• 8 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 26)

قرآنی انبیاء
حضرت الیسع علیہ السلام
قسط 26

حضرت الیسع یا یسعیاہ علیہ السلام خدا کے برگزیدہ نبی اور بنی اسرائیل کے بڑے انبیاء میں شمار کئے جاتے ہیں۔
جنہیں روحانی علم ملا اور آپ نے بہت کثرت سے پیشگوئیاں کیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں۔

قرآن کریم میں ذکر

حضرت الیسع (یعنی یسعیاہ) کا قرآن کریم میں دو جگہ پر ذکر ملتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَالۡیَسَعَ وَیُوۡنُسَ وَلُوۡطًا ؕ وَکُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۸۷﴾ (الانعام: 86)۔ اور اسماعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو (بھی ہدایت دی تھی) اور ان سب کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔

پھر فرمایا: وَاذۡکُرۡ اِسۡمٰعِیۡلَ وَالۡیَسَعَ وَذَا الۡکِفۡلِ ؕ وَکُلٌّ مِّنَ الۡاَخۡیَارِ ﴿ؕ۴۹﴾ ہٰذَا ذِکۡرٌ ؕ وَاِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ لَحُسۡنَ مَاٰبٍ ﴿۵۰﴾ (ص: 49-50) اور اسماعیل اور یسع (یعنی یسعیاہ) کو یاد کرو اور ذوالکفل (یعنی حزقیل) کو (یاد کرو) اور یہ سب کے سب ہمارے نہایت نیک بندوں میں سے تھے۔ یہ (تذکرہ) ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کے لئے ایک یاد دہانی ہے اور متقیوں کے لئے یقیناً نہایت اعلیٰ درجہ کا ٹھکانا مقرر ہے۔

قرآنی نبی حضرت الیسع علیہ السلام ہی بائبل میں مذکور یسعیاہ ہیں

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں زیر آیت (الانعام: 86) حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’الیسع یعنی یسعیاہ کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ ان کو بھی الیاس سے تشبیہ دی جاتی ہے‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ175 حاشیہ نمبر 2)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیر صغیر میں سورہ ص آیت نمبر 49 کا ترجمہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’اور اسماعیل اور یسع (یعنی یسعیاہ) کو یاد کرو‘‘

(تفسیر صغیر صفحہ 602)

حضرت الیسع علیہ السلام کا مردے زندہ کرنا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’انبیاء بے شک مردے زندہ کر لیتے تھے۔ جیسا کہ ایلیاہ نبی اور الیسع کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے (روحانی) مردے زندہ کئے۔ (نمبر1 سلاطین باب17 آیت22 ونمبر2 سلاطین باب4 آیت35)‘‘

(تفسیر کبیر جلد 05 صفحہ 62)

یہودی حضرت حزقیل اور حضرت یسعیاہ علیہما السلام کو برابر کے انبیاء مانتے ہیں

حزقیل اور یسعیاہ کا خاص جوڑ تھا جو پیشگوئیاں یسعیاہ نے کی تھیں وہ حزقیل کے زمانہ میں پوری ہوئی تھیں اور یہودی مصنف یسعیاہ اور حزقیل کاباہم مقابلہ بھی کرتے ہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد05 صفحہ555)

حضرت یسعیاہ علیہ السلام ایک بڑے نبی تھے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت داؤد علیہ السلام ایک بڑ ےنبی تھے لیکن ان کا کام موسیٰ کے کام میں مدغم ہو گیا۔ حضرت یسعیاہؑ ایک بڑے نبی تھے۔ یرمیا ہؑ ایک بڑے نبی تھے۔ حزقیلؑ ایک بڑے نبی تھے عزرؑ ا ایک بڑے نبی تھے لیکن ان سب کے کام موسیٰؑ کے کام میں مدغم ہو گئے۔

(تفسیر کبیر جلد05 صفحہ232)

حضرت یسعیاہ بار بار عرش خدا دیکھتے تھے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حزقیل کے متعلق لکھاہے کہ اس نے یسعیاہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ خدا کے تخت گاہ کاحال بیان کیا لیکن یہودی علماء کہتے ہیں کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ یسعیاہ سے بڑا تھا۔ اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ اس نے خدا کے تخت کو صرف ایک دفعہ دیکھا اس لئے زیادہ تفصیل سے یاد رکھا۔ یسعیاہ بار بار دیکھتا تھا اس لئے اس کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی‘‘

(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ557)

اسلام اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں حضرت یسعیاہ کی پیشگوئیاں

بائبل میں حضرت رسول کریم ﷺ کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جو مختلف انبیاء نے اپنے وقتوں میں بیان کی ہیں اس سلسلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’تورات سے بھی آپ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی صداقت کے دلائل ملتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا بھی آپ کی صداقت کی دلیل ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئیاں بھی آپ کی صداقت واضح کر رہی ہیں۔ یسعیاہ نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں۔یر میاہ نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں۔ حزقیل نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں اور ان کے علاوہ کئی دوسرے انبیاء نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی ہیں اور وہ سب کی سب آپ پر پوری ہورہی ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ373)

اس مضمون میں حضرت یسعیاہ علیہ السلام کے حوالے سے ان کی بیان کردہ بعض پیشگویئاں اور ان کا پورا ہونے کا ذکردرج ذیل ہے۔

1. عرب میں بھی الہامی کلام اترے گا

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اس نے موسیٰ کے ذریعہ خبر دی تھی کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے بھی یعنی بنو اسماعیل میں سے ایک نبی بھیجا جائے گا اور یسعیاہ نبی کے ذریعہ سے اس نے کہا تھا کہ عرب میں بھی خدا کا کلام اترے گا پھر یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ خداکی دونوں باتیں جھوٹی ہوتیں۔ خداتعالیٰ بھولتا نہیں۔۔۔ اسی طرح وہ اس وحی کو نہیں بھول سکتا تھا جو یسعیاہ نبی پر نازل ہوئی کہ عرب میں بھی الہامی کلام اترے گا (یسیعاہ باب21 آیت 13 تا 17 اور باب09 آیت6-7)

(تفسیر کبیر جلد05 صفحہ325)

2. نزول قرآن کریم کی پیشگوئی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَاِنَّہٗ لَفِیۡ زُبُرِ الۡاَوَّلِیۡنَ قرآن کریم کو ایک اور فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ اس کا ذکر پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اور ان میں صراحتاً اس کے نزول کی خبر دی گئی ہے۔ بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کلام دنیا کو ایک عربی نبی کی زبان سے سنایا جائے گا۔ چنانچہ مثال کے طور پر اس کے ثبوت میں یسعیاہ نبی کی ایک پیشگوئی کاذکر کیاجاتاہے۔ وہ اپنی کتاب کے باب 28 میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا۔ کس کو وعظ کرکے سمجھائے گا۔ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے کیونکہ حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔قانون پر قانون ہوتا جاتا۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں وہ وحشی کے سے ہونٹوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے ان سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے۔تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیئو۔ اوریہ چین کی حالت ہے۔ پر وَے شنوانہ ہوئے۔ سو خدا کا کلام ان سے یہ ہو گا حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون۔ تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں۔ تاکہ وَے چلے جاویں اورپچھاڑی گریں اور شکست کھا ئیں اوردام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں‘‘

(یسعیاہ باب28 آیت9-13)

یسعیاہ نبی نے اس کلام میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ پھر لوگوں کی روحانی تشنگی اور بھوک کودور کرنے کے لئے آسمان سے اپنادودھ نازل فرمائے گا۔مگر یہ دودھ اس قوم کو پلایاجائے گا جس کے افراد ایک لمبے عرصہ سے چھاتیوں سے جدارہ چکے ہوں گے۔یعنی جن پر فترت کا ایک لمبا زمانہ آچکا ہوگا۔اوراس کلام کی ایک خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ یکدم نازل نہیں ہوگا اورنہ کسی ایک شہر اورمقام میں نازل ہوگا۔ بلکہ قانون پر قانون اور حکم پر حکم مختلف مقامات میں نازل ہوگا اور ایک لمبے زمانہ میں اس الٰہی قانون کی تکمیل ہوگی۔

پھر اس کلام کا ایک اَور وصف یہ ہوگا کہ وہ ایک اجنبی یعنی غیر زبان میں نازل ہوگا۔ اور آنے والا مقدس رسول وحشی کے سے ہونٹوں کے ساتھ کلام کرے گا۔یہ وحشی کا لفظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عربی نبی ہونے کی طرف اشارہ کررہاہے کیونکہ بائبل کی اصطلاح میں عربوں کے لئے وحشی کالفظ استعمال ہوتاہے۔۔۔ وہ (عرب) جنگلوں میں رہتے تھے اورخیموں میں ان کی زندگی کٹتی تھی ان کے مخالف انہیں خیموں اورجنگلوں میں رہنے والا کہنے کی بجائے وحشی کہنے لگ گئے۔ اور بائبل نے بھی یہی طریق اختیار کیا۔ اسی وجہ سے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ’’وحشی کے سے ہونٹوں سے کلام کرے گا‘‘ یعنی وہ عرب میں مبعوث ہو گا۔ اور عربی میں اس پر کلام الٰہی نازل ہوگا۔چنانچہ اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے پہلے ’’بِلِسَانٍ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٍ‘‘ کے الفاظ لئے گئے ہیں اورپھر کہا گیاہے کہ تمہیں اس کلام کے قبول کرنے میں کسی قسم کے تردّد اورہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیئے کیونکہ تمہارے اپنے نبیوں کی کتابوں میں اس کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد07 صفحہ269-270)

3. کیفیت نزول قرآن کریم کی پیشگوئی

یسعیاہ باب28 آیت 9 تا 13 میں جس کے کلمات ابھی لکھے گئے ہیں کی تفصیل میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (01) اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں اسی قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دی گئی اور جو اپنی والدہ سے جدا کئے گئے یعنی نبوت پانے کے بعد اس سے محروم کر دیے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت آئے جب نبوت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دیے گئے تھے اور نبوت کی چھاتیوں سے جدا کر دیے گئے تھے۔ قرآن کریم میں آتا ہے یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ عَلٰی فَتۡرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا جَآءَنَا مِنۡۢ بَشِیۡرٍ وَّلَا نَذِیۡرٍ ۫ فَقَدۡ جَآءَکُمۡ بَشِیۡرٌ وَّنَذِیۡرٌ ؕ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۰﴾ (مائدہ: 20) یعنی اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے رسولوں کے ناغہ کے بعد وہ تمہارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تایہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دیے والا آیا نہ ڈرانے والا، پس خوب سن لو کہ تمہارے پاس اب ایک خوشخبری دینے والابھی اور ڈرانے والا بھی آ گیا ہے اور اللہ ہر امر پر خوب قادر ہے۔ غرض اسی آیت میں یسعیاہ نبی کے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا کس کو وعظ کر کے سمجھا ویگا ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے۔‘‘

(02) دوسرے وہ کلام جو اس قوم کے لئے نازل ہو گا یکدم نازل نہ ہو گا نہ کسی ایک شہر میں نازل ہو گا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُترینگے۔ قرآن کریم اسی طرح اُترا کچھ مکہ میں کچھ مدینہ میں کچھ سفروں میں حتٰی کہ دشمنوں نے اعتراض کیا کہ لَوۡلَا نُزِّلَ عَلَیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ جُمۡلَۃً وَّاحِدَۃً (فرقان: 32) سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہ اُترا اور باوجود یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مسیحی لوگ آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے۔

(03) تیسرے وہ کلام ایک عرب کی زبان سے سنایا جائے گا اور غیر زبان یعنی عربی زبان میں سنایا جائے گا کیونکہ وحشی کا لفظ عرب پر دلالت کرتا ہے۔۔گو قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر اک کو نظر آتا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے: وَمِنۡ قَبۡلِہٖ کِتٰبُ مُوۡسٰۤی اِمَامًا وَّرَحۡمَۃً ؕ وَہٰذَا کِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِیًّا لِّیُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ٭ۖ وَبُشۡرٰی لِلۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿ۚ۱۳﴾ (احقاف: 13) یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب گزر چکی ہے یہ قرآن اس کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عربی زبان میں اُترا ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے اس جگہ قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا موسوی کتب کی تصدیق کا موجب قرار دیا ہے۔

(04) چوتھے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نبی یہود سے کہے گا کہ اس کا جائے رہائش آرامگاہ یعنی امن کا مقام ہے پس تم اُن کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیو۔ اس طرح تم چین سے رہو گے۔ مگر یہود نبی کی اس بات کو نہ مانیں گے اور اسجگہ کو آرامگاہ نہ بننے دینگے اور تھکے ہوؤں کو تکلیف دیں گے یہ امر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتا ہے آپؐ نے مدینہ منورہ کو جہاں یہود بھی رہتے تھے مکہ مکرمہ کی طرح امن کی جگہ قرار دیا اور یہود سے مدینہ منورہ کو با امن رکھنے کے لئے معاہدہ کیا (سیرت حلبیہ جلد 02) لیکن انہوں نے تھکے ہوؤں کو یعنی مہاجرین کو جو دُور سے سفر کر کے آئے تھے آرام سے نہ رہنے دیا اور مطابق پیشگوئی خود بھی چین نہ پایا۔

(05) پانچویں اس پیشگوئی میں تھا۔ حکم پر حکم نازل ہو گا ’’تاکہ وے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں۔‘‘ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری ہوئی۔ یہود نے جب تھکے ہوؤں کو آرام میں نہ رہنے دیا تو وہ چلے بھی گئے یعنی کچھ ان میں سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے وہ ’’پچھاڑی بھی گرے‘‘ یعنی بعض قتل بھی کئے گئے انہوں نے شکست بھی کھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دام میں پھنسے اور گرفتار بھی ہوئے بعض ان میں سے غلام بھی بنائے گئے۔یہ کیسی واضح پیشگوئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ376-378)

4. بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی آنے کی پیشگوئی

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یسعیاہ نبی کی کتاب میں بھی جہاں وہ عرب کے متعلق پیشگوئی کرتے ہیں بنو اسمٰعیل کا خاص طور پر نام آتا ہے۔ گویا یسعیاہ نبی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بنو اسمٰعیل عرب میں بسے ہوئے تھے۔ غرض ایک طرف بائبل یہ بتاتی ہے کہ بنو اسمٰعیل عرب میں تھے اور دوسری طرف بائبل پیشگوئی کرتی ہے کہ بنو اسحاق کے بھائیوں یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی آئے گا۔ ان دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر یا پیشگوئی کے دونوں گروپوں کو ملا کر صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک نبی بنواسمٰعیل میں آنے والا تھا۔ پس جب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت قریب آگیا تو لوگوں میں اس آنے والے موعود کے متعلق ایک عام چرچا شروع ہو گیا‘‘

(تفسیر کبیر جلد10 صفحہ54)

5. روحانی بادشاہ مبعوث ہونے کی پیشگوئی

یسعیاہ نبی فرماتے ہیں ’’باوجود اس کے خداوند یہودا یوں فرماتا ہے دیکھو میں صیحون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھونگا ایک آزمایا ہوا پتھر کونے کے سرے کا ایک مہنگ مولا ایک مضبوط نیو (بنیاد) والا پتھر اس پر جو ایمان لاوے اتاولی نہ کرے گا‘‘

(یسعیاہ باب 28 آیت 16)

حضرت داؤد علیہ السلام فرماتے ہیں ’’وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا ہے یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے‘‘ (زبور 118 آیت 22 و 23)۔ پھر فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے ہم خداوند کے گھر میں سے تم کو مبارک بادی دیتے ہیں‘‘(آیت 26)

پھر اسی بارہ میں دانیال علیہ السلام پر الہام نازل ہوا اس کا قصہ یوں ہے کہ بنو کد نضر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جسے وہ بھول گیا اس نے اپنے منجموں سے اس کا حال پوچھا مگر انہوں نے بھولی ہوئی خواب کی تعبیر بتانے سے معذوری ظاہر کی اس پر بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا دانیال نبی جو یروشلم سے لائے ہوئے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے یہ حال سنا تو اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور اس نے ان کو خواب اور اس کی تعبیر بتا دی اس پر انہوں نے بادشاہ سے خواب اور اس کی تعبیر بتانے پر آمادگی ظاہر کی اور خواب اور اس کی تعبیر بتائی ’’تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی اس مور ت کا سر خالص سونے کا تھا اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کے۔ اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں اس کی ٹانگیں لوہے کی اور اس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور ٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔۔اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا۔ تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کریگی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو گی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تُو نے دیکھا کہ اس کے پائوں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی۔ اور کچھ لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اس میں ہو گی اور جیسا کہ پائوں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں۔ سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملا دینگے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیساوے باہم میل نہ کھاوینگے اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو ویگی اور ان سب مملکتو ں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہاڑسے کاٹ نکالے آپ سے نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی او رچاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی‘‘

(دانیال باب6 آیت31-45)

ان تین انبیاء کی بتائی ہوئی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک روحانی بادشاہ کا ظہور ہونے والا تھا جس نے کونے کے پتھر کی حیثیت پانی تھی یعنی وہ روحانی سلسلہ کا آخری وجود ہونے والا تھا۔ وہ پتھر بڑا قیمتی ہو گا مضبوط ہونے والا۔ جو اس پر ایمان لائینگے صاحب وقار ہونگے اور جلد باز نہ ہوں گے وہ پتھر ایسا ہو گا جسے معماروں نے رد کیا ہوا ہو گا وہ زبردست بادشاہوں کو کچل ڈالے گا وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اور کسی انسان کے ہاتھ نے اسے نہ گھڑا ہو گا۔۔۔ اس حوالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل دی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کا انکار کیا آخر خدا تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کو بھیجا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا یعنی خود مسیح علیہ السلام لیکن بنی اسرائیل ان کا بھی انکار کریں گے اور انہیں قتل کریں گے یعنی قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔۔اس پر ایک ایسا نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا اور وہ کونے کا پتھر ہو گا اس کی آمد پر بنی اسرائیل کو مکمل سزا دی جائے گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک ایسی قوم کے سپرد کی جائے گی جو خدا تعالیٰ کو وقت پر میوہ پہنچائیں گے یعنی خدا تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح بجا لائیں گے وہ پتھر اس شان کا ہو گا جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چور چور ہو گا۔

یہ پیشگوئیاں جن کے بیان کرنے میں چار نبیوں نے حصہ لیا ہے یعنی حضرت یسعیاہ، حضرت داؤد، حضرت دانیال اور حضرت مسیحؑ ایسی واضح طور پر رسوال کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری ہوتی ہیں کہ سوائے تعصب سے اندھے شخص کے کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا آپ بنو اسماعیل میں سے تھے جن کو بنو اسحاق نے ہمیشہ رد کیا اور ابراہیمؑ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم رکھنے کی کوششیں کیں آپ نے خود دعویٰ فرمایا کہ میں کونے کا پتھر ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَقُولُونَ:مَا رَأَيْنَا بُنْيَانًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا، إلَّا هَذِه اللَّبِنَةِ، فَكُنْتُ أَنَا تِلْك اللَّبِنَةَ

(مسلم کتاب الفضائل)

یعنی میرا اور دوسرے انبیاء کا حال یُوں ہے کہ جیسے کسی نے ایک عمدہ اور خوبصورت محل تیار کیا پھر لوگ کثرت سے اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم نے اس سے عمدہ محل کوئی نہیں دیکھا ہاں یہ کونہ اس کا ننگا ہے پھر خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا اور میں وہ کونے کا پتھر ہوں۔ ] یہی روایت ’’صحیح بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں بھی آئی ہے، ناقل۔

آپؐ کا وجود نہایت قیمتی وجود تھا اور آپ کی بنیاد مضبوط جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ باوجود دُنیا کی شدید مخالفت کے تیرہ سو سال سے آپؐ کے مقام کو کوئی نہیں ہلا سکا۔۔۔پھر اس کونے کے پتھر کی شان یہ بتائی تھی کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا کہلائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے نام پر آئے گا۔ مسیح علیہ السلام نے اس کی مزید تشریح یہ کر دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے نام پر آنے والا خدا کا بیٹا کہلانے والے کے بعد آئے گا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کا آنا خدا کا آنا کہلایا۔ چنانچہ آپؐ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ (فتح: 11) یعنی وہ لوگ جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے۔

پھر اس پیشگوئی میں ہے کہ وہ پتھر جس پر گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا چور چور ہو گا سو ایسا ہی آپ سے ہوا۔ باوجود انتہائی غربت اور کمزوری کے ساری قوموں سے آپؐ کی لڑائی ہوئی اور آپؐ کامیاب رہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو آپؐ کی جنگوں کا نقشہ ہی کھینچ دیا ہے یعنی فرماتے ہیں۔ ’’جو اس پتھر پر گرے گا وہ چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘ یعنی اس کی جنگوں کی یہ کیفیت ہو گی کہ پہلے دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت نقصان اٹھاتا رہے گا بعد میں وہ دشمن پر حملہ کرے گا اور اسے تباہ کر دے گا اسی طرح آپ سے ہوا کہ پہلے آپ کے دشمن آپ پر حملہ کرتے رہے اور چور ہوتے رہے بعد میں آپ نے حملہ کیا اور ان کی شوکت کو بالکل توڑ دیا۔۔۔ پھر لکھا تھا کہ وہ ان گھڑا پتھر ہو گا اس سے مراد یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو گا اور انسانوں نے اسے تعلیم نہ دی ہو گی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی تھے اور قرآن کریم نے اس پیشگوئی کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے: اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَالۡاِنۡجِیۡلِ (اعراف: 158) یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی اور امی کی جس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے، اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تورات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تین ناموں سے کیا گیا ہے۔ رسول کے نام سے نبی کے نام سے۔ اور امی یعنی ان پڑھ کے نام سے اور جیسا کہ اوپر کے حوالہ جات میں بتایا گیا ہے عہد نامہ قدیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان گھڑے پتھر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انجیل نے اس پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اور گویا عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آپ کے امی ہونے کی خبر دی ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد اول ص378-382)

6. حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی پیشگوئی

پھر جب ہم کتب سابقہ کو دیکھتے ہیں توہمیں ان میں بھی یہ پیشگوئی نظر آتی ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوایک دن اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑے گی۔اور پھر دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آپ فاتحانہ طورپرمکہ میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ آپ کی ہجرت کی خبریسعیاہ باب21 میں پائی جاتی ہے جہاں لکھا ہے: ’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔ اے دوانیوں کے قافلو ! پانی لے کر پیاسے کااستقبال کرنے آؤ۔ اے تیماکی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کربھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے۔ ننگی تلوار سے اورکھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے۔اورخداوند اسرائیل کے خدانے یوں فرمایا‘‘

(یسعیاہ باب21 آیت13-17)

اس پیشگوئی میں دوانیوں کے قافلوں سے اورتیماکی سرزمین کے باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم روٹی اورپانی لے کر ان لوگوں کا استقبال کرنے کے لئے آگے بڑھو جومخالفین کے جوروستم اوران کی ننگی تلواروں اورکھچی ہوئی کمانوں کاایک لمبے عرصے تک نشانہ بنے رہے۔اورجواب بھاگ کر تمہارے ملک میں پناہ لینے کے لئے آرہے ہیں۔

دوان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک پوتے کانام ہے جو آپ کی تیسری بیوی قطور ہ کے بطن سے پیداہونے والے لڑکے لُقیان کی اولاد میں سے تھا۔ (پیدائش باب 25آیت 1 و2)۔ تیما حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نویں بیٹے کانام تھا۔ (پیدائش باب 25آیت 16) اورقیدار حضر ت اسماعیل علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کانام ہے (پیدائش باب 25آیت6) (ان آیات) سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسماعیل اور بنی قطورا دونوں ارض مشرق یعنی عرب میں آباد ہوئے۔چنانچہ دوان کی اولاد پہلے یمن میں آباد ہوئی۔مگرپھر اس کے قبائل عرب میں چاروں طرف پھیل گئے۔اوس اورخزرج بھی اسی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔اسی طرح تیما کی اولاد مدینہ کے نواح میں آباد ہوئی۔لیکن قیدار کی اولاد مکہ کے نواح میں بسی۔قریش مکہ اسی کی نسل سے تھے۔حضرت یسعیاہ نے دوان اورتیما کی نسلوں کو جونواح مدینہ میں آباد تھیں بتایاکہ ایک زمانہ میں قریش کے مظالم اور ان کی شب و روز کی جنگ کے نتیجہ میں آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑے گی۔ تمہار افرض ہے کہ تم ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھو۔ اور اپنی آنکھوں کو فرش راہ کرو۔اورروٹی اورپانی لے کر ان کے ملنے کو نکلو۔یعنی اپنے گھروں کے دروازے ان کے لئے کھول دو۔ اور ان کی خدمت کو اپنے لئے برکت اور رحمت کاموجب سمجھو۔چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے اورایسی حالت میں نکلے جب کہ ننگی تلواروں کے ساتھ دشمن نے آپ کے مکان کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ اور وہ چاہتاتھاکہ آپ کاخاتمہ کردے مگراللہ تعالیٰ نے ایسی قدرت نمائی فرمائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے سے نکل آئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

7. جنگ بدر کی پیشگوئی

اسی پیشگوئی کے اگلے الفاظ کے بارے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’پھر اس پیشگوئی میں [ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے۔ اور خداوند اسرائیل کے خدانے یوں فرمایا‘‘ (یسعیاہ باب 21آیت 13تا17)] ، یہ بھی بتایاگیا تھا کہ اس ہجرت کے ٹھیک ایک سال بعد آپ کے اور آپؐ کے دشمنوں کے درمیان ایک جنگ ہو گی جس میں دشمن شکست کھائے گا۔قریش کاتمام رعب و دبدبہ خاک میں مل جائے گا۔چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگ بد رہوئی جس میں اسلام کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی‘‘

(تفسیر کبیر جلد07 صفحہ561-562)

پھر فرمایا: ’’اس پیشگوئی میں (یسعیاہ باب21 آیت13تا17) یسعیاہ نبی نے جنگ بدر کی خبر دیتے ہوئے بتایا ہے ہجرت مدینہ پر ٹھیک ایک سال گزرنے پر عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس سے قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،کفار اپنے بڑے بڑے جرنیلوں کی لاشیں میدان جنگ میں ہی چھوڑ کر بھاگ گئے اور مسلمانوں کی تمام عرب پر دھاک بیٹھ گئی‘‘

(تفسیر کبیر جلد06 صفحہ481)

اسی پیشگوئی کے بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جنگ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا ہے اس کے متعلق بائبل میں بھی ایک پیشگوئی پائی جاتی ہے چنانچہ یسعیاہ باب 21 آیت 17 میں کئے گئےکلام میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ ہجرت کے زمانے پر ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس میں قیدار کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی۔۔ اور آخر وادیٔ مکّہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو بالکل کھو بیٹھے گی جو اس سے پہلے حاصل تھی‘‘

(تفسیر کبیر جلد08 صفحہ515)

8. آئندہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی الٰہی قوم کو ایک نیا نام دیا جائے گا

یسعیاہ نبی پیشگوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی قوم کو ایک نیا نام دیا جائے گا ار وہ اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اسے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی زیادہ پسند کریں گے۔ یہ تو پسند کرلیں گے کہ ان کا بیٹا مر جائے یا ان کی بیٹی مر جائے مگر وہ اس نام کو چھوڑنا پسند نہیں کریں گے۔ یہ اسلام کا نام ہے جو مسلمانوں کو عطا کیا گیا اور جس کے متعلق یسعیاہ نبی یہ خبر دے رہے ہیں کہ وہ نام اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کو چھوڑنا اور ان کا اپنی آنکھوں کے سامنے مارا جانا گوارا کرلیں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ اسلام چھوٹ جائے اور یہ پیارا نام ان کے ساتھ نہ رہے۔

پھر یہ کہ وہ مذہب ایسا ہوگا کہ جس میں غیر قومیں بھی شامل ہو گی اور ’’اپنے تئیں خداوند سے پیوستہ‘‘ کریں گی۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بتائی گئی تھی کہ زمین کی ساری قومیں تیری نسل سے برکت پائیں گی۔ یسعیاہ نبی بھی یہی کہتے ہیں کہ غیرقومیں اس مذہب میں داخل ہوں گی اور خداتعالیٰ سے محبت کا تعلق پیدا کرکے اس کا قرب حاصل کریں گی۔

پھر فرمایا کہ وہ لوگ سبت کی بے حرمتی نہ کریں گے۔

یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی پر اگر غور کیا جائے تو اس میں پانچ باتیں نظر آتی ہیں۔

اوّل: ان کو ایک نیا نام ملے گا۔
دوم: وہ نام ابدی ہوگا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا۔
سوم: غیر اقوام کے لوگ بھی ان کے مذہب میں شامل ہوں گے۔
چہارم: وہ سبت کی حفاظت کریں گے۔
پنجم: ان کو بھی بنی اسرائیل کے علاقہ میں لاکر قابض کردیا جائے گا۔

یہ پانچ چیزیں جس مذہب میں پائی جائیں گی وہی اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جائے گا۔ یسعیاہ کے بعد بنی اسرائیل میں سب سے بڑے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں مگر سوائے فلسطین پر قابض ہونے کے اور کوئی بات بھی ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی۔ مثلاً یسعیاہ نبی کو یہ بتایا گیا تھا کہ میں ان کو ایک نیا نام بخشوں گا جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہوگا۔ یہ نام صرف مسلمانوں کو ملا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِیۡ ہٰذَا (الحج: 79) کہ پرانے زمانہ سے تمہارا نام مسلم رکھا گیا ہے لیکن عیسائیوں کا کوئی نام ہی نہیں۔۔۔ پہلے زمانہ میں وہ کچھ کہلاتے تھے پھر کچھ اور کہلانے لگ گئے اور اسی طرح ان کے نام میں تبدیلی ہوتی چلی گئی۔ وہ قوم جس کا ایک نام رکھا گیا ہے اور جس کا نام کسی انسان نےنہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ صرف مسلمان ہیں اور اسی کے نام کے متعلق یسعیاہ نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ: ’’ایک نام جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہے بخشوں گا‘‘۔۔۔

پھر یہ خبر دی گئی تھی کہ ان کو ابدی نام دیا جائے گا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا۔ یعنی زمانہ کے تغیرات اور ملکوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ان کا نام رکھا جائے گا وہ ہمیشہ قائم رہے گا اس میں کبھی کوئی تبدیلی عمل میں نہیں آئے گی۔ اس پیشگوئی کا یہ حصہ بھی ایسا ہے جو عیسائیوں پر چسپاں نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اول تو ان کا کوئی نام ہی نہیں اور پھر جو کچھ وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں اس میں بھی تبدیلی ہوتی چلی آئی ہے۔

تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ بیگانے کی اولاد اس مذہب میں داخل ہوگی۔ لیکن حضرت مسیح اپنے حواریوں سے کہتے ہیں کہ تمہیں غیرقوموں کو تبلیغ کرنے اور انہیں اپنے مذہب میں داخل کرنے کی اجازت ہی نہیں۔

چوتھی خبر یہ دی گئی تھی کہ وہ سبت کی حفاظت کریں گے لیکن عیسائی وہ ہیں جنہوں نے سبت کی حفاظت کرنے کی بجائے روم کے بادشاہوں کو خوش کرنے کیلئے ہفتہ کو اتوار سے بدل دیا اور اس طرح سبت کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔ یہ چار شرطیں جس قوم میں پائی جائیں گی اسی کا فلسطین پر قبضہ اس بات کی علامت سمجھا جاسکتا ہے کہ یسعیاہ کی پیشگوئی اس کے ذریعہ پوری ہوئی ورنہ محض فلسطین پر قبضہ کوئی چیز نہیں اس پر قبضہ تو رومیوں نے بھی کرلیا تھا۔

یہ چار شرطیں اگر کسی قوم میں پائی جاتی ہیں تو وہ صرف مسلمان ہیں۔ چنانچہ فلسطین پر بھی مسلمان قابض ہوئے یہاں تک کہ تیرہ سو سال ان کے قبضہ پر گزر گئے اور اب تک وہ فلسطین پر قابض ہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ261-262)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:’’اس آیت میں ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ مِنۡ قَبۡلُ کے الفاظ میں جس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ان الفاظ میں پائی جاتی ہے کہ ’’تو ایک نئے نام سے کہلایا جائیگا جو خداوند کا مُنہ تجھے رکھ دیگا۔‘‘ (یسعیاہ باب 62 آیت 2)۔ اسی طرح انہوں نے فرمایا تھا: ’’تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر لعنت کا باعث ہو گا کیونکہ خداوند یہوداہ تم کو قتل کر ے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائے گا۔‘‘ (یسعیاہ باب 65 آیت 15)۔ یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کو بائبل نویسوں نے کلیسیا پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا۔اسی طرح مختلف مسیحی فرقوں نے جو اپنے اپنے نام رکھے ہوئے ہیں وہ بھی اُن کے اپنے تجویز کردہ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اُن کے یہ نام نہیں رکھے۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نام ملا اور وہ مسلمان ہیں۔ ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِیۡ ہٰذَا (الحج: 79) میں اسی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اور ’’وَفِیۡ ہٰذَا‘‘ میں حضرت ابراہیمؑ کی اس قرآنی دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں کی کہ: رَبَّنَا وَاجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ (بقرہ: 129) یعنی اے ہمارے رب مجھ ابراہیمؑ کو اور میرے بیٹے اسمٰعیلؑ کو اپنے حضور میں مسلم قرار دے۔ اسی طرح ہماری اولاد میں سے بھی ایک بڑی جماعت پیدا کر جو تیرے حضور میں مسلم کہلائے۔ چنانچہ محمد رسول اللہ ﷺ نے ان پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں اعلان فرما دیا کہ خدا تعالیٰ نے میری امت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد06 صفحہ107)

9. بلد اللّٰہ الحرام کے بارے میں پیشگوئی

اس آیت میں وُضِعَ لِلنَّاسِ کے الفاظ اس پیشگوئی کے بھی حامل تھے کہ اس گھر کے ذریعہ وہ لوگ جو متفرق ہو چکے ہوں گے پھر اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔ یعنی عالمگیر مذہب کا اس کے ساتھ تعلق ہو گا۔ اور ساری دنیا کو جمع کرنے کا یہ گھر ایک ذریعہ ہو گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام ِ عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا اور اسی طرح کعبہ تمام متفرق لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ یسعیاہ نبی نے بھی اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’رب الافواج فرماتا ہے میں نے اس کو صداقت میں برپا کیا ہے اور میں اُس کی تمام راہوں کو ہموار کروں گا۔وہ میرا شہر بنائے گا۔ اور میرے اسیروں کو بغیر قیمت اور عوض لئے آزاد کر دیگا۔خداوند یوں فرماتا ہے کہ مصر کی دولت اور کوش کی نجات اور سبا کے قد آور لوگ تیرے پاس آئیں گے اور تیرے ہوں گے۔ وہ تیری پیروی کریں گے وہ بیڑیاں پہنے ہوئے اپنا ملک چھوڑ کر آئیں گے اور تیرے حضور سجد ہ کریں گے وہ تیری منّت کریں گے اور کہیں گے۔ یقیناً خدا تجھ میں ہے اور کوئی دوسرا نہیں اور اُس کے سوا کوئی خدا نہیں‘‘

(یسعیاہ باب45 آیت13-14)

اس پیشگوئی میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی تھی کہ ایک خدا کا شہر بنایا جائے گا چنانچہ ساری دنیا میں صرف بلد اللہ الحرام ہی ایک ایسا شہر ہے جو خدا کا شہر کہلاتا ہے۔ پھر بتایا گیا تھا کہ اس کو بنانیوالا یعنی اس کی عظمت کو قائم کرنے والا میرے اسیروں کو بلا اُجرت لئے چھڑائے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کو فتح کرکے بلا کسی تاوان لینے کے لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ کی آواز بلند کر کے قیدیوں کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح آپ روحانی قیدیوں سے بھی یہی کہتے رہے کہ لَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ اَجۡرًا (انعام: 91) یعنی میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی مصر کی دولت اور کوش کامنافع اور سبا کے قد آور لوگ آئے۔

گزشتہ انبیاء میں سے صرف حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ شاید وہ اس پیشگوئی کے مصداق ہوں۔ لیکن ان میں ایک بات بھی اِن باتوں میں سے نہیں پائی جاتی۔ بیشک مصر پر رومیوں کا ایک عرصہ تک قبضہ رہا لیکن کوش کا منافعہ اُن کو نہیں ملا۔ گو مسیحی مؤرخوں نے زور دے کر ایتھوپیا کو کوش ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کوش جس کا یسعیاہ میں ذکر آتا ہے وہ علاقہ ہے جو ایلام اور میڈیا کے درمیان میں واقع ہے۔ایلام کا علاقہ خلیج فارس کے کنارے کا دجلہ تک کا علاقہ ہے۔ اور میڈیا کیسپین لیک کے جنوب کا علاقہ ہے۔ اس علاقہ کا منافع عیسائیوں کو کبھی نہیں ملا۔ یعنی یہاں کے لوگوں نے مسیحیت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح سبا کے قد آور آدمی بھی مسیحی مقامات پر سجدہ کرنے کے لئے نہیں گئے۔اور اگر جائیں بھی تو وہ تثلیث کی تائید کرنے والے ہوں گے حالانکہ یسعیا ہ بتاتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق ایک خدا کی پرستش کے لئے اس شہر میں جمع ہوں گے اور وہاں یہ آوازیں دیتے ہوئے آئیں گے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں۔لیکن اسلام کو یہ سب باتیں حاصل ہیں۔کعبہ کو خدا کا گھر ماننے والے مصر میں بھی ہیں، یمن میں بھی ہیں جس میں سباؔ واقع ہے اور کوش ؔ میں بھی ہیں اور یہاں سے ہزاروں لوگ ہر سال اس شہر کو جاتے ہیں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے۔اور وہاں جا کر اس گھر میں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے یہ کہتے ہوئے داخل ہوتے ہیں کہ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ، اَللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ یعنی میں حاضر ہوں۔میں حاضر ہوں اے میرے اللہ میں حاضر ہوں۔تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں حاضر ہوں۔پس اس پیشگوئی میں بھی مکّہ مکّرمہ کی طرف رجوع ِ خلائق کا اشارہ پایا جاتا تھا۔جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی۔اور اسی تعلق کے قیام کے لئے نماز میں بیت اللہ کی طرف مُنہ کر نے کا حکم دیا گیا۔

بہرحال بیت اللہ ایک نہایت ہی پُرانا مقام ہے اور تاریخ بھی اس کے قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ چنانچہ سرولیم میور ’’لائف آف محمدؐ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مکّہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانے کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیرو ڈوٹس مشہور یونانی جغرافیہ نویس نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا اِلا لات کا ذکر کرتا ہے (یعنی خداؤوں کا خدا) اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکّہ میں ایک ایسی ہستی کی پرستش کی جاتی تھی جسے بڑے بڑے بتوں کا بھی خدا مانا جاتا تھا (c.11/102)۔

پھر لکھا ہے کہ مؤرخ ڈایو ڈورس سکولس جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصّہ جو بحیرۂ احمر کے کنارے پر ہے اُس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں۔ (دیپاچہ لائف آف محمدؐ c.11/103))

پھر لکھتا ہے کہ قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے۔ یعنی یہ اتنا پُرانا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا۔یہ بالکل ’’اَلْبَیْتُ الْعَتِیْق‘‘ کا ہی مفہوم ہے جو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا۔اور کچھ عرصہ تک اُن کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہو ئے تھے (خروج باب 17 آیت 8تا 16 وگنتی باب 24 آیت 20) گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی بہت پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے تھے اور وہ بھی اس کے بانی نہ تھے بلکہ یہ گھر اُن سے بھی پہلے کا بنا ہوا تھا اور انہوں نے اُس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔پس تاریخی شواہد کی رو سے بھی بیت اللہ کا بیت عتیق ہونا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔

اس موقعہ پر حضرت محی الدین صاحبؒ ابن عربی کے ایک کشف کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب فتوحات ِ مکیہ کی جلد 3 میں بیان فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں۔ پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یاد رہا۔ وہ شعر جو مجھے یاد رہا وہ یہ تھا کہ

لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا
بِهٰذَا الْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا

یعنی ہم بھی اس مقد س گھر کا سالہا سال اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو۔وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر بڑا تعجب ہو ا پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتا یا مگر وہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا۔ اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ دادوں میں سے ہوں۔میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے اُس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے۔ میں نے کہا زمانۂ آدم پرتو اتنا عرصہ نہیں گزرا۔ اُس نے کہا کہ تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو کیا اُس آدم کا جو تمہارے قریب ترین زمانہ میں ہوا ہے۔یا کسی اور آدم کا۔وہ کہتے ہیں اس پر معًا مجھے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث یا د آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں۔اور میں نے سمجھا کہ میرے یہ جدِّاکبر بھی انہیں میں سے کسی ایک آدم سے تعلق رکھنے والے ہونگے۔

(فتوحات مکیہ جلد3 باب390 صفحہ549)

حضرت محی الدین صاحبؒ ابن عربی کا یہ کشف بھی بتا رہا ہے کہ بیت اللہ نہایت قدیم زمانہ سے دنیا کا مرکز اور لوگوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ بنا رہا ہے اور اسی طرح یہ دنیا بھی لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے۔چنانچہ آج سے ہزار ہا سال قبل بھی لوگ اس مقّدس گھر کا اِسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ یہ البیت العتیق ہے جو زمانۂ قدیم سے خدا تعالیٰ کے انوار و برکات کا تجلی گاہ رہا ہے اور قیامت تک دنیا کو ایک مرکز پر متحد رکھنے کا ذریعہ بنا رہے گا‘‘

(تفسیر کبیر جلد06 صفحہ37-39)

(مرزا خلیل احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2022