• 24 اپریل, 2024

’’تم اىسے پاک صاف ہو جاؤ جىسے صحابہؓ نے اپنى تبدىلى کى‘‘

’’اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْٓ اَصْحَابِیْ‘‘ (الحدیث)

’’تم اىسے پاک صاف ہو جاؤ جىسے صحابہؓ نے اپنى تبدىلى کى‘‘

(حضرت مسىح موعودؑ)

ہمارے آقا و مولىٰ حضرت محمد مصطفىٰ ﷺ کى آمد سے پہلے عرب کا خطہ جاہلىت کے گڑھے مىں گرا ہوا تھا۔ آپ کى آمد اور انوارِ روحانى کى بدولت جاہل قوم کو اىک خدا کا علم ہوا اور دنوں مىں ہى وہ صراط مستقىم پر چلنے کے قابل ہوگئے اور باخدا کے درجہ سے ہوتے ہوئے خدا نما بنتے چلے گئے۔ انہى کے متعلق تو آنحضور ﷺ نے اَصْحَابِىْ کَالنَّجُوْمِ فرماىا ىعنى مىرے صحابہ ستاروں کى مانند ہىں۔

 اس ادارىہ کى پىشانى پر سجے مبارک الفاظ ہمارے آقا و مولىٰ و مرشد حضرت محمد مصطفىٰ صلى اللہ علىہ و سلم کے اپنے جاں نثار صحابہؓ کے متعلق ہىں۔ اس حدىث مىں آپؐ فرماتے ہىں کہ مىرے صحابہؓ مىں اللہ ہى اللہ ہے۔ حضرت مسىح موعود علىہ السلام نے اس کا ترجمہ ىوں بىان فرماىا ہے ’’مىرے اصحابؓ مىں اللہ ہى اللہ ہے۔ ان کا رنگ ہى بدل گىا ہے۔‘‘

(بدر 17 جنورى 1907) 

ىہ خوبى اصحابِؓ رسولؐ مىں دراصل آنحضورؐ کى قوتِ قدسىہ اور آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کى روحانى تاثىرات سے منتقل ہوئى، جن کے متعلق غىر بھى اس بات کا اعتراف کرتے تھے عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلىٰ رَبِّہٖ کہ (حضرت) محمد (صلى اللہ علىہ وسلم) اپنے ربّ کا عاشق ہو گىا ہے۔ حضرت مسىح موعود علىہ السلام فرماتے ہىں کہ آپؐ کو اللہ تعالىٰ سے اس قدر محبت تھى کہ عام لوگ بھى کہا کرتے تھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ عَلىٰ رَبِّہٖ ىعنى محمد اپنے ربّ پر عاشق ہو گىا۔ صلى اللہ علىہ وسلم‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ273)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام، صحابہؓ مىں اس خوبى کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہىں:
’’آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم کى سچائى پر ہزاروں ہزار دلائل ہىں۔ لىکن ىہ پہلو آپ کى حقانىت کے ثبوت مىں اىک علمى پہلو ہے۔ جس کا کوئى انکار نہىں کر سکتا۔ اور جس دلىل کو کوئى توڑ نہىں سکتا۔ ىا تو عربوں کى وہ حالت تھى اور ىا ىہ تبدىلى کہ آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم نے فرماىا۔ ’’اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِىْٓ اَصْحَابِى ْ‘‘ اللہ تعالىٰ کے نام سے ناواقف اور اس سے دُور پڑى ہوئى قوم کو اس مقام تک پہنچا دىنا کہ پھر ان کى نظر ما سوى اللہ سے خالى ہو جاوے۔ ىہ چھوٹى سى بات نہىں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ145-146)

پھر آپؑ فرماتے ہىں:
’’آنحضرتؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کا حضرت موسىٰ اور اس کى قوم کے ساتھ مقابلہ کرنے سے گوىا کُل دنىا کا مقابلہ ہوگىا۔ رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کو جو جماعت ملى وہ اىسى پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھى کہ اس کى نظىر کسى دنىا کى قوم اور کسى نبى کى جماعت مىں ہر گز پائى نہىں جاتى۔ احادىث مىں اُن کى بڑى بڑى تعرىفىں آئى ہىں۔ ىہاں تک فرماىا که ’’اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِىْٓ اَصْحَابِىْ‘‘ اور قرآن کرىم مىں بھى ان کى تعرىف ہوئى۔

ىَبِىۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِىَامًا

(الفرقان: 65)

(ملفوظات جلد2 صفحہ418)

آنحضور صلى اللہ علىہ وسلم کے اصحاب رضوانُ اللہ علىہم کى سىرت اىک کھلى کتاب کى صورت مىں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس مىں سب سے پہلا باب اللہ تعالىٰ سے محبت پر مشتمل ہے۔ ىہ باب صحابہؓ کے اپنے اللہ سے محبت اور اس سے عشق پر بڑے عارفانہ واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ لىکن اِس وقت ىہ واقعات پىش کرنا مقصود نہىں۔ ان کو کسى اور موقع پر بىان کىا جائے گا۔ تاہم اِس وقت صحابہؓ کى اپنے اللہ سے محبت کے حوالہ سے حضرت مسىح موعود علىہ السلام کے ارشادات پىش کئے جا رہے ہىں۔پڑھىے اور لطف اٹھائىے۔

آپؑ فرماتے ہىں:
•    ’’وہ جو ہر قسم کے عىبوں اور معاصى مىں مصروف رہنے والى قوم تھى۔ جب آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے دامن کے نىچے آئے تو انہوں نے اللہ تعالىٰ کے ساتھ وہ مخلصانہ پىوند کىا کہ اُٹھتے بىٹھتے، چلتے پھرتے اللہ ہى سے محبت کرتے تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ120)

حضرت مسىح موعود علىہ السلام معجزات نبى کرىمﷺ بىان کرتے ہوئے دوسرے نمبر پر فرماتے ہىں:
•    ’’دوسرا معجزہ تبدىل اخلاق ہے کہ ىا تو وہ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ (الاعراف: 180۔ ناقل) چارپاىوں سے بھى بدتر تھے ىا ىَبِىۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِىَامًا (الفرقان: 65۔ ناقل) رات دن نمازوں مىں گزارنے والے ہوگئے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ266)

•    ’’موٹى سى بات ہے کہ قرآن مجىد نے اُن کى پہلى حالت کا تو ىہ نقشہ کھىنچا ہے۔ ىَاْکُلُوْنَ کَمَا تَاۡکُلُ الْاَنۡعَامُ (محمد: 13۔ ناقل)۔ ىہ تو ان کى کُفر کى حالت تھى۔ پھر جب آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم کى پاک تاثىرات نے ان مىں تبدىلى پىدا کى تو ان کى ىہ حالت ہوگئى۔ ىَبِىۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِىَامًا (الفرقان: 65 ۔ ناقل) ىعنى وہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور قىام کرتے ہوئے راتىں کاٹ دىتے ہىں جو تبدىلى آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم نے عرب کے وحشىوں مىں کى اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندى اور مقام تک انہىں پہنچاىا۔ اس سارى حالت کے نقشہ کو دىکھنے سے بے اختىار ہو کر انسان رو پڑتا ہے کہ کىا عظىم الشان انقلاب ہے جو آپ نے کىا۔ دُنىا کى کسى تارىخ اور کسى قوم مىں اس کى نظىر نہىں مل سکتى۔ ىہ نرى کہانى نہىں۔ ىہ واقعات ہىں جن کى سچائى کا اىک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ145)

•    ’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے صحابہؓ مىں اىک کا بھى نام نہىں لے سکتے۔ جس نے اپنے لئے کچھ حصہ دىن کا اور کچھ حصہ دنىا کا رکھا ہو اور اىک صحابى بھى اىسا نہىں تھا جس نے کچھ دىن کى تصدىق کر لى ہو اور کچھ دُنىا کى بلکہ وہ سب کے سب منقطعىن تھے اور سب کے سب اللہ کى راہ مىں جان دىنے کو تىار تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ413)

•    ’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم اور صحابہ کرام رضى اللہ عنہم کے زمانے کو اگر دىکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سىدھے سادے تھے جىسے کہ اىک برتن قلعى کرا کر صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے اىسے ہى ان لوگوں کے دل تھے جو کلامِ الٰہى کے انوار سے روشن اور کدورتِ نفسانى کے زنگ سے بالکل صاف تھے گوىا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا (الشمس: 10۔ناقل) کے سچے مصداق تھے۔‘‘

•    ’’بدر‘‘ اخبار نے اس ارشاد کو ىوں رپورٹ کىا ہے:
جب اىک برتن کو مانجھ کر صاف کر دىا جاتا ہے پھر اس پر قلعى ہوتى ہے اور پھر نفىس اور مصفّا کھانا اس مىں ڈالا جاتا ہے۔ ىہى حالت ان کى تھى۔ اگر انسان اس طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعى دار برتن کى طرح منوّر کرے تو خدا تعالىٰ کے انعامات کا کھانا اس مىں ڈال دىا جاوے۔ لىکن اب کس قدر انسان ہىں جو اىسے ہىں اور قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا کے مصداق ہىں۔

(البدر 26 جون 1903)

•    ’’آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم کے صحابہؓ اىک لاکھ سے متجاوز تھے۔ مىرا اىمان ہے کہ ان مىں سے کسى کا بھى ملونى والا اىمان نہ تھا۔ اىک بھى ان مىں سے اىسا نہ تھا جو کچھ دىن کے لئے ہو اور کچھ دنىا کے لئے بلکہ وہ سب کے سب خدا تعالىٰ کى راہ مىں جان دىنے کے لئے تىار تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ414-415)

•    ’’ہمارى جماعت کا اىمان تو صحابہ والا چاہىئے جنہوں نے اپنے سر خدا تعالىٰ کى راہ مىں کٹوا دىئے تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ381)

•    ’’مىں تمہىں بار بار ىہى نصىحت کرتا ہوں کہ تم اىسے پاک صاف ہو جاؤ جىسے صحابہؓ نے اپنى تبدىلى کى۔ انہوں نے دنىا کو بالکل چھوڑ دىا گوىا ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے اسى طرح تم اپنى تبدىلى کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ264 حاشىہ)

•    فرماىا:۔ ’’اٰخَرِىْنَ مِنْھُمْ سے کہہ کر جو خدا تعالىٰ اس جماعت کو صحابہ سے ملاتا ہے تو صحابہ کا سا اخلاص اور وفادارى اور ارادت ان مىں بھى ہونى چاہىے۔ صحابہ نے کىا کىا جس طرح پر انہوں نے خدا تعالىٰ کے جلال کے اظہار کو دىکھا اسى طرىق کو انہوں نے اختىار کر لىا ىہاں تک کہ اس کى راہ مىں جانىں دے دىں وہ جانتے تھے کہ بىوىاں بىوہ ہوں گى بچے ىتىم رہ جائىں گے لوگ ہنسى کرىں گے مگر انہوں نے اس امر کى ذرہ پروا نہ کى۔ انہوں نے سب کچھ گوارا کىا مگر اس اىمان کے اظہار سے نہ رکے جو وہ اللہ اور اس کے رسول پر لائے تھے حقىقت مىں ان کا اىمان بڑا قوى تھا اس کى نظىر نہىں ملتى۔

اب دىکھ لو کہ اىک تو وہ گروہ تھا جس نے اپنى جانوں کو خدا کى راہ مىں کچھ چىز نہ سمجھا اور اىک عىسائى ہىں جو مسىح کے کفارہ پر ناز کرتے ہىں اور اىک جان دىنے پر گھمنڈ کرتے ہىں حالانکہ وہ بھى غلط نکلى ہے۔ مقابلہ کر کے دىکھو کہ صحابہ کى وفادارى اور استقلال جانوں کے دىنے مىں کىا تھا اور خود مسىح کا کىسا؟‘‘

(الحکم جلد6 نمبر40 مورخہ 10نومبر 1902 صفحہ3)

•    ’’مىرا دل گوارا نہىں کرتا کہ اب دىر کى جاوے۔ چاہىئے کہ اىسے آدمى منتخب ہوں جو تلخ زندگى کو گوارا کرنے کے لئے تىار ہوں اور اُن کو باہر متفرق جگہوں مىں بھىجا جاوے۔ بشرطىکہ ان کى اخلاقى حالت اچھى ہو۔ تقوىٰ اور طہارت مىں نمونہ بننے کے لائق ہوں۔ مستقل راست قدم اور بردبار ہوں اور ساتھ ہى قانع بھى ہوں اور ہمارى باتوں کو فصاحت سے بىان کر سکتے ہوں۔ مسائل سے واقف اور متقى ہوں کىونکہ متقى مىں اىک قوت جذب ہوتى ہے۔ وہ آپ جاذب ہوتا ہے۔ وہ اکىلا رہتا ہى نہىں۔

جس نے اس سلسلہ کو قائم کىا ہے۔ اس نے پہلے ازل سے ہى اىسے آدمى رکھے ہىں جو بکلّى صحابہؓ کے رنگ مىں رنگىن اور انہىں کے نمونہ پر چلنے والے ہوں گے اور خدا تعالےٰ کى راہ مىں ہر طرح کے مصائب کو برداشت کرنے والے ہوں گے اور جو اس راہ مىں مر جائىں گے وہ شہادت کا درجہ پائىں گے۔

اللہ تعالىٰ نرے اقوال کو پسند نہىں کرتا۔ اسلام کا لفظ ہى اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جىسے اىک بکرا ذبح کىا جاتا ہے وىسے ہى انسان خدا تعالےٰ کى راہ مىں جان دىنے کے لئے تىار رہے۔ آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم کے پاس اىک قوم آئى اور کہنے لگى کہ ہمىں فرصت کم ہے ہمارى نمازىں معاف کى جائىں۔

آنحضرت صلے اللہ علىہ وسلم نے فرماىا وہ دىن ہى نہىں جس مىں نمازىں نہىں۔ جب تک عملى طور پر ثابت نہ ہو کہ خدا تعالىٰ کے لئے تکلىف گوارا کر سکتے ہو تب تک نِرے اقوال سے کچھ نہىں بنتا۔ نصارىٰ نے بھى جب عملى حالت سے لاپرواہى کى تو پھر ان کى دىکھو کىسى حالت ہوئى کہ کفارہ جىسا مسئلہ بنا لىا گىا۔ اگر آدمى صدق دل سے محض خدا تعالىٰ کے لئے قدم اُٹھائے تو مىرا اىمان ہے کہ پھر بہت برکت ہوگى۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ416۔415)

•    ’’وہ لوگ (امام مہدىؑ کو ماننے والے۔ ناقل) قائم مقام صحابہ کے ہوں گے اور ان کا امام ىعنى مہدى قائم مقام حضرت رسول کرىم صلى اللہ علىہ وسلم کے ہوگا۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ210)

اللہ تعالىٰ ہم مىں سے ہر اىک کو اصحابؓ رسولؐ جىسا متقى، قانع، راست قدم اور بردبار بنائے اور اللہ سے پختہ تعلق قائم کرنے، دن رات محبت کرنے کى توفىق عطا فرمائے۔نىز ہم تقوىٰ اور طہارت مىں نمونہ بننے کے لائق بننے والے ہوں۔ آمىن

(ابو سعىد)

پچھلا پڑھیں

عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2021