• 14 مئی, 2025

انسان کے اندر کا واعظ

انسان کے اندر کا واعظ
جس کی نصیحت سننا ہمارا فرض ہے

اردو لغت میں واعظ کے معنیٰ نصیحت کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں انسان کے بے شمار واعظ ہوتے ہیں، جن سے وہ نصیحت پکڑتا اور اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے۔ ان واعظین میں سے گھر میں بسنے والے بزرگ والدین، بڑے بہن بھائی اور گھر سے باہر بزرگان،مربیان، مبلغین، معلمین، جماعتی و ذیلی تنظیموں کے سینئرممبرز یا عہد یداران اور اساتذه شامل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ کسی میں کوئی خرابی دیکھیں تو ہاتھ سے یا سرزنش کر کےسمجھائیں، اگر آپ اس پوزیشن میں نہیں تو مُنہ سے یعنی زبان سے بول کر سمجھائیں، اگر اس کی بھی سکت نہ ہو تو چُپ ہو جائیں تا کہ غلطی کرنے والے کو یہ احساس ہو جائے کہ فلاں نے میری غلطی کو دیکھ کر خاموشی اختیار کی ہے۔اس حدیث میں نصیحت کرنے کے حوالے سے بہت حکمت کی بات کی گئی ہے،ہمارے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا اور باخلاق رکھنے کے لئے ہمارے آقاو مولیٰ ﷺ نے کیا ہی خوب نصیحت فرمائی ہے، اس حدیث کے مطابق ایک دوسرے کو سمجھانے والے یہ بیرونی واعظ ہیں اور بعض اوقات انسان ایسے واعظین کے وعظ و نصیحت پر کان نہیں دھرتا۔ لیکن ایک واعظ انسان کے اندر بھی ہے۔ جسے ہم ’’ضمیر‘‘ کہتے ہیں، اس کو انگریزی میں کانشنس کہا جاتا ہے۔ ضمیر کی آواز درد بھی رکھتی ہے اور کبھی مرتی نہیں اور انسان کو اخلاقی طور پر مرنے بھی نہیں دیتی یہ آواز باضمیر لوگ ہی سُن سکتے ہیں۔ دل سے کہی ہوئی بات اثر رکھتی ہے۔ دعا بھی جو دل سے کی جائے وہ دربار الہٰی میں جگہ پاتی ہے۔ الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مثال یوں دی ہے:

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾ وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۶﴾

(القیامۃ: 15۔16)

کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پربہت بصیرت رکھنے والا ہے۔ اگرچہ وه اپنے بڑے بڑے عذر پیش کرے۔

انسان کے اندرونی واعظ بھی دو طرح کے ہیں۔ یعنی نیکی اور بدی کے۔ جسے عرف عام میں فرشتوں کی تحریک اور شیطانی وسوسہ کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے دَاعِیْٓ اِلَی الْخَیْرِ، دَاعِیْٓ اِلَی الشَّرِّ یا بِئْسَ الْقَرِیْنُ اور نِعْمَ الْقَرِیْنُ کے الفاظ میں فرمایا ہے۔ اندرونی واعظ نیک رہے اور بدی کا واعظ غالب نہ ہو اس کے لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے جیسے حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ نہ علم اچھا هے نہ دولت اچھی۔ ہاں خدا کا فضل اچھا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے اندر موجود مفتی(واعظ)کے بارے میں ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا کہ آپ اپنے متعلق دوسروں سے فتویٰ لینے کی بجائے اپنے دل سے پوچھا کرو۔ اگر وہ آپ کو کسی کام سے روکے تو اس کام سے رک جاؤ اور اگر دل آپ کو اجازت دے تو وہ کام کر گزرو۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں اِسۡتَفۡتِ قَلۡبَکَ کہ اپنے دل سے فتویٰ لو۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ کسی کام کا فیصلہ کرتے وقت اپنے ضمیر سے بھی صلاح لے لیا کرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایسی دعائیں مروی ہیں۔ جن میں اپنے اندرونے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے جیسے اِنِّیْٓ اَعُوۡذُ بِکَ مِنۡ شَرِّ نَفۡسِیۡ یا اَعِزۡنِیۡ مِنۡ شَرِّ نَفۡسِیۡ اور ایک موقع پر مِنۡ شَرِّ قَلۡبِیۡ کے الفاظ ملتے ہیں۔ کیونکہ انسان ظاہرًا کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہونے کا دعویدار ہو جاتا ہے وہ اس وقت تک حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا جب تک اس کا اندرونہ مسلمان نہ ہو۔ اس کے اندر کا انسان مسلمان نہ ہو جائے وہ حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ اسی لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:

؎ نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے وہ پیدا سامان دمار

آنحضرتؐ کی اَللّٰہُمَّ اٰتِ نَفۡسِیۡ تَقۡوَاھَا (نسائی) کی دُعا بھی اس مضمون کو آشکار کرتی ہے۔

ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مبارک دعا کیا کرتے تھے جس پر غور کرنے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ایسا اعلیٰ و ارفع انسان جس کے اگلے پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیئے تھے وہ بھی ایسی دُعا کرتا دکھلائی دیتا ہے جس کا تعلق اس کے اندرونے سے ہے۔ دُعا یوں ہے:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَضِلَّ اَوْ اُضَلَّ اَوْ اَزِلَّ اَوْاُزَلَّ اَوْ اَظْلِمَ اَوْ اُظْلَمَ اَوْ اَجْھَلَ اَوْ یُجْھَلَ عَلَیَّ

کہ اے اللہ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں گمراہ ہوں یا گمراہ کیا جاؤں، یا لغزش کھاؤں یا پھسلایا جاؤں اور اس بات سے کہ میں کسی پر ظلم کروں یا کوئی دوسرا مجھ پر ظلم کرے یا جہالت برتوں یا میرے ساتھ جہالت برتی جائے۔

حضرت مسیح موعود ؑ اس مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’اصل میں انسان نفس امّارہ کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کوئی چڑیا کا بچّہ ایک شیر کے پنجے میں۔ جب تک اس نفس کے پنجے سے نجات نہ پا جاوے تب تک تبدیلی محال ہے اور گناہ سے بچنا مشکل۔ مگر دیکھو اگر ابھی ایک ہیبتناک زلزلہ آ جاوے اور در و دیوار اور مکان کا چھت لرزنے لگے تو دلوں پر ایک ایسی ہیبت طاری ہو گی اور ایسا خوف دلوں پر چھا جائے گا کہ اس وقت گناہ کا خیال تک بھی دلوں میں نہ رہے گا۔ ایک خطرناک مہلک مرض کے وقت جو حالت انسان کی ہوتی ہے وہ امن اور آرام و آسائش کی زندگی میں ہر گز ممکن نہیں۔انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالےٰ کی تجلیات اور زبردست نشانوں کا محتاج ہے۔ ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسی راہ پیدا کر دے کہ انسان کا ایمان خدا تعالےٰ پر تازہ اور پختہ ہو جاوے اور صرف زبان تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ایمان کا اثر اس کی عملی حالت پر بھی ظاہر ہو جاوے اور اس طرح سے انسان سچا مسلمان ہو جاوے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں الہاماً یہ فرمایا :

؎چو دور خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند

(یعنی جب دور خسروی کا آ غاز ہوا تب سے مسلمانوں پر مسلمانی کھلنی شروع ہوئی۔ ناقل)

یہ خدا کا کلام ہے۔ آجکل اگر عمیق نظر سے اور غور سے دیکھا جاوے تو زبانی ایمان ہی کثرت سے نظر آوے گا۔ پس خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے۔ یہودی کیا توریت پر ایمان نہیں لاتے تھے؟ قربانیاں نہ کرتے تھے؟ مگر خدا تعالےٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے جہاں فرمایا ہے فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بیخبر ہیں۔ صلوٰۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الٰہی اور خوف الٰہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلادینے کا نام ہے۔ اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بُلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے۔ اس کی کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترک فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے خودی دور ہو جاوے۔

غرض یہ باتیں ہیں اگر خدا تعالےٰ کسی کو توفیق دے تو۔ مگر جب تک خدا کسی کے دل کے دروازے نہ کھولے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ دلوں کے دروازے کھولنا خدا تعالےٰ ہی کا کام ہے۔ اِذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِعَبْدٍ خَیْرًا اَقَامَ وَاعِظًا فِیْ قَلْبِہٖ۔ جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں اور خدا تعالےٰ کو انسان کی درستی اور بہتری منظور ہوتی ہے تو خدا انسان کے دل میں ہی ایک واعظ کھڑا کر دیتا ہے۔ اور جب تک خود انسان کے اندر ہی واعظ پیدا نہ ہو۔ تب تک بیرونی وعظوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد10، صفحہ313-314)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اعلان کامیابی و درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2021