• 4 مئی, 2024

مضر صحت چیزیں مضر ایمان ہیں (مسیح موعودؑ)

اللہ تعالیٰ کے قرآن مجیدمیں بیان کردہ احکام اور ہمارے سب سے پیارے مکرم و معظّم رسول سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے فرمودات کی روشنی میں اللہ کے تشکیل کردہ دو نظاموں (مادی و روحانی) میں مماثلتوں کا ذکر خاکسار اپنے تین آرٹیکلز میں گاہے بگاہے کر چکا ہے جو الفضل آن لائن میں وقتاً فوقتاً شائع ہوئے۔ آج اس زمانہ کے امام ہمام حضرت مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ و با للّٰہ التوفیق

•آپؑ فرماتے ہیں۔
جسمانی اور روحانی سلسلے دونوں برابر چلتے ہیں۔ روح میں جب عاجزی پیدا ہوتی ہے پھر جسم میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس لئے جب روح میں واقعی عاجزی اور نیاز مندی ہو تو جسم میں اس کے آثار خود بخود ظاہر ہو جاتے ہیں اور ایسا ہی جسم پر ایک الگ اثر پڑتا ہے تو روح بھی اس سے متاثر ہو ہی جاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے حضور نماز میں کھڑے ہو تو چاہئے کہ اپنے وجود سے عاجزی اور ارادت مندی کا اظہار کرو۔ اگرچہ اس وقت یہ ایک قسم کا نفاق ہوتا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا اثر دائمی ہو جاتا ہے اور واقعی روح میں وہ نیاز مندی اور فروتنی پیدا ہونے لگتی ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ79 ایڈیشن2016ء)

•آپ ؑ پھر فرماتے ہیں۔
جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صحت اور صلاحیّت کے لئے ضروری ہے کہ مختلف قسم کی غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف قسم کے لباس پہنیں ویسے ہی رُوح کی صلاحیّت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشوونما کے واسطے لازم ہے کہ اس قاعدہ کو مدّنظر رکھیں۔ جسمانی تمدّن میں جس طرح پر گرم سرد۔نرم سخت۔ حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا ہونا ایسی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ رُوح کی بھلائی کے لئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یا نہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس اور غیور انسان کی نِگاہ میں ایسا معلّم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا۔ کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا نے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ120-121 ایڈیشن 1984ء)

•پھر ایک اور مقام پر آپؑ 18 جنوری 1903ء کو ایک تقریر میں فرماتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ جب تک نفس گناہ موجود ہے وہ بیرونی صفائی اور خارجی معتقدات سے راحت یا اطمینان کا ذریعہ کیونکر پا سکتے ہیں جب تک اندر کی صفائی اور باطنی تطہیر نہیں ہوتی۔ نا ممکن ہے کہ انسان سچی پاکیزگی طہارت جو انسان کو نجات سے ملتی ہے پا سکے۔ ہاں اس سے ایک سبق لو۔ جس طرح پر دیکھو بدن کی میل اور بد بُو بدوں صفائی کے دُور نہیں ہو سکتی۔ اور جسم کو ان آنے والے خطرناک امراض سے بچا نہیں سکتی اسی طرح پر رُوحانی کدُورت اور میل جو دل پر ناپاکیوں اور قسم قسم کی بے باکیوں سے جم جاتی ہے دُور نہیں ہو سکتی جب تک توبہ کا مصفّا اور پاک پانی نہ دھو ڈالے۔ جسمانی سِلسِلہ میں ایک فلسفہ جس طرح پر موجود ہے اسی طرح پر رُوحانی سلسلہ میں ایک فلسفہ رکھا ہوا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس پر غور کرتے ہیں اور سوچتے ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ15 ایڈیشن 1984ء)

•پھر آپؑ اپنے آخری سفر لاہور میں جہاں آپؑ قبل از وقت الٰہی اطلاعات کے مطابق اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اپنی وفات سے نو دن قبل 17 مئی 1908ء کو ’’تکمیل التبلیغ و اتمام الحجہ‘‘ کے عنوان سے ایک وجدانگیز طویل لیکچر (جو ملفوظات ایڈیشن 1984ء میں پینتالیس 45 صفحات پر پھیلا ہوا ہے) دیا۔ جس کے بارہ میں ایڈیٹر بدر قادیان نے لکھا۔

17مئی 1908ء کا وجد انگیز نظارہ آخر دم تک مجھے یاد رہے گا۔ جب خدا تعالیٰ کے ہاتھوں سے معطّر کیا ہوا مسیح گیارہ بجے معزّز رؤساء و امراء لاہور کے سامنے ایک تقریر فرمارہا تھا۔ تقریر کیا تھی۔ معرفت کا ایک سمندر تھا جو اپنے پورے جوش میں تھا۔ عرفان کا ایک بادل تھا جو ابرِ رحمت بن کر اُن پر برسا۔ وہ ایک آخری پیغام تھا جو دارالخلافہ میں عزالخلافت نے اپنے قادر و توانا مالک الملکوت سلطان الجبروت کی طرف سے پہنچایا۔ بارہ بج گئے اور آپ نے فرمایا۔ کھانے کا وقت گذرا جاتا ہے چاہو تو میں اپنی تقریر بند کردُوں مگر سب نے یہی کہا کہ یہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں۔ ہمیں رُوحانی غذا کی ضرورت ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ382 ایڈیشن 1984ء حاشیہ)

اس لیکچر میں روحانی اور جسمانی نظام کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
غرض قانون قدرت میں ایسا پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دو سلسلے پہلو بہ پہلو بنائے ہیں ایک جسمانی اور دوسرا رُوحانی۔ جو کچھ جسمانی طور سے مہیّا ہے وہی رُوحانی طور سے بھی ہوتا ہے۔ پس جو شخص ان دونو سلسلوں کو نصب العین رکھ کر کاروبار میں کوشش اور محنت کریگا وہ جلدی ترقی کرے گا۔ اس کی معلومات وسیع ہوں گی۔ ہر صورت میں ہر جسمانی کام اُن کے رُوحانی امور کے مشابہ ہو گا۔ الدنیا مزرعۃ الاٰخرۃ۔

ہم جسمانی نظام میں دیکھتے ہیں کہ جسمانی کاشتکار باوجود ہر قسم کی باقاعدہ محنت و مشقت کے بھی پھر آسمانی پانی کا محتاج ہے۔ اور اگر اس کی محنتوں اور کوششوں کے ساتھ آسمانی پانی اس کی فصل پر نہ پڑے تو فصل تباہ اور محنت برباد ہو جاتی ہے۔ پس یہی حال رُوحانی رنگ میں ہے۔ انسان کو خشک ایمان کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ روحانی بارش نازل ہو کر بڑے زور کےنشانات سے اس کے اندرونی گند دھو کر اس کو صاف نہ کرے۔ چنانچہ قرآن شریف اسی کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِ﴿ۙ۱۲﴾ وَالۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِ ﴿۱۳﴾ (الطارق: 12-13) یعنی قسم ہے آسمان کی جس سے بارش نازل ہوتی ہے اور قسم ہے زمین کی جس سے شگوفہ نکلتا ہے۔ بعض لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ خدا کوقسم کی کیا ضرورت تھی مگر ایسے لوگ آخر کار اپنی جلد بازی کی وجہ سے ندامت اُٹھاتے ہیں۔ قسم کا مفہوم اصل میں قائم مقام ہوتا ہے شہادت کے۔ ہم دنیوی گورنمنٹ میں بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مقدمات کے فیصلوں کا حصر ہی قسم پر رکھا جاتا ہے۔ پس اسی طرح سے خدا تعالےٰ بھی بارش آسمانی کی قسم کھا کر نظام جسمانی کی طرح نظام رُوحانی میں اس بات کو بطور ایک شہادت کے پیش کرتا ہے کہ جس طرح سے زمین کی سرسبزی اور کھیتوں کا ہرا بھرا ہونا آسمانی بارش پر موقوف ہے اور اگر آسمانی بارش نہ ہو تو زمین پر کوئی سبزی نہیں رہ سکتی اور زمین مُردہ ہو جاتی ہے بلکہ کنؤوں کا پانی بھی خشک ہو جاتا ہے اور دنیا زیروزبر ہو کر ہلاکت کا باعث ہو جاتی ہے اور لوگ بُھوکے پیاسے مَرتے ہیں۔ قحط کی وجہ سے انسان و حیوان اور پھر چرند و پرند اور درند وغیرہ پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے بعینہٖ اسی طرح سے ایک رُوحانی سلسلہ بھی ہے۔

یاد رکھو کہ خشک ایمان بجز آسمانی بارش کے جو مکالمہ مخاطبہ کے رنگ میں نازل ہوتی ہے ہرگز ہرگز باعث نجات یا حقیقی راحت کا نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ روحانی بارش کے بغیر اور کسی مامور من اللہ کے بغیر نجات پا سکتے ہیں اور ان کو کسی مزکّی اور مامور من اللہ کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ ان کے پاس موجود ہے ان کو چاہیئے کہ پانی بھی اپنے گھروں میں ہی پیدا کر لیا کریں۔ اُن کو آسمانی بارش کی کیا احتیاج؟ آنکھوں کے سامنے موجود ہے کہ جسمانی چیزوں کا مدار کن چیزوں پر ہے۔ پس اس سے سمجھ لو کہ بعینہٖ اسی کے مطابق رُوحانی زندگی کے واسطے بھی لازمی اور لابد اور ضروری ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ397-399 ایڈیشن 1984ء)

•اور زیر نظر عنوان ’’مضر صحت چیزیں مضر ایمان ہیں‘‘ کے تحت آپ فرماتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دی جاوے۔

اسی طرح پر یہ پان، حُقہ، زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پرہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اور بھی نقصان اُن کا بفرضِ محال نہ ہو تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشّی اشیاء نہیں دی جاوے گی۔ یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بیہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہےکہ ان مضر صحت چیزوں کو مضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔

یہ سچی بات ہے کہ نشوں اور تقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبّی طور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ90-91 ایڈیشن 2016ء)

زیر نظر مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ چند ارشادات جو وقتاً فوقتاً خاکسار کی نظر سے گزرتے رہے اور خاکسار اپنی ڈائری پر نوٹ کرتا رہا ہدیہ قارئین کئے ہیں۔ اس نیت اور درخواست کے ساتھ کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے سفر زندگی روحانی اور مادی کو اس حد تک پارسا بنائے کہ فرشتے ہمیں جنت کی راہ دکھلائیں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکہ آراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سؤر، شراب اور دیگر جانور و اشیاء جو حرام کی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ جو عادتیں اور خصلتیں ان جانوروں یا پرندوں میں پائی جاتی ہیں وہ ان کے کھانے کے ساتھ انسان کے وجود میں ظاہر ہوتی ہیں جیسے سؤر کے کھانے سے شہوت انسان کے اندر جوش مارتی ہے۔ اور انسان اسی طرح گند پر منہ مارتا ہے جیسے سؤر گند و روڑی پر ہر وقت منہ مارتا رہتا ہے۔

اسی طرح جو اخلاق سیّئہ ہیں جیسے غصّہ، غیبت، جھوٹ وغیرہ یہ بھی انسان کی روحانی زندگی پر بد اثر ڈالتے ہیں۔ غصیلہ انسان، روحانیت کا سفر کبھی طے نہیں کر سکتا۔ اور غیبت کے متعلق حدیث ہے کہ وہ گویا اپنے مُردار بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ اور مُردار کا گوشت حرام ہے۔ جو غیبت و چغلی کرکے مُردار کا گوشت کھائے وہ روحانیت کے مراحل کیسے طے کر سکتا ہے۔

اس لئے لازم ہے کہ ہم احکام قرآن، فرمودات رسول، تشریحات امام مہدی اور ارشادات خلفاء عظام کو اپنا حرز جان بنائے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کے خوف میں زندگی بسر کریں، اسی سے معافی مانگتے اور راہنمائی طلب کرتے رہیں۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرمایا ہے ’’ساری کَل (چین، اطمینان۔ ناقل) انسان کی صحت اور ایمان کی خداکے ہاتھ میں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ316 ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

برازیل کے شہر پیٹروپولس میں بارشوں سے شدید تباہی اور جماعتی خدمات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جون 2022