• 5 مئی, 2024

This week with Huzoor (27؍اگست 2021ء)

This week with Huzoor
27؍اگست 2021ء

اس ہفتے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے 1500 سے زیادہ خدام کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ للہ تعالی بنصرہ العزیز کے ساتھ virtual ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔جس میں خدام نے پیارے آقا سے مختلف سوالات کے ذریعہ رہنمائی حاصل کی۔

ایک خادم نے سوال کیا۔ کرونا کی وجہ سے بہت سے جماعتی پروگرام منعقد نہیں ہو سکے لیکن اس دفعہ الحمدللہ جلسہ یوکے منعقد ہوا ہے تو میں نے پوچھنا تھا کہ آپ کوکیسا Feel ہوا تھا؟ دو سال کے بعد جلسہ سالانہ منعقد کر کے،مطلب آپ کے کیسے جذبات تھے؟کیسا محسوس کیا آپ نے؟

اس پر حضور نے فرمایا ہاں اچھا محسوس کیا۔جلسہ سالانہ ہوگیا الحمدللہ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن (جلسہ منعقد کرنے کی) توفیق دی۔ آن لائن اس جلسے کو دنیا نے، اور ایم ٹی اے کے ذریعے جماعتوں نے مختلف جگہوں پر اکٹھے ہوکر،اورجمع ہوکر بھی سنا اور گھروں میں بیٹھ کر بھی سنا۔ مجھے تو لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم نے گھروں میں بھی اکٹھے ہو کر سنا اور وہی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لنگر کا آلو گوشت اور لنگر کی دال بنانے کی کوشش کی۔ جماعتی طور پر تو انتظام ویسے ہی ہو رہا تھا اور اس میں بھی میری رپورٹس کے مطابق تو لاکھوں لوگوں نے جلسہ سن لیا۔ اور Gathering کر کے، مختلف جگہوں پر جو اکٹھے ہوکر لوگوں نے سنا،وہ بھی لاکھ سے زیادہ ہی ہوں گے۔اور اس لحاظ سے اللہ تعالی نےاس covid کے بعد ایک بریک تھرو کیا۔ اور آئندہ ان شاء اللہ تعالی راستے کھل گئے اور یہ جو خیال تھا کے اب جلسے پتا نہیں کب ہوں گے؟۔ کب نہیں ہوں گے؟ اور مایوسی کی سی کیفیت طاری ہوگئی تھی جماعت کے لوگوں میں، وہ دور ہو گئی۔اور جب وہ دور ہو گئی تو ظاہر ہے اس سے مجھے خوشی ہونی تھی اور میرا خیال ہے کہ تم لوگ بھی خوش ہو ئے ہو گے؟ کیوں! نہیں ہوئے تم لوگ؟ جس پر خادم نے جواب دیا۔ جی حضور بلکل (خوش ہوئے ہیں)۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہا فغانستان کی جنگ کے بعد دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟

حضور نے فرمایا کے یہ جنگ تو پچھلے سو سال سے لڑی جا رہی ہے افغانستان میں اسی طرح یہ فساد اور فتنے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ تو صورت ِحال افغانستان کی اس وقت سے چل رہی ہے جب سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت کے بعد۔اے کابل کی زمین !تو امن میں نہیں رہے گی۔ امن تو برباد ہو گیا ان کا۔ اور یہ بے امنی کی کیفیت چل رہی ہے۔ اور اب طالبان آگئے ہیں۔اب دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح حکومت چلاتے ہیں اور کتنی دیر باہر کی حکومتیں ان کے ساتھ چل سکتی ہیں۔ دنیا میں آج کل کوئی بھی حکومت جب تک انٹرنیشنل برادری کےاندر شامل نہ ہو جائے وہ چل نہیں سکتی۔ آپس میں اتنا رابطہ ہو چکا ہے ملکوں کا اور ہر ایک ملک دوسرے ملک پر dependent ہے۔ تجارت ہے, اور یہ چیزیں ہیں۔ بہرحال طالبان کو بھی (یہ چیزیں) Realize کرنی پڑیں گی۔ اگر تو یہ شرافت سے حکومت چلائیں گے تو دنیا کے ساتھ کچھ دیر چلتے رہیں گے۔ لیکن جو ان کی شدت پسندی کی سوچ ہے اس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد دوبا رہ وہاں فساد پیدا ہوں گے۔ اور ان لوگوں میں سے خود ہی لوگ اٹھیں گے۔بلکہ اب بھی جس طرح طالبان نے آتے ہی افغانستان کے جھنڈے کو نیچے گرا کر اپنا طالبان کا جھنڈا لہرا دیا۔یہ کوئی ملک فتح تو نہیں کیا تھا۔ افغانستان کا جھنڈا تو رہنا چاہیے تھا۔ اس پر لوگوں نے react کیا، اور جلوس بھی نکالے اور اس کے خلاف افغانستان کا جھنڈا بھی لہراتے رہے،جس کے نتیجے میں یہی خبریں ہیں کہ طالبان نے ان پر فائرنگ بھی کی، کچھ لوگ بھی مرے۔ تو فساد اور فتنہ تو ابھی بھی پڑا ہوا ہے۔دنیا پر اس کا کیا اثر ہونا ہے ؟ہاں ملک پر یہ اثر ہوگا کہ وہاں فتنہ فساد پہلے سے بڑھ جائے گا۔ اگر یہ طالبان اپنی پالیسی کوچینج کرکے امن اور صلح اورصفائی کی پالیسی پر عمل نہیں کریں گے تو باقی دنیا کی جو قومیں ہیں وہ دیکھیں گی، اگر دنیا کو محسوس ہوا کہ یہ دنیا کے لیے خطرہ ہے تو پھر وہاں دوبارہ کوئی نہ کوئی حکومت آئے گی اور قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی پہلے رشیا (روس) تھا۔ رشیا نکلا تو امریکہ نے قبضہ کر لیا۔اب امریکہ نکلا ہے تو شاید چائنا اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے وہاں دخل اندازی کرے پھر بعض اوردوسرے ملک آئیں گے جودخل اندازی کریں گے۔ اس ریجن کی اہمیت کی وجہ سے بین الاقوامی سیاست میں تھوڑی سی تبدیلی پیدا ہوگی کہ افغانستان میں کسی کا قبضہ رہے۔لیکن یہ سب depend کرتا ہے،کہ طالبان کس طرح Behave کرتے ہیں؟ آگے دیکھو کیا ہوتا ہے؟ پھر پتہ چلے گا کہ کیا صورت حال بنتی ہے؟ دو چار مہینے گزرنے دو۔ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کہ کچھ سائنٹسٹ کا خیال ہے کہ کرو نا کی وبا کی وجہ سے انسان کی نفسیات Negtive ہو رہی ہے۔اور (کرونا (اثر انداز ہو رہا ہے۔ پیارے حضور آپ کا اس بارے میں کیا نظریہ ہے ؟ اور اس سے آپ کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے؟

حضورنے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میری زندگی میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ scientist اس لیے کہتے ہیں کہ جو لوگ دنیا داری کی سوچ رکھنے والے ہیں۔جن کا کلبوں میں جائے بغیر گزارا نہیں ہے، جن کا شراب اکٹھے بیٹھ کے پیے بغیر گزارا نہیں ہے، جن کا ہا ہو کیے بغیر، ناچ گانا کیے بغیر گزارا نہیں ہے۔ ان پر جب پابندیاں لگی ہیں تو وہ پریشان ہو گئے۔ ویسے بھی کوئی بھی بیماری جب آتی ہے اور وسیع پیمانے پر پھیل جاتی ہے۔ pandemic ہوجاتی ہے اور ساری دنیا اس میں involve ہو جاتی ہے۔ ایک نفسیاتی اثر یہ پڑتا ہے کہ پتا نہیں ہم بچیں گے یا نہیں بچیں گے۔ لیکن اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور جو احتیاطی تدابیر اللہ تعالی نے کہی ہوئی ہیں ان کو اختیار کرنا چاہیے اور جو میسر علاج ہے وہ کرنے چاہیں۔ تو پھر دنیا کی بعض چیزیں نہ ملنے کی وجہ سے،بعض activities نہ ہونے کی وجہ سے،یا Routine تبدیل ہونے کی وجہ سے ایک معمولی پریشانی تو ہوتی ہے۔ لیکن اتنا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی جلد حالات بدلے اور اگر دنیا والے اللہ تعالی کی طرف رجوع کریں،تو یہ جو ڈپریشن والی بیماری ہے۔ اگر کسی کو اس pandemic کی وجہ سےہے،تو وہ بھی دور ہو جائے گی۔ اللہ تعالی کہتا ہے۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔ اللہ تعالی کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے تو اس میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔لیکن دنیا دار اس طرف رجوع نہیں کرتے اس لیے وہ زیادہ متاثر ہوتے جاتے ہیں اور باقی جہاں تک میری Routine کا سوال ہے تو سوائےاس کے کہ ملاقاتیں بند ہو گئی جو آمنے سامنے ہوا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ تو میریRoutine میں کوئی فرق نہیں پڑا۔مجھے تو صبح سے لے کر شام تک کام سے فرصت ہی نہیں ملتی۔ مجھے پتا بھی نہیں چلتا کہ باہرpandemic پھیلا بھی ہوا ہے کہ نہیں۔ اور وہ جو تھوڑی بہت کمی تھی ملاقاتوں کی تو وہ اس طرح virtual ملاقات کرکے اس کمی کو پورا کر لیتا ہوں.۔کم از کم ہفتہ میں دو دن تو اس طرح گزر جاتے ہیں۔باقی مصروفیت بھی ہوتی ہے اور دفتری ملاقاتیں بھی چل رہی ہوتی ہیں۔باقی خط و کتابت بھی چل رہی ہوتی ہے، ڈاک بھی چل رہی ہوتی ہے، سب چل رہا ہے۔ اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ اتنی دنیا میں پھیلی ہوئی ہے کہ اس کے کاموں کو دیکھنا، نگرانی کرنا،تو وقت کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ کس طرح گزر گیا۔ وقت تھوڑا لگتا ہے اور کام زیادہ۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کے آپ کو اپنی مصروفیات مشکل لگتی ہیں؟

حضور نے فرمایا ظاہر ہے، کام جو ہے۔اگر صحیح طرح کام کرنا ہو تو مشکل ہو تی ہے۔ لیکن اللہ تعالی اسے آسان کر دیتا ہے۔ اور کام ہو جاتا ہے۔تقریباَ روز کاروز کام میں نکال ہی لیتا ہوں۔ باقی پھر بھی فکر یہ رہتی ہے،کہ جو حق ہے کام کرنے کا وہ ادا ہو جائے۔اگر نہیں ادا ہوا تو۔ کہیں اللہ تعالی کی ناراضگی نہ ہو۔ تو اس لحاظ سے مشکل ہوتی ہے۔ باقی ہر کام اگر سنجیدگی سے انسان نے کرنا ہو اس کے لئے مشکل ہی ہوتا ہے۔ محنت کرنی پڑتی ہے۔

ا یک خادم نے سوال کیا… آج کل کرونا کی وبا جو چل رہی ہے اس سے گھروں میں بھی بہت سے مسئلے ہوئے ہیں (مثلا) ایک دوسرے سے لڑائیاں(وغیرہ ) تو اس کا کیا حل ہے؟

حضور نے فرمایا !اس کرونا کی وبا میں تو پھر اللہ تعالی کی طرف جھکنا چاہیے۔اگر یہ وبا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے سزا ہے، تو تب بھی آپس میں محبت اور پیار قائم ہونا چاہیے۔اور اللہ تعالی سے معافی اور توبہ مانگنی چاہیے۔ آپس میں صلح صفائی کی فضا پیدا کرنی چاہیے۔تا کہ اللہ تعالی اس ابتلاء کو دور کر دے، اس وبا کو ہم سے دور کر دے۔ اور اگر یہ امتحان ہے تو تب بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہمیں اس امتحان میں کامیاب کر دے اور آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو۔ اللہ تعالی کہتا ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے،کہ اللہ تعالی حقوق العباد کی طرف بہت توجہ دلاتا ہے۔ اللہ تعالی بعض دفعہ اپنا حق معاف کر دیتا ہے، چھوڑ دیتا ہے۔لیکن اگر تم بندوں کا حق ادا نہیں کرتے تووہ معاف نہیں کرتا۔ اگر خاوند بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا اور بلاوجہ لڑائیاں کر رہا ہے، ابھی میں نے اتنا لمبا خطبہ دیا ہے۔ تقریر کی ہے،لجنہ کے جلسے پر، تو گنہگار ہے اور بیوی خاوند کا حق ادا نہیں کر رہی اور بلاوجہ لڑائیاں کر نے کی کوشش کر رہی ہے تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہی۔اگر بہن بھائی آپس میں لڑ رہے ہیں تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہے اور اگر باپ بچوں کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کر رہا تو وہ بھی حق ادا نہیں کر رہا، اگر ماں چڑچڑی ہو گئی ہے۔اور بچوں کو تنگ کر رہی ہے تو (وہ بھی حق ادا نہیں کر رہی) ایسے حالات میں تو سب کو ایسی طاقت بن جانا چاہیے جو اکٹھی ہو۔ تو پھر ہی اللہ تعالی کے فضل بھی جذب ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے حالات کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے, وہ نہیں کر سکتے, لیکن اتنے بھی حالات کوئی نہیں ہیں۔تم لوگ سارے گھر والے کونسی اتنی پابندی کرتے ہو۔

کرونا کی وجہ سے کام تھوڑا سا اوپر نیچے ہو گیا۔ لیکن(آپ لوگ) بازاروں میں بھی نکل جاتے ہو، سڑکوں میں بھی پھر رہے ہوتے ہو،پارکوں میں بھی چلے جاتے ہو، باپ کا جہاں دل چاہتا ہے وہ بھی اپنے دوستوں میں گپیں مارنےچلا جاتا ہے، جہاں ماں کا دل چاہتا ہے وہ بھی اپنی سہیلیوں میں چلی جاتی ہے گپیں مارنے،اور جہاں تم لوگوں کا دل کرتا ہے تم لوگ بھی چلے جاتے ہو۔ تم لوگ اتنی تو پابندی نہیں کر رہے ہو۔سو فیصد پابندی کر رہے ہوتے تو وبا پہلے ہی ختم ہو جاتی۔ ہاں بعض Restrictions کی وجہ سے بعض دفعہ نفسیاتی اثر ہو جاتے ہیں۔لیکن اس کا طریقہ یہی ہے کہ اللہ تعالی سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کو دور کرے، اورRestrictions ختم ہو جائیں، اور اللہ تعالیٰ ہم سب پر فضل فرمائے۔ یہ تودعاؤں کی طرف توجہ کی ضرورت ہے اور یہ Realize کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کے حق کس طرح ادا کرنے ہیں۔ وہ کرو گےتو گھر میں سکون ہوگا یہ تو عام حالات میں بھی ہے،کرو نا تو بہانہ بن گیا۔ پہلے تو باپ جو تھا وہ گھر سے باہر رہتا تھا سارا دن تو پتہ نہیں لگتا تھا کہ اس کا مزاج کیسا ہے؟ لیکن اب کیونکہ وہ گھر میں رہتا ہے تو اس کی سختیاں بچوں کو بھی جھیلنی پڑتی ہیں، اور بیوی کو بھی، اور اس لیے تم کہتے ہو کہ ابا نے ایسے کر دیا، ابا نے ایسےکر دیا، ایسے کر دیا،یا اماں چڑچڑی ہوگی۔ پہلے تم لوگ بھی باہر گھومتے رہتے تھے۔ اب ذرا کم گھومتے ہو لیکن یہ مجھے پتا ہے کہ گھومتے ہو۔ پس دعاکیا کرو کہ اللہ تعالی اس سے ہمیں بچا لے۔آمین

حضرت صاحب نے اس کے بعد صدرصاحب خدام الاحمدیہ سے سے فرمایا کہ یہاں (اس اجتماع میں )کتنے لوگ ہیں ؟ تو موصوف نے جواب دیا کہ حضور میں نے نشست سے پہلے حاضری کا پتہ کروایا تھا تو حضور پندرہ سوافراد تھے اس پر پیارے آقا نے فرمایا کہ، اس وقت میں ہوں تو اور بھی لوگ آگئے ہیں بعد میں،اضافہ ہوا ہے کافی۔اور(یہ) پروگرام کھلے میدان میں ہورہے ہیں۔یہ دو سال کے بعد اجتماع ہو رہا ہے ؟ جی حضور! فرمایا۔ اجتماع ہو رہا ہے، تو اس کا تو تب ہی فائدہ ہے،جیسا کہ میں نے پہلےبھی کہا ہے کہ جب آپ لوگ اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟ انسان کو اگر اس کا مقصد نہ پتہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں۔زندگی کا مقصد اللہ تعالی نے یہ بتایا ہے کہ میں نے انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اور ایک احمدی مسلمان کویہ پتہ ہونا چاہیےکہ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے کہ اس نے اللہ تعالی سے تعلق پیدا کرنا ہے اور یہ جو اجتماعات ہیں یا تربیتی اجلاسات ہیں یا gatheringہے،یا کچھ عرصے کے بعد آپ کا جلسہ ہورہا ہے تو یہ سب باتیں اس لئے ہیں، تاکہ انسان کی روحانی واخلاقی حالت اچھی ہو، اور علمی حالت اچھی ہو۔اور علم حاصل کرنے کے بعد اگر اس کو اپلائی نہیں کرتے اپنے اوپر۔اوراس پر عمل نہیں کرتے۔ تو ان جلسوں کا پھرکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس لیے کوشش کریں کہ اللہ تعالی ان سب کو توفیق دے جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں کہ جو کچھ یہاں سے سیکھیں اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالی سے اپنے تعلق میں مضبوطی پیدا کرنے والے ہوں۔ تقویٰ کے معیار کو بڑھانے والے ہوں۔ نمازوں کی طرف توجہ کرنے والے ہوں یہی ایک احمدی کی خاص نشانی ہے اور ہونی چاہیے۔ آپ کے اخلاق اچھے ہوں۔ تاکہ دوسرے بھی دیکھ کر آپ کو یہ کہیں کہ ہاں یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اعلی اخلاق ہیں۔ اور یہ لوگ حقیقی مذہب کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ اور اب گزشتہ دنوں جرمنی میں سیلاب آیا۔اور سیلاب کے دنوں میں خدام الاحمدیہ نے بڑی خدمت کی ہے۔اور لوگوں نے آپ کی خدمت کو بہت سراہا ہے اور اللہ تعالی ان سب خدام کو بھی جزا دے،جنہوں نے خدمت کی۔اور اس کا نیک اثر بھی لوگوں پر پڑا۔ یہ نیک اثر صرف دنیاوی لحاظ سے نہ ہو،بلکہ دینی لحاظ سے بھی نیک اثر ہونا چاہیے اور انہی علاقوں میں فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ویسے بھی جاتے ر ہیں۔وہاں اب خدمت ایک دفعہ کر لی ہے اب وہاں پیار محبت اور امن کا پیغام بھی پہنچاتے رہیں تاکہ آپ کے وہاں سے رابطے وسیع ہوں۔ لوگوں کے دل اس وقت نرم ہیں ان علاقوں میں آپ کے لیے اور ان کی نرمی سے فائدہ اٹھائیں اور یہی ایک حقیقی مومن کی نشانی ہے کہ وہ ہر موقع پر اللہ تعالی کی توحید کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین

سالانہ اجتماع جرمنی میں شامل طلباء کی
حضرت صاحب سے آن لائن شرف ملاقات

حضرت صاحب نے صدر صاحب خدام الاحمدیہ جرمنی کو مخاطب کرتے ہوئے موسم کی صورت حال پرفرمایا کہ۔کل آپ کے ایک لڑکے نے کہا تھا کہ گرمی بڑی ہے، ٹھنڈ ہوجائے۔ تو آج بارش ہو گئی ہے،اوراب مشکل پڑ گئی ہے،(وہ جو)پیچھے بیٹھے ہوئے(ان کی تو) چھتریوں پر چھتریاں کھل رہی ہیں اور آپ بغیر برساتی کے ہیں، اور نہ چھتری لی ہے۔۔اگلوں کو بارش نہیں پڑ رہی۔جس پر صدر صاحب نے کہا کہ حضور ابھی تو کسی قسم کی دشواری نہیں ہے اور ان شاء اللہ ہم بیٹھے رہیں گے بارش جیسی بھی ہو۔(حضور خدام کو )چھوٹی چھوٹی پلاسٹک کی جیکٹس دی ہیں۔وہ بھی اگر (بارش)بہت زیادہ ہوتی ہے۔لیکن اللہ کرےکہ اس کی ضرورت نہ پڑے۔جس پر حضور نے فرمایا ابھی تھوڑی تھوڑی پھوار پڑ رہی ہے؟ تو صدر صا حب نے کہا کہ جی حضور الحمد اللہ اچھا محسوس ہو رہا ہے حضور نے فرمایا۔اچھا پھر اس لڑکے کی دعا قبول ہوگئی ہے جو کہہ رہا تھا کہ دعا کریں کہ بارش ہو جائے، موسم اچھا ہو جائے۔ دیکھتے ہیں اچھے موسم میں کتنا صبر ہے؟

ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور خاکسار رہنمائی چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے کابل کے متعلق جوپیشگوئی فرمائی، جس پر پیارے آقا نے کل روشنی بھی ڈالی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا سرزمین ِکابل کو کبھی امن نصیب ہوگا؟ اور کیسے؟

حضور نے فرمایا !سرزمینِ کابل میں اس وقت امن ہوگا جب یہ لوگ خدا تعالی کی طرف رجوع کریں گے۔ اور خدا تعالی کے فرستادے کی بات کو سنیں گے اور جو انہوں نے ظلم کئے ہیں اس کا مداوا کریں گے۔ اس کا مداوا یہی ہے، کہ اللہ تعالی نے اس زمانے میں جس امام کو بھیجا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلام کو بھیجا ہے تاکہ دین کی نئے سرے سے اشاعت کرے اور دنیا میں پھیلائے۔ اس کو مانیں گے۔ تو پھر دنیا میں امن قائم ہوگا۔ اور یہی شرط کابل کے لئے ہے نہیں تو اسی طرح لڑائیاں اور فساد ہوتے رہیں گے اور عمومی طور پر یہی حال مسلم امہ کا بھی ہے۔جب اللہ تعالی کی بات کو نہ مانیں،اور صرف مانے نہیں، بلکہ اس کی سخت مخالفت بھی کریں، اور نفی بھی کریں اور اپنا دین، (یعنی)مرضی کا دین پھیلانے کی کوشش کریں(گے)۔ کہیں Blasphemy Lawکو کہہ دیں کہ یہ ہوتا ہے۔ اور کہیں اپنی مرضی سے کچھ اور کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم ظلم نہیں کریں گے۔قرآن شریف میں تو لکھا ہے کہ ایک کلمہ گو مومن کی جان لینا تمہیں جہنم میں لے جائے گی اور یہ مسلمانوں کو مارتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں جو انقلاب ہوا ہے،جسے یہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ جیسا انقلاب ہوگیا ہے۔ یہاں کون سے کافر تھے ؟وہ تو مسلمان ہیں جن پر تم لوگوں نے قبضہ کیا۔ فتح مکہ کہاں سے ہوگی ؟اس طرح تو پھر امن قائم نہیں ہوتا۔اللہ تعالی کے حکموں کو ماننا پڑے گا۔ اللہ تعالی کی باتوں کو مانیں گے تو امن ہوگا۔ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کو بند کریں گے تو امن قائم ہوگا۔ اور ہمارا کام یہی ہے کہ اس پیغام کو پہنچاتے رہنا اور کوشش اور دعا بھی کرتے رہنا کہ اللہ تعالی کرے کہ ان لوگوں کو عقل آ جائے۔ اور یہ ماننے والے ہوں،اور کم از کم اپنے رویوں کو ٹھیک کرنے والے ہوں، ظلموں کو ختم کرنے والے ہوں۔پھر بھی امن کی کوئی گنجائش ہے اور پھر اللہ تعالی معاف کرنے والا بھی ہے وہ معاف کرتا ہے۔

ایک اور خادم نے سوال کیا کے، حضور اگر (ان شاءاللہ) آپ کو دوبارہ موقعہ ملے ربوہ جانے کا، تو وہ کون سی جگہ ہوگی جہاں آپ سب سے پہلے جانا پسند فرمائیں گے؟

حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا موقعہ پیدا کروا دو۔ پھر میں تمہیں ساتھ لے جاؤں گا، (اور تم) ساتھ جا کے خود ہی دیکھ لینا۔ ظاہر ہے کہ پہلے انسان جب ربوہ جاتا ہے جو بزرگ ہیں جن کو ہم چھوڑ کے آئے اور جو وہاں رہے جنہوں نے ربوہ آباد کیا ان کی یادیں ہی ربوہ سے وابستہ ہیں۔ تو عموما یہی ہوتا ہے کہ انسان پہلے ان بزرگوں کے مزاروں پر، ان کی قبروں پر،حاضری دے کر ان کے لیے دعا کرتا ہے۔ اور پھر پورے شہر کے لیے دعا کرتا ہے اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتا ہے۔ تو ربوہ جا کر جس طرح ہم قادیان جاتے ہیں، تو پہلے جاتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر جاتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے۔ اگر مکہ مدینہ جائیں اور مدینہ جائیں تو سب سے پہلے روزہ مبارک پر ہی جاتے ہیں۔ تو یہاں بھی بزرگ جہاں دفن ہیں، جنہوں نے ربوہ کو آباد کیا اور ربوہ کو سینچا۔ ربوہ کو بنایا تو ان کی یادیں وابستہ ہیں۔ تو پرانے بزرگوں کی یادیں تازہ کرنا کیلئے اور ان کے لئے دعا کرنے کے لئے عموما تو یہی ہوتا ہے کہ وہاں جایا جائے۔ باقی اس وقت حالات کیا ہوں گے؟ جب ہوں گے تو دیکھ لیں گے۔ اور اگر موقع ملے تو میرے ساتھ آجانا۔

ایک خادم نے سوال کیا کے اگر خواب میں کوئی خلیفہ نظر آئے تو اس سے یہ تعبیر کی جا سکتی ہے کہ یہ سچی خواب ہے؟

حضور نے فرمایا! کہ یہ تو پتا نہیں کہ سچی خواب ہے کہ غلط ہے۔بعض دفعہ سوچ سوچ کر بھی ہو جاتا ہے۔لیکن ناموں کی تعبیر ہوتی ہے۔ خلفاء کے نام بھی اچھے ہیں،اور نیک خواب ہے اور نیکی کی بات کر رہے ہیں تو وہ سچی خواب ہو گی۔ وہ تو سیاق و سباق سے پتہ لگتا ہے کہ آگے پیچھےجو خواب کے ہے وہ کیا ہے؟ کس طرح کی ہے؟مختلف خوابوں کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں۔ صرف ایک چیز کو دیکھ لینا تو (کوئی) بات نہیں ہے۔ بعض خوابیں ناموں کے حساب سے ہوتی ہیں ان کی تعبیر ہو جاتی ہے۔ بعض (دفعہ) جو حالات اس وقت خواب میں پیش آرہے ہوتے ہیں، نظر آ رہے ہوتے ہیں، ان کے حساب سے بھی (تعبیر) ہوتی ہے تو یہ depend کرتا ہے۔ اب کوئی کہہ دے کہ اسے فلاں خلیفہ نظر آیا ہے، اور اس نے کہا ہے کہ تم نمازیں پڑھنی چھوڑ دو، تو وہ تو جائز نہیں ہے۔

ایک لطیفہ ہے ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے۔ان کا ایک اکلوتا بیٹا تھا جو بڑھاپے میں پیدا ہوا۔ نماز پڑھنے میں بہت سست تھا۔ تو وہ اپنے اباجی کو کہتا تھا (جو کہ)بڑے امیر آدمی تھے بڑے لینڈ لارڈتھے،وہ احمدی ہوئے۔بہت بڑی سیاسی پارٹی کے خاندان سے تھے۔ وہ تعلیم دلوانے کے لیے اپنے بیٹے کو ربوہ میں لے آئے (انکی) بیوی فوت ہو گئی(ہوئی) تھی اور بیٹا ان کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک دن بیٹا اٹھ کے کہتا ہے، ابا جی خلیفہ ثانی میرے خواب میں آئے انہوں نے کہا بچے تم نمازیں نہ پڑھا کرو۔ تو وہ بزرگ بڑے ہوشیار تھے انہوں نے کہا بیٹا۔ دروازے کی طرف پہلے پلنگ ان کا تھا اور اس سے آگے دیوار کی طرف ان کے بیٹے کا ہوتا تھا۔ کہتے بیٹا (پنجابی میں) «او جو میری منجی ٹپ کے تیرے کول آئے میرے کان وچ کیوں نہ کہہ گئے» (یعنی) میرا پلنگ پھلانگا انہوں نے اور تمہارے پاس گئے کہنے کے لیے کہ نمازیں نہ پڑھا کرو تو میں دروازے کے قریب تھا میرے کان میں کہہ جاتے کے نمازیں نہ پڑھا کرو۔ تو اس طرح کی باتیں depend کرتی ہیں، کہ خواب بنائی ہوئی ہے یا واقعی حقیقی خواب ہے۔ اور بعض دفعہ بندہ جو باتیں سوچتا ہے،وہ اس کے خیالات میں آ جاتی ہیں جس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ تو جہاں تک کسی خلیفہ کے آنے کا تعلق ہے اگر وہ نیکی کی باتیں بتا رہا ہے تو خواب جائز ہے،ٹھیک ہے، اچھی ہے، سچی ہے۔ اور اگر اس کی طرف غلط بات منسوب کر رہے ہو تو وہ خواب غلط ہے۔ یہ تو انسان کی سوچ پر انحصار کرتا ہے۔

جیسے جیسے کلاس کا وقت آگے بڑھ رہا تھا تو بارش تیز ہونا شروع ہوگئی،لیکن خدام خلیفہ المسیح کی طرف سے ملنے والی رہنمائی کو مکمل توجہ سے بیٹھے ہوئےسن رہے تھے۔اور حضور نے اس ڈسپلن اور صبر پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا۔

صدر صاحب! ماشاء اللہ خدام نے ساری بارش اپنے اوپر لے لی ہے۔ یہ میں نے دیکھ لیا کہ ماشاء اللہ آپ کے خدام میں صبر اور حوصلہ ہے۔ کم از کم اتنی طاقت ہے، اتنااظہار ہے، کہ بارش کو برداشت کر سکیں۔اللہ تعالی مزید ان میں قوتِ برداشت اور طاقت بھی پیدا کرے۔ اور یہ حقیقت میں دین کے خادم بننے والے ہوں، اور اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے والے ہوں جو خدام الاحمدیہ کا مقصد ہے۔ اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جو عہد با ندھتےہیں اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور خلافت کی حفاظت کرنے والے ہو ں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اس بارے میں کوشش بھی کریں۔ اپنے دینی علم کو بھی بڑھائیں اور اسلام اور احمدیت کا پیغام بھی اپنے ملک میں پھیلانے والے ہو ں اللہ تعالی آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اس کے بعد حضور نے صدر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، کچھ کہہ رہے ہیں ؟ جس پرصدر صاحب نے کہا۔ حضرت اقدس کی خدمت میں ایک درخواست تھی کہ ہمارے اجتماع کی تمام سرگرمیاں اب مکمل ہو چکی ہیں۔ حضور نے فرمایا علم انعامی میں دیکھ رہا ہوں مجھے علم انعامی نظر آرہا ہے،آپ علم انعامی تقسیم کر دیں گے۔ میں تو ٹی وی سکرین کے اندرسے ہاتھ بڑھا کر علم انعامی پکڑانہیں سکتا۔حضور نے صدر صاحب سے فرمایا۔کیا کچھ کہنا چاہتے ہیں ؟ جس پر صدر صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ حضور اگر آپ اپنی شفقت کی نظر ان خدام پر جنہوں نے انعام حاصل کیے ہیں ایم ٹی اے اگر ان کو دکھا دے اس پر حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا دکھادو۔ ایم ٹی اے علم انعامی پکڑنے والوں پرشفقت کی نظر ڈال دے۔

خدام الاحمدیہ میں مجلس Hanover نے علم انعامی حاصل کیا۔ اور اطفال الاحمدیہ میں مجلس Munster نے علم انعامی حاصل کیا۔ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالی مبارک کرے اور یہ صرف علم انعامی ہی نہ ہو، بلکہ علم انعامی لینے کے بعد پہلے سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں، اور احمدیت کا نام روشن کرنے والے ہوں۔

(ٹرانسکرپٹ وکمپوزنگ: ابو اثمار احمد اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

اعلان کامیابی و درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2021