء میں خلافت کی صد سالہ جوبلی کے موقع پر شائع ہوا اور مکمل ترجمہ قرآن 2013ء میں شائع ہوکر منصہ شہود پر آیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا دورہ نیوزی لینڈ

نیوزی لینڈ میں جماعت کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے لئے انتہائی خوش بختی کا سامان فرمایا جب جولائی 1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نیوزی لینڈ میں دورہ کے لئے تشریف لائے۔اس وقت یہاں جماعت کے افراد کی کل تعداد پچاس سے بھی کم تھی۔حضورؒ کی اس ملک میں تشریف آوری سے اکناف عالم تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کے پہنچنے کا نشان اس عظیم رنگ میں ظاہر ہوا کہ آپؑ کے جانشین، آپ کے خلیفہ نے بنفس نفیس زمین کے اس کنارہ تک پہنچ کر آپؑ کی دعوت کا پرچار فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مورخہ 15 جولائی 1989ء کو رات 11 بجے آکلینڈ کے ائیر پورٹ پر ورود فرمایا۔ احباب جماعت کے علاوہ ایک ماؤری چیف، پروفیسر ماؤرس ولسن،اپنے قبیلہ کے کچھ افراد کے ساتھ حضور ؒ کے استقبال کے لئے ائیر پورٹ پر موجود تھے۔ اس ماؤری گروپ نے اپنی روایتی انداز میں بڑی محبت اور گہری عقیدت کے ساتھ اپنی زبان میں نغمے گا کر حضورکو خوش آمدیدکہا۔اس ماؤری چیف اور ان کی اہلیہ کو بعد میں حضور ؒ کی خصوصی دعوت پر جلسہ سالانہ یوکے میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ اگلے روز مورخہ 16 جولائی 1989ء کو مجلس عاملہ اور احباب جماعت کے ساتھ ملاقات کے بعد حضور ؒ دو ریڈیو انٹرویوز کے لئے مدعو تھے۔ ایک لائیو انٹرویو جس کے لئے نصف گھنٹہ کا وقت مقرر تھا تقریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا۔ ریڈیو انٹرویوز کے بعد حضور ؒ نے نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے اخبار کے نمائندہ کو انٹرویو دیا۔ دوپہر کے وقت حضور ؒ کے اعزاز میں ایک خصوصی ظہرانہ کا انتظام کیا گیا تھا جس میں کئی معزز شخصیات نے شرکت کی جن میں ایک حکومتی وزیر اور چند ماؤری چیف بھی شامل تھے۔ اس دعوت کے بعد حضور ؒ ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور ؒ کا یہ دورہ نہایت مختصر تھا چنانچہ شام 4 بجے آپ واپسی کی فلائٹ کے لئے ائیر پورٹ تشریف لائے جہاں تما م افرادجماعت، مردو زن اور بچے، اپنے پیارے امام کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھے۔ اپنی روانگی سے پہلے حضورؒ نے ائیر پورٹ پر تین خواتین کی بیعت کو بھی قبول فرمایا۔

دورہ جات حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیوزی لینڈ کی سر زمین کو دو مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بابرکت دورہ جات کی میزبانی کا شرف حاصل ہوچکا ہے۔ہر دو مواقع پر آپ کی اس کنارہ زمین پر موجودگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کے اکناف عالم تک پہنچنے کے خدائی وعدہ کی تکمیل کا ایک جیتا جاگتا مجسم نشان بن گئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے پہلی مرتبہ مورخہ 4-8 مئی 2006ء کو نیوزی لینڈ کا دورہ فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مورخہ 4 مئی 2006ء بروز جمعرات نیوزی لینڈ کے مقامی وقت دو بج کر پندرہ منٹ پر آکلینڈ کے انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر رونق افروز ہوئے۔ جہاز کے دروازہ پر ائیر پورٹ سٹاف کے دو ممبران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا استقبال کیا۔ اسی روز جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعتی سنٹر بیت المقیت تشریف لائے تو ایک ماؤری چیف اپنے قبیلہ کے چند اراکین کے ساتھ موجود تھے اور انہوں نے اپنے روائتی انداز میں حضور پرنور کا استقبال کیا۔

اس دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت نیوزی لینڈ کے 17ویں جلسہ سالانہ کو بھی اپنے وجود مسعود سے رونق بخشی۔ مورخہ 5 مئی 2006ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لوئے احمدیت لہرا کر جلسہ سالانہ کا افتتاح فرمایا اور بعد ازاں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ یہ پہلا خطبہ جمعہ تھا جو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیوزی لینڈ کی سر زمین پر ارشاد فرمایاجو کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں دیکھا اور سنا گیا۔اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ دنیا کے اس دور دراز کے ملک سے خلیفۃ المسیح کا کوئی خطبہ یا پروگرام براہ راست نشر ہوا ہو۔ مورخہ 6 مئی 2006ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب رکھی گئی تھی جس میں اراکین پارلیمنٹ اور کئی دیگر عمائدین اورمعزز مہمانوں نے شرکت کی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب کے موقع پر حاضرین سے خطاب بھی فرمایا۔اسی روز سہ پہر کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ میں اپنا خطاب فرمایا اور اختتامی دعا کروائی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےاس دورہ کے دوران پروفیسر کلیمنٹ ریگ کے ایک پوتے اور پوتی سے بھی ملاقات فرمائی اور ان سے پروفیسر صاحب کے اسلام لانے کے متعلق دریافت فرمایا۔ مرکز کی ہدایت پر جماعت نیوزی لینڈ نے پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی فیملی اور قبر کا پتا چلا یاتھا۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بعد ازاں پروفیسر صاحب کی قبر پر دعا کے لئے بھی تشریف لے گئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نیوزی لینڈ کا دوسرا دورہ مورخہ 28 اکتوبر تا 5نومبر 2013ء کو فرمایا اور ایک مرتبہ پھر اس سر زمین کا نصیب جاگ اٹھا۔ مورخہ 28 اکتوبر 2013ء کو شام پانچ بج کر پچاس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی فلائٹ آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ میں آکلینڈ ائیر پورٹ پر اتری۔ دو پولیس انسپکٹرز کے علاوہ جماعت نیوزی لینڈ کے نیشل صدر صاحب اور مشنری انچارج صاحب نے جہاز کے دروازہ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا۔ اسی روز نماز مغرب سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جماعتی مرکز تشریف لائے جہاں احباب جماعت نے حضور پرنور کا والہانہ استقبال کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نئی مسجدکا دورہ فرمایا اور اس کے مختلف حصے دیکھے۔

مورخہ 29 اکتوبر 2013ء کو ماؤری بادشاہ نے آکلینڈ سے تقریباً ایک سو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع اپنے مرائے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے استقبال کے لئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ ماؤری کلچر میں کمیونٹی سنٹر کو جسے مقدس حیثیت حاصل ہوتی ہے ’’مرائے‘‘ کہا جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو جس مرائے پر مدعو کیا گیا تھا اس کی حیثیت ماؤری بادشاہ کے ہیڈ کوارٹرز کی ہے۔ ماؤری بادشاہ علامتی طور پر ان سب قبائل کا سربراہ سمجھا جاتا ہے جنہوں نے 1850 ء میں ماؤری بادشاہت کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسے استقبال کا انتظام کیا گیا تھا جو ماؤری روایات کے مطابق کسی سربراہ حکومت یا کسی بڑے قبیلہ کے بادشاہ کے لئے مخصوص ہے۔ اسی طرح ماؤری سنٹر پر ماؤری جھنڈے کے ساتھ لوائے احمدیت کے لہرائے جانے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ یہ استقبالیہ تقریب دو گھنٹہ سے زائد جاری رہی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریب کے اختتام پر ماؤری بادشاہ کوماؤری ترجمہ قرآن کا تحفہ دیا۔
یہاں اس امر کا ذکر بھی قارئین کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوگا کہ جولائی 1989ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک روزہ دورہ پر نیوزی لینڈ تشریف لائے تھے تو جس چیف نے اپنے قبیلہ کے بعض اراکین کے ہمراہ حضور رحمہ اللہ کا استقبال کیا تھا، انہوں نےحضور رحمہ اللہ کو ماؤری بادشاہ کے ہیڈ کوارٹرز پر آنے کی دعوت دی تھی۔ اس وقت موجودہ بادشاہ کی والدہ بطور ملکہ اس ادارہ کی سربراہ تھیں۔ چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 4 اگست 1989ء میں فرمایا:
’’اب انہوں (یعنی ماؤری چیف) نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلسہ پر بھی تشریف لائیں گے ۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ دعوت دی ہے کہ ان کا جو (نیشنل) سب سے چوٹی کا ادارہ ہے جس کی سربراہ کو ملکہ کہتے ہیں، جو خاتون ہیں،۔۔۔، وہ پرانے طرز کا مرکزی ادارہ ہےجس کو سارے ملک کی نمائندگی حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بااثر ہیں اس ادارہ کی طرف سے میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ وہاں تشریف لاکر ہمیں مخاطب ہوں اور ہمیں بتائیں کہ کیوں ہم احمدی ہوں اور کیا دلائل ہیں۔۔۔‘‘

یہ یقیناً اللہ تعالیٰ کی تائید کاغیر معمولی نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ماؤری قبائل کے اس مرکزی ادارہ کو بادشاہ کی موجودگی میں مخاطب ہونے کے سامان پیدا فرمائے۔ چنانچہ آپ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں بڑے موثر رنگ میں حاضرین تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ آپ نے فرمایا:
’’۔۔۔ آج دنیا کو امن، صلح، محبت، اخوت، بھائی چارہ اور رواداری کی ضرورت ہے اور قران کریم یہی پیغام امن، صلح، بھائی چارہ اور رواداری کا دیتا ہے۔ صرف پیغام ہی نہیں دیتا بلکہ راہنمائی کرتا ہے کہ آپ کن اصولوں پر چل کر اپنے معاشرہ کو پر امن معاشرہ بنا سکتے ہیں۔۔۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل لندن 27 دسمبر 2013ء تا 2 جنوری 2014ء صفحہ 10)

اس دورہ کے دوران بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ نیوزی لینڈ میں شرکت فرمائی جو کہ یکم تا 3 نومبر 2013ءکو منعقد ہوا۔ مورخہ یکم نومبر 2013ء بروز جمعۃ المبارک کو لوائے احمدیت لہرا کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ کا افتتاح فرمایا۔ بعد ازاں آپ نے نئی بننے والی نیوزی لینڈ جماعت کی پہلی مسجد ‘‘بیت المقیت’’ کا افتتاح فرمایا اور اس مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں براہ راست نشر کیا گیا۔ اس جلسہ کے دوسرے روز ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جو کہ مسجد کے افتتاح اور قرآن کریم کے ماؤری ترجمہ کی اشاعت کے حوالہ سے رکھی گئی تھی۔ اس تقریب میں حکومتی وزراء، اراکین پارلیمنٹ، ماؤری بادشاہ اور کئی دیگر عمائدین اور معزز مہمانوں نے شرکت کی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس تقریب کے موقع پر حاضرین سے خطاب فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس دورہ کے دوران ایک اور اہم اور تاریخی نوعیت کی تقریب کا بھی اانتظام فرمایا جو کہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں منعقد ہوئی جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خطاب کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔مورخہ 4 نومبر 2013ء کوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس تقریب میں شرکت کے لئے جماعتی وفد کے ہمراہ بذریعہ ہوائی جہاز ملک کے دارالحکومت ویلنگٹن تشریف لے گئے۔کئی معزز مہمانوں نے اس تقریب میں شرکت کی جن میں اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ، بعض ملکوں کے سفا رتکار، پولیس آفیسرز، کونسلرز اور پروفیسرز شامل تھے۔ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے’ امن عالم، وقت کی اہم ضرورت ‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ دنیا کے ایک کونہ میں پہنچ کریوں امن کا پیغام پہنچانا جہاں حضور پرنور کی امن عالم کے لئے پرخلوص کوششوں کی انتہا ء کی علامت کی حیثیت رکھتا ہے وہاں اس زمانہ میں کھڑے کئے گئے امن کے حصار، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کے اکناف عالم تک پہنچنے کا ایک زندہ نشان بھی۔

(شفیق الرحمن۔ نیوزی لینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا