• 1 مئی, 2024

گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرتؐ کے مقام کو پہچانا ہے، کوئی بھی نہیں پہچان سکتا۔ اور آپ ہی وہ مردِ مجاہد تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کی صورت میں سب سے پہلے مؤثر آواز بلند کی۔

1897ء میں جب پادریوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے ردّ میں ایک کتاب شائع ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کی ذات کے بارہ میں انتہائی دریدہ دہنی کی گئی اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی اور پھر مسلمانوں کا دل دکھانے کے لئے ایک ہزار کاپی اس کتاب کی علماء اور مسلمان لیڈروں کو مفت تقسیم کی گئی اور ایک کاپی اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بھیجی گئی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار دیا اور حکومت کو توجہ دلائی کہ گو قانون بے شک یہ کہہ دے کہ تمہیں بھی اجازت ہے اور یہ کتاب لکھناتوہین اور ہتک کے زمرہ میں نہیں آتا، تم لوگ بھی لکھ سکتے ہو۔ لیکن فرمایا کہ مسلمان تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور نبی کے بارے میں اس طرح کی لغویات نہیں لکھ سکتے، بیہودہ گوئی نہیں کر سکتے۔ آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔ اور یہی طریقِ کار ہے جس سے امن امان اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بہترین طریق نہیں ہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی حفاظت اور مخالفین کے آپؐ کی ذات پر اور اسلام پر حملے کے خلاف ایک جوش تھا، اور ہر موقع پر آپ اس کے دفاع کے لئے کھڑے ہوتے تھے۔ درد سے مسلمانوں کو بھی سمجھایا کہ کس طرح ہم دشمنوں کے حملے کو پسپا کر سکتے ہیں؟ کیا طریقِ کار تم مسلمانوں کو بھی اختیار کرنا چاہئے۔ قطع نظر اس کے کہ تم کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی حفاظت ایک ایسا اہم کام ہے جس کے لئے تمام مسلمانوں کو اکٹھے ہو جانا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے مخالفوں نے‘‘ (یعنی اسلام کے مخالفوں نے) ’’ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بدشکل اور مکروہ ظاہر کریں۔ ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایۂ ثبوت پہنچادیں۔ یقینا سمجھو کہ گمراہوں کی حقیقی اور واقعی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ہم جھوٹے اور ذلیل اعتراضات کی غلطیوں پر ان کومطلع کریں اور اُن کو دکھلادیں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی، کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے؟ ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چاہئے، وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بد ظن کیا گیا ہے، اُس کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے۔ جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گنہگار ہوں گے۔ سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سیّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں۔ اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقع وسوسہ کا نہ دیں کہ گویا ہم تحکّم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں۔ ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانے میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اس تخمِ بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں۔ جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلاویں کہ اُن کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ اور اُن کے دل ان مفتریوں سے بیزار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مُزخرفات شائع کئے ہیں (یعنی جھوٹی باتیں شائع کی ہیں)۔ اور ہمیں اُن لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہریلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے، پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے رد ّکرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں، صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے‘‘۔

(البلاغ، فریادِ درد۔ روحانی خزائن۔ جلد 13۔ صفحہ 382-383)

صرف اتنی سی بات کافی نہیں کہ کسی کو پکڑ لیا یا مقدمہ بنا دیا یا میموریل بھیج دیابلکہ ایک عملی کوشش اور مسلسل کوشش اور مستقل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پس یہ ہے اصل درد کہ اٹھو اور الزامات کو ردّ کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے چلے جاؤ اور اپنے عملوں کو حقیقی مسلمان کا عمل بناؤ نہ کہ صرف میموریل بھیج کر یا جلوس نکال کر یا چند دن شور مچا کر پھر بیٹھ جاؤ۔

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء بحوالہ الاسلام)

پچھلا پڑھیں

دبستانِ حیات (قسط پنجم)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2021