• 7 مئی, 2024

اپنے جائزے لیں (قسط 9)

اپنے جائزے لیں
از ارشادات خطبات مسرور جلد 9
قسط 9

رونی پسارانی صاحب انڈونیشا کی شہادت
ہمیں اپنے ایمان کے جائزےلینے کی دعوت دیتی ہے

مکرم رونی پسارانی صاحب کی شہادت بھی مکرم ورسونو صاحب کی طرح ہوئی۔ مخالفین نے ان کو بھی چھریوں اور درانتیوں اور ڈنڈوں سے مارا۔ ان کی لاش باہر لائی گئی اور پھر اسی طرح بے حرمتی کی گئی اور حلیہ بگاڑا گیا۔ تو یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں۔جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ جو آسمانِ احمدیت کے روشن ستارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو۔ جماعت انڈونیشیا کے ہر فرد کے ایمان میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے جس کشف کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے نقشِ قدم پر چلنے والے کچھ اور لوگوں کے ملنے کا ذکر فرمایا تھا، ان میں یہ دور دراز علاقے میں رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں جن میں سے بہت سوں نے خلفائے احمدیت میں سے بھی کسی کو نہیں دیکھا لیکن ایمان کی مضبوطی ان کی بے مثال ہے۔ خلافت سے وفا کا تعلق قابلِ تقلید ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کشف کا مَیں پہلے بھی پچھلے بعض خطبات میں ذکر کر چکا ہوں، دوبارہ بتاتا ہوں۔ کشف یوں ہے آپ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں نے کشفی حالت میں ……دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی اور مَیں نے کہا اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو، تا وہ بڑھے اور پھولے‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’سو مَیں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ75-76)

یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے بہت سے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ پس یہ شہداء تو اپنا مقام پا کر ،قابلِ تقلید مثالیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے اور قادیان سے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے والے بن گئے۔ لیکن ہم پیچھے رہنے والوں کو بھی اپنی ایمانی حالتوں کا ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ ہمیں ہر شہادت کے بعد یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ان ظلموں کی وجہ سے صرف یہ نہیں کہ اپنے ایمانوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس میں بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ کسی قسم کی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے ہماری روایات اور ہمارے صبر پر حرف آتا ہو، جس سے ہماری اپنے ملک سے وفا پر حرف آتا ہو۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا جماعت انڈونیشیا نے بھی انڈونیشیا کی تعمیر میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر فرد جس ملک میں بھی رہتا ہے اُس کا وفادار ہے اور ہونا چاہئے اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا۔ وفا کا یہ تقاضا ہے کہ ہم یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملکوں کو ظالموں کے پنجہ سے آزاد کرے اور ہم پر کبھی ایسے حاکم مسلّط نہ کرے جو رحم کرنا نہ جانتے ہوں۔ ہم دنیاوی تدبیر کے لئے قانونی چارہ جوئی تو کرتے ہیں لیکن قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ ہاں اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں۔ ہمارا زیادہ انحصار ، قانونی چارہ جوئی کرنے سے زیادہ انحصار اپنے ربّ کے حضور جھکنے میں ہے۔ اس سے دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد پر ہمارا انحصار ہے۔ اس کی رحمتوں پر ہمارا انحصار ہے۔ اور اب بھی ہم ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکیں گے۔ ہمیشہ یہ دعا پڑھتے رہیں رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِيْنَ (البقرہ: 251) اللہ کرے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کے بھی پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئے۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ73)

مخالفین جائزہ کیوں نہیں لیتے کہ قوموں کی تباہی انکو کیا بتارہی ہےجس طرح لاہور کی شہادتوں کے بعد افریقہ کے بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے افرادِ جماعت کے اخلاص اور وفا کے نظارے دکھائے اور اُن میں بیعتیں بھی ہوئیں، اسی طرح انڈونیشیا کے واقعہ نے بھی جماعت کے حق میں راستے کھولے ہیں اور سعید فطرت لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی ہے۔ افریقہ کے ایک ملک سے مربی صاحب نے لکھا کہ مَیں نے انٹرنیٹ پر انڈونیشیا کا یہ واقعہ دیکھا اور سخت بے چینی تھی، بڑی جذباتی کیفیت تھی۔ مَیں اُس کو دیکھ کرروتا رہا ۔ کہتے ہیں کہ اُسی دن اتفاق سے شام کو علاقے کے بعض غیر از جماعت معززین اور اُن کے علماء کے ساتھ ایک تبلیغی نشست تھی تو کہتے ہیں کہ مَیں نے اُس میں ٹی وی پر یہ جو ساری بہیمانہ کارروائی ہوئی تھی اُس کی ریکارڈنگ لگا دی اور اُن مہمانوں سے کہا کہ پہلے آپ یہ دیکھ لیں پھر بات شروع کرتے ہیں۔ اور اس کی تفصیل بھی بتا دی کہ احمدیوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ ریکارڈنگ لگائی ہے تو ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک مُعَلّم (وہاں کے علماء جو مولوی یا امام ہیں اُن کو افریقہ میں مُعَلّم کہتے ہیں) کھڑے ہو گئے اوراُن کا جو طریقہ ہے سر پر ہاتھ رکھ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگ گئے کہ یہ مسلمان ہیں جو یہ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت ﷺ کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟کہنے لگے کہ ایسے مسلمانوں کے اس اسلام سے تو مَیں توبہ کرتا ہوں اور مَیں اعلان کرتا ہوں کہ مَیں آج سے احمدی ہوں۔ میری فوری بیعت لے لیں۔ وہ مذہبی بحث تو بعد میں ہونی تھی، جو مجلس لگنی تھی وہ تو بعد میں ہونی تھی، اُس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے امام کو اِن کی حرکتیں دیکھ کے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرما دی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ آگے انہوں نے کہا کہ مَیں یہ بھی عہد کرتا ہوں کہ اِن تین شہداء کے بدلے ان شاء اللہ تعالیٰ مَیں تین گاؤں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی گود میں لاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو توفیق عطا فرمائے۔

تو دشمن چاہے چھُپ کر تدبیر کرے، پیار بھرے انداز میں تدبیریں کرے یا کھل کر دشمنی کرے تا کہ یہ نبی کے ماننے والے خوفزدہ ہو کر یا کسی طریقے سے بھی پیچھے ہٹ جائیں لیکن مضبوط ایمان والوں کا خوفزدہ ہونا تو ایک طرف رہا اِن کی تدبیریں نیک فطرتوں کے سینے فوراً کھول کر احمدیت کے حق میں ایسی ہوا چلاتی ہیں کہ جو کام ہمارے مبلغین سال میں نہیں کر سکتے وہ دشمنوں کے مکروں سے ہمارے حق میں ایک لمحے میں ہو جاتا ہے۔ پس کون ہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک سکے؟ لیکن ان تکبر کرنے والوں کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وہ اپنی سنّت میں تبدیلی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی سنّت ایک اُس کی تقدیر غالب آنے کی سنّت ہے اور دوسرے ایسے ظالموں کو تباہ کرنے کی سنّت ہے۔

پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارننگ ہے کہ اگر پہلے لوگ اس مخالفت کی وجہ سے اپنے بد انجام کو پہنچے تو آج بھی وہی خدا ہے اور اُسی طاقتوں کے مالک خدا کے وعدے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا زمین میں نہیں پھرے۔ اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ كَانُوْۤا اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً (فاطر: 45) کہ کیوں دیکھتے اورجائزہ نہیں لیتے کہ قوموں کی تباہی کی تاریخ تمہیں کیا بتا رہی ہے۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ108)

مخالفین جب حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے اصل
حوالہ جات کا جائزہ لیتے ہیں تو بیعتیں بھی ہوتی ہیں

ایک روایت خان صاحب منشی برکت علی صاحبؓ ولد محمد فاضل صاحب کی ہے۔یہ ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس کے ملازم تھے۔ یہ قادیان میں ناظر بیت المال بھی رہے ہیں۔ 1901ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1901ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے، سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر 1900ء کے شروع میں سننے کا اتفاق ہوا۔ جبکہ اتفاقاً مجھے شملہ میں چند احمدی احباب کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا۔ اُن دوستوں سے قدرتی طور پر حضور کے دعویٰ مسیحیت اور وفاتِ مسیح ناصری کے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مَیں اگرچہ بڑی سختی سے اُن کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ مگر بیہودہ گوئی اور طعن و طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا۔ (وفاتِ مسیح پر مَیں یقین نہیں رکھتا تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود طعن اور طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا۔ آج کل بلکہ ہمیشہ سے ہی مخالفین کا جویہ طریقہ رہا ہے کہ گالم گلوچ پر آجاتے ہیں۔ لیکن یہ نیک فطرت تھے، کہتے ہیں میں طعن و طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا)۔ آہستہ آہستہ مجھے خوش اعتقادی پیدا ہوتی گئی۔ (آہستہ آہستہ مجھے بھی اس بات پر اعتقاد ہوتا گیا)۔ حضور کا اُنہی دنوں میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بھی بحث و مباحثہ جاری تھا۔ حضور نے اس بات پر زور دیا کہ مقابلہ میں قرآنِ شریف کی عربی تفسیر لکھی جاوے۔ اور وہ اس طرح کہ بذریعہ قرعہ اندازی کوئی سورۃ لے لی جاوے اور فریقین ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے کہ لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ (الواقعہ: 80) ایک کاذب اور مفتری پر اس کے حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے۔ اس لئے اس طرح فریقین کا صدق و کذب ظاہر ہو سکتا ہے۔ ان ہی ایام میں پیر صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعود کی طرف چوبیس باتیں منسوب کر کے یہ استدلال کیا گیا تھاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام (نعوذ باللّٰہ) ملحد اور اسلام سے خارج ہیں۔ اس اشتہار میں اکثر جگہ حضور کی تصانیف سے اقتباسات نقل کئے گئے تھے۔ (کہتے ہیں کہ) مَیں عموماً فریقین کے اشتہارات دیکھتا رہتا تھا۔ (ابھی احمدی نہیں ہوا تھا لیکن فریقین کے دونوں طرف سے اشتہار دیکھتا رہتا تھا)۔ مذکورہ بالا اشتہار کے ملنے پر جو غیر احمدیوں نے مجھے دیا تھا مَیں نے احمدی احباب سے استدعا کی کہ وہ مجھے اصل کتب لا کر دیں تا کہ مَیں خود مقابلہ کر سکوں۔ مقابلہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ بعض حوالے گو صحیح تھے مگر اکثر میں انہیں توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ (اور یہی حال آج بھی ہے۔ اب مخالفین نے ایک نئی مہم شروع کی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب سے حوالے دئیے جاتے ہیں اور اُن کو توڑ مروڑ کر پھر اس سے اشتہار لگا کریا پھر بڑے بڑے پوسٹر بنا کے یا جماعت کے خلاف کتابچہ شائع کر کے حضرت مسیح موعود کے خلاف دریدہ دہنی کی جاتی ہے اور ہمارا جو پروگرام ہے ’’راہِ ہدٰی‘‘ اور اس کی اب ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے، اُس میں اس کے جواب آ رہے ہیں، اور اصل حوالے اور اصل کتب کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ جا کے دیکھیں تو خود پتہ لگ جائے۔ اس سے بھی اب بعض ایسے لوگ جنہوں نے اس طرح جائزہ لینا شروع کیا تو اللہ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ تو یہ اعتراضات، یہ حربہ مولویوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بعض دفعہ لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ اسی طرح جو ویب سائٹ شروع ہوئی ہیں، اِن کے انچارج آصف صاحب ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ لوگوں نے بڑی بھرمار کر دی ہے اور ہمارے جواب اُس طرح نہیں جا سک رہے۔ تو مَیں نے اُن کو یہی کہا تھا آپ کچھ دیر انتظار کریں یہ لوگ خود ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ اور یہی ہوا ۔ اُس میں اعتراضات کی جو بھرمار تھی ان پرجب ہماری طرف سے جوابات کی اس طرح ہی بھر مار ہوئی ہے توآہستہ آہستہ خاموش ہو کے بیٹھ گئے۔بلکہ اب انہوں نے اپنے جودوسرے سائٹس ہیں ان میں یہ پیغام دینا شروع کر دیا ہے کہ راہ ھُدٰی کی جوویب سائٹ ہے اس پر کوئی نہ جائے۔ اس میں یہ ہمیں صحیح طرح access نہیں دیتے حالانکہ خود اُن کے پاس جواب نہیں ہیں۔ کیونکہ مایوس ہو چکے ہیں اس لئے دوسروں کو بھی روک رہے ہیں۔ بہر حال ہمیشہ سے ہی یہ طریق رہا ہے) تو کہتے ہیں کہ مَیں نے جب کتابیں کھول کے یہ دیکھا، تو حوالے تو دئیے ہوئے تھے لیکن توڑ مروڑ کر اُن کو پیش کیا گیا تھا۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ174)

پیدائشی احمدیوں کو اپنے دلوں کو
ٹٹولتے ہوئے جائزہ لینا چاہئے

یعنی آپ کے وجود کی، آپ کی ذات کی اصل اور بنیادی وجہ ہیں۔ پس جب آپ اپنے ماننے والوں کو ایک جگہ مخاطب کر کے یہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخو‘‘ ( فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ34) تو یہ کام جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، یہ کام کرنے والے ہی آپ کے وجود کی سر سبز شاخ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنے وجود کا یہی بنیادی مقصد قرار دیا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شیریں اور میٹھے پھلدار درخت کی کچھ شاخیں زہریلے پھل دینے لگ جائیں یا سوکھی شاخیں اُس درخت کا حصہ رہیں۔ سوکھی شاخوں کو تو کبھی اُس کا مالک جو ہے رہنے نہیں دیتا بلکہ کاٹ کر علیحدہ کر دیتا ہے۔ پس بہت خوف کا مقام ہے۔ ہمیں ہر وقت ذہن میں یہ رکھنا چاہئے کہ بیعت کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جو تو نئے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں، اُن کے واقعات اور حالات جب مَیں سنتا ہوں یا خطوں میں پڑھتا ہوں تو اپنے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض وہ جن کے باپ دادا احمدی تھے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں، جب بعض دفعہ ان کے بعض حالات کا پتہ چلتا ہے کہ بعض کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں تو دُکھ اور تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف اُس طرح توجہ نہیں ہے جس طرح ہونی چاہئے۔ پیدائشی احمدی ہونا بعض دفعہ بعض لوگوں میں سستیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم کہیں ایسی سستیوں کی طرف تو نہیں دھکیلے جا رہے جو کبھی خدا نہ کرے، خدا نہ کرے واپسی کے راستے ہی بند کر دیں، یا ہم صرف نام کے احمدی کہلانے والے تو نہیں ہو رہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ارشادات میں، اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ احمدیت کی حقیقی روح تبھی قائم ہو سکتی ہے جب ہم اپنے جائزے لیتے رہیں اور ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ ہم میں اور دوسروں میں ایک واضح فرق دیکھنا چاہتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ199)

جائزہ لینے پرمعلوم ہوتاہے کہ سچائی کا اظہارنہیں ہے

سچائی ایک ایسا وصف ہے کہ جس کے اپنانے کے بارے میں صرف مذہب ہی نے نہیں کہا بلکہ ہر شخص جس کا کوئی مذہب ہے یا نہیں اس اعلیٰ خُلق کے اپنانے کا پُر زور اظہار کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم جائزہ لیں تو اس اظہار کے باوجود سچائی کے اظہار کا حق نہیں ادا کیا جاتا۔ جس کو جب موقع ملتا ہے اپنے مفاد کے حصول کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی تعلقات تک میں سچائی کا خُلق اپنانے کا جس شدت سے اظہار کیا جاتا ہے اُسی شدت سے وقت آنے پر اُس کی نفی کی جاتی ہے۔ اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے روزمرہ کے معمولی معاملات میں بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے اور وہ حقیقی سچائی جسے قولِ سدید کہتے ہیں اُس کی نفی ہو رہی ہوتی ہے۔ کاروباری معاملات ہیں تو دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اِن میں جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ معاشرتی تعلقات ہیں تو ان میں بسا اوقات جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست ہے تو اس میں سچ کا خون کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سیاست اور تعلقات ہیں تو اِس کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہے۔ اکثر دفعہ تو یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ حتی کہ مذہب جو خالصتاً سچائی کو لانے والا اور پھیلانے والا ہے اس میں بھی مفاد پرستوں نے جھوٹ کو شامل کر کے سچ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ سچ کو اس طرح چھپا دیں کہ سچ کا نشان نظر نہ آئے۔ بعض لوگ تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اتنا جھوٹ بولو کہ سچ جو ہے وہ جھوٹ بن جائے اور جھوٹ جو ہے وہ سچ بن جائے۔ یہ بے خوفی اور بیباکی سچائی کو ہر سطح پر پامال کرنے کی اس لئے پیدا ہو گئی ہے کہ خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو ہر سطح پر جھوٹ کا سہارا اس طرح نہ لیا جائے جس طرح اس زمانے میں لیا جاتا ہے یا اکثر لیا جاتا ہے۔ ذاتی زندگی میں گھروں میں ناچاقیاں اس لئے بڑھتی ہیں کہ سچائی سے کام نہیں لیا جاتا اور اس سچائی سے کام نہ لینے کی وجہ سے میاں بیوی پر اعتماد نہیں کرتا اور بیوی میاں پر اعتماد نہیں کرتی اور جب بچے دیکھتے ہیں کہ ماں باپ بہت سے موقعوں پر جھوٹ بول رہے ہیں تو بچوں میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے۔ نئی نسل جب بعض غلط کاموں میں پڑ جاتی ہے وہ اس لئے کہ گھروں کے جھوٹ اُنہیں برائیوں پر اُبھارتے ہیں۔ یوں لا شعوری طور پر یا شعوری طور پر اگلی نسلوں میں بجائے سچائی کی قدریں پیدا کرنے کے اُسے بعض گھر زائل کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر باقی معاشرے سے تعلقات کا بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح کاروباری جھوٹ ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بدقسمتی سے مسلمان ممالک میں یہ زیادہ عام بیماری ہے۔ سچائی اور صداقت کا جتنا شور مچایا جاتا ہے اتنا ہی عملاً اس کی نفی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ملکی سیاست ہے اس میں عموماً جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن مسلمان کہلانے والے ممالک جن کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی پر قائم رہنے اور جھوٹ سے نفرت کرنے کی تلقین کی ہے، بڑی شدت سے ہدایت دی ہے وہ اُتنا ہی جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ450)

آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ
ہماری اخلاقی حالت کیا ہے

بہت سارے مسائل، بہت ساری لڑائیاں، بہت ساری رنجشیں اسی لئے پیدا ہوتی ہیں، یا دلوں میں کینے پلتے ہیں اور بدلے لئے جاتے ہیں یا پھر زبان اس طرح چلائی جاتی ہے کہ وہ لگتا ہی نہیں کسی ایک مومن کی زبان ہے جس سے شریفانہ الفاظ ادا ہو رہے ہوں)۔ پھر فرمایا ’’دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔ اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اﷲ کو توڑتا ہے‘‘۔ (ان ملکوں میں گندی فلمیں دیکھنا، بے حیائی کی باتیں سننا، ان لغویات کو دیکھنا یہ سب اسی لئے پیدا ہوتی ہیں کہ دل میں تقویٰ نہیں ہوتا اور یہی قوتِ شہوت ہے جو غالب ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے)۔ فرمایا: ’’غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ پس بہت قابلِ فکر بات ہے کہ عہد تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان میں بڑھیں گے۔ آپ فرما رہے ہیں کہ کامل ایمان پیدا ہی نہیں ہو سکتا اگر یہ باتیں تمہارے اندر ہیں۔

فرمایا: ’’پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحّد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے‘‘۔ (جب آپ نے اس بات پر یقین قائم کر لیا کہ مَیں ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہوں تو پھر اپنے اخلاق کو بھی درست کرو)۔ فرمایا ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے‘‘۔ (حالانکہ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے،اخلاقی حالت کے معیار بہت اعلیٰ تھے۔ آپ اُن سے بھی اونچا دیکھنا چاہتے تھے۔آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری کیا حالت ہے)۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ472)

سب سے بہترین طریقہ
خوداپنے جائزے لینے کی عادت ہے

پھر امانتوں میں ووٹ کے حق کا صحیح استعمال ہے، جہاں بھی استعمال ہونا ہو، پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کا حق ادا کرنا ہے، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ جس کے سپرد جو بھی امانتیں ہیں تم اُس کے لئے پوچھے جاؤ گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال میں تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مسائل اور جھگڑے تفاخر اور تکبر سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی حیثیت پر غور کرتا رہے تو ہمیشہ عاجزی کا اظہار ہو اور اس کے جائزے سب سے زیادہ انسان خود لے سکتا ہے۔ دوسرے کے کہنے پر تو بعض دفعہ غصہ بھی آ جاتا ہے چِڑ بھی جاتا ہے لیکن خود اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں تو یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔ ایمانداری سے، قرآنی احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو اور یقینا ہر احمدی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، صرف ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تو یہ جائزے بڑی آسانی سے لئے جا سکتے ہیں۔ پس قرآنِ کریم کو پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ آج مختصر وقت میں میں تمام احکامات کی تفصیلات تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ میں نے کہا خود ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ہو گا جب قرآنِ کریم کی ہر گھر میں باقاعدہ تلاوت بھی ہو، اُس کو سمجھنے کی کوشش بھی ہو اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔ بچوں کی بھی نگرانی ہو کہ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، قرآنِ کریم کوپڑھنے کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ہر احمدی کو جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کا دعویٰ تبھی مکمل ہوتا ہے جب یومِ آخرت پر بھی ایمان ہو اور یقین ہو اور یہ واضح ہو کہ مرنے کے بعد کی ایک زندگی ہے جس میں اس دنیا کے کئے گئے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ جہاں آخری فیصلہ ہو گا۔ جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہو گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مساجد آباد کرنے والوں کی یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ اُن کو آخرت پر بھی ایمان ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور وہاں حساب کتاب کو بھی وہ برحق سمجھتے ہیں اور جب برحق سمجھتے ہیں تو جہاں مسجد میں عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں اُس کے انعامات کے وارث بنیں۔ اور پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو گا اس یقین پر انسان قائم ہو گا کہ آخرت کے سوال جواب سے بھی گزرنا پڑناہے تو پھر انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گا۔ اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ بہترین عبادت نماز ہے۔ (جامع الاحادیث از جلال الدین سیوطی باب الھمزۃ مع الف جلد5 صفحہ186 حدیث:3952 بحوالہ المکتبۃ الشاملۃ CD) جب مؤمنین کی جماعت نماز کے لئے جمع ہوتی ہے تو پھر جہاں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے وہاں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور جماعتی وابستگی اور وحدت کا بھی اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر اُن تمام نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی توجہ جاتی ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حق سے ہے یا اُس کی مخلوق کے حق سے ہے۔

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ492)

(نیاز احمد نائک۔ استادجامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2022