• 6 مئی, 2024

جس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ یہ سب کچھ مل جائے اُسے اَور کیا چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اگر غور کریں تو یہ جلسے کا بھی عجیب نظام ہے کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلتے چلے جا رہے ہیں۔ پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ خدمت کے جذبے کی روح کو ہر خدمت کرنے والے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ گو اس جذبے سے خدمت کرتے بھی ہیں لیکن اس میں مزید بہتری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیوٹی دینے والے صرف اس لئے ڈیوٹی نہ دیں کہ جماعت کی طرف سے مطالبہ آیا ہے کہ چلو کام کرنے والوں کا ہاتھ بٹا دو۔ صدر خدام الاحمدیہ نے کہہ دیا ہے کہ وقارِ عمل کرنا ہے اس لئے آ جاؤ، لجنہ کی صدر نے کہہ دیا ہے کہ بطورِ احسان کام کرنے کے لئے گروپ میں شامل ہو جاؤ۔ نہیں، بلکہ مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کس طرح اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی خوشنودی کی خاطر مہمان نوازی کی اور اُس کے حق ادا کئے، اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ اس روایت کو ہم جتنی دفعہ بھی سنیں اور پڑھیں ایک نیا مزہ دیتی ہے یا سبق ملتے ہیں۔ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ حضور مَیں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً کہا آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو۔ پھر چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ بیوی نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اُٹھی اور جا کر چراغ بھجا دیا اور پھر دونوں مہمان کے ساتھ بیٹھے یہ ظاہر کرنے لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ پس وہ دونوں رات بھوکے ہی رہے۔ صبح جب وہ انصاری حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا کہ تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی مسکرا دیا۔ یا فرمایا کہ تم دونوں کے اس فعل کو اُس نے پسند فرمایا۔ اسی موقع پر ہی یہ آیت نازل ہوئی۔ وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَمَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ (الحشر: 10) یہ پاک باطن اور ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں۔ اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّہ و یؤثرون علی انفسہم ولو کان بہم خصاصۃ حدیث نمبر 3798)

یہ دیکھیں کتنی بڑی قربانی ہے۔ بچوں کو بھوکا سلا کر مہمان کو کھانا کھلا دیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاید ہی کسی کی ایسی حالت ہو اور خاص طور پر جماعتی مہمانوں کے لئے تو ایسی صورتحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل نہیں ہے۔ وہ مہمان جو تھے جن کی خاطر اس خاندان نے قربانی دی وہ بھی جماعتی مہمان ہی تھے۔ دینی غرض سے آنے والے مہمان تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے مہمان تھے۔ آپؐ کے ہی مہمان تھے۔ ایسی مثالیں قائم کر کے ہمیں مہمان نوازی کی اہمیت کا سبق دیا گیا ہے۔ وہ مہمان جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان تھا۔ اُس کا ایک بہت بڑا مقام تھا اور آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے جو مہمان ہیں اُن کو بھی خدا تعالیٰ نے بڑی اہمیت دی ہے۔
پس ہر کام کرنے والے کو اس اہمیت کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ دیکھیں بظاہر یہ ظلم لگتا ہے کہ بچوں کو زبردستی بھوکا رکھا گیا۔ لیکن قربانی اور خدمت کا ایک اعلیٰ نمونہ قائم کیا گیا جس میں پورا خاندان شامل ہو گیا۔ کچھ خوشی سے اور کچھ مجبوری سے۔ یقینا ان بچوں کو بھی خدا تعالیٰ نے بہت نوازا ہو گا۔ جیسا کہ اس آیت کے مضمون سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ’’مُفْلِحُوْن‘‘ میں شامل فرمایا ہے۔ اور فلاح پانے والے کون لوگ ہیں؟ اگر ہم اس کے معنی دیکھیں تو اس کی وسعت کا پتہ چلتا ہے۔ مُفْلِح وہ ہیں جو پھولنے پھلنے والے ہیں، جو کامیابی حاصل کرنے والے ہیں، وہ جو انہی نیک اور اعلیٰ خواہشات کو حاصل کرنے والے ہیں اور اس وجہ سے خوشی حاصل کرنے والے اور ہر اچھائی کو پانے والے ہیں، مستقل طور پر ان اچھائیوں اور کامیابیوں کی حالت میں رہنے والے ہیں۔ زندگی کے آرام و سکون کو پانے والے ہیں، حفاظت میں آنے والے ہیں۔ پس ایک وقت کے کھانے کی قربانی اور مہمان نوازی نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا وارث بنا کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اور جس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ یہ سب کچھ مل جائے اُسے اَور کیا چاہئے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہ مقام ہے جو مہمان نوازی کرنے والوں کو ملتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اپنے مہمانوں کی خدمت کر کے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ معیار ہے جو ہمیں ان شاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کا قرب دلا کر ہماری دنیا و آخرت سنوارنے کا موجب بنے گا۔

(خطبہ جمعہ 23اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 جولائی 2022