حضرت انسان نے شمار کے لیے اعداد کا استعمال کرنا کب شروع کیا اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ملنے والے قدیم آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان 50,000 سال قبل شمار کے لیے اعداد کا استعمال کرنا جانتے تھے۔ صفر سے نو تک کے اعداد میں »7» ایک نہایت پر اسرار عدد مانا جاتا ہے۔ کئی لوگ اسے اپنے لیے خوش قسمتی کا عدد خیال کرتے ہیں۔ بھارت کے عالمی شہرت یافتہ کرکٹر مہندر سنگھ دھونی اور پرتگال کے فٹ بالر کرسٹیانو رونالڈو جو CR7 کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں 7 نمبر شرٹ پہنتے ہیں۔ سات کا عدد کسی بھی عدد کے مقابلہ میں زیادہ مقبول ہونے کے ساتھ چار دانگ عالم اور مظاہر کائنات میں بھی غالب نظر آتا ہے۔ جیسے ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں، عجائبات دنیا سات ہیں، سات اجرام فلکی جو ہمیشہ سے انسان کے فلکیاتی مطالعہ کا موضوع رہے ہیں اور بنا کسی ٹیلی اسکوپ کے آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔قوس قزح میں سات رنگ ہوتے ہیں, سفید روشنی سات رنگوں سے مل کر بنتی ہے۔سنگیت کے سُروں کی تعداد بھی سات ہے۔ تمام ممالیہ جانداروں بشمول انسان کے گردن میں سات ہڈیاں ہوتی ہیں۔ براعظم سات ہیں، سمندروں کی تعداد سات ہے۔ اگر دو پانسے ایک ساتھ پھینکے جائیں تو Probability Theory کے مطابق 7 آنے کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ بیالوجسٹ کے مطابق ہر سات سال میں انسانی جسم میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ جیسے کہ سات سال کی عمر میں نئے دانت آتے ہیں اور بچہ بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوجاتا ہے۔ 14 سال بلوغت کی عمر ہوتی ہے اور 21 سال کی عمر میں جوان ہوتا ہے۔
دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں سات کا عدد بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ توریت میں ہے کہ خدا نے چھ دن میں زمین آسمان بنائے اور ساتویں دن آرام کیا۔ قرآن کریم بھی اس امر کی تائید کرتے ہوئے چھ دن میں زمین آسمان بنانے کا ذکر کرتا ہے۔ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ۔ وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں‘‘۔ نیز قرآن کریم میں سَبْعَ سَمٰوٰتٍ یعنی سات آسمانوں کا ذکر ہے، ایسے ہی سَبْعَةُ أَبْحُرٍ یعنی سات سمندروں کا بیان بھی ہے۔
حج کے دوران سات بار خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ صفاء و مروہ کی سعی سات بار کی جاتی ہے۔ شیطان کو سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ قرآن کریم میں جہنم کے دروازوں کی تعداد بھی سات بیان ہوئی ہے۔ (لَہَا سَبۡعَۃُ اَبۡوَابٍ ؕ لِکُلِّ بَابٍ مِّنۡہُمۡ جُزۡءٌ مَّقۡسُوۡمٌ) قرآن کریم کی منزلیں بھی سات ہیں۔ عیدین کی پہلی رکعت میں تکبیرات کی تعداد بھی سات ہے۔ وضو کے چار اور غسل کے تین فرائض کا مجموعہ بھی سات بنتا ہے۔ سات اور ستر کی تکرار بیک وقت کثرت پر بھی دلالت کرتی ہے۔ جس طرح بہتّر اور تہتّر فرقوں والی حدیث میں بھی سات کا عدد نمایاں ہے۔ قرآن کریم میں سات سو بار نماز کا حکم ہے، نماز با جماعت کا ثواب اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت ستائیس گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح بعض نیک اعمال کا اجر ستر سے سات سو گنا تک بیان ہوا ہے۔ سات برس کی عمر سے بچوں کو نماز کی تاکید کرنے کا حکم ہے۔ زندگی کے سات ادوار میں تخم ریزی، پیدائش، بچپن، لڑکپن، جوانی، بڑھاپا اور موت۔ مذہبی طور پر سات پودوں کو مقدس مانا جاتا ہے۔ ان میں کنول کا پھول، امربیل، ناگ پھنی، تلسی (اوسیمم ٹینوئفلورم)، صنوبر، بھنگ، تلسی (اوسیمم بازلیکم) شامل ہیں۔ مضمون کی طوالت کے خوف سے ان پودوں سے جڑے مذہبی توہمات کو بیان نہیں کیا (راقم)۔
قدیم مصریوں کے نزدیک سات کا عدد زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جاپانی ثقافت میں خوش قسمت سمجھے جانے والے خداؤں کی تعداد بھی سات ہے۔ ہندو ازم کے نزدیک روح مکتی (نجات) پانے کے لیے سات چکر لیتی ہے۔ ہندومت میں شادی کے موقع پر میاں بیوی اگنی (آگ) کے سات پھیرے لیتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح ازدواجی تعلقات میں دوام رہتا ہے۔ کوئی منّت پوری ہو جائے تو سات قسم کے کھانے پکا کر خیرات کرتے ہیں۔ ہندومت اور اسلام سمیت متعدد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ماننا ہے کہ روح کو جسم پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں «چکرا» کہا جاتا ہے۔ ان سات چکروں میں سر، تیسری آنکھ (شعور)، گلا، دل، معدہ، ناف اور زیر جامہ۔ ان کا ماننا ہے کہ کوئی بھی بیماری خواہ وہ روحانی ہو یا جسمانی کسی چکرے میں خرابی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ پھر ان بیماریوں یا خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ریاضتیں بھی کی جاتی ہیں اور اس پر یقین رکھنے والے اسے روحانی سائنس کی ایک شاخ خیال کرتے ہیں۔بحرحال یہ توہمات ہیں جن کا یہاں بیان کرنے کا مقصد سات کے عدد سے وابستہ خیالات کے بارے میں جاننا ہے۔ جاسوسی فلموں کے مشہور کردار جیمز بانڈ کا نمبر بھی صفر صفر سات ہے۔ نیزسات کا عدد صلیب کے نشان سے مشابہ ہونے کے باعث مقدس عدد بھی مانا جاتا ہے۔
جون 2015ء میں نیوکیسل یونیورسٹی میں نمبر فیسٹیول منعقد کیا گیا۔ فیسٹیول کا مقصد لوگوں کی ریاضی میں دلچسپی بڑھانا تھا۔ اس میں ایک سروے کے دوران تمام طلباء کو ایک سے لے کر دس تک کوئی ایک نمبر منتخب کرنے کا کہا گیا تو 70فیصد طلباء نے نمبر سات پسند کیا۔ جب انہیں پوچھا گیا کہ انہوں نے سات ہی کا انتخاب کیوں کیا تو ان میں سے اکثر اس بات کا کوئی معقول جواب نہ دے پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بس انہیں یہ نمبر پسند ہےکیونکہ یہ ان کے لیے لکی ہے۔ جارج ملر جو ایک سائیکولوجسٹ تھے، انہوں نے 1956ء میں ایک تحقیقی پیپر شائع کیا جس کا عنوان تھا۔
The Magical Number Seven, Plus or Minus Two اسے یوں بھی لکھا جاتا ہے 7 ± 2۔ اس تحقیقی مقالہ میں انہوں نے عارضی یادداشت کے حوالہ سے بیان کیا کہ ایک انسان ایک وقت میں سات چیزوں کو اپنی عارضی یاداشت میں محفوظ رکھ سکتا ہے۔ 1956ء میں یہ ٹاسک انہیں AT&T ٹیلی فون کمپنی کی جانب سے ملا تھا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے ایک عام انسان مخلوط نمبروں کی کتنی تعداد کو آسانی سے یاد رکھ سکتے ہیں تاکہ اس تعداد کو ٹیلی فون نمبر کے مجموعہ کے ساتھ لوگوں کو مہیا کیے جا سکیں۔ ان کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک وقت میں ایک انسان 5 سے 9 تک اعداد کے مجموعہ کو بغیر کسی اضافی ترکیب جیسے کہ Chunking (چنکنگ یعنی مخلوط اعداد کو دو دو تین تین یا چار چار کے گروپ بنا کر انہیں اپنی یاداشت میں محفوظ کرلینا، مثلاً 8743956 کو 956-43-87 یا کسی اور ترتیب سے اپنے ذہن میں بٹھا لینا) کے بغیر با آسانی یاد رکھ سکتے ہیں۔ ایک اور سائیکولوجسٹ جان سوالوو نے جارج ملر کی اس تھیوری کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بیان کیا کہ انسانی یاداشت کے دو حصے ہیں، قلیل مدتی اور طویل مدتی (Long term and short term) طویل مدت کےلیے کوئی بات یاداشت میں محفوظ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ بات قلیل مدت کی یاداشت میں محفوظ ہو۔ جان سوالو کی تحقیق بھی ملر کے نظریہ کی تائید کرتی ہے جس کے مطابق سات مخلوط نمبروں کا مجموعہ ایک عام انسان با آسانی یاد رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے اس تھیوری کو Congnitive Load Theory کا نام دیا۔
سات کے عدد میں مزید کون کون سے اسرار پنہاں ہیں یہ تو مستقبل میں ہونے والی تحقیق اور آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اب تک ہونے والی تحقیق اور اس عدد کا استعمال اسے دوسرے اعداد سے بہت زیادہ منفرد اور دلچسپ بناتا ہے۔
(مدثر ظفر)