• 24 جولائی, 2025

سورة فاتحہ کا مختصر خلاصہ

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:

وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ

یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورہ فاتحہ کا جو اِس سورہ بقرہ میں موجود ہے۔ اِس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہیئے مگر مَیں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سُناؤں گا چنانچہ ابتداء میں مَولیٰ کریم فرماتا ہے الٓـمّٓ مَیں اﷲ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی راحتیں حاصل کرسکتا ہے۔ مَیں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اﷲ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متّقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ (المنٰفقون: 9) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزّز ہوتے ہیں۔ ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے تاریخ اور واقعات صحیحہ اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستورالعمل بنایا وہ دُنیا میں معزّز و مقَتدر بنائی گئی۔ کون ہے جو اِس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ ِدُنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دُنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کُل دُنیا کی فاتح کہلائی۔ علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے۔ پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ آجکل مسلمانوں کے تنزّل و ادبار کے اسباب پر بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اِس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دُور ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہوسکتا ہے حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عمل درآمد کرنے والے معزّز ہو سکتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آجاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوروں پر حکومت کرنے کی قابلیّت عطا کرتی ہے جیسا کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ سے پایا جاتا ہے۔ غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے والا انسان تقوٰی شعار ہو، متّقی ہو۔ ابتداء میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف کو اُن لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متّقی ہیں اور دوسرے مقام پر علومِ قرآنی کی تحصیل کی راہ بھی تقوٰی ہی قرار دیا ہے جیسے فرمایا وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ یعنی تقوٰی اختیار کرو اﷲ تعالیٰ تمہارا معلّم ہو جائے گا۔

تقویٰ کے پاک نتائج بڑے عظیم الشّان ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو وہ ہے جو مَیں نے ابھی بیان کی کہ اﷲ تعالیٰ اس کا معلّم ہو جاتا ہے اور قرآنی علوم اس پر کُھلنے لگتے ہیں پھر تقوٰی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کی معیّت حاصل ہوتی ہے جیسے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ (النّحل: 129) بے شک اﷲ اُن لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متّقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو مُحسنین ہوتے ہیں۔ احسان کی تعریف رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اِس پر ایمان رکھتا ہو کہ اﷲ اُس کو دیکھتا ہے۔ پھر یہ بھی تقوٰی ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر تنگی سے متّقی کو نجات دیتا ہے اور اس کو مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطّلاق: 4) رزق دیتا ہے متّقی اﷲ کا محبُوب ہوتا ہے یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ غرض تقویٰ پر ساری بناء ہے۔ پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ اِس کی پہلی نشانی یہ ہے يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ۔ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں۔ ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہونا سہل ہے لیکن خلوت میں جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بُجز اﷲ تعالیٰ کے اس کا مومن رہنا ایک امرِ اہم ہے لیکن متّقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں۔ اِسی بناء پر کسی نے کہا ہے:

؎ مشکلے دارم نہ دانشمند مجلس بازپُرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند
واعظاں کِیں جلوہ بَر محراب و منبر میکنند
چُوں بخلوت می روَندآں کارِ دیگر میکنند

پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہیئے۔ اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شئے ہے۔ اگرکوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتاؤ کہ یہ ایمان اس کو کِس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں۔ لیکن جن چیزوں کو اُس نے دیکھا نہیں صرف قرائِن قویّہ کی بناء پر ان کو مان لینا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں آئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سُود مند اور مفید ہے۔ پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تواس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہیئے اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظِیم لِامر اﷲ کا لحاظ ہو اِس لئے فرمایا وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ یہ متّقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں کیونکہ نماز اﷲ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے مومن کو چاہیئے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے۔ اِبتداء نماز سے جب اﷲ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دُنیا اور اس کی مشیختوں سے الگ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی سروکار رکھتا ہے پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے۔ نمازمیں قیام میں رکوع، سجدہ اور سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کر سکتا ہے پھر التّحیات میں صلوٰۃ اور درُود کے بعد دعا مانگ سکتا ہے۔ گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں۔

اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ: اِستہزاء کا بدلہ دے گا یا حقیر کرے گا ان کو اور یَمُدُّ کے معنے یہاں پر زیادہ کرنے کے ہیں نہ عمر میں لمبائی کرنے کے، کیونکہ اس کے بعد لام آیا کرتا ہے جو کہ یہاں پر نہیں ہے۔ پس یَمُدُّھُمْ کے معنے ہوئے ’’زیادہ کرتا ہے ان کو‘‘ جیسا کہ مَدَّالْجَیْشَ اور اَمَدَّالْجَیْشَ کے معنے ہیں لشکر کو زیادہ کیا اور قوی کیا۔ طُغْیَان کے معنے سرکشی کے ہیں اور حضرت ابنِ عباسؓ اور بہت سے صحابہؓ سے مروی ہے کہ طُغْیَان سے مُراد کفر ہے اور معنے یہ ہوئے ’’اور ان کو زیادہ کرتا یا مُہلت دیتا ہے کُفر میں۔‘‘ یَعْمَھُوْنَ عَمَہٌ سے ہے اور عَمَہٌ کہتے ہیں تردّدکو۔ یَعْمَھُوْنَ حیران اور متردّد ہیں۔

ذَکَرَ حُجَّۃُ الْاِسْلَامِ اَلْغَزَالِیُّ اَنَّ الْاِسْتِھْزَآءَ۔ اَلْاِسْتِحْقَارُ وَ الْاِسْتِھَانَۃُ وَالتَّنْبِیْہُ عَلَی الْعُیُوْبِ وَالنَّقَآئِصِ عَلٰی وَجْہٍ یُّضْحَکُ مِنْہُ (رُوح المعانی) تحقیر کو استہزاء کہتے ہیں۔

اَلھَزْأَۃُ اَصْلُہٗ اَلْخِفَّۃُ وَھُوَالْقَتْلُ السَّرِیْعُ ھَزَأَ یَھْزَأُ: مَاَت فَجْاءَۃً وَتَھْزَأُبِہٖ نَاقَۃٌ: اَیْ تَسْرَعُ بِہٖ وَتَخَفُّ۔ فتح، ہلکا، سمجھنے، جلدی قتل کرنے، اچانک مرنے کو ھزو کہتے ہیں۔

پس اَللّٰہُ یَسۡتَہۡزِئُ بِہِمۡ (البقرہ: 16) کے معنے ہوئے اﷲ تحقیر کرے گا، اہانت کریگا اور ان کے عیوب و نقائص سے خلقت کو ایسی آگہی دے گا کہ ان کی ہنسی ہو اور اﷲ تعالیٰ ان کو خفیف کرے گا۔ جلدی ہلاک کر دے گا۔

یہ بیان ہے منافقوں کے حالات کا جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتا ہے۔ دِل میں کپٹ ہوتی ہے اور ظاہر میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ مومنوں کی تحقیر و اہانت اور تخفیف کرتے ہیں۔ آخر اﷲ تعالیٰ ان کی تحقیر، اہانت اور تکفیر کرتا ہے اور کرتا رہے گا اور ہلاک کردے گا۔ اور ان کے عیوب و نقائص کی اطلاع دیتا ہے اور دیتا رہے گا اِس لئے کہ دُنیا میں ان کی ہنسی ہو یہ بڑی بھاری پیشگوئی ہے اور وہ روزِ روشن کی طرح پوری ہوئی کہ تمام وہ لوگ جو اسلام پر ہنسی اُڑاتے اور اس کی تحقیر کرتے تھے خدا تعالیٰ نے انہیں ضعیف حقیر کر دیا۔ صداقتوں اور واقعاتِ حَقّہ پر اعتراض کرنا سخت ناپاکی اور جہالت نہیں تو اَور کیا ہے۔

اَلسُّفَھَآءُ۔ سفاہت نام ہے اِضطراب کا۔ پتلے کپڑے کو بھی سفیہ کہتے ہیں۔

فَمَارَ بِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ۔ ضالین بڑے تاجر ہوں گے مگر دینی ہدایت نہ لیں گے نہ دینی نفع اُٹھائیں گے۔

اِس زمانہ کا حال دیکھ کر تعجّب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں۔ زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں کیونکہ ان کے عقائدسے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں۔ عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کِس طرح ہوتی ہے اور مَیں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور اس خدا کے فضل کو ایمان کھینچتا ہے۔ اِس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے۔ پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیزنہیں حالانکہ کون دُنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے۔ پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاس بجھاتا ہے تو پیاس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قُرآنِ مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزا اور سزا ضروری ہے اور پھر اس پر عمل در آمد نہ ہو۔ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اُوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرارکرتے ہیں اور اپنے مقابل دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچّے ہیں۔ مونہہ میں بہت باتیں بناتے ہیں مگر عمل درآمد خاک بھی نہیں۔ ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں مگر اپنے شیاطین اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اِستہزاء ھزو سے نکلا ہے۔ ہلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جا سکتا ہے اِس لئے اِستہزاء تحقیر کو کہتےہیں۔

اﷲ ان کو ہلاک کرے گاکسی کو جلد کسی کو دیر سے۔ اﷲ تو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حد بندیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ حدبندی سے جوشِ نفس کے وقت یُوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آ کر کناروں سے باہر نکل جائے۔ ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں۔ یہ ہدایت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیں ان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے مَیں نے طِبّ میں دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نرم کھچڑی شدّتِ صفراء کی وجہ سے نہایت تلخ معلوم ہوتی ہے۔ یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرضِ قلبی سے آگاہ نہیں۔ پس ایسے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تواپنے نفع کے لئے جیسے کوئی آدمی جنگل میں آگ لگائے تو اس سے یہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے کہ شیر، چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے۔ اِسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اِقرار کر کے مصائب سے عارضی طور پر بچاؤ کر لیتا ہے لیکن بعد میں بَلائیں، جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ اس کا نفاق کُھل جاتا ہے پھر کچھ سوچ نہیں پڑتا۔ غرض اپنا ظاہر کچھ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اِشْتَرٰی۔ یہاں پر کوئی حقیقی خریدوفروخت مراد نہیں ہے بلکہ یہاں پر اِس سے یہ مراد ہے کہ انہوں نے ہدایت کو ترک کر دیا ہے اور بجائے اس کے گمراہی کو اختیار کر لیا ہے۔۔۔۔۔ حضرت عبداﷲبن عباسؓ اور عبداﷲبن مسعودؓ اور اَور بہت سے صحابہؓ نے یہی معنے کئے ہیں اور۔۔۔۔۔ مَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ (نہ وہ راہ پانے والے بنے) سے یہ مراد ہے کہ وہ تجارت کی صحیح راہ نہ پا سکے یہاں تک کہ تجارت سے اصل مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ اصل مال قائم رہے اور اس کے علاوہ کچھ زائد فائدہ بھی حاصل ہوجائے لیکن منافقوں نے اصل مال (یعنی فطرتِ سلیم اور تحصیلِ کمالات کی فطرتی استعداد) کو ہی ضائع کر دیا۔

(حقائق الفرقان جلد اوّل صفحہ نمبر104 تا 108)

(محی الدین عباسی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

اعلان کامیابی و درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2021