• 5 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 29)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 29

دعا عمدہ شئے ہے

دعا عمدہ شئے ہے اگر توفیق ہو تو ذریعہ مغفرت کا ہوجاتی ہے اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خداتعالےٰ مہربان ہوجاتا ہے۔ دعا کے نہ کرنے سے اول زنگ دل پر چڑھتا ہے پھر قساوت پیدا ہوتی ہے پھر خدا سے اجنبیت۔ پھر عداوت۔ پھر نتیجہ سلب ایمان ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ423)

دعا میں قوت

کسرِ صلیب جانکاہ دعاؤں پر موقوف ہے۔دعا میں ایسی قوت ہے کہ جیسے آسمان صاف ہو اور لوگ تضرع و ابتہال کے ساتھ دعا کریں تو آسمان پر بدلیاں سی نمودار ہوجاتی ہیں اور بارش ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح پر مَیں خوب جانتا ہوں کہ دعا اس باطل کو ہلاک کردے گی۔ اور لوگوں کو تو غرض نہیں ہے کہ وہ دین کے لئے دعا کریں مگر میرے نزدیک بڑا چارہ دعا ہی ہے اور یہ بڑا خطرناک جنگ ہے جس میں جان جانے کا بھی خطرہ ہے ؂

اندریں وقتِ مصیبت چارۂ ما بیکساں
جز دعائے بامداد و گریۂ اسحار نیست

… مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح نے جب دیکھا کہ صلیب کا واقعہ ٹلنے والا نہیں تو ان کو اس امر کا بہت ہی خیال ہوا کہ یہ موت لعنتی موت ہوگی پس اس موت سے بچنے کے لئے انہوں نے بڑی دعا کی۔ دل بریاں اور چشم گریاں سے انہوں نے دعا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آخر وہ دعا قبول ہوگئی چنانچہ لکھا ہے فَسُمِعَ لِتَقۡوٰہُ ہم کہتے ہیں کہ جیسے مسیح کی دعا سنی گئی ہماری بھی سنی جاوے گی مگر ہماری دعا اور مسیح کی دعا میں فرق ہے۔ اس کی دعا اپنی موت سے بچنے کے لئے تھی اور ہماری دعا دنیا کو موت سے بچانے کے لئے۔ ہماری غرض اس دعا سے اعلائے کلمۃ الاسلام ہے۔ احادیث میں بھی آیا ہے کہ آخر مسیح ہی کی دعا سے فیصلہ ہوگا۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ326-328)

ایک صحابی کو جنگ میں تیر لگا۔ وہ اپنی جان سے مایوس ہوئے۔ اسی وقت خدا سے دعا مانگی اور کہا کہ مجھے عمر کا تو فکر نہیں ہے تھوڑی ہو یا بہت۔ مگر جن یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستا یا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سے انتقام لوں۔ وہ اسی وقت اچھے ہوگئے اور پھر برابر زندہ رہے حتٰی کہ ان یہودیوں سے انتقام لیا۔ خدا کی قدرت جب انتقام لے چکے تو اسی مقام سے خون جاری ہوگیا اور وہ فوت ہوگئے۔

(ملفوظات جلد6 صفحہ330)

انسان کو دعا کی ضرورت

اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کرلے۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہےکہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ جب تک دعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔ اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کرسکتا۔ خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کےضعفِ حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے

خُلِقَ الۡاِ نۡسَانُ ضَعیفًا

یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہوجاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طَے کرلیتا ہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پالیتا ہے۔ ہاں نری دعا خدا تعالےٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے اور اس کے ساتھ دعا سے کام لے۔ اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔ یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئیگی۔ وہ ایک ایسے قلعے میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اسکی خیر ہر گز نہیں ہے۔ ایک لمحہ میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہوجائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اس کے لئے پناہ ہے۔ اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ192-193)

دعا بطور دلیل ہستیٴ باری تعالیٰ

دعا خدا تعالےٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالےٰ ایک جگہ فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌؕاُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ: 187) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہےکہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔ اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالےٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کردیتا ہے۔

غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیو ں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ایسی تبدیلی ہوگی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہوجاوے گا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ268-269)

خدا شناسی کا گُر دعا ہے

اصل راہ اور گُر خدا شناسی کا دعا ہے اور پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ ایک پنجابی فقرہ ہے

جو منگے سو مررہے مرے سو منگن جا

حقیقت میں جب تک انسان دعاؤں میں اپنے آپ کو اس حالت تک نہیں پہنچا لیتا۔ کہ گویا اس پر موت وارد ہوجاوے اس وقت تک باب رحمت نہیں کھلتا۔ خداتعالیٰ میں زندگی ایک موت کو چاہتی ہے۔ جب تک انسان اس تنگ دروازہ سے داخل نہ ہوکچھ نہیں۔ خدا جوئی کی راہ میں لفظ پرستی سے کچھ نہیں بنتا بلکہ یہاں حقیقت سے کام لینا چاہیئے۔ جب طلب صادق ہوگی تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے محروم نہ کریگا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ313)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

تعلیم سیمینار ’’سلطان القلم‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2022