• 28 اپریل, 2024

یہی نئی زمین اور آسمان پیدا کرنے حضرت مسیح موعود ؑ تشریف لائے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
یہی نئی زمین اور آسمان پیدا کرنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تھے۔ پس اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے نفس پر قابو رکھنے والا ہو تو جہاں ہم اپنے تعلقات میں، محبت اور پیار میں بڑھنے والے ہوں گے وہاں تبلیغ کے بھی کئی راستے کھولنے والے ہوں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر لڑائی اور جھگڑا شروع کر دیتے ہیں اور جلسوں پر بھی ایسے واقعات ہو جاتے ہیں اور یہ سب باتیں جلسہ کے تقدس کو خراب کر رہی ہوتی ہیں۔ یہاں سے بھی مجھے شکایتیں آتی رہی ہیں کہ باہر نکلے، پارکنگ میں گئے، لڑائیاں ہو گئیں، پرانے جھگڑے تھے، خاندانی جھگڑے تھے یا کاروباری جھگڑے تھے اُس پر لڑائیاں ہو گئیں اور ایک جلسہ کا جو تقدس تھا، جو ماحول تھا اُس کو خراب کر دیا۔ یا نکلتے ہی بھول گئے کہ ہم کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر کے جا رہے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کی تلقین نہیں فرمائی ہے کہ غیروں کے سامنے صبر اور برداشت کرو بلکہ آپس میں بھی قرآنِ کریم فرماتا ہے رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ (الفتح: 30) کہ رحم اور محبت کو اپنے آپ میں بھی رائج کرو اور پہلے سے بڑھ کر کرو، دوسروں سے بڑھ کر کرو۔ اس کی بہت زیادہ تلقین فرمائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے بھی ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔

پھر وہ لوگ جو آپ کی جماعت میں شامل ہو کر آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کو بشارت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَجَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56) یہ تسلّی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا‘‘۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہوا تھا۔ ’’مگر مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارتِ عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں کیا وہ وُہ لوگ ہو سکتے ہیں جو امّارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے، تو یاد رکھو اور دل سے سن لو مَیں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں، بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر (نہ صرف میری ذات تک) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس برگزیدہ انسان کاملؐ کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی۔ مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی برگزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان کر کے سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفّرین پر غالب رہو گے) کی سچّی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اُس وقت تک حاصل نہ ہو گی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اس سے زیادہ اور مَیں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 64-65 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوّت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو یقین سے اپنا ہاتھ دعا کے لئے اٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا ردّ نہیں کرتا ہے۔ پس خدا سے مانگو اور یقین اور صدقِ نیّت سے مانگو۔ میری نصیحت پھر یہی ہے کہ اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں کراماتی نہیں بننا چاہتا تو یاد رکھے کہ شیطان اسے دھوکہ میں ڈالتا ہے۔ کرامت سے عُجب اور پندار مرادنہیں ہے۔ کرامت سے لوگوں کو اسلام کی سچائی اور حقیقت معلوم ہوتی ہے اور ہدایت ہوتی ہے۔ مَیں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ عُجب اور پندار تو کرامتِ اخلاقی میں داخل ہی نہیں۔ پس یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ دیکھو یہ کروڑ ہا مسلمان جو رُوئے زمین کے مختلف حِصَص میں نظر آتے ہیں کیا یہ تلوار کے زور سے، جبرو اکراہ سے ہوئے ہیں؟ نہیں! یہ بالکل غلط ہے۔ یہ اسلام کی کراماتی تاثیر ہے جو ان کو کھینچ لائی ہے۔ کرامتیں انواع واقسام کی ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے‘‘۔ اچھے اخلاق دکھاؤ تو یہی کرامت بن جاتی ہے۔ ’’انہوں نے جومسلمان ہوئے صرف راستبازوں کی کرامت ہی دیکھی اور اس کا اثر پڑا۔ انہوں نے اسلام کو عظمت کی نگاہ سے دیکھا۔ نہ تلوار کو دیکھا۔ بڑے بڑے محقق انگریزوں کو یہ بات ماننی پڑی ہے کہ اسلا م کی سچّائی کی روح ہی ایسی قوی ہے جو غیرقوموں کو اسلام میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 92 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 4؍ اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2022