• 4 مئی, 2024

صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا قصبہ ’’دین گاہ‘‘ اور میرے آباء و اجداد (قسط اول)

صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا قصبہ ’’دین گاہ‘‘ اور میرے آباء و اجداد
قسط اول

1890ء میں قادیان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے مرزا غلام احمد کو تجدید دین اسلام کے لیے منتخب کیا اور بذریعہ الہام فرمایا:
’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر تُو آیا ہے وَ کان وعد اللّٰہ مفعولا‘‘

تب آپ نے رسالہ فتح اسلام لکھا جو 1891ء میں شائع ہوا اور ہندوستان کے لوگوں کو مسیح مہدی امام الزمان کی آمد کی خبر ملی جس کا آنا چودہویں صدی ہجری میں مقدر تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اس رسالہ میں لکھا کہ آپ کی نصرت اور تائید کے لیے اور حق کی تلاش کے لیے دور دور سے سفر کر کے لوگ آئیں گے۔ اللہ نے فرمایا۔
’’اپنے مریدوں اور بیعت کرنے والوں کے لیے ایک کشتی تیار کر جو شخص اس کشتی میں سوار ہو گا وہ غرق ہونے سے نجات پا جائے گا… جو شخص تیرے ہاتھ میں ہاتھ دے گا اس نے تیرے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے۔‘‘

(فتح اسلام صفحہ 24-25)

اللہ تعالیٰ نے اس سے بہت قبل 1880ء میں آپ کو بہت سے الہامات سے نوازا تھا جس میں بے شمار پیشگوئیاں تھیں۔ مثلاً

یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ

(تذکرہ صفحہ 39)

کہ لوگ دور دور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے۔

وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ

…میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا…ان دو الہامات کے ثبوت میں دور دور سے لوگ قادیان پہنچےاور آپ کو قبول کیا اور ہزارہا انسانوں کے دلوں میں آپ کی محبت بھر دی۔ آپ فرماتے ہیں۔ بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لیے منظور کی… اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنےعزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دل محبت سے پُر ہیں… میں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا! درحقیقت ذرہ ذرہ تیرا تصرف ہے تُو نے ان دلوں کو ایسے پُر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور ان کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم ہے۔

(حقیقۃ الوحی صفحہ 239-240)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے ثبوت میں ایک چھوٹے سے قصبہ کا ذکر جس کا نام آج سے 150سال قبل ’’دین گاہ‘‘ تھا اور جو بعد میں بگڑ کر ’’ڈنگہ‘‘ بن گیا اور آج ایک شہر کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لاہور سے جی ٹی روڈ پر اسلام آباد کی طرف جاتے ہوئے کھاریاں سے بائیں طرف منڈی بہاؤالدین کو جانے والی سڑک پر 30کلومیٹر کے فاصلے پر چناب اور جہلم دریا کے بیچ میں واقع یہ جگہ میرے نانا اور میرے خاوند محمد اکرم اُپل کے نانا کا آبائی گاؤں ہے۔ دین گاہ کو گجر قوم نے آباد کیا جن کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ اسی قوم نے گجرات اور گوجرانوالہ میں بھی صدیوں پہلے رہائش اختیار کی۔ جس کاذکر ہندو مصنف Bay Nath Puri نے اپنی کتاب ’’The History of Gujara۔ میں Pratiharas‘‘ میں اور ایک مورخ Vijaya Ramaswanay نے اپنی کتاب Migrations in Medieval times and Early Colonial India میں کیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز ’’3جون 2007ء نے‘‘ Who are Gujjars کے تحت لکھا کہ گجر قوم پاکستان میں پنجاب کے کچھ علاقوں میں آباد ہے اور کشمیر بھی پہنچی۔ مغلیہ سلطنت کے بعد اس علاقے پر سکھوں نے قبضہ کرلیا اور ہندو بھی یہاں آکر آباد ہوئے جن میں سے اکثر پاکستان بننے کے بعد ہندوستان چلے گئے۔ میرے خاوند کے نانا بابو عطاء محمد صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی خود نوشت ڈائری میں یہی درج کیا ہے کہ یہ قصبہ ’’گجر‘‘ قوم نے آباد کیا جن کی حاکم نیک بی بی تھی اور اس کا نام ’’دین گاہ‘‘ رکھا گیا کیونکہ یہاں بہت سے لوگ واقعی نیک دین دار اور قرآن حفظ کرتے تھے اور اپنے نام کے ساتھ دین کا لفظ لگاتے تھے۔ کرم دین، محمد دین، قطب دین، علم دین، احمد دین وغیرہ وغیرہ۔ دین گاہ میں آج سے کم ازکم 170 سال پرانا قبرستان ہے جسے بابو عطاء محمد احمدی کے دادا نے بنوایا تھا اور اُسے درزیوں کا قبرستان کہتے تھے آج اس کا نام قبرستان وڑائچیاں ہے کیونکہ میرے خاوند کے نانا (بابو عطاء محمد احمدی) کا خاندان وڑائچ تھا۔ آج سے چھ سال قبل مجھے اس قبرستان میں جانے کا اتفاق ہوا اور چلتے چلتے بہت سی پرانی قبروں کے کتبوں پر نظر پڑی جن کی تحریر نے میرے دل میں خواہش پیدا کی کہ میں ان خوش قمست ہستیوں کی یاد میں کچھ رقم کروں اور ان نیک روحوں کو خراج تحسین پیش کروں جنہوں نے پیدل چل کر 300 کلو میٹر دور قادیان جا کر مسیح مہدی کی بیعت کی سعادت حاصل کی اور مسیح آخر الزمان کے اولین صحابہ ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ان میں وہ خوش قسمت احباب بھی ہیں جن کا ذکر مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے نام 313 صحابہ کی فہرست میں درج ہیں۔

میرے نانا بھائی محمود احمد قادیانی کا تعلق بھی ڈنگہ سے ہے ان کے آباء و اجداد راجپوت زمیندار گھرانے کے افراد تھے اور بعض کے نام کے ساتھ راجہ بھی لکھا جاتا تھا۔ پاکستان کی فوج کے مایہ ناز ہیرو میجر جنرل شہید افتخار جنجوعہ کا تعلق بھی میرے نانا کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد راجہ محمود امجد جنجوعہ بارایٹ لا (جو بعد میں سرگودھا آباد ہوئے) کے دادا فیض بخش اور میرے نانا کے والد حافظ پیر بخش سگے بھائی تھے۔ میجر جنرل افتخار جنجوعہ راجہ محمود احمد جنجوعہ کے بڑے بیٹے تھے جنہوں نے 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ’’رن کچھ‘‘ کے معرکے میں جرات اور بہادری کی مثال قائم کی۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ میجر جنرل تھے اور کشمیر میں چھمب اور جوڑیاں کے محاذ پر شہادت پائی۔ آپ پاکستان کی فوج کے واحد میجر جنرل تھے جنہوں نے ڈیوٹی کے دوران جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا۔ آپ کو دو بار ہلال جراٴت اور ستارہ پاکستان اور ستارہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔ آپ کے والد راجہ محمود امجد جنجوعہ سرگودھا کے مشہور وکیل کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے قریبی دوست تھے۔ آپ کی وفات 1970ء میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ راجہ محمود امجد جنجوعہ کے دوسرے بیٹے میجر جنرل اعجاز جنجوعہ ہیں جن کی بیٹی جنرل قمر جاوید باجوہ کی بیوی ہے (جو احمدی نہیں ہے۔)

دین گاہ (ڈنگہ) میں احمدیت کا نفوذ

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ’’دین گاہ‘‘ (ڈنگہ ضلع گجرات) بہت دین دار لوگوں کا گاؤں تھا اور نیک لوگ درویش یہاں بستے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جن کو لوگ ’’سائیں‘‘ اور مجذوب کہتے تھے اور اپنا مرشد مانتے تھے۔ چنانچہ چودہویں صدی ہجری کے شروع ہوتے ہی یہاں کے بہت سے نیک لوگوں کو خواب آنے لگے کہ قادیان میں امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔ عطاء محمد صاحب (میرے خاوند کے نانا) کی ڈائری کے مطابق غالباً 1885ء کی بات ہے جب وہ صرف پانچ سال کے تھے تو مگہووال ڈنگہ کے قریب ایک گاؤں کے ایک مجذوب سائیں مَتُودارے نے آپ کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ ایک بزرگ نیک ہستی کو دیکھے گا۔ اسی طرح میرے نانا کے بڑے بھائی حافظ احمد دین کو خواب میں قادیان دکھایا گیا اور وہاں ایک باریش بزرگ کی شکل بھی دکھائی گئی یہ 1895ء کی بات ہے۔ جب آپ نوکری کے سلسلہ میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں متعین تھے۔ ڈنگہ کے اولین احمدیت قبول کرنے والوں میں بہت اہم نام سید خصیلت علی شاہ صاحب کا ہے جو کڑیانوالہ ضلع گجرات میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس متعین تھے اور آپ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اولین ماننے والوں میں درج فرمایا ہے اور 313 صحابہ میں آپ کا نمبر 226ہے۔

1890ء میں جب ہندوستان میں عیسائی پادریوں نے اپنے مضبوط تبلیغی مشن قائم کر لیے تھے اور یسوع مسیح کی بادشاہت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے اور پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ منٹگمری اور چارلس ایچی سن اور کئی دوسرے اعلان کر رہے تھے کہ ہم جلد ہی عیسائیت کو ہندوستان میں پھیلا دیں گے۔

(لارڈ لارنس لائف جلد2 صفحہ313)

اس وقت اللہ تعالیٰ نے قادیان میں حضرت مرزا غلام احمدؑ کو بذریعہ الہام مطلع فرمایا:
’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ وکان وعد اللّٰہ مفعولا‘‘

چنانچہ آپ نے 1890ء کے آخر میں رسالہ فتح اسلام لکھا جو 1891ء کے شروع میں چھپ کر شائع ہوا۔ اس میں آپ نے فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کر لو‘‘

نیز فرمایا
’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کو توڑنے اور خنزیروں کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں‘‘

(فتح اسلام صفحہ 10-11)

آپ نے یہ رسالہ 400 کی تعداد میں مفت تقسیم کیا اور اپنے دعوٰی کی تصدیق کے لیے اور مسلمانوں نیز عیسائیوں کے عقیدہ مسیح ابن مریم کے زندہ آسمان پر اٹھائے جانے کے رد کے لیے دلائل کے ساتھ دو اور کتب توضیح مرام اور ازالہ اوہام تحریر کیں۔ ان کتب کا مطالعہ کیے بغیر مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہوا اور عیسائی پادریوں کو اپنے مذہب کا ستون گرتا ہوا محسوس ہوا۔ آپ کے سب سے بڑے مخالف اور دشمن اہل حدیث ملاں نکلے اور تمام ہندوستان کے مذہبی رہنماؤں سے کفر کے فتوے حاصل کیے اور اس سلسلے میں آپ پر جھوٹے الزامات لگائے۔ لیکن جیسے ہی مسیح مہدی کی آمد کی خبر حق کے متلاشی افرادکو پہنچی انہوں نے قادیان کا رخ کیا۔ ان میں ڈنگہ کے سید خصیلت علی شاہ صاحب بھی تھے جنہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور قادیان چلے آئے۔ تاکہ مسیح مہدی امام آخر الزماں کی زیارت کریں ان کی بیعت اولین میں شامل ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر ازالہ اوہام میں کیا ہے۔ آپ نے لکھا:
’’قریب تر بامن و نزدیک تر بسعادت کون لوگ ہیں…واضح ہو کہ یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا مان لیا وہ لوگ ہر خطرہ کی حالت سے محفوظ اور معصوم ہیں اور کئی طرح کے ثواب اور اجر اور قوت ایمانی کے وہ مستحق ٹھہر گئے ہیں…وہ حق قبول کرنے کے وقت کسی ملامت کنندہ کی ملامت سے نہیں ڈرے…

(ازالہ اوہام صفحہ 186)

اسی کتاب کے صفحہ 514 پر آپ نے بعض نئے احمدیوں کا ذکر کیا اور صفحہ 519 پر فرمایا:
’’میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ ایک دست غیبی مجھے مدد دے رہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ مجھے غیب سے قوت ملتی ہے اور نفسانی قلق کو دبانے کے لیے ایک صبر بھی عطا کیا ہوتا ہے …اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کر دے گا۔ اب میں ان مخلصوں کا نام لکھتا ہوں۔ جنہوں نے حتٰی الوسع میرے دینی کاموں میں مدد دی یا جن پر مدد کی امید ہے‘‘ چنانچہ آپ نے 138 احباب کا ذکر فرمایا جن میں سب سے پہلے لکھا:

1۔حبی فی اللہ مولوی حکیم نور الدین بھیروی…

اور 38 کے بعد لکھا باقی اسماء بعض مبایعین کے یہ ہیں

(ازالہ اوہام صفحہ544)

اور اس میں 34 نام ہیں جن میں نمبر 11 ’’حبی فی اللہ سید خصیلت علی‘‘ اس کے بعد آپ نے ان دوستوں کے لیے نصیحت کی باتیں لکھیں۔

(صفحہ 546)

’’عزیزانِ بے خلوص و صدق نکشانیدراہے را۔ مصفا قطرہ بایدکہ تاگوہر شود پیدا‘‘

اور آخر میں صفحہ 552 پر پُر خلوص دعائیں۔

’’چاہیے کہ اسلام کی ساری تصویر تمہارے وجود میں نمودار ہو اور تمہاری پیشانیوں میں اثر سجود نظر آوے … توحید پر قائم رہو اور نماز کے پابند ہو جاؤ اور اپنے مولا کریم کے حکموں کو سب سے مقدم رکھو اور اسلام کے لیے سارے دکھ اٹھاؤ۔ وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔ نیز فرمایا ’’یہ سب اس عاجز کے مخلص دوست ہیں بعض ان میں سے اعلٰی درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں۔‘‘

(صفحہ 545)

دسمبر 1892ء میں جلسہ قادیان میں منعقد کرنے کے لیے 27 دسمبر کی تاریخ طے پائی۔ اسی سال آپ نے کتاب آئینہ کمالات اسلام لکھی اور اس میں دس دسمبر 1882ء کو آخر میں نواب محمد علی خان صاحب کے خط کا جواب تحریر کیا جس میں بہت سے لوگوں کے اوہام کو دور کیا اور اختتام ان الفاظ پر فرمایا:
’’ملاقات نہایت ضروری ہےمیں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے 27 دسمبر 1892ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لائیں ان شاء اللہ القدیر آپ کے لیے بہت مفید ہو گا۔ جو سفر للہ کیا جاتا ہے وہ عند اللہ ایک قسم عبادت کے ہوتا ہے۔

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 357)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ میں ہر اس سفر کی بہت اہمیت ہے جو خدا کی خاطر کیا جائے اور خاص طور پر جلسہ جو مذہبی رنگ رکھتا ہو۔ چنانچہ 1892ء کے جلسہ میں شرکت کے لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سفر کر کے لوگ قادیان پہنچے جن کی تعداد 500 کے قریب تھی۔ اس میں بھیرہ، راولپنڈی، گجرات، جہلم، نوشہرہ، چکوال، سیالکوٹ، لاہور، گوجرانوالہ، دہلی کپورتھلہ، پٹیالہ، امرتسر، جالندھر اور ضلع گورداسپور کے لوگ شامل تھے۔ سید خصیلت علی شاہ صاحب بھی اس جلسہ میں شریک ہوئے جو اس وقت انسپکڑ پولیس کڑیانوالہ ضلع گجرات تھے۔ وہ بھی اس جلسہ میں شریک ہوئے۔ اس جلسہ میں اگرچہ 500 کے قریب لوگ جمع ہو گئے تھے مگر جو مخلصین محض للہ شریک جلسہ ہوئے ان کی تعداد 327تھی اور ان کے نام آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 616 سے 629پر درج ہیں اور سید خصیلت علی شاہ صاحب کا نمبر 21 ہے اسی کتاب کے صفحہ نمبر 632 پر چندہ دہندگان میں بھی آپ کا نام ہے جو کہ نمبر 18 ہے۔ 1892ء کے بعد سید خصیلت علی شاہ صاحب کی تقرری ڈپٹی انسپکٹر پولیس ڈنگہ ضلع گجرات ہو گئی اور آپ کی آمد سے ڈنگہ کے بہت سے لوگوں کو احمدیت کی طرف رحجان ہوا۔ جن میں حضرت حافظ احمد دین صاحب اور ان کے فرزند میاں محمد صغیر حضرت حافظ کرم دین صاحب، شیخ علی محمد صاحب، میاں کرم دین صاحب جبکہ حضرت شیخ مولا بخش پہلے ہی احمدی ہو چکے تھے۔ ان سب کا ذکر بابو میاں عطاء محمد صاحب احمدی (میرے خاوند کے نانا) کی ڈائری میں موجود ہے اور یہ بھی درج ہے کہ حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب نے ڈنگہ میں احمدیت کی بنیاد ڈالی اور جمعہ پڑھایا. اس سے پہلے یہاں جمعہ کوئی نہ پڑھتا تھا اور 1953ء میں جب آپ نے ڈائری لکھی بقول آپ کے تین مساجد میں نماز ادا کی جاتی تھی۔ حضرت خصیلت علی شاہ صاحب اس کے بعد قادیان تشریف لے جاتے تھے اور 1897ء میں قادیان میں ملکہ وکٹوریا کی ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلہ میں 20 جون کو منعقد ہونے والے جلسہ میں آپ نے اپنے بیٹے سید ارشاد علی کے ساتھ شرکت کی۔ آپ کا اور آپ کے بیٹے کا نام تحفہ قیصریہ روحانی خزائن جلد 12 کے صفحہ نمبر 310 سے 314 پر فہرست حاضرین ہے چنانچہ آپ کا نام نمبر 73 پر ہے اور آپ کے بیٹے کا نام صفحہ 314 پر نمبر 2 پر ہے۔ اسی روحانی خزائن جلد 12 میں کتاب سراج منیر کے صفحہ نمبر 86 پر چندہ دہندگان برائے تیاری مہمان خانہ و چاہ وغیرہ میں کالم نمبر 3 میں بھی سید خصیلت علی شاہ صاحب کا نام ہے۔ اس کے علاوہ شیخ مولا بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی نام ہے جو تاجر چرم (چمڑا) تھے کالم نمبر 1 میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے 313 صحابہ میں سے تھے نمبر 78۔ حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب اس کے بعد قادیان نہ جا سکے کیونکہ اگلے ہی سال 1898ء میں صرف 42 سال کی عمر میں جب کھاریاں تھے آپ کی وفات ہو گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ 313 صحابہ مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کا نمبر 226 ہے۔

1897ء اور ڈنگہ کے افراد کا قبول احمدیت

ڈنگہ میں مسیح مہدی کی آمد کی خبر شروع میں ہی پہنچ چکی تھی۔ بہت سے افراد کو خواب میں مسیح موعود نظر آئے اور ان کی جگہ بھی دکھائی گئی۔انہی میں سے میرے نانا کے بڑے بھائی حافظ احمد دین صاحب بھی تھے جو ڈنگہ کے زمیندار راجپوت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا گھرانہ بہت نیک دین دار تھا اور والد اور دادا حافظ تھے۔ میرے نانا بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہو گئے اور اپنے بھائی کی زیر کفالت رہے۔ 1895ء میں حافظ احمد دین صاحب نوکری کے لیے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں تھے جب انہیں خواب میں ایک قصبہ نظر آیا اور ایک باریش بزرگ بھی دکھائی دئیے۔ دو سال بعد یکم جون 1897ء میں جب آپ ڈنگہ آئے تو اس خواب کا ذکر مولوی کرم دین صاحب سے کیا انہوں نے سید خصیلت علی شاہ صاحب کو بتایا۔ سید صاحب نے کہا جس قصبہ کا نقشہ حضرت حافظ احمد دین بتا رہے ہیں وہ تو قادیان ہے اور باریش بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ حافظ احمد دین صاحب نے اپنے استاد احمد دین خیاط(درزی) سے بات کی کہ وہ بھی قادیان چلیں مگر خیاط صاحب احمدیت کے مخالف تھے اس لیے غصہ میں آگئے۔ حافظ احمد دین صاحب نے منت سماجت کی تو استاد احمد دین ایک شرط پر قادیان جانے کے لیے راضی ہوئے کہ قادیان سے باہر ٹھہریں گے اور قادیان سے کھانا بھی نہ کھائیں گے۔ 20 جون 1895ء کو قادیان میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے سلسلہ میں ایک جلسہ کی تقریب ہونے والی تھی اور سید خصیلت علی شاہ صاحب اپنے بیٹے ارشاد علی کے ساتھ جانے والے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے افراد ضلع گجرات سے جا رہے تھے۔ چنانچہ ڈنگہ سے حافظ احمد دین صاحب (میرے نانا کے بھائی) کے ساتھ حافظ کرم دین صاحب، شیخ علی محمد صاحب، شیخ مولا بخش صاحب، میاں کرم دین جنجوعہ، میاں کرم دین مدرس اور احمد دین خیاط صاحب چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ یہ تمام افراد 19 جون 1897ء کو قادیان پہنچ گئے۔ حافظ احمد دین خیاط اور چار اور افراد قادیان سے باہر ننگل ٹھہر گئے۔ اگلے دن قادیان پہنچ کر سید خصیلت علی شاہ صاحب نے میرے نانا کو بلا بھیجا۔ آپ نے استاد کو چلنے کو کہاجو اس شرط پر تیار ہو گئے کہ مجھے کوئی مجبور نہ کرے کہ کھانا کھاؤں کیونکہ اسی میں جادو ہے کہ مرزا صاحب کو مانا جائے۔ جب قادیان پہنچے تو حضرت اقدس مسجد مبارک کی چھت پر بیٹھے تھے۔ حافظ احمد دین صاحب نے جیسے ہی حضور کو دیکھا تو اپنے استاد کو کہا یہ تو وہی بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ استاد بولے ابھی خاموش رہو میرے دل میں کچھ اعتراض ہیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو میرے اعتراضات کا خود ہی جواب دیں گے ورنہ صبح ہم واپس چلے جائیں گے۔

حضور اقدس نے قادیان کے لنگر کے کھانا کے متعلق بتایا کہ کس طرح کچھ لوگ نہیں کھاتے اور کفار مکہ کے اعتراضات کا حوالہ دیا۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور حافظ احمد دین صاحب اور ان کے استاد واپس قادیان سے باہر چلے گئے اور کھانا کھا کر سو گئے۔ اچانک آدھی رات کے بعد حافظ احمد دین صاحب نے دیکھا کہ ان کے استاد لالٹین جلا کر کچھ لکھ رہے ہیں۔ جب دریافت کیا تو وہ رونے لگے اور کہا خواب لکھ رہا ہوں اور پھر اتنی زور زور سے رونے لگے کہ باقی سب ساتھی بھی جاگ گئے۔ استاد صاحب نے کہا ابھی اسی وقت قادیان جانا ہے۔ سب نے کہا نماز فجر پڑھ کر چلیں گے مگر استاد صاحب نے کہا کوئی نماز نہیں اور حافظ احمد دین صاحب (میرے نانا کے بھائی)کو سامان کے پاس چھوڑ کر سب چلے گئے۔ صبح آٹھ بجے واپس آئے اور کہا ’’میں نے بیعت کر لی ہے چلو قادیان چلیں‘‘ یہ 20 جون 1897ء ڈائمنڈ جوبلی ملکہ وکٹوریہ جلسہ کا دن تھا۔ باقی سب افراد نے بھی بیعت کر لی۔ کچھ نے تو پہلے ہی کر رکھی تھی۔ میرے نانا کے بھائی حافظ احمد دین صاحب اگلے سال 1898ء میں بھی قادیان آئے اور 11 نومبر 1899ء کو بھی اور جلسہ میں شرکت کی۔ آپ کی روایات الحکم 7 جون 1935ء اور الفضل 1954، 1935، 1930، 1925میں درج ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ احمدیت جلد اول میں بھی موجود ہے جو حاضرین جلسہ کی ہے۔ صفحہ 301 سے شروع ہوتی ہے۔

نمبر 73سید خصلیت علی شاہ صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ڈنگہ ضلع گجرات

نمبر 149حافظ محمد حسین ڈنگہ

نمبر160شیخ مولا بخش تاجر چرم ڈنگہ

نمبر 164حافظ احمد دین خیاط ڈنگہ

نمبر 168میاں کرم دین ڈنگہ

نمبر 169شیخ احمد دین ڈنگہ

نمبر 170میاں احمد دین ڈنگہ

اس کے علاوہ سید ارشاد علی ابن سید علی شاہ صاحب اور شاہ نواز ڈنگہ کا نام بھی صفحہ 314 پر درج ہے۔ اسی جلد 12 روحانی خزائن کے آخر پر ان احباب کے نام چندہ دہندگان کی فہرست میں بھی درج کیے گئے۔

شیخ علی محمد صاحب بھی ڈنگہ کے احمدی تھے اور چمڑے کا کام کرتے تھے۔ ان کی بیٹی کی شادی بھائی عبدالرحمان قادیانی کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے شیخ احمد دین بھی 1897ء میں وفد کے ساتھ قادیان گئے اور حضرت اقدس کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ نہایت مخلص احمدی تھے اور اپنی دکان کے دروازے پر یہ شعر دعا کےطور پر لکھ کر لگا رکھا تھا۔

سایہ گستر باد یا رب بر دل شیدائے ما
حضرتِ مہدی ما عیسٰی ما میرزائے ما

ترجمہ: اے میرے رب میرے قربان ہونے والے دل پر

ہمارے حضرت مہدی، حضرت عیسٰی، ہمارے میرزا کا سایہ ہو

ایک اور حافظ احمد دین صاحب احمدی بھی ڈنگہ سے تعلق رکھتے تھے جن کے بیٹے حافظ میاں محمد صغیر صاحب کی قبر بھی قبرستان بھی موجود ہے اور جس کی تحریر ہے کہ آپ نہایت ہر دل عزیز مخلص احمدی اور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ میاں محمد صغیر صاحب احمدی کے بیٹے بشیر احمد چیمہ کی قبر بھی ساتھ ہے۔ جن کی تاریخ پیدائش 22جولائی 1925ء بھی کتبے پر لکھی ہوئی ہے۔

ڈنگہ کے میاں عطا محمد
(میرے خاوند اکرم اُپل کے نانا) کا قبول احمدیت

یہ 1897ء کی بات ہے جب ڈنگہ سے کچھ لوگوں کا ایک وفد ملکہ وکٹوریہ کی جوبلی کے سلسلہ میں منعقدہ جلسہ میں شرکت کے لیے گیا اور سب نے مسیح مہدی امام الزمان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ڈنگہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب آئینہ کمالات اسلام پہنچی۔ میاں عطا محمد جو ایک دین دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی یہ کتاب حاصل کی اور رات کو گلی کی روشنی میں لوگوں کو بیٹھ کر سنایا کرتے تھے۔ 1898ء میں انہوں نے حضرت حافظ احمد دین (میرے نانا کے بھائی) کو کہا ’’میری بیعت کا خط لکھ دیں کیونکہ سب میں مشہور ہو گیا ہے کہ عطا محمد احمدی ہو گیا ہے اور جھڑکیاں کھاتا رہتا ہوں‘‘ نیز کہا بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ چودہویں صدی میں امام مہدی آئے گا اس کے مریدوں میں شامل ہونا بہشت کی نشانی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس کو میرا سلام پہنچانا۔ یہ بات دل میں جاں گزین ہے۔ چنانچہ حافظ احمد دین صاحب نے آپ کی بیعت کا خط لکھ دیا۔ اگلے سال آپ نے مڈل کا امتحان پاس کر لیا اور قادیان جا کر دستی بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ 1900ءکی بات ہے جب آپ لاہورپہنچ گئے۔آپ کے پاس کرایہ تک نہ تھا سو وہ منشی تاج الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور 313 صحابہ میں ان کا نمبر 71 ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے ساتھ تصویر میں پیچھے کھڑے ہیں دائیں طرف سے دوسرے ہیں۔ آپ لاہور میں اکاؤنٹینٹ تھے۔ لاہور سے پیدل سڑک پر چل پڑے کوئی واقف نہ تھا آخر شیخ احمد دین مل گئے۔ ان کا اور ان کے والد شیخ علی محمد صاحب کا ڈنگہ میں چمڑے کا کاروبار تھا۔ شیخ علی محمد صاحب محترم بھائی عبدالرحمٰن قادیانی کے سسر تھے۔ قادیان پہنچنے پر شیخ احمد دین صاحب نے ڈنگہ سے آئے ہوئے تمام آدمیوں کے رہنے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ اگلے دن صبح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت ہوئی جب آپ سیر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ 11 اپریل 1900ء بدھ کا دن تھا اور عید الاضحی۔ حضور مسجد اقصٰی میں تشریف لائے اور جہاں کھڑے ہوئے وہاں بعد میں لوہے کی چادروں کی چھت ہے۔ حضور نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا۔ کیا سماں تھا معلوم ہوتا تھا آسمان سے جیسے نور کے ذرات آرہے ہوں۔ بعد میں ارشاد ہوا کہ گول کمرہ میں بیعت ہو گی۔ دروازے پر ایک پٹھان تھا اور لوگ تو اس سے پوچھ کر جاتے تھے لیکن میاں عطا محمد صاحب سب سے پہلے بغیر پوچھے اندر چلے گئے اور سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچ گئے اورجھک کر سلام عرض کیا۔ حضور نے بغور میاں عطامحمد صاحب کو دیکھا اور بیٹھنے کو فرمایا۔ آپ دوزانو حضور کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور حضور نے ازراہ کرم اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا۔ عطا محمد صاحب نے ہاتھ حضور کے ہاتھ پر رکھا ہی تھا کہ نامعلوم کتنے ہی ہاتھ اوپر آگئے پھر آخری ہاتھ والے نے پگڑی پر ہاتھ رکھ دیا اور بیعت شروع ہوئی۔

’’آج میں احمد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں …پھر جس طرح آپ فرماتے رہے عطا محمد صاحب لکھتے ہیں خاکسار کہتا رہا۔ جب بیعت کر چکے تو سب اٹھ کر چلے گئے۔ عطا محمد صاحب جب صحن میں پہنچے تو سرور کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یاد آیا اور آپ واپس اندر چلے گئے اور حضور اقدس کے دائیں جانب تھوڑی سی جگہ تھی وہاں بیٹھ گئے۔ دوسری ٹولی بیعت والی آ گئی تو حضور نے میاں عطا محمد صاحب کی طرف دیکھ کر فرمایا آپ تو بیعت کر چکے ہیں۔ تو آپ نے کہا ’’حضور ایک بات بھول گیا تھا وہ یہ کہ حضور کی خدمت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچاؤں اسی طرح سید جیون شاہ صاحب جو ہمارے خاندان کے مرشد ہیں انہوں نے بھی آپ کو سلام پہنچانے کو کہا تھا۔ سو وہ بھی عرض کرتا ہوں۔ اس پر حضور علیہ السلام نے پھر خاکسار کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر خاکسار باہر چلا آیا‘‘

میاں عطاء محمد صاحب جب واپس ڈنگہ پہنچے تو ان کے والد صاحب نے کہا کہ تمہارا رشتہ جہاں طے ہوا تھا انہوں نے انکار کر دیا ہے۔ اب تم مفصل خط قادیان لکھ کر دو۔ میاں عطا محمد صاحب نے ایسا ہی کیا اور حضور کا جواب آیا۔ لکھا تھا۔ ’’درود اور استغفار بہت پڑھا کرو۔ ہم دعا کریں گے۔‘‘

اس کے چار پانچ ماہ بعد ایک شحض رسول نگر ضلع گوجرانوالہ سے چلتا ہے اور شام کو ڈنگہ پہنچتا ہے اور آتے ہی میاں عطاء محمد کی پھوپھی کے بیٹے عبداللہ کے گھر جاتا ہے اور کہتا ہے تم اپنی بیٹی آمنہ کا رشتہ سائیں محمد دین کے بیٹے عطاء محمد سے کر دو۔ عبداللہ نے اسی عورت کو محمد دین کے گھر بھیجا کہ اسے بلا کر لائے جس نے اپنی بیٹی کا رشتہ عطاء محمد سے یہ کہہ کر ختم کر دیا تھا کہ یہ کافر ہو گیا ہے میں اپنی بیٹی کو زہر دے کر مار دوں گی مگر اس کافر کو نہ دوں گی۔ چنانچہ محمد دین (والد عطاء محمد) عبداللہ کے گھر پہنچے تو انہوں نے کہا میں اپنی بیٹی آمنہ کا رشتہ آپ کے بیٹے عطاء محمد کے لیے دیتا ہوں یہ کھچڑی کھا لو رشتہ پکا ہے۔ والد صاحب نے پہلے دعا کی اور پھر کھچڑی کھا لی۔ جب سائیں محمد دین گھر سے باہر نکلے تو ہر طرف سے مبارک باد کی آوازیں آ رہی تھیں اور میاں عطاء محمد خدا تعالیٰ کی قدرت کے کرشمہ اور بے نیازی پر حیران رہ گئے کہ کس طرح مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور احمدیت کی صداقت کا نشان ظاہر ہوا۔ میاں عطاء محمد کی بیوی آمنہ نے احمدیت قبول کر لی اور اپنے نام کے ساتھ احمدی کا لقب لگانا فخر سمجھا اور یہی لفظ آج بھی ان دونوں کی قبروں کے کتبوں پر کندہ ہے اور اس کے علاوہ اور احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر بھی۔ عطاء محمد صاحب احمدی کے خاندان میں اور کوئی احمدی نہ ہوا۔ آپ نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے۔

(باقی یکم ستمبر اِن شاء اللہ)

(وسیمہ اُپل۔آسڑیلیا)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اگست 2022