• 21 مئی, 2024

جمہوریہ آئرلینڈ میں جماعت احمدیہ کا قیام

جمہوریہ آئرلینڈ یورپ کے انتہائی شمال مغرب میں بحر اوقیانوس میں واقع ایک جزیرہ کا اکثر حصہ ہے۔ اس ملک کاسب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ڈبلن (Dublin) ہے اور اس ملک کی آبادی 2021 کے اعدادو شمار کے مطابق پچاس لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ انگریزوں نے آئرلینڈپر بارھویں صدی عیسوی میں قبضہ کیا تھا۔ ایک لمبی جدوجہد کے بعد 6 دسمبر 1921ء کے اینگلو آئرش معاہدہ کے تحت بالآخراس کو خود مختاری حاصل ہوگئی جبکہ اپریل 1949ء میں یہ برطانوی کامن ویلتھ سے باہر نکل کر ایک ا لگ جمہوریت کی حیثیت حاصل کر گیا۔ گو اس جزیرہ کا چھٹا حصہ جو شمالی آئرلینڈ کہلاتا ہے اب بھی برطانیہ کا ہی حصہ ہے اور یہاں کا دار الحکومت بلفاسٹ (Belfast) ہے۔ آئرلینڈ کی زبان گیلگا (Gaeilge) کہلاتی ہے جو کہ آئرش سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے اور بعض علاقوں میں اب تک بولی جاتی ہے گو انگریزی زبان زیادہ عام بولی جاتی ہے۔

چارلز لندبرگ (Charles Lindbergh) جو بحرِ اوقیانوس کو بذریعہ ہوائی جہاز ایک ہی پرواز میں پہلی مرتبہ اکیلے پار کرنے کے لئے مشہور ہے نے کہا تھا کہ:۔

‘‘Ireland is one of the four corners of the world.’’

یعنی آئرلینڈدنیا کے چار کناروں میں سے ایک ہے۔

غیر معمولی مذہبی رجحان رکھنے والا ملک

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ علیہ کے الفاظ میں ’’یہ ایک کیتھولک ملک ہے جس کی بھاری اکثریت رومن کیتھولکس سے تعلق رکھتی ہے اور اس پہلو سے یہ عیسائیت میں بہت زیادہ سنجیدہ ہیں۔ اگرچہ دنیا میں ہر جگہ کیتھولکزم میں مذہب کے ساتھ وہ گہری عقیدت اور دلچسپی باقی نہیں رہی لیکن وہ دنیا کے بعض علاقے جہاں مذہب کے ساتھ بہت گہری عقیدت اور وابستگی ہے اور انسانی معاملات میں مذہب کو ایک فوقیت حاصل ہے۔ آئرلینڈ انہی علاقوں میں سے ایک علاقہ ہے۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ آئرلینڈ میں رومن کیتھولکزم اس سے زیادہ عقیدہ اور عمل کی صورت میں ملتا ہے جتنا ویٹیکن (Vatican) کے اردگرد کے علاقہ میں صورت حال دکھائی دیتی ہے۔ اس پہلو سے یہ ملک غیر معمولی طور پر مذہبی رجحان رکھتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ، 31 مارچ 1989ء)

پانچویں صدی سے کچھ پہلےادھر کے مظاہر پرست لوگوں کے پاس پہلی متربہ عیسائیت کی تعلیم آئی جس کے کچھ عرصہ بعد ایک عیسائی مشنری سینٹ پیٹرک (St. Patrick) اس جزیرہ پر آئے جن کو آئرلینڈ میں اب سرپرست بزرگ کا درجہ حاصل ہے جن کی وفات کے دن 17 مارچ کو ہر سال ’’ینٹ پیٹرک ڈے‘‘ کے نام سے ایک مذہبی تہوار منایا جاتا ہے۔

آئرلینڈجس کو پوپ پال ہشتم نے 1946ء میں دنیا کا سب سے بڑھ کر کیتھولک ملک قرار دیا تھا اب یہاں بھی عیسائیت زوال کا شکار ہے۔ 2016 کی مردم شماری کے مطابق جمہوریہ آئرلینڈ کی 78.3 فیصد آبادی اپنے آپ کو رومن کیتھولک کہتی تھی جو کہ چھ سال قبل 88 فیصد تھی۔

آئرلینڈ میں مشن کا قیام

1970ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان سے ہجرت کرتے ہوئے کئی احمدی گھرانے آئرلینڈ میں آبسے جبکہ یہاں ابھی باقاعدہ جماعت اور مشن قائم نہیں ہوا تھا۔اوائل میں آنے والوں میں سے مکرم محمد حنیف صاحب ابن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب سرہندی کا ذکر ملتا ہے جو 1976ء میں ملازمت کے حصول کے لئے یہاں آئے اورگولوے (Galway)شہر میں رہائش پذیر ہوئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے مکرم سمیع اللہ ناصر صاحب کا پہلے ریجنل صدر کے طور پر تقرر فرمایا۔ جس کے بعد 1985ء میں ڈاکٹر اشرف صاحب سب سے پہلے منتخب ریجنل صدر بنے۔ مکرم رشید ارشد صاحب پہلے مبلغ کے طور پر 15 اگست 1988ء کو لندن سے آئرلینڈ پہنچےاور مرکزی ہدایت کے مطابق مشن ہاؤس کے لئے تلاش شروع کردی۔ چنانچہ گولوے میں ایک عمارت 32ہزار پاؤنڈ میں خرید لی گئی اور 26 جنوری 1989ء کو مبلغ سلسلہ نئے مشن ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ اسی سال قرآن کریم کی منتخب آیات کا آئرش زبان میں ترجمہ کرواکر ایک کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت کے صد سالہ جوبلی کے سال میں 29 تا 31 مارچ 1989ء کو آئرلینڈ کا دورہ فرمایا، یہ اس نئی صدی کا پہلا دورہ تھا۔ اس تاریخی دورہ کے دوران ہی حضورؒ نےنئے مشن ہاؤس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا اور مشن ہاؤس میں نماز جمعہ پڑھائی۔ آئرلینڈ کے لوگوں کوانسانی اقدار سے مزین اور صاف اور نیک دل پاکر اپنے خطبہ جمعہ میں اس ملک کو بلدۃ طیبۃ قرار دیا اور ادھر کی سولہ افراد پر مشتمل جماعت کو تبلیغ کے حوالہ سے پرزور تحریک فرمائی۔

آپ کے اس بابرکت دورہ کے نتیجہ میں جہاں اخبارات نے اس کے متعلق خبر یں شائع کیں وہیں صحافیوں نے بھی اپنے مضامین میں جماعت کی خوبیوں کا بغیر کسی کنجوسی کے کھلے طور پر اظہار کر کے اپنی کشادہ دلی کا ثبوت دیا۔

آئرلینڈ میں پہلی مسجد

2007ء میں آئرلینڈ جماعت یوکے سے الگ کر دی گئی اور مکرم ڈاکٹر علیم الدین احمد صاحب کو پہلے نیشنل صدر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کی سعادت ملی۔ آپ ہی کی صدارت کے دوران ستمبر 2010ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دورِ خلافت میں آئرلینڈ کا پہلا تاریخی دورہ کیا جس کے دوران 17ستمبر 2010ء گولوے میں آپ نے ’’مسجد مریم‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھا جو جماعت آئرلینڈ کی پہلی مسجد ہے۔

ملک تثلیث یوم حساب آگیا
کھول آنکھیں وہ عالی جناب آگیا
ظلمت کفر کے دن گنے جاچکے
نور حق سے بھرا ماہتاب آگیا
ماہتاب آگیا آفتاب آگیا
مرحبا مرحبا مرحبا مرحبا

اسی روز اس تقریب سے قبل گولوے کے شہر سے ہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ ایک لحاظ سے دنیا کا کنارہ ہے اور اس طرح ایم ٹی اے کے مواصلاتی نظام کے ذریعہ سے خلیفہء وقت کا خطاب دنیا کے اِس کنارہ سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ ءجمعہ میں فرمایا:
’’اگر دیکھا جائے تو گولوے بھی ایک لحاظ سے دنیا کا کنارہ ہے۔ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ Atlantic Ocean (بحرِ اوقیانوس) یہاں سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد سیدھی لائن میں تو یورپ کے اور کوئی جزیرے نہیں ہیں۔ یہاں سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر لائن کھینچیں تو سمندر کے بعد کینڈا، امریکہ وغیرہ کے علاقے پھر شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ بھی ایک کنارہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے ماننے والوں کو ایک مسجد بنانے کی ان شاء اللہ تعالیٰ توفیق مل رہی ہے تاکہ وحدانیت کا اعلان اس علاقہ سے بھی دنیا کو پہنچے۔‘‘

اسی دورہ کے دوران پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے کئی احباب جماعت کو پہلی بار اپنے آقا کی زیارت کرنے کی اور آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی توفیق ملی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پہلے دورہ کےچار سال بعد آپ کے مبارک قدم دوبارہ اس جزیرہ پر ستمبر 2014ء میں پڑے۔ آپ نے مورخہ 26ستمبر2014 کومسجد مریم کا افتتاح فرمایا۔ اس مرتبہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے پارلیمنٹ ہاؤس کا بھی دورہ کیا جہاں نیشنل اسمبلی آئرلینڈ کے سپیکر اور دیگر مختلف ممبرانِ پارلیمنٹ اور سینٹر نے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ گفتگو کے دوران ایک ممبر پارلیمنٹ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ جماعت احمدیہ جس طرح انسانیت کی قدریں قائم کرنے کے لئے کہتی ہے وہ دوسرے مسلمانوں میں نظر نہیں آتیں۔ یہ معلومات میں نے گہرائی میں جا کر حاصل کی ہیں۔ ڈبلن ایک بڑا شہر ہے اور ملک کا دارالحکومت ہے اس لئے آپ کی پہلی مسجد یہاں ہونی چاہئے تھی۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم انشاء اللہ العزیز یہاں بھی مسجد کا افتتاح کریں گے۔ اللہ تعالیٰ حضور انور کی اس بات کو جلد قبولیت عطا فرمائے۔ آمین

آئرلینڈ میں قبولیت احمدیت کے سفر کا آغاز

جماعتی تاریخ میں آئرلینڈ کے حوالہ سے سب سے پہلا ذکر جو ملتا ہے وہ 1926ء میں ایک آئرش خاتون، کیتھلین صاحبہ (Kathleen) کے بارہ سال کی عمر میں شرف بیعت حاصل کرنے کا ہے۔ موصوفہ حضرت مولونا عبد الرحیم درد صاحب ؓ کی تبلیغ سے احمدی ہوئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ان کو حنیفہ بیگم کا نام عطا کیا۔ ان کی شادی حضرت سید عبد الرزاق شاہ صاحب مرحوم ابن ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی۔ آپ حضرت سیدہ امّ طاہر کی بھابھی تھیں اورایک لبما عرصہ قادیان گزارا اور بعد ازاں اپنے میاں کے ساتھ ہی احمد آباد سندھ منتقل ہو گئیں۔

آئرش قوم سے دوسری بیعت کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ ان کا نام Patricia Mary Gabriel ہے اور انہوں نے 1965ء میں مسیح الزمان کی جماعت میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔ موصوفہ ایک لمبا عرصہ صدر لجنہ اماء اللہ ماریشس رہیں اور مکرم عبد الغنی جہانگیر صاحب مربیء سلسلہ اور انچارج فرنچ ڈیسک یوکے کی والدہ محترمہ ہیں۔

آئرش قوم میں سے سب سے پہلے مرد جنہیں قبول احمدیت کی توفیق ملی وہ مکرم ابرھیم نونن صاحب ہیں۔ آپ نے 1991ء میں 22 سال کی عمر میں بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اور اب آئرلینڈ میں بطور مربیٴ سلسلہ اور مشنری انچارج خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور اس سے پہلے یوکے میں انہیں خدمت کرنے کی توفیق ملی۔

اسی طرح مکرم یوسف پینڈر صاحب کو 2005ء میں بیعت کرنے کی سعادت ملی۔ موصوف جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں اور اس وقت بطور نیشنل سیکرٹری تربیت نو مبائعین خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔

قبول احمدیت کی سعادت پانے والی ایک خاتون مکرمہ فیونا O’Keeffe صاحبہ ہیں۔ جو اس وقت امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ موصوفہ نے 2007ء میں بیعت کی۔ ایک خاتون مکرمہ ایما اعجاز صاحبہ نے 2009ء میں بیعت کی۔ اور گزشتہ سال 2021ء میں ایک نوجوان مکرم Aonghus O’Lochlainn کو بھی قبول احمدیت کی توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ آئرلینڈ کی جماعت کو مزید ترقی دے اور اس قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام کے روحانی چشمہ سے سیراب کرے۔ آمین ثم آمین

آئرلینڈ میں احمدیت کے پیغام
کی تشہیر کا منظم پروگرام

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئرلینڈ میں جماعت بہت مستحکم طور پر قائم ہو چکی ہے۔ آئرلینڈ میں جب پہلے مشن ہاؤس کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا اس وقت جماعت کی مجموعی تعداد صرف 16 تھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئرلینڈ جماعت 467 افراد پر مشتمل ہے اور پانچ لوکل جماعتیں بڑے شہروں میں قائم ہیں۔

خدا کے فضل سے آئرلینڈ کی جماعت میدانِ تبلیغ میں بڑی فعال ہے۔ بڑی باقاعدگی سے تبلیغ سٹال لگائے جاتے ہیں اور گھر گھر جا کر جماعت کے تعارف پر مشتمل لیفلٹ تقسیم کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال مختلف تبلیغی پروگرم منعقد کئے جاتے ہیں جن کی اخبارات اور ریڈیو کے ذریعہ تشہیر کی جاتی ہے۔ اللہ کے فضل سے آئرلینڈ میں اب تک انیس جلسوں کا کامیاب انعقاد ہو چکا ہے جس میں غیر از جماعت احباب بھی شرکت کر کے اسلام احمدیت سے متعارف ہو رہے ہیں۔ غرض دُنیا کے اس آخری کنارے پر اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی طریقے سجھادیئے ہیں۔ اور آئے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا ظہور ہو رہا ہے۔

2015ء سے چیرٹی واک (charity walk) کا ہر سال اہتمام کیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ جماعت نے 67,000 یورو سے زائد رقم مختلف مقامی اور نیشنل آئرش چیرٹیز کے لئے اکٹھا کیا ہے جس کے ذریعہ آئرش لوگوں کو اسلام کی پر امن تعلیم سے آگاہی حاصل ہو رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ اس ملک میں جس کے لوگوں کو دو خلفاء نے نیک فطرت پایا اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے اور خدا کی توحید کو قائم کرنے کے پہلے سے بڑھ کر سامان پیدا فرمائے۔

(عطاء الرحمٰن خالد۔ مربی سلسلہ ڈبلن، آئرلینڈ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 مارچ 2022

اگلا پڑھیں

آج کی دعا