• 14 جولائی, 2025

حضرت شیخ محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ۔ کلکتہ

حضرت شیخ محمد حسین صاحبؓ ولد شیخ محکم الدین صاحب اصل میں چنیوٹ کے رہنے والے تھے لیکن اپنی تجارت کے سلسلے میں کلکتہ میں مقیم تھے۔ 1901ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور نہایت مخلص اور مفید وجود ثابت ہوئے۔ نظام وصیت کے آغاز پر اولین طور پر وصیت کرنے والوں میں شامل ہوئے، آپ کا وصیت نمبر 243 ہے۔ دیگر مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ مورخہ 6؍مارچ 1929ء کو وفات پائی، میت قادیان نہ آسکی لیکن بوجہ موصی ہونے کے یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں لگا ہوا ہے۔ آپ کی وفات پر محترم حکیم ابو طاہر محمود احمد صاحب امیر جماعت کلکتہ نے لکھا:

’’ہمارے محترم بھائی جناب شیخ محمد حسین صاحب جنرل سکرٹری جماعت احمدیہ کلکتہ 23؍رمضان المبارک کو ایک طویل علالت کے بعد راہیٔ ملک بقا ہوئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خداوند کریم ان کو اپنے فضل و کرم سے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔

یہ بزرگ جماعت احمدیہ کلکتہ کے ایک درخشندہ ستارے تھے، کوئی تحریک سلسلہ کی طرف سے ایسی نہیں ہوتی تھی جس میں ان کا قدم سب سے آگے نہیں اٹھتا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ وہ سلسلہ کی تحریکات میں دلچسپی لیا کرتے تھے بلکہ جماعت کے حاجتمندوں کی دست گیری اور اپنے اقرباء کی امداد نیز ایسے لوگوں کی حاجت روائی جو مسلم بھی نہیں تھے، مگر ان سے کچھ کاروباری تعلق اور واقفیت رکھتے تھے، ان کی بھی بہت امداد کیا کرتے تھے۔ بہت سے سکھ اور ہندو بھی ان کی وفات پر بہت افسوس کرتے ہیں اور ان کے اعلیٰ اخلاق کے ثنا خوان اور مداح ہیں۔

مدراس کے ایک مخلص احمدی نے جن کا ایک زمانہ میں بڑا کاروبار تھا، ایک دفعہ شیخ صاحب مرحوم سے ایک ہزار روپے قرض لیے۔ اس وقت شیخ صاحب مرحوم اپنے غیر احمدی بھائی کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے اور یہ رقم انھوں نے مشترکہ سرمایہ سے دی تھی۔ جب بھائی کو حساب کتاب سمجھانے لگے تو انھوں نے رقم مذکور پر اعتراض کیا۔ شیخ صاحب مرحوم نے اپنے بھائی سے کہا تم اس رقم کو میرے نام لکھ لو۔ کچھ دنوں کے بعد شیخ صاحب مرحوم کے بھائی نے ان سے کہا دوکان کو روپیہ کی سخت ضرورت ہے، وہ ہزار روپے جو تم نے فلاں صاحب کو قرض دیے ہیں اُن سےطلب کرو۔ شیخ صاحب نے صاف لفظوں میں تقاضا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا ہمارے بھائی جن کو میں نے قرضہ دیا ہے جب اُن کے پاس ہوگا مجھے امید قوی ہے بغیر مانگے بھیج دیں گے، ان کو میرے روپوں کا یقینًا خیال ہے مگر چونکہ ان کی حالت کمزور ہے مَیں ایسی حالت میں ان سے تقاضا کر کے ان کی مزید تکلیف کا باعث بننا گوارا نہیں کر سکتا۔ ایک اور موقعہ پر ایک دوست نے جن کو ہزار یا دو ہزار کی سخت ضرورت تھی مرحوم سے ضرورت بیان کی، شیخ صاحب کے پاس روپیہ نہ تھا مگر انھوں نے اپنی بیوی کا زیور گروی رکھ کر روپیہ مہیا کردیا۔

مرحوم کے راضی بقضائے الٰہی ہونے کا ایک واقعہ سناتا ہوں، ان کا ایک لڑکا وطن میں سخت علیل تھا اور کئی دن سے خط نہیں آیا تھا اس خیال سے کہ کہیں ان کے بھائی کے پاس خط نہ آیا ہو ملنے کے لیے گئے وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ان کے بھائی کے پاس تار پہنچا جس میں اس لڑکے کی وفات کی خبر تھی، ان کے بھائی نے پڑھ کر سخت گریہ و شیون شروع کیا مگر یہ چپ بیٹھے رہے اور اپنے بھائی سے کہا دیکھو مجھ سے اور میرے خدا سے کوئی جھگڑا نہیں، یہ اس کی امانت تھی جو اُس نے لے لی۔

انھوں نے 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی تھی اور جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا وصال لاہور میں ہوا آپ وہاں موجود تھے اور جنازے کے ساتھ قادیان آئے۔ آپ ان موصیوں میں سے تھے جنھوں نے اپنی منقولہ و غیر منقولہ کے عشر کی وصیت کی ہوئی ہے۔ شیخ صاحب مرحوم و مغفور کی عمر قریبًا 53،52 سال کی ہوگی۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیوی، تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے…..‘‘

(الفضل 2؍اپریل 1929ء صفحہ 8)

٭…٭…٭

(غلام مصباح بلوچ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جون 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 25 جون 2020ء