یادِ رفتگان
انجینئر قریشی افتخار علی صاحب 99سال کی عمر میں 03جون 2020ء کو وفات پاگئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے
گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جدا ہے
شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے
انجینئر قریشی افتخار علی صاحب سے میرا تعارف 1980ء میں اس وقت ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز (IAAAE) کا قیام فرمایا اور آپ کو حضور نے ایک سال کے لئے صدر نامزد کیا مجھے آپ کی نامزد عاملہ سے شروع کرکے آخر تک آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
1981ء کے جلسہ سالانہ پر ایسوسی ایشن کے پیٹرن حضرت صاحب زادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الرابعؒ)نے انتخاب کروائے اور پھر آپ ہی اس کے چیئرمین منتخب ہوئے(در اصل اس وقت تک دستور اساسی بن گیا تھا اور صدر کو redesignate کرکے چیئرمین کر دیا گیا تھا)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی 1982ء میں وفات کے بعد حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ خلافت رابعہ کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور حضور نے چوہدری حمید اللہ صاحب کو آئی اے اے اے ای کا پیٹرن بنا دیا بہر حال آگے جتنے بھی انتخاب ہوئے ہر بار انجینئر قریشی افتخار علی صاحب ہی چیئرمین منتخب ہوتے چلے گئے اور اس طرح 32 – 33 سال مسلسل آپ کو IAAAE کے چیئرمین کے طور پر خدمت کی توفیق ملی اور یہ آپ کا منفرد اعزاز ہے۔
برٹش انڈیا میں انجینئرنگ کالج رڑکی (Roorkee) سن 1847ء میں قائم ہوا تھا اور یہ انڈیا میں سول انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے پہلا ادارہ تھا۔ رڑکی دہلی سے شمال میں 180 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اسے بر صغیر میں بہت شہرت حاصل ہوئی انجینئر قریشی افتخار علی صاحب نے اسی کالج سے سول انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔
آپ نے خود مطالعہ کرکے احمدیت قبول کی اور حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دور کے نصف اول میں بیعت کی توفیق پائی آپ بعد میں آکر بہتوں سے آگے نکل گئے۔
رڑکی کا کالج بالخصوص گنگا کینال جو دریائے سولانی کے اوپر سے گزرتی ہے اور سول انجینئرنگ کا بہترین آرکیٹکچرل شاہکار ہے کے لئے معرض وجود میں آیا تھا۔
آپ نے اپنی سروس کا آغاز محکمہ انہار (اریگیشن ڈیپارٹمنٹ) سے کیا اور پاکستان کے قیام کے کچھ سال بعد پاکستان ہجرت کر کے آگئے اور یہاں آپ کو پنجاب اریگیشن میں ایڈجسٹ کر لیا گیا ۔آپ پر محکمانہ طور پر کئی نشیب و فراز آئے لیکن آپ محنت، فرض شناسی، دیانتداری اور دعاؤں کی بدولت چیف انجینئر بلکہ قائم مقام سیکرٹری اریگیشن کے منصب تک ترقی کرتے چلے گئے
آپ کی سادگی اور دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ ساری عمر اپنا کوئی ذاتی گھر نہ تعمیر کرسکے اور نہ کوئی موٹر کار خریدی اس دور میں شاید ہی کوئی انجینئر آپ کی طرح ہو جب کہ آپ کے ہم منصب بڑے بڑے بنگلوں اور قیمتی موٹر کاروں کے مالک نظر آتے ہیں ۔آپ نے جو کچھ کمایا اپنی اور بیوی بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنے کے بعد سارا روپیہ خدا کی راہ میں خرچ کر دیا اور نہایت سادہ زندگی گزاری۔
گورنمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور حلقہ بیت المبارک کے ایک کوارٹر میں بقیہ زندگی گزار دی یہ وہی کوارٹر ہے جس میں امام بشیر احمد خان رفیق صاحب اس زمانے میں رہتے رہے ہیں جب کچھ سال لندن سے آکر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کےپرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمت کر رہے تھے۔
وقف کی منظوری کے بعدآپ وکیل المال ثالث مقرر کئے گئے اس کے ساتھ IAAAE کی grooming آپ کے ذمہ تھی آپ نے خلیفہ وقت کی راہنمائی اور پیٹرن صاحب کے ساتھ مکمل coordination سے IAAAE کے کانسٹیٹیوشن کے عین مطابق ایسوسی ایشن کو درجہ بدرجہ ترقی کی منازل سے گزارا۔
مرکزمیں IAAAE کے دفتر کے لئے قطعہ زمین عقب گولبازار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے arrange کر کے دیا تھا اس پر چیئرمین صاحب نے دفتر کی دو منزلہ عمارت تعمیر کروائی اس کے لئے فنڈز ایسوسی ایشن کے ممبرز نے مہیا کئے۔
پاکستان کے اندر انجینئرز اور آرکیٹکٹس کی رجسٹریشن، لوکل چیپٹرز کا قیام، لوکل چیپٹرز اور ہیڈ کوارٹر میں میٹنگز جن میں باقاعدہ ریسرچ پیپرز پڑھے جاتے تھے پھر ملک سے باہر ریجنینل چیپٹرز کا قیام اور سالانہ جنرل باڈی میٹنگ/کنونشن/سمپوزیم کا انعقاد آپ کے حسن تدبیر سے جاری ہوئے۔
1989ء میں صدسالہ جوبلی پر سووینئر شائع کیا گیا جو اگلےسالوں میں سالانہ بنیاد پر ٹیکنیکل میگزین کی شکل اختیار کر گیا آپ کے اندر کمال وصف یہ تھا کہ اپنی عاملہ کو فری ہینڈ دیتے اور ہر اچھے کام کا کریڈٹ اسی کارکن کو دیتے جس نے اس کام میں حصہ ڈالا ہوتا کبھی کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی آپ کے دور میں سوونیئر سمیت 15 مجلے شائع ہوئے۔
1980ء سے مرکز میں جماعت کے جتنے بھی پراجیکٹ ہوئے آپ کی نگرانی میں ہوئے جماعت کے مختلف جگہوں کے ماہرین مرکز آکر اپنی قیمتی آراء دیتے تھے اور آپ فراخدلی سے انہیں قبول کرتے ۔
آپ کے مدنظر کفایت شعاری اور کوالٹی اور پراگریس رہتی تھی
بالکل بے نفس اور ایثار پیشہ وجود تھے بے ضرر، status consciousness نام کی کوئی چیز ان کے قریب ہی نہ پھٹکی تھی دوسروں کو ہمیشہ اپنے پر ترجیح دیتے تھے اس لئے انجینئرنگ اور آرکیٹیکچر فیلڈ سے تعلق رکھنے والے لوگ دل کی گہرائیوں سے آپ کا احترام کرتے تھے اور آپ کی وفات پر کئی پرانے ممبرز کے تعزیتی پیغام موصول ہوتے رہے ہیں۔
تحریک جدید انجمن احمدیہ میں آپ نے نائب صدر تک ترقی کی اور جب تک صحت نے اجازت دی بڑی ہمت سے خدمت کرتے رہے اکثر ٹرین، بس، ویگن، ٹانگے پر سفر کرتے تھے ربوہ کے پراجیکٹس کو عموماً سائیکل پر visitکرتے نمازیں آخری عمر تک مسجد مبارک میں ادا کرتے رہے۔ جب کبھی قادیان جلسہ پرجاتے وہاں پر مختلف جگہوں سےآئے ہوئے انجینئرز کا get together کرواتے۔
آپ جیسے background کے چند انجینئرز کو میں جانتا ہوں جنہوں نے گورنمنٹ سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد کنسٹرکشن اور کنسلٹنٹ فرموں میں بڑے اعلیٰ عہدوں پر کام کیا اور luxurious زندگی گزاری لیکن آپ نے وقف کی صحیح روح کے ساتھ درویشانہ زندگی کو ترجیح دی۔
اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے اور آپ کی بے لوث خدمات کو قبول فرمائے اور جنت کے اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور آپ کی آل اولاد پر فضل کرے اور IAAAE کو آپ کی اچھی روایات کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین
(مرتبہ: انجینئر محمود مجیب اصغر)