• 26 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 33)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں (قسط 33)

اردو لنک نے اپنی اشاعت 23 تا 29 مارچ 2007ء صفحہ6 ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کا مضمون ’’اسلام میں عورت کی عظمت و احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی قسط نمبر 12 خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔

مضمون میں اخبار نے قرآن کریم کے سورہ نساء کی آیت نمبر 2 کا ترجمہ موٹے الفاظ میں لکھا کر ہائی لائٹ کیا ہے جو یہ ہے :
’’اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلایا۔ اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں کے تقاضوں کا بھی خیال رکھو۔ یقیناً اللہ تم پرنگران ہے۔‘‘

(النساء: 2-4)

مضمون میں 3 آیات کریمہ مختلف سورتوں سے لکھی گئی ہیں۔ ایک آیت الاحزاب 33:36 کی ہے اور ایک آیت سورۃ النمل 16:98 کی ہے۔ تینوں آیات کے عربی اور پھر ترجمہ لکھنے کے بعد خاکسار نے لکھا ہے کہ:
انصاف کی نظر سے دیکھنے اور پرکھنے والا ہے کوئی، جو مرد اور عورت میں مساوات کی یہ تعلیم اپنے مذہب سے دکھا سکے؟ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی نظم آئینہ کمالات اسلام سے 6 اشعار لکھے گئے ہیں:

ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دین دین محمد سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشان دکھلائے
یہ ثمر باغِ محمد سے ہی کھایا ہم نے
اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے
مصطفےؐ پر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے
ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

خاکسار نے اس کے بعد اسلام میں در پیش دشواریوں کا ذکر کیا ہے کہ ہمیں درحقیقت خود قرآن سمجھنے اور عمل کی ضرورت ہے۔ ورنہ دوسرے مذہب والے یہی کہتے ہیں کہ جب تم خود قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے تو ہمیں کیسے کہتے ہو کہ قرآن کی تعلیم سب سے اچھی ہے۔ خاکسار نے اسی مضمون میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت خاتم النبیین سے یہ حصہ بھی لکھا کہ:
’’آنحضرتؐ کی امتیازی خصوصیت میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے طبقہ نسواں کے تمام جائز اور واجبی حقوق کی پوری پوری حفاظت فرمائی ہے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آپؐ سے پہلے یا آپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں گزرا جس نے عورت کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہو جیسی آپؐ نے کی ہے۔ چنانچہ ورثہ میں، بیاہ شادی میں، خاوند بیوی کے تعلقات میں، طلاق و خلع میں، اپنی ذاتی جائیداد کے پیدا کرنے کے حق میں، اپنی جائیداد کے استعمال کرنے کے حق میں، تعلیم کے حقوق میں، بچوں کی تعلیم و تربیت کے حقوق میں، قومی اور ملکی معاملات میں حصہ لینے کے حق میں، شخصی آزادی کے معاملہ میں، دینی حقوق اور ذمہ داریوں میں، الغرض دین و دنیا کے ہر اس میدان میں جس میں عورت قدم رکھ سکتی ہے، آنحضرتؐ نے اس کے تمام واجبی حقوق کو تسلیم کیا ہے اور اس کے حقوق کی حفاظت کو اپنی امت کے لئے مقدس امانت اور فرض کے طور پر قرار دیا ہے۔‘‘

یہ لکھنے کے بعد خاکسار نے ’’عورت کی ذمہ داریاں‘‘ لکھیں کہ جب اسلام نے عورت کو اتنا بلند مقام، عزت، عظمت دی ہے تو اس سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی وہ کیا ہیں۔ یہ ذمہ داریاں خاکسار نے کتاب شمع حرم از ڈاکٹر میر محمد اسماعیلؓ سے لی ہیں۔ اس حصہ مضمون میں جو بات ہے وہ یہ ہے کہ :
’’1۔ خاوند کا درجہ اور عظمت کو سب سے بلند اور اعلیٰ سمجھو۔ 2۔ خداتعالیٰ کے بعد تجھ پر تیرے خاوند کا حق ہے تو حتی الوسع اس کی فرمانبرداری کر۔ 3۔ خاوند کی اطاعت کے بعد اولاد کی تربیت تیرا فرض ہے۔ اگر صرف ان تین باتوں پر ہی عمل ہو جائے تو یقین کر کہ تو جنت کی حور، خدا کی پاکباز اور پیاری بندی اور دنیا کی رونق اور برکت ہے۔‘‘

انڈیا پوسٹ نے اپنی شاعت 30 مارچ 2007ء صفحہ 11 پر اس عنوان سے 4 تصاویر کے ساتھ ہماری 3 روزہ قرآن کانفرنس کی خبر لگائی۔

Three-day annual Confernece on Quran

تین دن سالانہ قرآن کانفرنس

ایک تصویر میں سامعین قرآن کلاس سن رہے ہیں اور نوٹس لے رہے ہیں۔ ایک تصویر میں منور سعید صاحب قرآن کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ایک تصویر میں برادر منیر حامد صاحب نائب امیر امریکہ برادر رشید رینو صاحب کو انعام دے رہے ہیں ایک تصویر میں خاکسار دو آدمیوں کو قرآن کریم کی آیات کے بارے میں سمجھا رہا ہے۔

خبر کا متن یہ ہے: سین ہوزے۔ انڈیا پوسٹ نیوز سروس کے حوالہ سے۔

مسجد بیت البصیر سین ہوزے میں 15 مارچ سے 18 مارچ تک سالانہ قرآن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 200 سے زائد مرد و خواتین اور نوجوان شامل ہوئے۔ اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے لوگ چینو، لاس اینجلس، فی نکس، مرسڈ، پورٹ لینڈ، سان فرانسسکو اور دیگر شہر وں سے آئے۔ ڈاکٹر ظہیر الدین منصور جو واشنگٹن سے آئے تھے نے کانفرنس کی غرض و غایت اور مقاصد بیان کئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جو قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔‘‘ امام شمشاد ناصر آف مسجد بیت الحمید چینو نے سورۃ فاتحہ کے معانی اور تفسیر سمجھائی۔ اگلے دن بھی انہوں نے سورۃ فاتحہ کی دعا کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح اس دعا کے ذریعہ انسان روحانی اور اخلاقی طور پر ترقی کر سکتا ہے۔ امام ارشاد ملہی نے قرآن کو صحیح طور پر پڑھنے کے طریقے سمجھائے اور سکھائے اور ان کے معانی کو سمجھنے میں اس سے کس طرح مدد مل سکتی ہے۔ منور سعید نے جو کہ واشنگٹن سے آئے تھے، نے آخری زمانے سے متعلق قرآن کریم کی پیشگوئیاں بیان کیں۔ ڈاکٹر خالد شیخ آف چینو نے قرآن اور سائنس کے بارے میں بیان کیا۔ اس کانفرنس کا ایک اور پروگرام سوال و جواب بھی تھا۔ جس میں سامعین کے سوالوں کے جواب دیئے گئے۔

چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 31 مارچ تا 16 اپریل 2007ء صفحہ C6 پر ہماری خبر اس عنوان سے دی۔

Three-Day Koran Conference
3 دن کی قرآن کانفرنس

اخبار نے لکھا کہ قریباً 200 افراد (مرد و زن اور بچوں) نے 2007ء کی سالانہ قرآن کانفرنس جو کہ مارچ کے تیسرے ہفتہ میں بیت البصیر سان ہوزے میں ہوئی تھی شرکت کی امام شمشاد ناصر آف بیت الحمید چینو نے اس موقعہ پر قرآن کریم کی پہلی سورت ’’فاتحہ‘‘ معانی سمجھائے۔ ڈاکٹر خالد شیخ نے ’’قرآن اور سائنس‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ امام شمشاد اس پینل کے بھی ممبر تھے۔ جنہوں نے سامعین اور شاملین کے سوالوں کے جواب دیئے۔

ہفت روزہ اردو لنک نے اپنی اشاعت 30 مارچ تا 15 اپریل 2007ء صفحہ 6 ’’دین کی باتیں‘‘ کے تحت خاکسار کے مضمون بعنوان ’’اسلام میں عورت کی عظمت، احترام اور مغربی معاشرہ‘‘ کی قسط خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کی۔ اخبار نے مضمون کے ایک حصہ کو ہائی لائٹ بھی کیا ہے اور بڑے خوبصورت گول دائرہ میں یہ لکھا ہے:
’’خداتعالیٰ نے جو یہ بیان فرمایا وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے ہر تخلیق میں کچھ خلقی فضیلتیں ایسی رکھی ہیں جو دوسری تخلیق میں نہیں ہیں اور بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ قوام کے لحاظ سے مرد کی ایک فضیلت کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے ہرگز یہ مراد نہیں کہ مرد کو ہر پہلو سے عورت پر فضیلت ہے۔‘‘

دراصل اس مضمون کے شروع میں ہیڈ لائن یہ ہے۔ کچھ مردوں کے لئے نصائح۔ کیونکہ پچھلی قسط میں خواتین کے لئے کچھ نصائح لکھی گئی تھیں۔ خاکسار نے شروع میں ایک اقتباس حضرت مسیح موعود ؑ کا ملفوظات سے یہ دیا ہے:
’’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں ہم کو خدا نے مرد بنایا۔ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘ اس کے علاوہ ایک اور اقتباس بھی درج کیا گیا ہے جس میں مردوں کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی نصائح ہیں۔ پھر عورتوں کے حقوق کے ضمن میں حضرت مسیح موعودؑ کا یہ اقتباس بھی درج کیا گیا ہے۔

’’عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی۔ مختصراً الفاظ میں فرما دیا ہے وَلَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (البقرہ: 229) کہ جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں …… چاہئے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوست کا ہوتاہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خداتعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہی یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خداتعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ہے خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ۔ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے اچھا ہے۔‘‘ اس کے بعد ایک اور نصیحت حضرت الحاج مولانا حکیم نور الدین خلیفۃ المسیح الاول کی حقائق الفرقان سے یہ لکھی ہے:
’’اللہ تعالیٰ تاکید فرماتا ہے کہ اپنے اہل خانہ کو وعظ و نصیحت کرتے رہو اور انہیں نیک باتوں کی طرف متوجہ کرتے رہو تاکہ وہ بھی عذاب سے بچیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کریں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ مرد عورتوں کے مودب ہوا کرتے ہیں تاکہ ان کو ہر قسم کے آداب شرعیہ و اسلامیہ سکھا دیں۔‘‘

(سورۃ التحریم، حقائق الفرقان صفحہ150)

مضمون میں اس عنوان کے تحت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی تفسیر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے کہ

مردوں کی عورتوں پر قوّام ہونے کی حقیقی تفسیر

’’سب سے پہلے تو یہ لفظ قوّام کو دیکھتے ہیں قوام کہتے ہیں ایسی ذات کو جو اصلاح احوال کرنے والی ہو۔ جو درست کرنے والی ہو۔ جو ٹیڑھے پن اور کجی کو صاف سیدھا کرنے والی ہو چنانچہ قوام اصلاح معاشرہ کے لئے ذمہ دار شخص کو کہا جائے گا۔

پس قَوَّامُوْنَ حقیقی معنیٰ یہ ہے کہ عورتوں کو اصلاح معاشرہ کی اول ذمہ داری مرد پر ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کا معاشرہ بگڑنا شروع ہو جائے، ان میں کج روی پیدا ہو جائے ان میں ایسی آزادیوں کی رو چل پڑے جو ان کے عائلی نظام کو تباہ کرنے والی ہو تو عورت پر دوش دینے سے پہلے مرد اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کیونکہ خداتعالیٰ نے ان کو نگران مقرر فرمایا تھا۔ معلوم ہوتا ہے انہوں نے اپنی بعض ذمہ داریاں اس سلسلہ میں ادا نہیں کیں۔

…… قرآن کریم سچ فرماتا ہے کہ جس کے اوپر رزق کی ذمہ داری ہو گی اسے طبعی طور پر ایک فضیلت حاصل ہو جائے گی یہ ایک واقعاتی اظہار ہے اس پر کس قسم کے اعتراض کی گنجائش نہیں۔‘‘

مضمون کے آخر میں ایک یہ حدیث بھی درج ہے جہاں آنحضرتؐ نے فرمایا ہے ’’دنیا ساز و سامان کی جگہ ہے اور اسکا بہترین سامان نیک عورت ہے۔‘‘

(مسلم)

مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس فون نمبر اور ای میل لکھا ہوا ہے۔

الاخبار نے عربی سیکشن کی اشاعت 5 اپریل 2007ء صفحہ 19 پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر کے ساتھ عربی زبان میں آپ کی عربی تصانیف سے اقتباسات شائع کئے ہیں۔ اس کا عنوان اخبار نے یہ لگایا ہے

امام (مہدی) مرزا غلام احمد کی
عربوں کے ساتھ محبت

خاکسار نے اس سے قبل اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس اخبار کا ایڈیٹر بھی عیسائی ہے۔ مگر حضرت اقدس مسیح موعود اور آپ کے خلفاء کی تحریرات کو شائع کرتا ہے۔ بغیر کسی تعصب کے بلکہ دوسروں کےسامنے بھی اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ مذہب رواداری اور باہم عزت و احترام سکھاتا ہے۔

اس مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی چار عربی کتب سے اقتباسات ہیں۔

حمامۃ البشریٰ جلد 7 روحانی خزائن صفحہ 182-183
منن الرحمن جلد 9 روحانی خزائن صفحہ 166-168
الہدی و التبصرۃ لمن یریٰ۔ جلد نمبر 18 روحانی خزائن صفحہ 311-312
آئینہ کمالات اسلام جلد نمبر5 روحانی خزائن صفحہ 419-422

حمامۃ البشریٰ: ’’اے عرب کے شریفو! میں دل و جان سے تمہارے ساتھ ہوں اور میرے رب نے عرب کی نسبت مجھے بشارت دی اور الہام کیا ہے کہ میں ان کی خبر گیری کروں اور ٹھیک راہ بتاؤں اور ان کا حال درست کروں اور ان شاء اللہ تم مجھے اس بارے میں کامیاب پاؤ گے۔

اے میرے پیارے دوستو! تائید اسلام (اور اس کی تجدید) کے لئے خداتعالیٰ مجھ پر خاص تجلی سے چمکا اور برکات کی بارشیں مجھ پر برسائیں اور رنگا رنگ کے انعام مجھ پر کئے ہیں اور اسلام کی تنگی کے وقت اور امت خیرالانام کے تنگ عیش کے زمانہ میں خدا نے مجھے بہت سے فضلوں اور فتوحات اور تائیدات کی بشارتیں دی ہیں۔ پس آپ لوگوں کو ان نعمتوں میں شریک کرنے کا مجھے بہت شوق پیدا ہو ااور اب تک مجھے یہی شوق ہے۔ تو کیا تمہیں بھی خواہش ہے کہ اللہ کے لئے میرے ساتھ مل جاؤ۔‘‘

منن الرحمٰن کے اقتباس سے قبل اخبار نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے حوالہ سے یہ لکھا کہ:
حضرت امام مہدی علیہ السلام نے یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی ہے کہ لغت عربی ام الالسنہ ہے۔ یعنی ’’تمام زبانوں کی ماں‘‘ اور یہ کہ تمام زبانیں عربی سے ہی نکلی ہیں اور یہ وہ زبان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اولاً آدم علیہ السلام کو سکھائی اور اس ضمن میں آپؑ نے دلائل دیئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء سے عرب کے ام القریٰ (مکہ) میں آنحضرتؐ خاتم النبیین کو پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو زبان عربی میں قرآن کریم عطا فرمایا جو کہ تمام جہانوں کے لئے ہے۔ اس ضمن میں حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اور اس مجمل کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے زبانوں کی تحقیق کی طرف سے میرے دل کو پھیر دیا اور میری نظر کو متفرق زبانوں کے پرکھنے کے لئے مدد کی اور مجھ کو سکھلایا کہ عربی تمام زبانوں کی ماں اور ان کی کیفیت کی جامع ہے اور وہ نوع انسان کے لئے ایک اصل زبان اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک الہامی نعمت ہے اور انسانی پیدائش کا تتمہ ہے جو احسن الخالقین نے ظاہر کیا ہے۔

پھر مجھے خدائے قادر کی کلام سے معلوم ہوا کہ عربی دلائل نبوت رسول اللہؐ کا ایک ذخیرہ ہے اور اس شریعت کے لئے بڑی بڑی شہادتوں کا مجموعہ ہے سو میں اس خیر المنعمین کے آگے سجدہ میں گر پڑا… اور باوصف اس کے میں نے دوسری زبانوں کو دیکھا کہ گندی کے سبزہ کی طرح ہیں اور میں نے ان کے گھروں کو ویران پایا اور ان کے اہل کو مصیبتوں میں دیکھا۔ اور یہ دیکھا کہ وہ زبانیں مسافروں کی طرح کوچ کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘

الہدیٰ والتبصرۃ لمن یریٰ۔ ’’اس کے علاوہ ان میں یہ عیب بھی ہے (یعنی مسلمان بادشاہوں میں) کہ وہ عربی زبان کی اشاعت نہیں کرتے اور ترکی یا فارسی کی اشاعت کرتے ہیں اور واجب تھا کہ اسلامی شہروں میں عربی زبان پھیلائی جاتی۔ اس لئے کہ وہ زبان ہے اللہ کی اور اس کے رسولؐ کی اور پاک نوشتوں کی۔ اور ہم تعظیم کی نگاہ سے ان مسلمانوں کو نہیں دیکھتے جو اس زبان کی تعظیم نہیں کرتے اور نہ ہی اسے اپنے شہر میں پھیلاتے ہیں اس لئے کہ شیطان کو پتھراؤ کریں اور یہ بڑا سبب ہے ان کی تباہی کا اور ان کے وبال کا نشان ہے۔ اس لئے کہ وہ ستھرے باغ کو چھوڑ کر گوبر کے دمنہ پر جھک پڑے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا مال پھینک دیا ہے اور اپنا تھیلا (جس میں مال اسباب رکھا جاتا ہے) پارہ پارہ کر دیا ہے اور ادنیٰ کو اعلیٰ کے بدلہ لے لیا ہے اور یہودیوں کی مانند ہو گئے ہیں اور اگر چاہتے تو عربی کو قومی زبان بناتے اس لئے کہ عربی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے اور اس میں قسم قسم کے عجائبات اور قدرت کی امانتیں ہیں۔‘‘

آئینہ کمالات اسلام کے اقتباس لکھنے سے قبل اخبار نے لکھا کہ حضرت مرزا غلام احمد (امام مہدی علیہ السلام) کو عربوں سے شدید محبت تھی۔ اور عربوں سے محبت آپ کے ایمان کا حصہ ہے اور اسی وجہ سے یہ محبت خدا کے لئے اس کے رسولؐ اور اس کے دین کے لئے ہے۔ اور آپ عملی طور پر رسول کریمؐ کی اس حدیث کے مصداق تھے کہ جس میں آپؐ نے فرمایا ’’حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ کہ عربوں سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ آپ کی کتب میں جابجا اس بات کا اظہار ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو عربوں سے کس قدر محبت تھی اور آپ نے ان کی متعدد جگہ تعریف بھی فرمائی ہے جیسا کہ اس جگہ آئینہ کمالات اسلام کے اس اقتباس سے ظاہر ہے:
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ! اے خالص عرب کےنیک اور بزرگ لوگو! سلام اے نبی کریمؐ کی زمین اور بیت اللہ عظیم کے پڑوس میں رہنے والو! تم اسلام کی بہترین امت ہو۔ اور اس بلند خدا کا سب سے بہتر گروہ ہو۔ کوئی قوم تمہاری شان کو نہیں پہنچ سکتی۔ یقیناً تم شرف، بزرگی اور منزلت میں بڑھ کر ہو، تمہارے لئے یہی فخر کافی ہے کہ اللہ نے حضرت آدمؑ سے جو وحی شروع کی اس کو اس نبیؐ پر ختم کیا۔ جو تم میں سے تھے اور تمہاری زمین ان کا وطن، ان کی پناہ اور جائے پیدائش تھی۔ اے اس سرزمین کے باسیو! جس کو محمد مصطفیٰؐ کے قدموں نے رونق بخشی، اللہ تم پر رحم کرے اور تم سے راضی ہو اور تم کو راضی رکھے، میں تمہارے بارے میں اچھا ظن رکھتا ہوں۔ اے اللہ کے بندو! میری ر وح میں تمہاری ملاقات کے لئے بڑی تشنگی ہے۔ میں تمہارے ملکوں کو اور تمہاری جمیعت کی برکات دیکھنے کا مشتاق ہوں تا اس زمین کو دیکھوں جس کو مخلوق کے سردار کے قدموں نے چھوا۔ اور اس مٹی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگاؤں۔ اس زمین کی صلاحیتوں اور صلحاء کو ملوں اس خطے کے مقدس مقامات اور علماء کو دیکھوں۔ اور اس کے اولیاء اور اس کے بڑے بڑے نظاروں سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کروں۔ پس میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے تمہاری مٹی دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بڑی عظمت کے ذریعہ تمہاری زیارت سے مجھے خوش کرے۔

اے میرے بھائیو! میں تم سے، تمہارے ملکوں سے، تمہارے رستے کی ریت سے اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے بھی محبت کرتا ہوں اور تمہیں جو کچھ اس دنیا میں ہے اس پر ترجیح دیتا ہوں۔

اے عرب کے جگرو! تمہیں اللہ نے سابقہ برکات کے علاوہ دوسری کثیر عنایات اور بڑی رحمتوں سے نوازا ہے، تمہارے پاس وہ بیت اللہ ہے جس کی وجہ سے بستیوں کی ماں (مکہ) کو برکت دی گئی ہے۔ تم میں اس مبارک نبی کریمؐ کا روضہ ہے جس نے دنیا کے تمام کناروں میں توحید کو پھیلایا اور اللہ کے جلال کو ظاہر کیا اور روشن کیا۔ تم میں وہ قوم تھی جس نےا للہ اور اس کے رسولؐ کی مدد کو پوری جان و دل، پوری روح اور پوری عقل سے انہوں نے دین اللہ اور اس کی پاک کتاب کی اشاعت کے لئے اپنے مال اور جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ صرف تم ہی ان فضائل سے مخصوص کئے گئے ہو۔ جو تمہاری عزت نہیں کرتا وہ یقیناً زیادتی اور ظلم کرتا ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام)

الاخبار نے اپنی اشاعت 5 اپریل 2007ء صفحہ 23 پر اپنے انگریزی سیکشن میں 3 تصاویر کےساتھ ہماری نویں قرآن کانفرنس کی خبر شائع کی۔ ایک تصویر سامعین کی ہے۔ ایک تصویر میں ہیڈ ٹیبل پر ارشاد ملہی صاحب، سید شمشاد احمد ناصر، منور سعید صاحب ہیں جبکہ پوڈیم سے وسیم ملک صاحب صدر جماعت خوش آمدید کر رہے ہیں۔ خبر کا متن یہ ہے:
سین ہوزے: مسجد بیت البصیر میں قریباً 200 مرد و خواتین اور بچوں نے 9 ویں سالانہ قرآن کانفرنس میں شرکت کی جو سین ہوزے کی مسجد بیت البصیر میں 15تا 18 مارچ 2007ء کو ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے چینو، لاس اینجلس، فی نکس، مرسڈ، پورٹ لینڈ، سان فرانسسکو اور دیگر شہروں (جماعتوں) سے لوگ تشریف لائے تھے۔ ظہیر الدین منصور جو واشنگٹن سے تشریف لائے تھے نے کانفرنس کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔

کانفرنس کی تفصیل سے خبر پہلے بھی گزر چکی ہے۔

ان لینڈ ڈیلی بلٹن نے (یہ یہاں کا دوسرا بڑا اخبار ہے) اپنی اشاعت 6 اپریل 2007ء صفحہ 10 پر ایک بڑی تصویر کے ساتھ (سامعین) قرآن کانفرنس کی یوں خبر دی ہے۔

Members Trek to San Jose for annual conference.

سالانہ کانفرنس کے لئے ممبرز کا سفر یہ خبر Mr Matt Wrye نے دی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ مسجد بیت الحمید کے افراد نے دور دراز سین ہوزے کا سفر اختیار کیا اور کانفرنس میں شمولیت کر کے اپنے مذہب کے بارے میں مزید علم سیکھا۔ دوسرے مذاہب کی طرح مسجد بیت الحمید بھی گزشتہ 20 سال سے یہاں پر ہفتہ وار تعلیمی کلاسز کا اہتمام کرتی ہے۔ حال ہی میں جب امام شمشاد ناصر یہاں آئے ہیں، تو انٹرفیتھ کی میٹنگز کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے اور وہ علاقہ کے دیگر مذہبی عمائدین، پاسٹرز، ربائی وغیرہ سے بھی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اس موقعہ پر ایک انٹرویو میں امام شمشاد نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے قریب ہوں تاکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے سے اس کے مذہب کے بارے میں معلومات ملیں۔ امام شمشاد نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دوسری کمیونٹیز کے ساتھ محبت اور احترام کے تعلقات قائم کئے جائیں۔ اخبار نے آخر میں لکھا کہ اگر آپ مذہبی لیڈر ہو اور امام شمشاد سے ملاقات کرنا چاہتے ہو تو اس نمبر پر فون کر لیں۔ 909-627-2252 (یہ مسجد کے دفتر کا نمبر ہے)

اردو لنک نے اپنی اشاعت 6تا12 اپریل 2007ء صفحہ 2 پر 5 تصاویر کے ساتھ ہماری قرآن کانفرنس کی خبر شائع کی ہے۔ سب تصاویر کے نیچے یہ لکھا ہے:
نویں سالانہ قرآن کانفرنس کے موقعہ پر لاس اینجلس سے مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر، واشنگٹن سے ڈاکٹر ظہیر الدین منصور اور فلاڈلفیا سے برادر منیر حامد اور دیگرموجود ہیں۔ اخبار کی شہ سرخی یہ ہے:

امریکہ کے مغربی ساحل پر قرآنی علوم کی ترویج اور تدریس کے لئے نویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد

قرآن کریم کی تعلیمات کو چھوڑ کر ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ملےگا۔ امام سید شمشاد احمد ناصر

سان ہوزے۔ نمائندہ لنک۔ گزشتہ ہفتہ امریکہ کے مغربی ساحل پر سان ہوزے کے علاقہ میں نویں سالانہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس سہ روزہ قرآن کانفرنس میں مسجد بیت الحمید کے امام سید شمشاد احمد ناصر، واشنگٹن سے ظہیر الدین منصور احمد صاحب اور فلاڈلفیا سے برادر منیر حامد صاحب اور دیگر شہروں سے آنےو الے 250 لوگوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا آغاز نماز جمعہ کے بعد مسجد بیت البصیر، سان ہوزے میں تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ بعد میں ڈاکٹر ظہیر الدین منصور نے افتتاحی تقریر میں اس کانفرنس کے انعقاد کی غرض و غایت بیان کی اور مہمانوں کی آمد پر شکریہ کہا۔ اس موقعہ پر امام شمشاد نے سورۃ فاتحہ کے معانی اور تفسیر بیان کی۔ امام شمشاد نے بتایا کہ یہ سورت بہت اہم ہے اور اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی 4 بڑی صفات کا ذکر پایا جاتا ہے۔ یعنی رب العالمین، الرحمٰن، الرحیم اور مالک یوم الدین اور ان صفات کے مظہر اتم حضرت اقدس محمد رسول اللہؐ تھے۔ امام ناصر نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں مزید بتایا کہ اس مبارک سورت میں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم اور منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے جس کا ذکر انعمت علیہم میں ہے یعنی نبی، شہید، صدیق اور صالح۔ اس طرح اس سورت میں دجال کے فتنے کی خبر اور یہود و نصاریٰ کے فتنوں کی خبر کر دی گئی۔ جس سے بچنے کے لئے اس سورت کو بار بار پڑھنے اور اس کے مطالب پر عمل کرنے کی ضرورت ہے فتنہ دجال سے بچنے کے لئے امام صاحب نے بتایا کہ احادیث میں آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی تلاوت کرنی چاہئے جس سے فتنہ دجال سے بچنے میں مدد ملے گی۔ اس وقت قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے ہی میں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی ہے اور قرآن کریم کی تعلیمات کو چھوڑ کر ہزیمت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

اخبار نے مزید لکھا کہ اس سہ روزہ کانفرنس میں دیگر مقررین میں سے ایک امام ارشاد احمد ملہی تھے جنہوں نے شرکاء کو قرآن کریم کو باترجمہ سیکھنے کی ترغیب دلائی۔ اور اس کے لئے کئی رموز سکھائے۔ ڈاکٹر خالد شیخ آف چینو نےسلائیڈز شو دکھاتے ہوئےقرآن اور سائنس کے موضوع پر نہایت ہی دلچسپ ارو موثر لیکچر دیا۔ اس کانفرنس کے دوران نوجوانوں کے ساتھ دو سوال و جواب کی نشستوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ جس میں نوجوانوں کے موجودہ معاشرہ میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا جواب دیا گیا۔ سوالات کے جواب دینے کے لئے ایک پینل بھی مقرر کیا گیا تھا۔ جس میں امام سید شمشاد ناصر، امام ارشاد ملہی، منور سعید اور امام ذکی کوثر شامل تھے۔ فلاڈلفیا سے آئے ہوئے منیر حامد صاحب اس کانفرنس کے مہمان خصوصی تھے انہوں نے اپنے خطاب میں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے شرکاء کی توجہ اس واقعہ کی طرف مبذول کرائی کہ جب اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ کی آیات نازل ہوئیں تو اس کے معانی کے ساتھ ساتھ اس میں ایک راز کی خبر بھی تھی جو اس وقت صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سمجھ آئی اور وہ خبر رسول اللہؐ کے وصال کی خبر تھی۔ انہوں نے کہا ایسے رموز کو سمجھنا صرف قرآن سے محبت کے ذریعہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم قرآن کو زندہ کتاب بنائیں گے تو یہ کتاب ہمیں بھی زندگی بخشے گی۔

پاکستان ٹائمز نے اپنی 12 اپریل 2007ء کی اشاعت میں نصف سے زائد صفحہ پر 10 تصاویر کے ساتھ ہمارے قرآن کانفرنس کی خبر دی۔ جس میں تمام مقررین لیکچر دیتے ہوئے دکھائی دے رہے اور سامعین بھی بیٹھے ہیں۔ سامعین کی قرآن کے بارے میں راہنمائی اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے جارہے ہیں۔ خبر کی تفصیل قریباً وہی ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔

وکٹر ول ڈیلی پریس نے اپنی 14 اپریل 2007ء کی اشاعت میں

Ask the Clergy by Imam Shamshad A. Nasir

خاکسار نے اس اخبار کا تعارف پہلے کروا دیا ہوا ہے۔ اس اخبار نے عوام کے سوالات کے جوابات دینے کے لئے ایک فورم بنایا ہے۔ جس میں زیادہ تر خاکسار ہی سوالوں کے جواب دیتا رہا ہے۔ اس اشاعت میں ایک سوال یہ آیا تھا۔ کیا اس وقت کوئی نبی زندہ (جسمانی طور پر) ہے؟

اس کا جواب خاکسار نے یہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نبیوں کو دو وجوہات کی بناء پر مبعوث کرتا ہے۔ ایک یہ کہ جب خدا کسی نبی کو شریعت دے کر بھیجے جیسا کہ حضرت موسیٰؑ تشریف لائے یا پھر محمدؐ نئی شریعت کے ساتھ تشریف لائے۔ اور پھر انہی شریعتوں کے تابع نبی آئے جیسے حضرت عیسیٰؑ، حضرت موسیٰؑ کی شریعت کے تابع تھے۔ جیسا کہ آپ نےا یک جگہ فرمایا ہے کہ میں حضرت موسیٰ ؑکی شریعت کے تحت ہوں۔ موسیٰؑ کی شریعت اور قانون کو برباد کرنے نہیں آیا۔

جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ محمدؐ سب نبیوں کے بڑے اور افضل نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے۔ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو شریعت لے کر آئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آپ کی امت سے آپؐ کا پیروکار آپؐ کا تابع جس کو امام مہدی کا درجہ دیا جائے گا اور مسیح موعودؑ کا لقب ملے گا۔ آخری زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے آئے گا اور آپؐ کے تابع ہو گا۔

جیسا کہ جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے اس کے مطابق مرزا غلام احمد قادیانی وہی مسیح موعود اور امام مہدی ہیں۔ آپ 1835ء میں پیدا ہوئے اور 1908ء میں آپؑ کی وفات ہوئی۔ آپ قادیان انڈیا میں مبعوث ہوئے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی خلافت آج تک جاری ہے۔ اس وجہ سے اس وقت جسمانی طور پر کوئی نبی زندہ نہیں ہے۔

اسی طرح اس میں ہی ایک اور سوال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ اسلام کا ایسے لوگوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے جو قدرتی آفات کا شکار ہوتے ہیں۔ حضور خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب سے اس کا جواب لکھا گیا۔

انڈیا ویسٹ نے اپنی اشاعت 20 اپریل 2007ء صفحہ B-4 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔

Muslims and Christians Hold Open Dialogue.

مسلمان اور عیسائی آپس میں
فراخدلانہ گفتگو کر رہے ہیں

سٹاف رپورٹر کے ذریعہ انہوں نے خبر میں لکھا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ اور عیسائیوں کے ایک گروپ نے آپس میں 24 مارچ کو ایک کھلے عام گفتگو کا اہتمام کیا جو کہ لاس اینجلس ویسٹ کے علاقہ میں ہوا۔ اس گفتگو کا مقصد آپس میں تعلقات میں مضبوطی ایک دوسرے کو سمجھنا اور احترام پیدا کرنا تھا۔ 50 سے زائد افراد نے اس میں شرکت کی۔ ابراہیم نعیم نے۔ حاضرین کو خوش آمدید کہا اور سپیکرز کا تعارف کرایا۔

اس موقعہ پر پہلے سپیکر علاقہ کے چیف آف پولیس Mr John Neu تھے۔ انہوں نے پولیس کے ذرائع کے مطابق بتایا کہ پولیس کس طرح علاقے میں جرائم کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی طرح بتایا کہ پولیس کا محکمہ کس طرح لوگوں کو بہترین واقفیت اور معلومات عامہ دینے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ اس کے بعد پاسٹر ایوان جو کہ سالویشن آرمی کے تھے نے خطاب کیا۔ انہوں نے عیسائی عقیدے کے مطابق کفارہ اور نجات کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا۔

امام شمشاد آف احمدیہ مسلم جماعت نے 5 ارکان اسلام اور 6 بنائے اسلام کے بارے میں مختصراً تعارف کرایا۔ اس کے بعد دلچسپ سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ سوالوں میں مختلف قسم کے سوالات تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کاتصور مرنے کے بعد کیا ہو گا۔ اور نجات کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ اس خبر کےساتھ ایک تصویر بھی دی گئی ہے جو کہ خاکسار کی تقریر کرتے ہوئے ہے۔ خاکسار نے ہاتھ میں ایک میگزین بھی اٹھایا ہوا ہے جس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آرہی ہے۔

الاخبار نے اپنے انگریزی سیکشن میں 2 مئی 2007ء صفحہ29 پر ہماری مذکورہ بالا خبر مسلمانوں اور عیسائیوں کا کھلا تبادلہ خیالات 4 تصاویر کے ساتھ نصف سے زائد صفحہ پر دی ہے۔ ایک تصویر میں خاکسا رنے ہاتھ میں میگزین اٹھایا ہوا ہے اور پوڈیم سے تقریر کر رہا ہے۔ اس میگزین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نمایاں ہے جسے دکھایا جارہا ہے۔ دوسری تصویر میں پاسٹر ایوان پوڈیم پر تقریر کر رہے ہیں۔ تیسری تصویر ایک گروپ فوٹو ہے جس میں عیسائی حضرات اور خاکسار اور برادر علیم ہیں۔ چوتھی تصویر میں خاکسار چیف پولیس، اسسٹنٹ چیف پولیس اور پولیس کے دیگر ممبران سے گفتگو کر رہا ہے۔

اس خبر میں جو زائد بات لکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ امام شمشاد نے 5 ارکان اسلام بیان کرنے کے بعد حاضرین کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کے بانی نے امن کو قائم کرنے کی سیدھی راہ بھی بتائی ہے اور حضرت عیسیٰ اور عیسائیت کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو بھی پیش کیا کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، ہر شخص کو اپنی صلیب خود اٹھانا ہو گی۔

امام نے کہا کہ قرآن کریم اور بائبل کے بیان کے مطابق حضرت عیسیٰ صلیب پر فوت نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ اس جسم کےساتھ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں۔ امام شمشاد نے بائبل سے حوالےبھی پیش کئے۔

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

بہتان طرازی اور الزام تراشی کی شناخت اور اس کی اشاعت سے اجتناب کا حکم

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ