• 27 اپریل, 2024

صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے

اَلْعَقْلُ السَّلِیْمُ فِیْ الْجِسْمِ السَّلِیْمِ

اَلْعَقْلُ السَّلِیْمُ فِیْ الْجِسْمِ السَّلِیْمِ یہ ایک لاطینی ضرب المثل ہے جس کا اردو ترجمہ ہے کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے۔ اور اسی طرح انگریزی میں بھی ضرب المثل ہے کہ a healthy mind in a healthy body۔ پس انسانی زندگی میں صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ جو انسان جسمانی طور پر صحت مند ہوگا وہی بہتر رنگ میں اپنی عملی زندگی میں ترقی بھی کر سکے گا۔ بہترین طریقہ سے دماغ کا استعمال بھی کر سکے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جسم کا ہماری روح پر اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ہماری خوراک کا بھی ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ روح پر اثر ہوتا ہے۔ اگر جسم بیمار ہوگا تو روح بھی توانا نہیں ہوگی اور دینی اور دنیاوی دونوں ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکے گی۔

انبیأ کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ جسمانی طور پر بھی چست و توانا تھے۔ ان کی صحت بہترین ہوتی تھی۔ اگر ہم حضرت نوح علیہ السلام کی مثال لیں تو قرآن کریم اور بائیبل سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بڑی کشتی بنانے کا حکم دیا تھا۔اتنی بڑی کہ جس میں اس علاقہ کے تمام جانداروں کے جوڑے سما سکیں۔آج سے ہزاروں سال پہلے ایسی کشتی بنانا کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ یہ ضرور طاقت ور اور جفاکش انسان کا ہی کام ہوسکتا ہے جب کہ تمام معاشرہ آپ پر ہنسی مذاق کر رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے :

وَ اصۡنَعِ الۡفُلۡکَ بِاَعۡیُنِنَا وَ وَحۡیِنَا وَ لَا تُخَاطِبۡنِیۡ فِی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ۚ اِنَّہُمۡ مُّغۡرَقُوۡنَ ﴿۳۸﴾ وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ﴿ؕ۳۹﴾

(هود: 38تا39)

ترجمہ:۔ اور ہمارى آنکھوں کے سامنے اور ہمارى وحى کے مطابق کشتى بنا اور جن لوگوں نے ظلم کىا ان کے بارہ مىں مجھ سے کوئى بات نہ کر ىقىناً وہ غرق کئے جانے والے ہىں اور وہ کشتى بناتا رہا اور جب کبھى اس کى قوم کے سرداروں کا اس پر گزر ہوا وہ اس سے تمسخر کرتے رہے اس نے کہا اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو ىقىناً ہم بھى تم سے اسى طرح تمسخر کرىں گے جىسے تم کر رہے ہو۔

یہ آیات ہماری اچھی طرح راہنمائی کرتی ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کشتی بنائی اور پھر یہ نہیں کہ کوئی عام کشتی بنائی بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور وحی کے تحت اس کو بنایا گیا۔

اس طرح ہم جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال لیتے ہیں تو ان کو بھی صحت مند ہی پاتے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آخری عمر میں اولاد عطا کی لیکن وہ جسمانی طور پر صحت مند ہونگے تو اللہ تعالیٰ نے اولاد عطا کی۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہزاروں کلومیٹر سفر کرنا،یہ صرف صحت مند انسان کے ہی بس کی بات ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کئی دفعہ حضرت اسماعیل او ر حضرت ہاجرہ سے ملنے اپنے علاقہ سے مکہ آئے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سفر انتہائی بڑھاپے کی عمر میں کیے تھے کیونکہ آپ کی اولاد بڑھاپے میں ہوئی تھی جیسا کہ بائیبل کہتی ہے کہ جب حضرت اسمعیل ؑ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت آپ ؑ کی عمر 86 سال تھی۔ اگر ایک انسان کمزور ہو تو وہ ہزاروں سال پہلے اتنی کثرت سے سفر نہیں کر سکتا۔

جب قرآن کریم میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی تاریخ دیکھتے ہیں تو اس سے بھی پتہ لگتاہے کہ حضرت موسی ٰ علیہ السلام ایک سخت جان اور محنتی انسان تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ

(القصص: 16)

پس موسى نے اسے مُکّا مارا اور اس کا کام تمام کر دىا۔ اب اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام غیر معمولی طور پر صحت مند تھے۔ کیونکہ ایک مُکّا سے بہت کم کسی کی جان جاتی ہے۔

اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں ہی قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب انہوں نے جانوروں کو پانی پلایا تو لڑکیوں نے اپنے باپ سے آپ کو اجرت پر رکھنے کی سفارش کی اور ساتھ یہ بھی گواہی دی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک قوی انسان ہیں۔ چنانچہ فرمایا

قَالَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا یٰۤاَبَتِ اسۡتَاۡجِرۡہُ ۫ اِنَّ خَیۡرَ مَنِ اسۡتَاۡجَرۡتَ الۡقَوِیُّ الۡاَمِیۡنُ ﴿۲۷﴾

(القصص: 27)

ان دونوں مىں سے اىک نے کہا اے مىرے باپ! اسے نوکر رکھ لے ىقىناً جنہىں بھى تُو نوکر رکھے اُن مىں بہترىن وہى (ثابت) ہوگا جو مضبوط (اور) امانت دار ہو

پس ان دوعورتوں کی گواہی جو کہ تا قیامت قرآن کریم میں درج ہوگئی ہے اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام غیر معمولی طور پر قوی انسان تھے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو جب ہم لیتے ہیں تو اس میں کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے رسول اللہ ﷺ بھی ایک قوی انسان تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی عبادات کو ہی لے لیا جائے تو یہ کسی عام انسان کا کام نہیں۔ اتنی لمبی لمبی نمازیں پڑھنا کہ کھڑے کھڑے پاؤں کا سوج جانا یہ کمزور انسان کا کام نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے :

كَانَ يَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتّٰى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ

(البخاري، كتاب التهجد، باب قيام النبي ﷺ الليل حتّٰى تتفطر قدماه)

کہ رسول اللہ ﷺ راتوں کو اتنی کثرت سے کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور عبادات بجا لاتے کہ آپ کے پاؤں کی جلد پھٹ جاتی۔

اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہےکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ روزانہ رات کو لمبی نمازیں ادا کرتے۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا مختلف جنگوں میں حصہ لینا اور اس میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھانا یہ سب غیر معمولی باتیں تھیں۔ غزوہ حنین میں جب کہ تمام مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے او ر صرف رسول اللہ ﷺ میدان میں اکیلے رہ گئے یا گنتی کے کچھ صحابہ ہی ساتھ رہ گئے تو اس وقت بھی آ پ ﷺ کی بلند ہمتی اور شجاعت ہی تھی کہ آپ آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور فرمایا:

اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

پھر غزوہ خندق میں رسو ل اللہ ﷺ کا پیٹ پر دو پتھر باندھ کر مزدوروں کی طرح کام کرنا یہ کوئی کمزور انسان کا کام نہیں ہے۔ پس جب بھی ہم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو لیتے ہیں تو ہر جگہ رسول اللہ ﷺ ایک قوی انسان کی طرح نظر آتے ہیں۔ کسی جگہ بھی کوئی کمزور ی نظر نہیں آتی۔

آخری بیماری میں جب رسول اللہ ﷺ دو آدمیوں کے سہارے مسجد نبوی میں تشریف لائے تو جہاں یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور عبادات کے عشق میں سرشار ہونے کی گواہی دیتا ہے وہاں رسول اللہ ﷺ کی بلند ہمتی کی بھی داد دیتا ہے کہ اتنی سخت بیماری میں جب کہ عام انسان بستر سے اٹھنے کی ہمت نہیں کرتا وہاں رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔

اس زمانہ میں مسیح آخر الزمان حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلا م کی زندگی بھی ہمارے لیے یہ پیغام دیتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک قوی انسان تھے۔ چنانچہ جو کام آپ کے ہاتھوں سے ہوا اور جس طرح اسلام کی راہ میں آپ نے جہاد کیا وہ ایک معمولی بات نہ تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بچپن سے ہی بعض چیزوں میں مہارت تھی۔جیساکہ گھڑ سواری ، تیراکی اور پیدل چلناوغیرہ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کثرت سے پیدل چلتے تھے اور یہ آپ کی روزانہ کی روٹین تھی کہ کئی کئی میل سیر کے لیے چلے جاتے۔سیالکوٹ میں رہائش کے دوران کا ایک واقعہ سیرۃ المہدی میں درج ہے :
’’ایک دفعہ کچہری برخاست ہونے کے بعد جب اہل کار گھروں کو واپس ہونے لگے۔ تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہو گیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلّا سنگھ نام نے کہاکہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہو جائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ الہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے۔ اور یہ امر قرار پایاکہ یہاں سے شروع کر کے اس پُل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حدِّ فاصل ہے۔ ننگے پاؤں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اُٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پُل پر بھیجا گیا تا کہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پُل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بِلا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے۔ اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب پُل پر پہنچے۔ تو ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلا سنگھ پیچھے رہ گیا۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد نمبر1 صفحہ253)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قلمی جہاد کرنا اور بیسیوں کتب لکھنا نیز کثرت سے وعظ و نصائح کرنا یہ سب ایک قوی جسم اور قوی ذہن والے آدمی کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ پھر آخری عمر میں مبشر اولاد کا پیدا ہونا یہ سب جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف اشارہ کرتے ہیں ساتھ جسمانی لحاظ سے صحت مند ہونے کی طرف بھی اشارہ دیتے ہیں۔

ایک واقعہ مولوی محمد اسماعیل شہید صاحب کے بارے میں مشہور ہے،جس کا ذکر حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صاحب نے تذکرۃ المہدی میں کیا ہے۔وہ فرماتے ہیں :
’’چنانچہ مشہور ہے کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب شہید کے پاس کسی نے یہ بات پہنچائی۔ کہ فلاں سکھ سپاہی اس بات کا دعویٰ رکھتا ہے کہ کوئی شخص تیرنے میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس پر شہید مرحوم کو غیرت آگئی اور اسی وقت سے انہوں نے تیرنے کی مشق شروع کر دی۔ اور بالا ٓخر اتنی مہارت پیداکرلی کہ پہروں پانی میں پڑے رہتے تھے۔ اور فرماتے تھے۔ کہ اب وہ سکھ میرے ساتھ مقابلہ کر لے۔ گویا ان کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک غیر مسلم تیرنے کی صفت میں بھی مسلمانوں پر فوقیت رکھے۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلد نمبر1 صفحہ254)

رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِيْهِمَا كَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ: اَلصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ۔

(صحیح بخاری۔کتاب الرقاق باب ما جاء فی الرقاق وان لا عیش الا عیش الاٰخرۃ)

یعنی دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے، فرصت اور فراغت۔ یعنی یوں ہی انہیں ضائع کر دیتے ہیں جب کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے اور فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیئے۔

یہ بات سچ ہے کہ جب تک انسان کے پاس ایک نعمت رہتی ہے اس وقت انسان کو اس کی اہمیت اور قدر کا احساس نہیں ہوتا جب وہ اس کے پاس سے چلی جاتی ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ کتنی بڑی نعمت تھی جو اس کے پاس نہیں رہی۔ ہم عام طور پر کثرت سے وقت کا ضیاع کرتے ہیں لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو پچھتاتا پڑتا ہے۔ یہ حال صحت کا ہے بعض دفعہ صحت ہوتے ہوئے عبادت سے انسان غافل رہتا ہے اور ساری عمر دنیا کے مشاغل میں گزر جاتی ہے۔ بڑھاپے میں جاکر احساس ہوتا ہے کہ نہ اب صحت ہے اور نہ ہی وقت کیونکہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آسکتا ہے۔ پس اس وقت عبادت کی طرف توجہ ہوتی ہے پر اب ہمت نہیں رہتی وہ طاقت نہیں ہوتی جس سے لمبی لمبی عبادات بجا لائی جاسکیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ نے صحت عطاکی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔

اللہ تعالیٰ کی عبادات اور مجاہدات کے لیے صحت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسی نماز افضل ہے تو آپ ؐنے جواب دیا :

’’طُوْلُ الْقُنُوْتِ‘‘

(ریاض الصالحین۔ باب فضل قیام الصلاۃ حدیث نمبر 1176)

یعنی نمازمیں لمبا قیام کرنا سب سے افضل نماز ہے۔

اب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے افضل نماز پڑھنے کے لیے بھی صحت ہونا بہت ضروری ہے۔وہی انسان لمبے وقت تک اپنے رب کے حضور مناجات پیش کر سکتا ہے جس میں کھڑے ہونے کی ہمت ہوگی۔ پس انسانی صحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم نعمت ہے جس کی قدر کرنا بنی نوع انسان کا فرض ہے۔

رسول اللہ ﷺ ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں:

اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَّأَحَبُّ إِلَى اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيْفِ

(صحیح مسلم۔ في كتاب القدر، باب في الأمر بالقوة وترك العجز، والاستعانة باللّٰه، وتفويض المقادير للّٰه)

قوی مومن اللہ تعالیٰ کی نظر میں ضعیف اور کمزور مومن سے بہتر ہے۔

اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ صحت مند مومن ہی اللہ تعالیٰ کے احکام احسن رنگ میں بجا لاسکتا ہے۔عبادات کے علاوہ مجاہدات اور جہاد فی سبیل اللہ خواہ وہ جسمانی ہو یا روحانی ہو سب ایک مضبوط جسم والے انسان ہی کے لیے آسان ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’صحت عمدہ شئے ہے تمام کاروبار دینی و دنیاوی صحت پر موقوف ہیں۔ صحت نہ ہو تو عمر ضائع ہوجاتی ہے‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ نمبر 242)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحت جیسی عظیم نعمت سے نوازے اور اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین ثمّ آمین

(مبارک احمد منیر۔مربی سلسلہ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

لمبی عمر اور رزق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2021