• 19 مئی, 2024

پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے۔ آجکل کے لغویات سے پُر ماحول میں تو اس کی طرف اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اُنہیں بھی عادت پڑے کہ نمازیں پڑھیں۔ لیکن بچوں اور نوجوانوں کو کہنے سے پہلے بڑوں کو اپنا محاسبہ بھی کرنا ہو گا، اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جب وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 4) کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی ہو، اس طرف توجہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ موسم بدلنے کے ساتھ جب وقت پیچھے جاتا ہے، راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں تو فجر میں حاضری کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ابھی پورا وقت پیچھے نہیں گیا تھا، پانچ بجے تک ہی نماز آئی تھی تو فجر کی نماز پر حاضری کم ہونے لگ گئی تھی۔ اب پھر ایک گھنٹہ آگے وقت ہوا ہے تو حاضری کچھ بہتر ہوئی ہے یا جمعہ والے دن کچھ بہتر ہو جاتی ہے۔ ابھی تو وقت نے اور پیچھے جانا ہے۔ تو بڑوں کے لئے بھی اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر وقت کے پیچھے جانے سے پھر سستی شروع ہوجائے تو یہ تو ایک احمدی کے لئے صحیح نہیں ہے۔ اس لئے میں پہلے توجہ دلا رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضری میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں اگر سستی نہ دکھائیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت سستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی اور بچوں اور نوجوانوں پر بھی اس کا اثر ہو گا، اُن کی بھی توجہ پیدا ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے۔ اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

پس پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیرِ اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں۔ ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو۔ ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے، یا قرآنِ کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی مسیح ومہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں۔ ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا۔ شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو۔ نمازوں کے لئے آؤ۔ اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیز تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرکِ خفی ہے۔

پھر جن نیک اعمال کی طرف ہمیں خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس میں دوسروں کے حقوق بھی ہیں۔ دنیاوی لالچوں میں آ کر حقوق غصب کئے جاتے ہیں۔ اُس وقت انتہائی شرمندگی ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے جب میرے پاس غیر از جماعت لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ آپ کے فلاں احمدی نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ مجھے میرا حق دلوایا جائے۔ تو یہ باتیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تبلیغ میں بھی روک بنتی ہیں، بلکہ بعض نئے احمدیوں کے لئے بھی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک عرب احمدی نے لکھا کہ وہ جماعت چھوڑ رہے ہیں، جب وجہ پتہ کی تو پتہ چلا کہ بعض احمدیوں کے عمل سے دل برداشتہ ہو کر وہ یہ کہہ رہے تھے لیکن عقیدے کے لحاظ سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ پس جہاں یہ اُن کی غلطی ہے کہ بعض احمدیوں کو دیکھ کر نظامِ جماعت سے دور ہٹ جائیں اور تعلق توڑ لیں، وہاں اُن احمدیوں کو بھی سوچنا چاہئے جن میں سے بعض عہدیدار بھی ہیں کہ کسی کی ٹھوکر کا باعث بن کر وہ کتنے بڑے گناہ سہیڑ رہے ہیں۔ ایک بات کی طرف خاص طور پر مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیشک مالی قربانی میں تو جماعت کے افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن مالی قربانی کا ایک پہلو زکوٰۃ ہے۔ اُس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر عورتوں کو جن کے پاس زیور وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے رقمیں ایک سال سے زیادہ پڑی رہتی ہیں۔ اس طرف ویسی توجہ نہیں ہے جو ایک احمدی کو ہونی چاہئے۔ ایک تعداد تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقینا ًایسی ہے جو ایک ایک پائی کا حساب رکھ کر چندے بھی دیتی ہے اور زکوٰۃ بھی دیتی ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو چندوں کو کافی سمجھتے ہیں اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یا سیکرٹریانِ مال جو ہیں اُن کو اس طرف توجہ نہیں دلاتے جس وجہ سے اُن کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ کی بہت ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ )

پچھلا پڑھیں

اعلان کامیابی و درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2021