• 29 اپریل, 2024

کاغذ اور قلم دوات لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہیں ایک چھوٹا سا مضمون لکھا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حکیم عبدالصمد خان صاحب ولد حکیم عبدالغنی صاحب دہلی کے تھے۔ انہوں نے 1905ء میں بیعت کی تھی یہ لکھتے ہیں کہ مَیں 1891ء میں ایک مولوی صاحب سے جلالین پڑھا کرتا تھا۔ اس میں یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ (آل عمران: 56) والی آیت آ گئی جس کی تفسیر میں لکھا تھا (کہ) رَافِعُکَ اِلَیَّ مِنَ الدُّنْیَا مِنْ غَیْرِ مَوْتٍ۔ مَیں حیران ہوا کہ مِنْ غَیْرِ مَوْتٍ کہاں سے آ گیا۔ یہ متن کی تفسیر ہو رہی ہے یا متن کا مقابلہ ہو رہا ہے؟ رات غور کرتے کرتے دو بج گئے۔ اتفاقاً والد صاحب کی آنکھ کھلی۔ انہوں نے اتنی دیر جاگنے کا سبب دریافت کیا۔ میں نے اصل حقیقت کہہ سنائی۔ فرمایا۔ میاں استاد کس لئے ہوتا ہے۔ تم صبح جا کر مولوی صاحب سے یہ معاملہ حل کروا لینا۔ چنانچہ مَیں صبح مولوی صاحب کے پاس گیا اور سارا قصہ کہہ سنایا۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ میاں متقدمین سے لے کر متأخرین تک سب کا یہی مذہب چلا آتا ہے۔ اس میں جھگڑا مت کرو۔ (کہ شروع سے یہی مسئلہ چلا آ رہا ہے، چھوڑو اس کو۔) مگر مَیں نے کہا کہ جب تک میری سمجھ میں نہ آئے میں آگے ہر گز نہیں چلوں گا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئے۔ میرے والد صاحب کو بھی بلوایا۔ مگر انہوں نے کہا کہ آپ استاد ہیں اور یہ شاگرد۔ (میرے استاد کو کہہ دیا کہ تم استاد ہو۔ یہ تمہارا شاگرد ہے۔ مَیں نے تمہارے پاس پڑھنے بھیجا ہے۔ ) آپ جانیں اور آپ کا کام جانے۔ مَیں اس میں دخل نہیں دیتا۔ اور یہ کہہ کر (والد صاحب تو اُٹھ کر) چلے گئے۔ اور مولوی صاحب نے پھر مجھے کہنا شروع کیا کہ پڑھو۔ مَیں نے کہا جب تک آپ سمجھائیں نہ، مَیں کیسے پڑھ سکتا ہوں۔ اس پر مولوی صاحب کو غصہ آیا۔ اور انہوں نے مجھے ایک تھپڑ مار کر کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو۔ مَیں حیران ہوا کہ یہ مرزا کون ہے؟ (اُن کی واقفیت بھی نہیں تھی۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام بھی نہیں سنا تھا۔ کہتے ہیں مَیں حیران ہو گیا اس بات پر کہ مرزا کون ہے؟) ساتھ ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں کس اَصل پر قائم ہوں؟ (بہر حال یہ میرا خیال نہیں ہے بلکہ اس کی کوئی بنیاد ہے۔ میرے دل میں جو یہ خیال آیا تو اور لوگ بھی ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں۔) یونہی مَیں نے وقت ضائع نہیں کیا۔ اس پر مَیں نے مولوی صاحب کوکہا کہ آپ جب تک سمجھائیں گے نہیں مَیں آگے نہیں چلوں گا۔ یہ دین ہے اور دین میں جبر جائز نہیں۔ آج آپ تھپڑ مار کر مجھے اپنے مذہب پر کر لیں گے۔ کل کو کوئی اور مولوی صاحب دو تھپڑ مار کر اس کے مخالف کہلوا لیں گے اور پرسوں کوئی تین تھپڑ مار کر ان کے بھی خلاف کہلوا لے گا۔ تو یہ کیا مذاق ہے؟ میں ہرگز نہیں پڑھوں گا۔ (اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بات کو پُرانے لوگ یونہی نہیں مان لیا کرتے تھے۔ بڑی گہرائی میں جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں) اس جھگڑے میں گیارہ بج گئے مگر میں نے نہ پڑھنا تھا نہ پڑھا۔ شام کو دوسرے استاد کے پاس گیا۔ اُس نے بھی کہا کہ ایک تجھے جنون ہوا ہے اور ایک مرزا کو۔ (پھر اُس نے بھی یہی بات دہرائی کہ ایک تم یہ بات کر رہے ہو، اس کا مطلب پوچھ رہے ہو، دوسرا ایک اور شخص ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ دیا۔ کہتے ہیں) اس سے میرا دل اور مضبوط ہو گیا کہ میری بات کمزور نہیں ہے۔ پھر تیسرے استاد مولوی عبدالوہاب صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بڑا قصہ ہے۔ اس کا تو مدعی موجود ہے جو کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں اور جس عیسیٰ کی آمد کا لوگ انتظار کر رہے ہیں وہ مَیں ہوں۔ مَیں نے کہا پہلی بات تو میری سمجھ میں آگئی ہے مگر دوسری کا ابھی پتہ نہیں لگا۔ انہوں نے کہا کہ مَیں پنجاب میں گیاتھا۔ بائیس دن وہاں رہا۔ اُن کا ایک مرید مولانا نورالدین ہے۔ حکمت میں تو اُس کا کوئی ثانی نہیں اور مَیں نے اُس کے دینی درسوں کو بھی سُنا ہے۔ بڑے بڑے مولوی اُسکے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ انہوں نے اپنی بیعت کا ذکر نہ کیا۔ (گو یہ مولوی صاحب بیعت کر آئے تھے لیکن اس نوجوان کے سامنے بیعت کا ذکر نہیں کیا) کیونکہ وہ مخالفت سے ڈرتے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ اونچا مت بولو۔ مولوی عبدالغفور صاحب سُن لیں گے۔ (کوئی دوسرے غیراحمدی مولوی تھے جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔) مَیں نے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ مَیں صداقت کے اظہار سے کیسے رُک سکتا ہوں۔ خیر اسی طرح پڑھتے پڑھتے 1905ء کا زمانہ آ گیا۔ (کہتے ہیں میں نے پڑھائی جاری رکھی۔ سال 1905ء آگیا۔) حضرت صاحب دہلی تشریف لے گئے اور الف خان صاحب سیاہی والے کے وسیع مکان میں فروکش ہوئے۔ ہزار ہا لوگ آپ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ مَیں بھی گیا۔ میں مخالف مولویوں کے ساتھ گیا۔ اُن میں طلباء زیادہ تھے اور ہمارے سرغنہ مولوی مشتاق علی تھے۔ انہوں نے حضرت صاحب پر کچھ اعتراض کرنے شروع کئے جس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ٹھہر جائیں اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے کاغذ اور قلم دوات لے کر ایک مضمون لکھا اور وہ مولوی مشتاق علی صاحب کو دیا کہ آپ اُسے پڑھ لیں۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو مجھ سے دریافت کر لیں اور ساتھ ہی اس کا جواب بھی لکھ لیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہیں ایک چھوٹا سا مضمون لکھا، اُس غیر احمدی مولوی کو ہی دیا کہ اسے پڑھ لیں اور سمجھ نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لیں اور ساتھ جو مَیں نے مضمون لکھا ہے اس کا جواب مجھے لکھ دیں۔ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس غیر احمدی مولوی کو یہ کہا کہ) پہلے آپ میرا مضمون سنا دیں (خود ہی پڑھ کے،) اس کے بعد اس کا جواب (جو آپ لکھیں گے وہ) سنا دیں۔ (تو) مولوی صاحب نے بغیر جواب لکھے حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا مضمون سنانا شروع کر دیا۔ حضرت صاحب نے پھر فرمایا کہ اگر جواب آپ لکھ لیتے تو اچھا تھا۔ (خود بھی اس کا جواب لکھ لیتے تا کہ وقت نہ ضائع ہوتا۔) مگر انہوں نے کہا کہ نہیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مضمون پڑھنا شروع کر دیا کہ) مَیں زبانی جواب دے دوں گا۔ (مجھے آپ کے اس مضمون کا جواب لکھنے کی ضرورت نہیں۔) خیر انہوں نے حضرت صاحب کا مضمون پڑھ کر سنا دیا اور جب سارا مضمون پڑھ کے سنا دیا تو (اس کے بعد) دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ جواب نہیں دے سکے۔ ساتھ کے طلباء میں سے بعض نے کہا کہ اگر ہم کو یہ معلوم ہوتا کہ آپ جواب نہیں دے سکیں گے تو ہم کسی اور کو سرغنہ بنا لیتے۔ آپ نے ہمیں بھی شرمندہ کیا۔

(خطبہ جمعہ 2؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

لمبی عمر اور رزق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021