• 14 مئی, 2025

صحبت ِ صالحین کے رموز اور اس کی جدید اقسام

صحبت ِ صالحین کے رموز اور اس کی جدید اقسام
الفضل آن لائن بھی صحبت ِ صالحین کا ایک ذریعہ ہے

جلسہ سالانہ کے حوالہ سےایک تحریر۔ جلسہ بھی صحبت صالحین کا ایک ذریعہ ہے۔

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی تدفین کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے درج ذیل حوالہ پڑھا جس کو ‘‘صلحاء کے پہلو میں دفن ہونا بھی ایک نعمت ہے ’’کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں۔
’’عجیب موثر نظارہ ہو گا جو زندگی میں ایک جماعت تھے مرنے کے بعد بھی ایک جماعت ہی نظر آئے گی۔ یہ بہت ہی خوب ہے جو پسند کریں وہ پہلے سے بندو بست کر سکتے ہیں کہ یہاں دفن ہوں جو لوگ صالح معلوم ہوں ان کی قبریں دُور نہ ہوں۔ ریل نے آسانی کا سامان کر دیا ہے اور اصل تو یہ ہے وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ۔ مگر اس میں یہ کیا لطیف نکتہ ہے کہ بای ارض تدفن نہیں لکھا۔ صلحاء کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ مرض الموت میں انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہلا بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں جو جگہ ہے انہیں دی جاوے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایثار سے کام لے کر وہ جگہ ان کو دے دی تو فرمایا مابقی ھَمٌّ بعد ذالک یعنی اس کے بعد اب مجھے کوئی غم نہیں جبکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں مد فون ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ286 ایڈیشن 1984ء)

اس ارشاد سے ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی کسی نیک بندے کی صحبت اختیار کرنا صحبت صالحین کی طرح ہے۔ تو رواں زندگی میں نیک بزرگوں اور صلحاء کے پاس بیٹھ کر فیض حاصل کرنا کتنا ضروری اور سودمند ہے۔ اب جبکہ دنیا Global Village بلکہ گلو بل ڈرائنگ روم کی صورت اختیار کر چکی ہے اور نیک، پرہیزگار، متقی اور صلحاء کی باتیں آڈیو، وڈیو اور تصاویر کی شکل میں موبائل فونز کے ذریعہ ہمارے پاس آ موجود ہوتی ہیں تو انٹر نیٹ اور مواصلاتی سیاروں کے یہ ذرائع بھی صحبت صالحین کے زمرے میں آتے ہیں، یہ کہنا بھی عین حقیقت ہے کہ آج کے جدید ترین دور میں صحبت صالحین حاصل کرنے کے جوذرائع ہمیں اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں وہ اس سے پہلے اتنے سہل اور آسان نہ تھے۔ جیسے قرآن کریم، اس کے تراجم و تفاسیر، حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال یعنی احادیث اور اعمال یعنی سنتِ رسول اور بزرگانِ سلف کی سیرت و سوانح کے علاوہ آج کے دور کے حکم و عدل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف تقریبات، مجالس اور قادیان کی خوش قسمت گلیوں اور محلوں میں چہل قدمی کے دوران کلمات طیبات، ملفوظات، ضخیم اور پُر معارف نکات اور دقیق علوم پر مبنی کتب کا سیٹ روحانی خزائن، عزیزوں اور قریبی احباب کو رقم کئے ہوئے مکتوبات اور خطوط نیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی وحی و الہام، رؤیا و کشو ف اور سچی پیش خبریوں پر مشتمل اشتہارات کی صورت میں علموں بھرا خزانہ ہماری تعلیم و تربیت کرنے کے لئے نیک صحبت کے طور پر چھوڑا۔ آپؑ کی وفات کے بعد آپؑ کے پانچوں خلفاء کے خطبات، خطابات اور کتب اپنے ورثہ میں ہماری روحانی حیات کو سنوارنے کے لئے چھوڑی ہیں۔ بالخصوص ہمارے موجودہ حضوراقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور میں Liveخطابات و خطبات، ورچوئل ملاقاتیں ایم ٹی اے کے ذریعہ ہم سنتے، دیکھتے، محظوظ ہوتے ہیں اور روحانی غذا کے طور پرہم اسے اپنے دل و دماغ کا حصہ بناتے ہیں تو یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خداوند کریم کا احسانِ عظیم اس صدی کا انقلابی جماعتی میڈیئم یعنی ایم ٹی اے صحبت صالحین کا ایک اہم ذریعہ آج کے دور میں بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں روز نامہ الفضل آن لائن کے ذریعہ یہ انتشار ِ روحانی ہورہا ہے یعنی علمی، اخلاقی، دینی، تربیتی اورمعلوماتی فیض بانٹا جا رہا ہے اور لاکھوں احباب و خواتین اس سے روزانہ فیضیاب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی آج کے دور میں صحبت صالحین ہی ہے۔ جسے احباب جماعت اور قارئین آج کی جدید اور انوکھی ’’تربیت گاہ‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ صالحین کی صحبت کا فیض بانٹنے والی ایسی بیٹھک سے موسوم کررہے ہیں جہاں سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی باتیں سن کر ہر کس و ناقص اپنی جھولیاں بھر کر گھرکو لوٹ رہا ہے پھر اپنے امام سے خطوط کے ذریعہ رابطہ رکھنا بھی صحبت صالحین کا اہم ذریعہ ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ خط لکھنا نصف ملاقات کے برابر ہوتا ہے۔ ابھی آج مورخہ 4نومبر 2021ء کو ایڈیٹر کی ڈاک میں پیارے حضور کا 22اکتوبر 2021ء کا ایم ٹی اے کا معروف اور ہردلعزیز پروگرام This week with Hazoor ٹرانسکرائب اور کمپوز ہو کرخاکسار کے پاس آیا ہے۔ جس میں کینیڈا سے ایک نوجوان واقفِ نو نے جب حضور سے کوئی سوال عرض کیا تو حضور نے فرمایا: ’’آپ ہی ہیں جو کچھ عرصے سے مجھے خط لکھ رہے ہیں جس میں بعض سوالات ہوتے ہیں۔‘‘ اسے صحبت صالحین نہ کہیں تو کس نام سے یاد کریں؟ اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہماری تابناک تاریخ میں موجود ہیں کہ ہمارے خلفاء نے خطوط کے ذریعہ احباب کو پہچانا اور ہزاروں لاکھوں میں یاد رکھا۔ ہمیں بھی صحبت صالحین کے اس بہت فائدہ مند ذریعہ کو اپنانے اور اپنے پیارے آقا کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے خطوط تحریر کرتے رہنا چاہئے۔

صحبت صالحین پر خاکسار کے بہت سے آرٹیکلز نوکِ قلم کے ذریعے پرنٹڈ (printed) قرطاس پراور آن لائن صفحات پر آچکے ہیں لیکن آج خاکسار اس مضمون کو مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےعظیم اور پاکیزہ ارشادات سے مزیّن کرے گا۔ آپؑ نے ایک جگہ اچھی اور بری صحبت کی بہت عمدہ مثال یوں دی ہے کہ ایک مکھی گندگی پر بیٹھتی ہے اور گندگی اور بیماری پھیلاتی ہے جبکہ ایک دوسری مکھی جو شہد کی مکھی کہلاتی ہے وہ پھولوں پر بیٹھتی ہے اور ایک ایسی خوراک تیار کرتی ہے جو شہد کہلاتا ہے اور شفاء للناس ہے۔ ہیں دونوں Bees مگر اپنی اپنی صحبت سے وہ کیا مہیا کرتی ہیں۔

صحابہؓ کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت

آپؑ فرماتے ہیں: ’’صحابہ کرام ؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور بڑے بڑے نقصان برداشت کئے۔ اُن کو اس بات کا علم تھا کہ صحبت سے جو بات حاصل ہونی ہے وہ اور طرح ہر گز حاصل نہ ہوگی۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ351)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’دنیا میں دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ ایک جسمانی تعلقات۔ جیسے ماں، باپ، بھائی، بہن وغیرہ کے تعلقات۔ دوسرے روحانی اور دینی تعلقات۔ یہ دوسری قسم کے تعلقات اگر کامل ہو جائیں تو سب قسم کے تعلقات سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ اور یہ اپنے کمال کو تب پہنچتے ہیں جب ایک عرصہ تک صحبت میں رہے۔ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو صحابہؓ کی جماعت تھی، اس کے یہ تعلقات ہی کمال کو پہنچے ہوئے تھے جو انہوں نے نہ وطن کی پرواہ کی اور نہ اپنے مال و املاک کی اور نہ عزیز و اقارب کی۔ یہاں تک کہ اگر ضرورت پڑی تو انہوں نے بھیڑ بکری کی طرح اپنے سر خدا کی راہ میں رکھ دیئے۔ وہ شدائد ومصائب جو ان کو پہنچ رہے تھے، ان کے برداشت کرنے کی قوت اور طاقت ان کو کیونکر ملی۔ اس میں یہی سِرّ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہو گئے تھے۔ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا، جو آپ ؐ لے کر آئے تھے اور پھر دنیا اور اس کی ہر چیز ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کے لقاء کے مقابلہ میں کچھ ہستی رکھتی ہی نہیں تھی۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ140ایڈیشن 2016ء)

درخت سے تعلق رکھنے والی شاخ ہی
زندہ رہتی ہے

آپ ؑ فرماتے ہیں: ’’آپ نے جو آج مجھ سے بیعت کی ہے یہ تخمریزی کی طرح ہے۔ چاہیئے کہ آپ اکثر مجھ سے ملاقات کریں اور اس تعلق کو مضبوط کریں جو آج قائم ہوا ہے جس شاخ کا تعلق درخت سے نہیں رہتا وہ آخر خشک ہو کر گر جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ37-38 ایڈیشن 1984ء)

صحبت صالحین کے لئے مرکز آنا

فرمایا: ’’ہمیں بہت افسوس ہے کہ بعض لوگ کچے ہی آتے ہیں اور کچے ہی چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ اُن کا فرض ہے کہ یہاں آکر چند روز رہیں اور اپنے شبہات پیش کر کے پختگی حاصل کریں تو پھر ان سے دوسرے مخالف اور عیسائی ایسے بھاگیں گے جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ283-284 ایڈیشن 2016ء)

* آپ ؑ مقربین کی درگاہ میں بیٹھنے والوں کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
’’یہ مسلمہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے مقرب کے پاس رہنا گویا ایک طرح سے خود خدا تعالیٰ کے پاس رہنا ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ316 ایڈیشن 2016ء)

*ایک انگریز نے ایک دفعہ حضور ؑ سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ کشمیر میں ایک بڑا ہوٹل بناؤں اور وہاں ہر ملک و دیار کے لوگ جو سیر و سیاحت کے لئے آتے ہیں ان کو تبلیغ کروں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ’’ہمیں اس سے دنیا داری کی بو آتی ہے۔ اگر اسے سچا اخلاص خدا کے ساتھ ہے اور اس کی غرض تحصیل دینی ہے تو اول یہاں (قادیان) آکر رہے۔

(ملفوظات جلد5صفحہ316ایڈیشن 2016ء)

صحبت صالحین ایک کیمیا ہے

آپؑ نے ایک دفعہ کسی بزرگ کا فارسی شعر کسی جگہ پڑھا۔ جو یہ ہے

ہر کہ روشن شُد دل وجان ودرُوں از حضرتش
کیمیا باشدبسربرون دمے در صحبتش

یعنی جس کے جان و دل اور باطن خدا کے حضور سے روشن کئے گئے ہیں ان کی صحبت میں ایک لمحہ گزارنا بھی کیمیا ہے۔

(ملفوظات جلد1 صفحہ485 ایڈیشن 2016ء)

اصلاح ِ نفس اور صحبت صالحین

آپؑ فرماتے ہیں: ’’وہ عظیم الشان ذریعہ جس سے ایک چمکتا ہوا یقین حاصل ہو اور خدا تعالیٰ پر بصیرت کے ساتھ ایمان قائم ہو ایک ہی ہے کہ انسان ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو خدا تعالیٰ کے وجود پر زندہ شہادت دینے والے ہوں خود جنہوں نے اس سے سن لیا ہے کہ وہ ایک قادر مطلق اور عالم الغیب تمام صفات کاملہ سے موصوف خدا ہے۔

ابتدا ء میں جب انسان ایسے لوگوں کی صحبت میں جاتا ہے تو اس کی باتیں بالکل انوکھی اور نرالی معلوم ہوتی ہیں وہ بہت کم دل میں جاتی ہیں گو دل ان کی طرف کھینچی جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے ان معرفت کی باتوں کی ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جو کچھ گردو غبار دل پر بیٹھا ہوتا ہے صادق کی باتیں ان کو دور کر کے اسے جلا دینا چاہتی ہے تا اس میں یقین کی قوت پیدا ہو جیسے جب کبھی کسی آدمی کو مسہل دیا جاتا ہے تو دست آور دوائی پیٹ میں جا کر ایک گڑ گڑاہٹ سی پیدا کر دیتی ہے اور تمام مواد ردّیہ اور فاسدہ کو حرکت اور جوش دے کر باہر نکالتی ہیں اسی طرح پر صادق ان ظنیات کو دور کرنا چاہتا ہے اور سچے علوم اور اعتقاد صحیحہ کی معرفت کرانی چاہتا ہے اور وہ باتیں اس دل کو جس نے بہت بڑا زمانہ ایک اور ہی دنیا میں بسر کیا ہوا ہوتا ہے ناگوار اور ناقابلِ عمل معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن آخر سچائی غالب آجاتی ہے اور باطل پرستی کی قوتیں مر جاتی ہیں اور حق پرستی کی قوتیں نشو و نما پانے لگتی ہیں۔ پس میں اس نور کو لے کر آیا ہوں اور دنیا میں قوت ِ یقین کو پیدا کرنا چاہتا ہوں اور اس قوت کا پیدا ہونا صرف الفاظ اور باتوں سے نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ ان نشانات سے نشو نما پاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مقتدرانہ طاقت سے صادقوں کے ہاتھ پر ظہور پاتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 2صفحہ365-366 ایڈیشن 2016ء)

’’سنو! انسان کامل مومن اس وقت تک نہیں ہوتا، جب تک کفار کی باتوں سے متاثر نہ ہونے والی فطرت حاصل نہ کر لے اور یہ فطرت نہیں ملتی جب تک اس شخص کی صحبت میں نہ رہے جو گمشدہ متاع کو واپس لانے کے واسطےآیا ہے۔ پس جب تک وہ اس متاع کو نہ لے لے اور اس قابل نہ ہو جائے کہ مخالف باتوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہ ہو تو اس وقت تک اس پر حرام ہے کہ اس صحبت سے الگ ہو کیونکہ وہ اس بچہ کی مانند ہے جو ابھی ماں کی گود میں ہے اور صرف دودھ ہی پر اس کی پرورش کا انحصار ہے۔ پس اگر وہ بچہ ماں سے الگ ہو جاوے تو فی الفور اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اسی طرح اگر وہ صحبت سے علیحدہ ہوتا ہے تو خطرناک حالت میں جا پڑتا ہے۔ پس بجائے اس کے کہ دوسروں کو درست کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہو خود الٹا متاثر ہو جاتا ہے اور اوروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے۔ اس لئے ہم کو دن رات جلن اور افسوس یہی ہے کہ لوگ بار بار یہاں آئیں اور دیر تک صحبت میں رہیں۔ انسان کامل ہونے کی حالت میں اگر ملاقات کم کر دے اور تجربہ سے دیکھ لے کہ قوی ہو گیا ہوں تو اس وقت اسے جائز ہو سکتا ہے کہ ملاقات کم کر دے کیونکہ بعید ہو کر بھی قریب ہی ہوتا ہے لیکن جب تک کمزوری ہے وہ خطرناک حالت میں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ136ایڈیشن 2016ء)

’’وہ آدمی جو کسی تریاقی صحبت میں رہے اور اس طرح رہے جو رہنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کو ایسے زہروں سے بچا لیتا ہے اور یہ بات کہ انبیاء علیہم السلام کی یا آسمانی کتابوں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ بہت صاف امر ہے۔ دیکھو آنکھ میں بھی ایک روشنی اور نور ہے، لیکن وہ سورج کی روشنی کے بغیر دیکھ نہیں سکتی۔ آنکھ خدا نے دی ہے ساتھ ہی دوسری روشنی بھی پیدا کر دی ہے، کیونکہ یہ نور دوسرے نور کا محتاج ہے۔ اسی طرح اپنی عقل جب تک آسمانی نور اور بصیرت اس کے ساتھ نہ ہو کچھ کام نہیں دے سکتی۔ نادان ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم مجرد عقل سے بھی کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ خدا نے جو طریق مقرر کیا ہے۔ اس کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو۔ بہت سے اسرار اور امور ہیں جو مجھ پر کھولے گئے ہیں۔ اگر میں ان کو بیان کروں تو خاص آدمیوں کے سوا جو صحبت میں رہتے ہیں باقی حیران رہ جائیں۔

پس ان لوگوں کو دیکھ کر حیرت اور رونا آتا ہے جو کسی صادق کی پاک صحبت میں نہیں رہے۔ ان لوگوں کو جو ذاتیات پر اعتراض کرتے ہیں۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ وہ کوئی ایک اعتراض تو دکھائیں جو پہلے کسی نبی پر نہ کیا گیا ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو اعتراض آریوں نے کئے ہیں کیا وہ ان اعتراضوں سے جو مجھ پر ہوئے بڑھے ہوئے نہیں ہیں؟ حضرت مسیح پر یہودیوں نے جس قدر اعتراض کیے ہیں یا آریوں نے کئے ہیں۔ وہ دیکھو کس قدر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ذات پر جس قدر الزام لگائے جاتے ہیں ان کا شمار تو کرو۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ137-138 ایڈیشن 2016ء)

سفید کپڑا اور صحبت

فرمایا: ’’کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبہ: 119) بھی اسی واسطے فرمایا گیا ہے۔ سادھ سنگت بھی ایک ضرب المثل ہے۔ پس یہ ضروری بات ہے کہ انسان باوجود علم کے اور باوجود قوت و شوکت کے امام کے پاس ایک سادہ لوح کی طرح پڑا رہے تا اس پر عمدہ رنگت آوے۔ سفید کپڑا اچھا رنگا جاتا ہے اور جس میں اپنی خودی اور علم کا پہلے سے کوئی میل کچیل ہوتا ہے اس پر عمدہ رنگ نہیں چڑھتا۔ صادق کی معیت میں انسان کی عقدہ کشائی ہوتی ہے اور اسے نشانات دئے جاتے ہیں جن سے اس کا جسم منور اور روح تازہ ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ262-263 ایڈیشن 2016ء)

آپؑ فرماتے ہیں۔
’’صادقوں کی صحبت میں رہنا بہت ضروری ہے خواہ انسان کیسا علم رکھتا ہو۔ طاقت رکھتا ہو، لیکن صحبت میں رہنے سے جو اس کے شبہات دور ہوتے ہیں اور اسے علم حاصل ہوتا ہے وہ دوسرے طور سے حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

(البدر جلد2 نمبر8 مورخہ 13مارچ 1903ء صفحہ59)

عادتوں کے کیڑے

پھر فرمایا۔ ’’زندگی کا اعتبار نہیں ہے۔ ایک دن آنے کا ہے اور ایک دن جانے کا ہے معلوم نہیں کب مرنا ہے۔ علم ایک طاقت انسان کے اندر ہے۔ اس کے اوپر وساوس اور شبہات پڑتے ہیں۔ عادتوں کے کیڑے مثل برتن کی میل کی طرح انسان کے اندر چمٹے ہوئے ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ کُوْنُو ْمَعَ الصّٰدِ قِیْنَ (التوبہ: 119)۔ پس اگر آپ چند روز یہاں ٹھہر جاویں تو اس میں آپ کا کیا حرج ہے؟ اس طرح ہر ایک بات کا موقعہ آپ کو مل جائے گا دنیا کے کام تو یونہی چلے چلتے ہیں۔ اور کبھی ختم نہیں ہوتے۔

کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد
ہر چہ گیرید مختصر گیرید

بہت لوگ ہمارے پاس آئے اور جلد رخصت ہونے لگے۔ ہم نے ان کو منع کیا مگر وہ چلے گئے۔ آخر کار پیچھے سے انہوں نے خط روانہ کیے کہ ہم نے گھر پہنچ کر بنایا تو کچھ نہیں اگر ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارا جلدی آناایک شیطانی وسوسہ تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ263 ایڈیشن 2016ء)

برف کے تودوں پر چل کر

حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی تاکید فرمائی ہے کہ جب دنیا ختم ہونے پر ہو گی تو اس اُمّت میں سے مسیح موعود پیدا ہوگا۔ لوگوں کو چاہیے کہ اس کے پاس پہنچیں خواہ ان کو برف پر چل کر جانا پڑے۔ اس لئے صحبت میں رہنا ضروری ہے کیونکہ یہ سلسلہ آسمانی ہے۔ پاس رہنے سے باتیں جو ہوں گی ان کو سنے گا جو کوئی نشان ظاہر ہو اسے سوچے گا۔ آگے ہی زندگی کا کون سا اعتبار تھا مگر اب تو جب سے یہ سلسلہ طاعون کا شروع ہوا ہے کوئی اعتبار مطلق نہیں رہا۔ آپ نفس پر جبر کر کے ٹھہریئے اور جو شبہ و خیال پیدا ہو وہ سناتے رہیے۔ اَن پڑھ اور اُمّی لوگ جو آتے ہیں ان کی باتیں اور شبہات کا سننا بھی ہمارا فرض ہے۔ اس لئے آپ بھی اپنے شبہات ضرور سنائیے یہ ہم نہیں کہتے کہ ہدایت ہو یا نہ ہو۔ ہدایت تو امرِ ربّی ہے۔ کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ263-264 ایڈیشن 2016ء)

نیک اعمال کے لئے صحبت

فرمایا: ’’خدا کے فضل کے سوا تبدیلی نہیں ہوتی اعمالِ نیک کے واسطے صحبت صادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن شریف یونہی بھیج دیتا اور کوئی رسول نہ آتا۔ مگر انسان کو عمل در آمد کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے۔ پس اگر وہ نمونہ نہ بھیجتا رہتا توحق مشتبہ ہو جاتا‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ266 ایڈیشن 2016ء)

مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ

آپؑ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے اور اس کی عظمت کو دل میں جگہ دیتے ہیں خدا تعالیٰ اُن کو عزت دیتا اور خود اُن کے لئے ایک سپر ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے من کان لِلّٰہ کان اللّٰہ لہُ یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ہو جاوے اللہ تعالیٰ اس کا ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ356)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات بطور نمونہ ازدیاد ایمان کے لئے اس کالم میں خاکسار نے رکھے ہیں۔ یہ موضوع بہت اہم اور با برکت ہے۔ کسی نے صحبت کے مضمون کو گلاب اور دیگر پھولوں سے تشبیہ دی ہے کہ جہاں پھولوں کی کیاریاں ہوں وہاں سے آنے والی ہوائیں بھی خوشبو دار ہو جاتی ہیں اور فضا مہک جاتی ہے۔ یہاں تک کہ گلاب کی پتیاں جس زمین پر گرتی ہیں وہ زمین بھی گلاب کی خوشبو سے معطرہو جاتی ہے۔

پنجابی کے معروف صوفی شاعر میاں محمد بخش (مصنف منظوم مجموعہ کلام: سیف الملوک) نے کیا خوب کہا ہے

چنگے بندے دی صحبت یارو جیویں دکان عطاراں
سودا پاویں مول نہ لیّے ھُلے آن ہزاراں
بُرے بندے دی صحبت یارو جیویں دکان لوہاراں
کپڑے پاویں کُنج کُنج بیٹھیے چنکاں آن ہزاراں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مضمون کو کیا ہی نفیس اور پُرحکمت انداز میں بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک شخص کستوری اٹھائے ہوئے ہو اور دوسرا بھٹی جھونکنے والا ہو۔ کستوری والا مفت میں خوشبو دے جائے گا۔ اس کی مہک سے تو فائدہ اٹھا جائے گا (یہ ذکر الہٰی کی محافل ہیں) اور بھٹی والے کے قریب بیٹھنے سے کپڑے جل جائیں گے اور اس کا بدبو دار دھواں تنگ کرے گا۔‘‘

(مسلم کتاب البّر و الصلۃ)

اللہ تعالیٰ ہمیں صلحاء اور نیک بزرگوں کی صحبت بالخصوص خلیفۃ المسیح کی پاکیزہ صحبت یعنی ارشادات و نصائح کو سننے اور ان پر بھرپور عمل کرنے کی توفیق سے نوازتا رہے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

سکاسو ریجن مالی میں جلسہ سیرۃ النبی ؐ کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 دسمبر 2021