• 17 مئی, 2024

چشم بیناحسن فانی کی تماشائی نہیں

دردِ دِل کی موت نے بھی کی مسیحائی نہیں
جاں لبوں تک آ گئی لیکن قضا آئی نہیں
شکوۂ بیدادِ جاناں کیا کریں جب ہم میں خود
بارِ اُلفت کے اٹھانے کی توانائی نہیں
چھیڑئیے مسجد میں جا کر حُرمتِ مَے کا بَیاں
محفلِ رِنداں میں زاہِد، تیری شُنوائی نہیں
تلخ کامی زندگی کی دیکھنا اے ہم نَفَس
ہم مریں جس پر اُسے ہم سے شناسائی نہیں
چھوڑ میخانہ1؎، چلیں کیونکر حَرم کو ہم، کہ واں
مَے نہیں، ساقی نہیں اور بادہ پیمائی نہیں
آ کے تُربت پر مری کہنے لگا وہ شوخ یوں
باز آیا اب تُو مرنے سے؟2؎ صَدا آئی ’’نہیں‘‘
دیکھتا کیا ہے درختِ عشق کہ ہیں یہ ثَمَر
دَشتِ غُربت میں جُنوں کی آبلہ پائی نہیں
باغِ عالَم میں حسیں دیکھے مگر تیری قَسَم
تیری رنگت، تیرا جلوہ، تیری رعنائی نہیں

1 یعنی قادیان
2 یعنی محبت کرنا

(بخار دل صفحہ22تا23)

پچھلا پڑھیں

لمبی عمر اور رزق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021