• 2 نومبر, 2024

خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 01؍اپریل 2022ء

خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 01؍اپریل 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابوبکرؓ کے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہؐ، کتبِ تفاسیرِ قرآن اور تاریخِ اسلام نیز ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کی روشنی میں اسلام میں قتلِ مرتد کی سزا کے عنوان پر سیر حاصل بحث

مکرم محمد بشیر شاد صاحب ریٹائرڈ مربی سلسلہ (امریکہ)، مکرم رانا محمد صدیق صاحب سیالکوٹ اور مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب اسلام آبادکا ذکر ِخیر اور نمازِ جنازہ غائب

أَشْھَدُ أَنْ لَّٓا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے فتنوں کا ذکر

ہو رہا تھا۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنی تصنیف سر الخلافہ میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ابن خلدون نے…… لکھا ہے ’’عرب کے عوام وخواص مرتد ہو گئے اور بنو طَے اور بنو اسد طُلَیحہ کے ہاتھ پر جمع ہو گئے اور بنو غطفان مرتد ہو گئے۔ اور بنو ہَوازَن متردّد ہوئے اور انہوں نے زکوٰة دینی روک دی۔ نیز بنو سُلَیم کے سردار مرتد ہو گئے اور اسی طرح ہر جگہ پر باقی لوگوں کا بھی یہی حال تھا۔‘‘ ابنِ اثیر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ …عرب مرتد ہو گئے۔ ہر قبیلہ میں سے عوام یا خواص اور نفاق ظاہر ہو گیا اور یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنا شروع کر دیا۔ اور مسلمانوں کی اپنے نبیؐ کی وفات کی وجہ سے، نیز اپنی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باعث ایسی حالت ہو گئی تھی جیسی بارش والی رات میں بھیڑ بکریوں کی ہوتی ہے‘‘ یعنی خوف سے ایک جگہ اکٹھی ہو جاتی ہیں اور پناہ تلاش کرتی ہیں۔ ’’اس پر لوگوں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ یہ لوگ صرف اسامہ کے لشکر کو ہی مسلمانوں کا لشکر سمجھتے ہیں۔ اور جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں عربوں نے آپؓ سے بغاوت کر دی ہے پس مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی اس جماعت کو اپنے سے الگ کر لیں۔ اس پر (حضرت) ابوبکرؓ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس بات کا یقین بھی ہو جائے کہ درندے مجھے اچک لیں گے تب بھی مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اسامہ کے لشکر کو ضرور بھیجوں گا۔ جو فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میں اسے منسوخ نہیں کر سکتا۔‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبداللہ بن مسعودؓ کا حوالہ دے کے فرماتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہو گئے تھے کہ اگر اللہ ہم پر ابوبکرؓ کے ذریعہ احسان نہ فرماتا تو قریب تھا کہ ہم ہلاک ہو جاتے۔ آپؓ نے ہمیں اس بات پر اکٹھا کیا کہ ہم بنت مخاض‘‘ یعنی ’’(ایک سالہ اونٹنی) اور بنت لبون (دو سالہ اونٹنی) کی (زکوٰة کی وصولی کے لئے) جنگ لڑیں اور یہ کہ ہم عرب بستیوں کو کھا جائیں اور ہم اللہ کی عبادت کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ موت ہمیں آ لے۔‘‘

(سر الخلافہ اردو ترجمہ صفحہ نمبر189،188 حاشیہ، شائع کردہ نظارت اشاعت)

یہ جو بحث چل رہی ہے اس میں بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ

کیا اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے؟

اس بارے میں مختصر بیان کر دیتا ہوں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب تقریباً سارے عرب نے ارتداد اختیار کر لیا اور بعض لوگوں نے کُلّی طور پر اسلام سے دُوری اختیار کر لی اور بعض نے زکوٰة کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرؓنے ان سب کے خلاف قتال کیا۔ کتبِ تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام افراد کے لیے مرتدین کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے

بعد میں آنے والے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی یا وہ غلط تعلیم پھیلانے کا باعث بنے کہ گویا مرتد کی سزا قتل ہے اور اسی لیے حضرت ابوبکرؓنے تمام مرتدین کے خلاف اعلانِ جہاد کیا اور ایسے سب لوگوں کو قتل کروا دیا سوائے اس کے کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لیں

اور یوں ان مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابوبکرؓ کو عقیدہ ختم نبوت کا محافظ اور اس کے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے اس دور میں ختم نبوت اور عقیدہ ختم نبوت کے اس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی ان لوگوں کے خلاف اس لیے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختمِ نبوت کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزا چونکہ قتل تھی اس لیے ان کو قتل کیا جائے۔ اس کی تفصیل توآگے بیان ہو گی اور اس بارے میں تو بیان ہو گا کہ ان کے خلاف اعلان جنگ کیوں کیا گیا؟ لیکن اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ

کیا قرآن کریم نے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کی سزا قتل بیان کی ہے یا کوئی اَور سزا بھی مقرر کی ہے؟

اسلامی اصطلاح میں مرتد اس کو کہا جاتا ہے جو دینِ اسلام سے انحراف کر جائے اور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر دائرۂ اسلام سے نکل جائے۔ جب ہم قرآنِ کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر مرتد ہونے والوں کا باقاعدہ ذکر تو فرمایا ہے لیکن ان کے لیے قتل یا کسی بھی قسم کی دنیاوی سزا دینے کا ذکر نہیں کیا۔ چنانچہ چند آیات نمونے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ پہلی آیت یہ ہے کہ وَ مَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَيَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۔ (البقرہ: 218) یعنی اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی اور یہی وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں۔ اس میں وہ بہت لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔

اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ تم میں سے جو کوئی مرتد ہو جائے اور آخر کار اسی کفر کی حالت میں مر جائے۔اس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ مرتد کی سزا قتل نہ تھی کیونکہ اگر اس کی سزاقتل ہوتی تو یہ بیان نہ ہوتا کہ ایسا مرتد آخر کار کفر کی حالت میں مر جائے۔

پھر ایک جگہ فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَیُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَلَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ (المائدہ: 55) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں۔ مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے اور کافروں پر بہت سخت۔ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

اس جگہ بھی مرتد ہونے والوں کا ذکر فرماتے ہوئے مومنوں کو یہ خوش خبری تو دی گئی کہ ایسے لوگوں کے بدلے میں اللہ تعالیٰ قوموں کی قومیں عطا فرمائے گا لیکن کہیں یہ ذکر نہیں فرمایا کہ مرتد ہونے والوں کو قتل کر دو یا فلاں فلاں سزا دو۔

پھر ایک اَور آیت جو کہ ہر قسم کے شکوک و شبہات اور سوالات کو ختم کر دینے والی ہے وہ سورة النساء کی یہ آیت ہے۔ فرمایا: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَ لَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا (النساء: 138) یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے۔

پس بڑی واضح نفی ہے اس میں کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے اور یہی تشریح ہمارے لٹریچر میں بھی کی جاتی ہے اور مفسرین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس کی تھوڑی سی وضاحت اپنے ترجمة القرآن میں اس طرح فرمائی ہے کہ ’’یہ آیت اس عقیدہ کی نفی کرتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ چنانچہ فرمایا اگر کوئی مرتد ہو جائے، پھر ایمان لے آئے، پھر مرتد ہو جائے، پھر ایمان لے آئے تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے اور اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو لازمی طور پر جہنمی ہو گا۔ اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کے باربار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘‘

(قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ صفحہ158 حاشیہ)

اس کے علاوہ قرآن کریم میں کچھ اَور آیات ہیں جو اصولی طور پر قتل مرتد کی نفی کرنے والی ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَقُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّمَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا ۙ اَحَاطَ بِہِمۡ سُرَادِقُہَا ؕ وَاِنۡ یَّسۡتَغِیۡثُوۡا یُغَاثُوۡا بِمَآءٍ کَالۡمُہۡلِ یَشۡوِی الۡوُجُوۡہَ ؕ بِئۡسَ الشَّرَابُ ؕ وَسَآءَتۡ مُرۡتَفَقًا (الکہف: 30) اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو۔ پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو چاہے سو انکار کر دے۔ یقیناً ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیرے میں لے لیں گی اور اگر وہ پانی مانگیں گے تو انہیں ایسا پانی دیا جائے گا جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو اُن کے چہروں کو جھلس دے گا۔ بہت ہی بُرا مشروب ہے اور بہت ہی بُری آرام گاہ ہے۔

دین میں کسی قسم کے جبر کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَیُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَاللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ (البقرہ: 257) دین میں کوئی جبر نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔ پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں۔ اور اللہ بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

قرآنِ کریم کی کچھ آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن میں دین کے نام پر کسی بھی قسم کی سختی، جبر اور سزا کی نفی کی گئی ہے اور

مرتد ہونے والوں کا ذکر کر کے کسی بھی قسم کی سزا کا ذکر نہ کرنا ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ مرتد ہونے والے کے لیے شریعتِ اسلامی کوئی جسمانی اور دنیاوی سزا مقرر نہیں کرتی۔

اسی قرآنی تعلیم اور نظریہ کی مزید تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ منافقین کا ذکر موجود ہے اور منافقین کی برائیاں اس قدر زور سے بیان کی گئی ہیں کہ کفار کی برائیوں کا بھی اس طرح ذکر نہیں۔ ان لوگوں کو فاسق بھی کہا گیا ہے۔ ان کو کافر بھی کہا گیا ہے۔ ان کے بارے میں اسلام لانے کے بعد کفر اختیار کرنے کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ایسے کسی بھی منافق کے لیے نہ تو کسی قسم کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے اور تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ نہ ہی کسی منافق کو ان کے نفاق کی بنا پر کوئی سزا دی گئی۔ چنانچہ منافقین کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ۔ وَمَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَبِرَسُوۡلِہٖ وَلَا یَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمۡ کُسَالٰی وَلَا یُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَہُمۡ کٰرِہُوۡنَ (التوبہ: 54-53) تُو کہہ دے کہ خواہ تم خوشی سے خرچ کرو خواہ کراہت کے ساتھ ہرگز تم سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یقیناً تم ایک بدکردار قوم ہو۔ اور انہیں کسی چیز نے اس بات سے محروم نہیں کیا کہ ان سے ان کے اموال قبول کیے جائیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر بیٹھے تھے نیز یہ کہ وہ نماز کے قریب نہیں آتے تھے مگر سخت سستی کی حالت میں۔ اور خرچ بھی نہیں کرتے تھے مگر ایسی حالت میں کہ وہ سخت کراہت محسوس کرتے تھے۔

اس آیت کریمہ میں منافقین کو فاسق قرار دیا اور اللہ اور اس کے رسول کا کفر کرنے والا قرار دیا۔ پھر ان کے کفر کی شدت کا ذکر مزید اس آیت میں بیان کیا کہ یَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوۡا ؕ وَلَقَدۡ قَالُوۡا کَلِمَۃَ الۡکُفۡرِ وَکَفَرُوۡا بَعۡدَ اِسۡلَامِہِمۡ وَہَمُّوۡا بِمَا لَمۡ یَنَالُوۡا ۚ وَمَا نَقَمُوۡۤا اِلَّاۤ اَنۡ اَغۡنٰہُمُ اللّٰہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۚ فَاِنۡ یَّتُوۡبُوۡا یَکُ خَیۡرًا لَّہُمۡ ۚ وَاِنۡ یَّتَوَلَّوۡا یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۙ فِی الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَمَا لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیۡرٍ (التوبہ: 74) وہ اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کہا حالانکہ وہ یقیناً کفر کا کلمہ کہہ چکے ہیں جبکہ وہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے۔ اور وہ ایسے پختہ ارادے رکھتے تھے جنہیں وہ پا نہیں سکے۔ اور انہوں نے مومنوں سے پرخاش نہ رکھی مگر صرف اس وجہ سے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو اپنے فضل سے مالامال کر دیا۔ پس اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ ہاں اگر وہ پھر جائیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور ان کے لیے ساری زمین میں نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ مددگار۔

اسی طرح سورہ ٔتوبہ میں آیت 66 میں فرمایا۔ تم ایمان لانے کے بعد کافر بن گئے ہو لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ کوئی عذر پیش نہ کرو۔ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ۔ کوئی عذر پیش نہ کرو یقیناً تم اپنے ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔

اسی طرح منافقین کے متعلق پوری سورة المنافقین نازل ہوئی۔ اس میں فرمایا اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ جُنَّۃً فَصَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہُمۡ سَآءَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَفۡقَہُوۡنَ (المنافقون: 4-3) انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ پس وہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ یقیناً بہت بُرا ہے جو وہ عمل کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ وہ ایمان لائے پھر انکار کر دیا تو ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی پس وہ سمجھ نہیں رہے۔ یہاں بھی ان لوگوں کے ایمان لانے اور اس کے بعد پھر کفر اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن کسی قسم کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی اور نہ ہی دی گئی۔

غرض اسی طرح کی بہت سی آیات ہیں جن میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں اور پھر اعلانیہ یا عملی طور پر کفر اختیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو فاسق اور کافر اور مرتد تو کہا گیا ہے لیکن ان کے لیے قتل وغیرہ کی کوئی سزا مقرر نہیں کی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرتد کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ قرآن کریم کے بعد اب اس بارے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جس مبارک وجود پر قرآن کریم اتارا گیا، جو کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ کا مصداق وجود تھا، جس نے اپنے عمل سے قرآن کریم کے احکامات نافذ کرتے ہوئے اپنا نمونہ اور اسوہ پیش کیا اس مبارک ہستی نے مرتد کے حوالے سے کیا فرمایا۔

صحیح بخاری میں درج ذیل واقعہ اس امر کا فیصلہ کر دیتا ہے کہ

مرتد کے لیے محض ارتداد کے جرم میں کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی۔

اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپؐ سے بیعت کی۔ اگلے روز اعرابی کو مدینہ میں بخار ہو گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں۔ پھر وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں۔ آپؐ نے تین مرتبہ انکار فرمایا۔ اس کا جواب نہیں دیا۔ پھر وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے وہ میل کو نکال دیتا ہے اور اصل پاکیزہ چیز کو خالص کر دیتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب فضائل المدینۃ، بَابٌ: المَدِينَةُ تَنْفِي الخَبَثَ حدیث 1883)

حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے اپنی تصنیف ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ (یہ ان کی ایک کتاب تھی۔ یہ کتاب جو تھی یہ حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ کی نگرانی میں تیار کی گئی تھی) اس میں یہ حدیث درج کی ہے اور اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بار بار آنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ مرتد کے لیے قتل کی سزا مقرر نہ تھی ورنہ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ آتا بلکہ کوشش کرتا کہ بلااطلاع چپکے سے نکل جائے اور کسی پر ظاہر نہ کرتا کہ وہ ارتداد اختیار کرنا چاہتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ارتداد کو روکنے کے لیے شریعت اسلام میں مقرر کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام پر رہنے کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں اس شخص کو متنبہ نہ کیا جو بار بار آپؐ کے پاس آ رہا تھا اور کیوں یہ نہ کہہ دیا کہ یاد رکھو کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے۔ اگر تم ارتداد اختیار کرو گے تو تمہیں قتل کیاجائے گا اور جبکہ وہ بار بار ارتداد کا ارادہ ظاہر کرتا تھا اور خوف تھا کہ وہ مرتد ہو کر چلا جائے گا۔ پھر ایسی صورت میں کیوں اس پر پہرہ مقرر نہ کیا گیا تا کہ اگر وہ مرتد ہو کر جانے لگے تو اس کو پکڑ لیا جاوے اور اس پر شرعی حد جاری کی جاوے۔ کیوں صحابہ نے اس کو یہ نہ کہا کہ میاں اگر جان کی خیر چاہتے ہو تو ارتداد کا نام نہ لو کیونکہ اس شہر میں تو یہ قاعدہ جاری ہے کہ جو شخص اسلام لا کر پھر ارتداد اختیار کرتا ہے اس کو فوراً قتل کر دیا جاتا ہے۔ پس اس اعرابی کا بار بار ارتداد کا اظہار کرنا اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بار بار جانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کو ارتداد کے نتیجہ سے متنبہ نہ کرنا اور نہ صحابہ کو اس کے قتل کا حکم سنانا اور آخر کار اس کا بغیر کسی قسم کے تعرض کے مدینہ سے نکل جانا یہ سب امور صاف طور پر اس امر کے شاہد بین ہیں کہ اسلام میں مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے نکل جانے پر ایک طرح کی خوشی کا اظہار کرنا اور فرمانا کہ مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے جو میل کچیل کو پاکیزہ جوہر سے جدا کر دیتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپؐ اس اصول کے مخالف تھے کہ کسی کو جبر سے اسلام پر رکھا جاوے اور لوگوں کو جبری ذرائع اختیار کر کے ارتداد سے روکا جائے بلکہ اگر ناپاک انسان مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جاتا تو آپؐ اس پر ناخوش نہیں ہوتے تھے اور آپ یہ کوشش نہیں فرماتے تھے کہ اس کو اس کی مرضی کے خلاف جبراً اسلام میں رکھا جائے بلکہ ایسے شخص کا چلا جانا آپؐ کے نزدیک گویا خس کم جہاں پاک کا مصداق تھا۔ اگر آپؐ کا یہ اصول ہوتا کہ جو شخص ایک دفعہ اسلام میں داخل ہو جائے اس کو ہر ممکن ذریعہ سے اسلام میں رہنے کے لیے مجبور کیا جائے اور اگر وہ کسی طرح بھی نہ مانے تو اس کو قتل کیا جائے تا اس کی مثال دوسروں کے لیے عبرت ہو تو چاہیے تھا کہ آپ اس اعرابی کے جانے پر خفا ہوتے اور صحابہ کو ڈانٹتے کہ تم نے اس کو کیوں جانے دیا؟ کیوں اس کو پکڑ کر قتل کی دھمکی نہ دی اور چاہیے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حکم دیتے کہ دوڑو اور جہاں ہو اس خبیث کو پکڑ لاؤ تا اس کو قتل کی سزا دی جائے مگر آپؐ نے ایسا نہ کیا بلکہ دوسرے الفاط میں یہ فرمایا کہ اچھا ہوا وہ چلا گیا۔ وہ اس قابل نہ تھا کہ مسلمانوں میں رہے۔ خدا تعالیٰ نے خود اس کو اپنے ہاتھ سے ہم سے جدا کر دیا۔ غرض

اس اعرابی کی مثال ایک قطعی اور یقینی ثبوت اس امر کا ہے کہ
مرتد کے لیے کوئی شرعی سزا مقرر نہ تھی

اور مسلمانوں میں قطعاً یہ طریق جاری نہ تھا کہ وہ ہر ایک مرتد کو محض اس کے ارتداد کی وجہ سے قتل کر دیتے۔

(ماخوذ از قتل مرتد اور اسلام از مولوی شیر علی صاحب صفحہ109 تا 111 مطبوعہ 1925ء)

دوسرا ثبوت اس امر کا کہ مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی

وہ شرائط ہیں جن کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں مشرکین مکہ کے ساتھ صلح کی۔ صلح حدیبیہ کی حدیث میں لکھا ہے جو براء بن عازب سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین کے ساتھ تین باتوں پر صلح کی۔ پہلی شرط یہ تھی کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے تو آپ اس کو مشرکین کی طرف واپس کر دیں گے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مشرکین کی طرف چلا جائے تو مشرکین اس کو آپ کی طرف واپس نہیں کریں گے۔

(صحیح البخاری کتاب الصلح بَابُ الصُّلْحِ مَعَ المُشْرِكِينَ حدیث 2700)

اس صلح نامہ کی دوسری شرط سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مرتد کے لیے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی کیونکہ اگر ارتداد کے لیے شریعت اسلام میں یہ سزا مقرر ہوتی کہ اس کو قتل کیا جائے تو شرعی حد کے معاملہ میں بھی کبھی آپؐ مشرکین کی بات قبول نہ فرماتے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں چند لوگوں نے دین اسلام سے ارتداد اختیار کیا لیکن محض ارتداد کی وجہ سے ان سے کوئی تعارض نہ کیا گیا تاوقتیکہ انہوں نے محاربت اور بغاوت جیسے افعالِ شنیعہ کا ارتکاب نہ کیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن مجید کی ایک اَور آیت سے بھی اس مسئلے کو یوں واضح فرمایا ہے کہ ’’وَمَاعَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّاالْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ‘‘ فرمایا کہ اس ’’میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تلوار کی بجائے تبلیغ سے کام لینا ہی ایک دیرینہ اصول ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اسی اصول کو اختیار کیا تھا۔ اور ان کے زمانہ کے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہوا تھا کہ ہمارے اس رسول کا کام صرف بات پہنچا دینا ہے تلوار سے منوانا نہیں اور

یہی سارے قرآن کا خلاصہ ہے کہ
دلیل کے ساتھ بات منوانا مذہبی لوگوں کا کام ہوتا ہے۔

جبر سے منوانا مذہبی لوگوں کا کام نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ اب تک دنیا اس مسئلہ کو نہیں سمجھی بلکہ خود مسلمانوں میں بھی قتل مرتد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ ’’حالانکہ کسی کا عقیدہ جھوٹ ہو یا سچ، عقیدہ رکھنے والا اسے بہرحال ویسا ہی سچا سمجھتا ہے جیسے ایک مسلمان اپنے مذہب کو سچا سمجھتا ہے۔ عیسائیت جھوٹی سہی مگر سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر عیسائی عیسائیت کو کیا سمجھتا ہے۔وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے۔ ہندو مذہب جھوٹا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر ہندو اپنے مذہب کو کیا سمجھتا ہے۔ وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے۔ یہودی مذہب یقیناً اس وقت سچا نہیں۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہودیوں کا اکثر حصہ یہودیت کو کیا سمجھتا ہے۔ وہ یقیناً اسے سچا سمجھتا ہے۔ پس اگر اِس بات پر کسی کو قتل کرنا جائز ہے کہ میں سمجھتا ہوں میرا مذہب سچا ہے دوسرے کا نہیں۔‘‘ صرف یہی بات اگر ہے ’’تو پھر ایک عیسائی کو یہ کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جس مسلمان کو چاہے قتل کر دے۔ ایک ہندو کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً دوسروں کو ہندو بنا لے یا انہیں مار ڈالے۔ چین میں کنفیوشس مذہب کے پیروؤں کو یہ کیوں حق نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لیں۔ فلپائن میں جہاں اب بھی پندرہ بیس ہزار مسلمان ہے۔‘‘ اس زمانے میں جب آپؓ نے بیان فرمایا۔ اب تو زیادہ ہیں۔ ’’عیسائیوں کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کو جبراً عیسائی بنا لیں۔ امریکہ کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً ان مسلمانوں کو جو اس کے ملک میں رہتے ہیں عیسائی بنا لے۔ روس کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً سب کو عیسائی بنا لے یا جبراً سب کو کمیونسٹ بنا لے۔

اگر مسلمان دوسروں کو جبراً اپنے عقیدہ پر لا سکتے ہیں تو
ویسا ہی حق عقلاً دوسروں کو بھی حاصل ہے لیکن
کیا اس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے۔

کیا اس حق کو جاری کر کے تم اپنے بیٹے کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے یا بیوی کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنا لیں۔ مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ عیسائیوں کو زبردستی مسلمان بنا لیں۔ ایران والوں کا حق ہے کہ وہ سب حنفیوں کو زبردستی شیعہ بنا لیں اور حنفیوں کا حق ہے کہ وہ سب کو زبردستی سنّی بنا لیں۔ غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کوئی انسان اس کو ایک منٹ کے لیے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ گذشتہ انبیاء کی قوموں نے جب بھی خدائی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا تو خدا تعالیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ (ہود: 29)۔ یعنی اگر تم خود ہدایت لینا پسند نہیں کرتے تو ہم جبراً تمہیں ہدایت نہیں دے سکتے لیکن افسوس کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں میں اس اصل کا انکار کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں‘‘ اور اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ اکثریت مسلمانوں کی یہی کہتی ہے۔ ’’اگر دنیا اس مسئلہ کو سمجھ جائے تو یقیناً ظلم اور تعدی مذہبی اور سیاسی امور میں بند ہو جائے۔ نہ لوگ اپنے عقیدے لوگوں پر جبراً ٹھونسیں اور نہ اپنے سیاسی نظام دوسرے ملکوں میں جبراً جاری کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ606-607)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ ’’میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ خدا توقرآن شریف میں فرماتا ہے لَاۤ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ یعنی دینِ اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبرکاحکم دیا اور جبر کے کونسے سامان تھے۔ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں ان کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے، باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں۔ اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمنوں کو شکست دے دیں اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سرکٹا دیں اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کردیں۔ اور خدا کی توحید کے پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اٹھاکر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلا ویں۔ اور پھر ہریک قسم کی صعوبت اٹھاکر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں جس کانتیجہ یہ ہو کہ ان کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہو جائیں۔ اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کر دیں اور یورپ کی حدود تک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز پہنچا ویں۔

تم ایماناً کہو کہ کیا یہ کام ان لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کادل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نورِ ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ468-469)

ان آیاتِ قرآنیہ اور ارشادات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ

مرتد کی سزا قتل نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کی سزا قتل نہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو کیوں قتل کیا اور قتل کرنے کا حکم دیا؟

حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بڑی آسانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے صرف مرتد ہی نہیں تھے بلکہ وہ باغی تھے اور خونخوار ارادوں کے حامل باغی تھے جنہوں نے نہ صرف یہ کہ ریاستِ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کو قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بنائے بلکہ مختلف علاقوں میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر بڑی بے رحمی سے قتل کیا۔ ان کے اعضاء کاٹ کر ان کو مارا گیا۔ انہیں زندہ آگ میں جلایا گیا۔ یہ مرتدین ظلم و ستم اور قتل و غارت اور بغاوت اور لوٹ مار جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے لوگ تھے جس کی وجہ سے دفاعی اور انتقامی کارروائی کے طور پر ان محارب لوگوں سے جنگ کی گئی اور جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا کے تحت ان کو بھی ویسی ہی سزائیں دے کر قتل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے جیسے جرائم کے وہ مرتکب ہوئے تھے۔ چنانچہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں سے کچھ تفصیل پیش کی جاتی ہے۔

تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ خَارِجہ بن حِصْن جو مرتدین میں سے تھا اپنی قوم کے کچھ سوار لے کر مدینہ کی طرف بڑھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اہلِ مدینہ کو جنگ کے لیے نکلنے سے قبل ہی روک دے یا انہیں غفلت میں پا کر حملہ کر دے۔ چنانچہ اس نے حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کے ساتھ کے مسلمانوں پر اس وقت چھاپہ مارا جبکہ وہ لوگ بےخبر تھے۔

(تاریخ الخمیس جلد3 صفحہ173 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ2009ء)

مرتدین نے نہ صرف مدینہ پر حملہ کیا بلکہ جب حضرت ابوبکرؓ نے انہیں شکست دی تو انہوں نے صادق الایمان مسلمانوں کو بھی تہ تیغ کر دیا جو اُن قوموں میں بستے تھے جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں اس کا مَیں ذکر کچھ کر چکا ہوں اور جو باوجود اپنی قوم کے مرتد ہو جانے کے اسلام پر قائم رہے تھے۔

چنانچہ علامہ طبری لکھتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے مختلف حملہ آور قبائل کو شکست دی تو بنو ذُبیان اور عَبْس اُن مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے جو اُن میں رہتے تھے اور اُن کو ہر ایک طریق سے قتل کیا اور ان کے بعد دیگر اقوا م نے بھی انہی کی طرح کیا یعنی انہوں نے بھی ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو اسلام پر قائم رہے۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ256 دارالکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

علامہ ابنِ اثیر لکھتے ہیں کہ عَبْس اوربنو ذُبیان قبائل نے اپنے ہاں کے نہتے مسلمانوں کو بری طرح قتل کرنا شروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی دوسرے قبائل نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھائی کہ وہ ہر قبیلے کے ان لوگوں کو ضرور قتل کریں گے جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔

(البدایہ والنھایہ لابن کثیر جلد3 جزء6 صفحہ310 فَصْلٌ فِي تصدِّي الصِّديق لِقِتَالِ أَهْلِ الرِّدَّةِ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت)

جیساکہ بیان کیا گیا تھا کہ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جن قبائل نے ارتداد اختیار کیا ان کا ارتداد مذہبی اختلاف تک محدود نہ تھا بلکہ انہوں نے سلطنت اسلامی سے بغاوت اختیار کی تھی۔

تلوار کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ اپنی اپنی قوموں کے مسلمانوں کو قتل کیا۔ آگ میں ڈالا اور ان کا مثلہ کیا۔ جیساکہ تاریخ طبری میں حضرت خالد بن ولیدؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب اسد اور غَطَفَان اور ہَوَازَن اور سُلَیم اور طَیء کو شکست ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے ان سے معافی قبول نہ کی سوائے اس کے کہ وہ آپ کے پاس ان لوگوں کو لے کر آئیں جنہوں نے مرتد ہونے کی حالت میں مسلمانوں کو آگ میں ڈال کر جلایا اور ان کا مُثلہ کیا اور ان پر مظالم برپا کیے۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ 265، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ جزیرۂ عرب کے یہ مرتد قبائل مدینہ کا قصد کرتے ہوئے نکلے تاکہ حضرت ابوبکرؓ اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں۔

(تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 436 خبر بنی تمیم و سجاح، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے عَبْس اور ذُبْیَان نے حملہ کیا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کو حضرت اسامہؓ کی واپسی سے قبل ان سے لڑائی کرنی پڑی۔

(تاریخ الطبری لابن جریر الطبری جلد2 صفحہ254 باب بقیۃ الخبر عن امر الکذب العَنْسِی، دارالفکر 2002ء)

علامہ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ ربیعہ قبیلہ نے ارتداد اختیار کر لیا اور انہوں نے مُنْذِر بن نعمان کو کھڑا کیا جس کا نام مغرور پڑا ہوا تھا۔ انہوں نے اسے بادشاہ بنا دیا۔

(تاریخ ابن خلدون جلد2 صفحہ439-440 باب ردة الحطم و اھل البحرین، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

علامہ عینی جو صحیح بخاری کے شارح ہیں وہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زکوٰة دینے سے انکار کرنے والوں سے صرف اس لیے قتال کیا کیونکہ انہوں نے تلوار کے ذریعہ سے زکوٰة روکی اور امت مسلمہ کے خلاف جنگ برپا کی۔

(عمدۃ القاری کتاب استتابۃ المرتدین و المعاندین و قتالھم باب قتل من ابیٰ …الخ جلد24 صفحہ122 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)

علامہ شوکانی بیان کرتے ہیں کہ امام خطابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعدارتداد اختیار کرنے والوں اور زکوٰة وغیرہ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے بارے میں مختلف امور تحریر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ

یہ لوگ درحقیقت باغی ہی تھے اور ان کو مرتد صرف اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مرتدین کی جماعتوں میں داخل ہو گئے تھے۔

(نیل الاوطار لعلامۃ محمد الشوکانی۔کتاب الزکاۃ، صفحہ724 دارالکتاب العربی بیروت2004ء)

ایک مصنف نے بار بار اپنی کتاب میں ارتداد اختیار کرنے والوں کے لیے بغاوت اور باغی وغیرہ کے الفاظ لکھے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سارے عرب میں پھیل گئی اور ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے تو ان شعلوں کی زد میں سب سے زیادہ یمن کا علاقہ تھا۔ اگرچہ آگ کا بھڑکانے والا شخص عَنْسِی قتل ہو چکا تھا۔ بنو حنیفہ میں مسیلمہ اور بنو اسد میں طُلَیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر کے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اسد اور غطفان کے حلیف قبیلوں کا نبی ہمیںقریش کے نبی سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) وفات پا چکے ہیں اور طُلَیحہ زندہ ہے جب ان بغاوتوں کی خبر حضرت ابوبکرؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ان علاقوں کے عُمّال اور امراء کی طرف سے تمام واقعات کی مکمل رپورٹیں موصول نہ ہو جائیں۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ امراء کی طرف سے رپورٹیں پہنچنے لگیں۔ ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ باغیوں کے ہاتھوں نہ صرف سلطنت کا امن خطرے میں تھا بلکہ ان لوگوں کی جانوں کو بھی سخت خطرہ تھا جنہوں نے ارتداد کی رو میں باغیوں کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اسلام پر قائم رہے تھے۔ اس صورت حال میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لیے پوری قوت سے بغاوتوں کا مقابلہ کرنا اور باغیوں کو ہر قیمت پر زیر کر کے صورت حال کو قابو میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

(ماخوذ از حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ131 علم و عرفان پبلشرز لاہور)

ایک مصنف لکھتے ہیں کہ

حضرت ابوبکرؓ کے پیش نظر ان مرتدین کی سرکوبی تھی جو عرب کے مختلف خِطّوں میں بغاوت کے شعلوں کو ہوا دے رہے تھے اور ان کے ہاتھوں شمع اسلام اور ان کے پروانوں کو سخت خطرہ لاحق تھا۔

(ماخوذ از سیدنا ابوبکرؓ از ابوالنصر مترجم صفحہ603)

پھر ایک مصنف لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بہت سے سردارانِ عرب مرتد ہو گئے اور ہر ایک اپنے اپنے علاقے میں خود مختار ہو گیا۔ محققین کے مطابق یہ ارتداد زیادہ تر سیاسی تھا۔ دینی ارتداد بہت ہی کم تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیوی زندگی کے آخری ایام میں عرب کے کچھ قبائل کے لیڈروں نے اپنی بغاوت کی سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کے لیے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔

(ماخوذ از خلفائے راشدین از حکیم محمود ظفر صفحہ58 مطبوعہ تخلیقات اکرم آرکیڈ لاہور)

بہرحال یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے ان شاء اللہ اس کا بقیہ حصہ آئندہ ان شاء اللہ پیش ہو گا۔

ان تاریخی حوالوں کا خلاصہ

یہی ہے کہ مرتد ہونے والے قبائل نے اموالِ زکوٰة روک لیے تھے یعنی حکومت کا ٹیکس جبراً روک لیا تھا۔ بعض جگہ سے اموالِ زکوٰة کو لوٹ لیا تھا۔ فوجیں تیار کیں۔ دارالخلافہ مدینہ پر حملے کیے۔ جن مسلمانوں نے ارتداد سے انکار کیا ان کو قتل کر دیا۔ بعض کو زندہ آگ میں جلا دیا۔ لہٰذا ایسے مرتدین حکومت کے خلاف مسلح بغاوت، حکومت کے اموال کو لوٹنے اور مسلمانوں کو قتل کرنے اور انہیں زندہ جلا دینے کی بنا پر قتل کی سزا کے مستحق ہو چکے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک فرماتا ہے جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا (الشورٰى: 41) کہ مجرم جیسا کہ جرم کرے اس کو ویسی ہی سزا دو۔ ایک اور جگہ فرمایا اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا اَنۡ یُّقَتَّلُوۡۤا اَوۡ یُصَلَّبُوۡۤا اَوۡ تُقَطَّعَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَاَرۡجُلُہُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ اَوۡ یُنۡفَوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ (المائدہ: 34) کہ جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کریں یعنی جس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ رسول اور خلیفۃ الرسول یا اسلامی حکومت کے ساتھ جنگ کریں کیونکہ اللہ کے ساتھ لڑائی نہیں ہو سکتی۔ اللہ کو نہ تھپڑ مارا جا سکتا ہے نہ پتھر نہ تیر نہ تلوار۔ اس لیے ان سے جنگ کرنے سے مراد ہے۔ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ اور رسول سے جنگ سے کیا مراد ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول سے جنگ کرتے ہیں یعنی ملک میں فساد کرتے ہیں۔ قتل و غارت، ڈاکہ زنی، لُوٹ مار، مسلح بغاوت کرتے ہیں ان کی سزا یہ ہے کہ يُقَتَّلُوْا أَوْ يُصَلَّبُوْا انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا صلیب پر مار دیا جائے۔ بہرحال جیساکہ میں نے کہا تھوڑا سا میں نے آگے بیان کر دیا تھا۔ باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔

اس وقت میں

بعض مرحومین کا ذکر

بھی کرنا چاہتا ہوں جن کے جنازے نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ پہلا ذکر

مکرم محمد بشیر شاد صاحب

کا ہے جو ریٹائرڈ مربی سلسلہ تھے۔ آج کل یہ امریکہ میں تھے۔ اکانوے سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے والد کو 1926ء میں بیعت کی توفیق ملی تھی۔ 1945ء میں انہوں نے مڈل پاس کرنے کے بعد مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1952ء میں فاضل عربی کا امتحان اچھی پوزیشن میں پاس کیا۔ 1954ء میں جامعة المبشرین ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ایک سال طب کی تعلیم حاصل کی۔ 56ء سے 57ء تک ان کو وکالت تبشیر ربوہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1958ء میں یہ سیرالیون چلے گئے۔ وہاں مبلغ کے طور پر بھیجے گئے۔ وہاں ان کو مختلف جگہوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ وہاں سیرالیون میں پریس بھی اس دوران انہوں نے جاری کیا۔ پھر ان کی تقرری وہاں سے نائیجیریا ہو گئی۔ وہاں بھی انہوں نے اچھا کام کیا۔ پھرتین سال کے بعد 1964ء میں یہ نائیجیریا سے واپس بلا لیے گئے تھے۔ پھر 64ء میں دوبارہ ان کو نائیجیریا بھیجا گیا۔ 67ء میں مرحوم بینن کے تبلیغی دورے پر گئے۔ وہاں مقامی افراد کو تبلیغ کر کے ان کی بیعتیں حاصل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی۔ 1970ء میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ کے دورۂ افریقہ کے دوران جب حضرت خلیفةالمسیح الثالثؒ کانو تشریف لائے تو انہوں نے 100نئے احمدیوں کا تحفہ پیش کیا حضور کی خدمت میں۔ اس پر حضور رحمہ اللہ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا، دعا کرائی اور پھر اپنی دستار مبارک بھی بشیر شاد صاحب کو عطا فرمائی۔ 1970ء میں جب ان کی واپسی ہوئی تو عمرے کی سعادت بھی ملی۔ 1983ء میں مرحوم کا تقرر بطور سیکرٹری مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ ربوہ ہوا اور 1984ء میں جماعت کے خلاف جو آرڈیننس ہوا تھا اس کے بعد جب حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو ہجرت کرنی پڑی تو ہجرت سے قبل حضرت خلیفةالمسیح الرابع ؒکی موجودگی میں جو خطبہ تھا وہ ان کو دینے کی توفیق ملی۔ اس لحاظ سے ان کا اس تاریخ میں بھی ذکر ہے۔ 1988ء میں ذاتی حالات کی وجہ سے مرحوم نے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ سے ریٹائرمنٹ کی درخواست کی جو قبول ہو گئی اور پھر امریکہ چلے گئے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ مکرمہ نسرین اختر شاد صاحبہ اور ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی کامل وفا کے ساتھ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔

اگلا ذکر

رانا محمد صدیق صاحب

کا ہے جو رانا علم دین صاحب ملیانوالہ ضلع سیالکوٹ کے بیٹے تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کے والد نے 1938ء میں قادیان جا کر بیعت کی تھی۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند تھے۔ تہجد گزار تھے۔ دعا گو تھے۔ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے۔ خلافت سے بے انتہا محبت کرتے، خلیفہ وقت کے حکم پر عمل کرنے والے تھے۔ اپنے سارے بچوں کو ہمیشہ جماعت سے وابستہ رہنے اور خلافت سے محبت اور اطاعت کی تلقین کی۔ 1974ء اور 84ء میں ان پر جماعت کی مخالفت کی وجہ سے سخت حالات بھی آئے لیکن انہوں نے بڑی ثابت قدمی دکھائی۔ پسماندگان میں چھ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ ان کے ایک بیٹے رانا محمد اکرم محمود صاحب نائیجیریا میں مبلغ سلسلہ ہیں جو میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازہ اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے۔ اس سے پہلے ان کی والدہ بھی 2018ء میں وفات پا گئی تھیں۔ یہ اس میں بھی شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحوم کی مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر

مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب

اسلام آباد کا ہے۔ ان کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 78سال ان کی عمر تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد خواجہ محمد شریف صاحب کے ذریعہ ہوا۔ انہوں نے ایک خواب کی بناپر حضرت خلیفہ ثانیؓ کے دور میں بیعت کی تھی۔ بڑے نیک فطرت تھے۔ اس لیے باوجود اس کے کہ باقی خاندان جماعت کا مخالف تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو تین مرتبہ خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کا حکم دیا۔ آخر انہوں نے بیعت کی۔

ڈاکٹر محمود خواجہ صاحب نے ابتدائی تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ اس کے بعد 1966ء میں یونیورسٹی آف پشاور سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر 1973ء میں لاٹروب یونیورسٹی (La Trobe University) ٹروبے ہے یا ٹروب ہے ملبرن آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں بھی اور باہر بھی مختلف یونیورسٹیز میں پڑھاتے رہے ہیں۔ گھانا میں کیپ کوسٹ یونیورسٹی (Cape Coast University) میں جب پڑھاتے تھے تو وہاں ان کی مجھ سے واقفیت ہوئی تھی اور

مَیں نے دیکھا ہے انتہائی سادہ مزاج اور عاجز اور بے نفس انسان تھے۔
بہت اچھے ریسرچ سکالر تھے۔

پاکستان میں بھی اور باہر بھی ان کی ریسرچ سکالر کے طور پہ بڑی قدر کی جاتی تھی۔ چودھری اکرام اللہ صاحب کی بیٹی امة القیوم صاحبہ سے ان کی شادی ہوئی۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔

ڈاکٹر محمود خواجہ صاحب کو نصرت جہاں سکیم کے تحت 1979ء سے 1984ء تک سیرالیون میں اپنی اہلیہ کے ساتھ وقف کی بھی توفیق ملی۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر طارق خواجہ کہتے ہیں کہ رمضان میں خصوصاً قرآن کریم مع ترجمہ بہت غور اور انہماک سے پڑھتے تھے۔ اس بات پر زور دیتے تھے کہ خدا اور اس کے رسول اور خلیفہ کے ارشادات کو من و عن پیش کرنا چاہیے۔ الفاظ کی معمولی غلطی سے بھی غلط مطلب اخذ ہو سکتا ہے۔ عبدالباری صاحب امیر ضلع اسلام آباد لکھتے ہیں کہ مجھے بھی اور خواجہ صاحب کو بھی نصرت جہاں سکیم کے تحت سیرالیون میں ایک ساتھ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان واپسی پر آپ نے پہلے گورنمنٹ کے ادارہ میں ملازمت اختیار کی۔ بعد ازاں اسلام آباد شفٹ ہو گئے جہاں ایس ڈی پی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ آپ اس ادارے میں بہت مقبول ہوئے اور شہرت کے باوجود آپ نے کمال اخلاص سے کام کیا۔ آپ نے اشیائے طعام، نظام نکاسی اور دیگر اشیائے زینت (بیوٹی پروڈکٹس) وغیرہ میں موجود خطرناک کیمیکل کے خاتمہ کے لیے کام کیا اور اس کام میں بین الاقوامی طور پر کافی شہرت حاصل کی اور اس حوالے سے کئی کتب تصنیف کیں۔ جب بھی کوئی کتاب تحریر کرتے تو اس کتاب کی ایک نقل باری صاحب کہتے ہیں کہ مجھے بھی بھجواتے۔ کہتے ہیں میرے پاس اب ان کی کافی کتب موجود ہیں۔ نہایت مخلص احمدی تھے۔ خلافت کے ساتھ محبت کا تعلق تھا۔ ہمیشہ خدام کی تربیت کے لیے ان کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے رہتے۔

خواجہ محمود صاحب کے بارے میں پاکستان کے علاوہ جرمنی، سویڈن، برکینا فاسو، امریکہ، آذربائیجان، سوئٹزر لینڈ، نائیجیریا، مصر، بحرین اور بہت سے ممالک کے سائنس دانوں اور حکومتی وزارتوں کے نمائندوں نے اور یونیورسٹیز کے چانسلرز اور پروفیسرز نے، سول سوسائٹی کے این جی اوز کے صدران نے تعزیت کے پیغامات بھیجے تھے۔ ان کے کافی پیغام آئے تھے۔ مجھے بھی ان کے بچوں نے بھجوائے۔ مثلاً ایک دو پیغام نمونةً پڑھ دیتا ہوں۔

مسٹر چارلس جی براؤن (Charles G. Brown) صدر ورلڈ الائنس فار مرکری فری ڈینٹسٹری (World Alliance for Mercury-Free Dentistry) واشنگٹن ڈی سی امریکہ نے لکھا کہ ڈاکٹر محمود خواجہ انتہائی منفرد دانشور اور بہت نایاب سماجی کارکن تھے۔ جدید سائنس اور زہریلے مادوں پر ان کی شان دار سائنسی تحریریں اسکالرشپ کو ترقی دینے اور سرکاری اور نجی شعبوں کو کام کی بنیاد فراہم کرنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعہ کام کرنے والی ان کی کئی دہائیوں پر محیط کاوشوں نے اقوام کے درمیان معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے، سول سوسائٹی کے درمیان باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینے اور پاکستان میں زہریلے مواد کو کم کرنے میں مدد کی۔ انہیں 2019ء میں پی بی سی (The Pacific Basin Consortium for Environment and Health chairman) کا ایوارڈ ملا۔ ڈاکٹر محمود کے کارناموں میں ایک بین الاقوامی طبی تنظیم کا صدر ہونا بھی شامل ہے۔ وہ اب تک منتخب کیے گئے صدور میں سے واحد ڈاکٹر ہیں جو فزیشن نہیں تھے بلکہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے۔

اسی طرح اَور بھی بہت سارے سائنس دانوں نے آپ کی تعریف کی ہے جن میں جرمنی کے بھی اور سوئٹزرلینڈ کے بھی ڈاکٹر شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے اور ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 24اپریل 2022ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

باغبانی کا آغاز کیسے کیا جائے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اپریل 2022