• 29 اپریل, 2024

زبان کی حفاظت

ہمارے دین میں جہاں باہم محبت، اخوت اور احترام کے جذبات رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی تعلیم دی گئی ہے وہیں ایسی باتوں سے رکنے اور ان سے پرہیز کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جن کا معاشرے کے امن و سکون اور باہمی رواداری اور محبت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے یا پڑتا ہے۔

خدا اور اس کے رسول نے اعضائے انسانی کے ذریعہ جنم لینے والے گناہوں سے خبردار بھی کای ہے اور ان سے بچنے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ وہ راہیں بھی بتائی ہیں جن پر چل کر ان گناہوں سے بچا جا سکتا ہے۔ زبان بھی ایک ایسا اہم عضو ہے جس کے ذریعہ انسانی معاشرے میں عدم محبت، بے چینی اور بے سکونی کی فضا پیدا ہو کر باہم تکدر کی فضا بنتی ہے۔ یہ اس کے غلط استعمال سے نحوست کے سانپ پیدا ہوتے، پنپتے اور پھر ڈستے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور ارشادات امام الزمان میں زبان کی حفاظت کی بہت تاکید آئی ہے۔

زبان اللہ تعالیٰ کی انسان کو عطا کردہ عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے، اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر گفتگو کی صلاحیت پیدا کی، وہا پنے دل کا مدعا زبان کے ذریعہ بیان کرتا ہے، معاملات سر انجام دیتا ہے، کھانے کے ذاتقوں کو معلوم کرتا ہے۔ ذرا غور کیا جائے اور ان لوگوں کی طرف نظر کی جائے جو قوت گویائی سے محروم ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زبان کے بغیر اپنا مدعا بیان کرنا کس قدر مشکل امر ہے۔

فرمانِ الٰہی

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں زبان اور اس جیسی عظیم الشان نعماء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔

اَلَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ عَیۡنَیۡنِ .وَ لِسَانًا وَّ شَفَتَیۡنِ. وَ ہَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ۔

(البلد: 9 تا 11)

کیا ہم نے اُس کی دو آنکھیں نہ بنائیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ (عطا کئے) اور ہم نے اسے دو راستے دکھائے۔

دو راستوں سے مراد اچھائی اور برائی کا راستہ ہے۔

علماء نے لکھا ہے کہ ان آیات میں یہ تنبیہہ بھی ہے کہ انسان اپنی زبان کا استعمال منفی باتوں کے لئے نہ کرے اور فضول و بے فائدہ باتوں سے باز رہے۔ دو ہونٹ اس لئے بھی عطا کئے ہیں کہ اگر زبان غلط طرف جانے لگے تو ان ہونٹوں کو بند کر کے اسے روک دیا جائے۔

آنحضرتﷺ نے متعدد مواقع پر زبان کی حفاظت کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

نجات کا ذریعہ

حضرت عقبہ بن عامرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہؐ! نجات کیا ہے؟ فرمایا

اَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَ الیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلیٰ خَطِیْئَتِکَ۔

(ترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی حفظ اللسان)

یعنی اپنی زبان کو روک لو (زبان کی حفاظت کرو) اور تمہارا گھر تمہارے لئے کافی ہو اور اپنے گناہوں پر روتے رہو۔

تمام اعضاء زبان کے تابع

حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا

إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ: اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا

(ترمذی کتاب الزھد باب ما جاء فی حفظ اللسان)

یعنی ہر صبح تمام اعضاء انسانی عاجزی کرتے ہوئے زبان سے کہتے ہیں کہ تو خدا سے ڈرتی رہ۔ ہم سب تیرے تابع ہیں۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب ٹیڑے ہو جائیں گے۔

نیکیوں کی جڑ

حضرت معاذؓ سے ایک دن آنحضرتﷺ نے پوچھا کیا میں تمہیں تمام نیکیوں کی جڑ نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کی جی یا رسول اللہ! ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا

كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا وَ اَشَارَ اِلیٰ لِسَانِہِ قُلتُ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهٖ قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَوْ قَالَ: عَلَى مَنَاخِرِهِمْ، إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ۔

(ترمذی 358/3 و مسند احمد بن حنبل 231/5)

فرمایا تم اسے روکے رکھو اور آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا (یعنی اس زبان کی حفاظت کرو) میں نے عرض کی یا نبی اللہ! کیا ہم اپنی باتوں کی وجہ سے پکڑے جائیں گے۔ آپؐ نے (اپنی بات پر زور دیتے ہوئے فرمایا) زیادہ تر لوگ اپنی باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں ڈالے جائیں گے۔

ایک موقع پر فرمایا

مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الجَنَّةَ۔

(بخاری کتاب الرقاق باب حفظ اللّسان)

یعنی جو شخص اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔

سب سے خطرناک چیز

حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول اللہ! جن چیزوں کا آپؐ مجھے خوف دلاتے ہیں ان میں سب سے زیادہ خطرناک کیا چیز ہے؟ آنحضورﷺ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا یہ چیز۔ (یعنی انسان کی زبان سب سے زیادہ خطرناک چیزہے)

(ترمذی کتاب الزھد باب ماجاء فی حفظ اللسان)

حضرت ابو بکرؓ کا ایک واقعہ

حضرت عمرؓ ایک دن حضرت ابو بکرؓ کے پاس گئے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا اللہ آپ کو معاف کرے، آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمانے لگے۔

إِنَّ هَذَا أَوْرَدَنِي شَرَّ الْمَوَارِدِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْجَسَدِ إِلَّا وَهُوَ يَشْكُوا ذَرَبَ اللِّسَانِ عَلیٰ حِدَّتِہٖ۔

(مسند ابو یعلیٰ 36/1)

یعنی یہی زبان مجھے بد ترین گھاٹے پر لے جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جسم کا ہر حصہ زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔ اس لئے میں زبان کو کھینچ رہا ہوں تا کہ اس کی تیزی باقی نہ رہے اور میرے قابو میں رہے۔

حقیقی مومن کی پہچان:۔

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ)

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں۔ اور مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔

اسے سے ملتی جلتی ایک اور روایت ہے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ۔

(سنن نسائی کتاب الایمان و شرائہ باب صفۃ المومن حدیث نمبر 4995)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں اور حقیقی مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان و مال کے بارہ میں کوئی خطرہ نہ ہو۔

یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ارکان ایمان اور ارکان اسلام کا واضح حکم موجود ہے جو ایمان و اسلام کی لازمی شرط ہیں لیکن آنحضرتﷺ اپنی امت میں ایسے پاک اور نیک خصائل پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو اختیار کرنےسے وہ حقیقی عبد مسلم اور عبد مومن کہلانے کے مستحق ٹھہریں۔ مندرجہ بالا روایت میں زبان کو ہاتھ پر فوقیت دی گئی ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ ہاتھ سے زیادتی کا مقام زبان سے زیادتی کے بعد یا اسی کے نتیجہ میں آتا ہے۔

کسی شاعر نے کہا ہے

جَرَاحَات السّنَانِ لَھَا التِیَامُ
وَ لَا یَلْتَامُ مَا جَرَحَ اللّسان

یعنی نیزوں کے زخم تو بھر جاتے ہیں مگر زبانوں سے لگے زخم ایک عرصہ تک نہیں بھرتے۔

حفاظتِ زبان

1۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کا بے ہودہ باتیں سننے پر ایک مخصوص طرز عمل بیان فرمایا ہے اور یہ تمام اہل ایمان کے لئے زبردست نمونہ ہے جسے اختیار کر کے اپنی زبان کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ فرمایا

وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ۔

(القصص: 56)

اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں۔ بس تمہیں سلام ، ہم جاہلوں کا ساتھ نہیں چاہتے۔

گویا جب بے ہودہ گوئی کے جواب میں سخت کلامی کرنے کی بجائے سلام کہتے ہوئے مجلس سے کوئی اٹھ جائے تو اسے ضرورت ہی نہیں رہتی اپنی زبان کو آلودہ کرنے کی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس حوالے سے تاکیدی حکم بھی دیتا ہے فرمایا

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

(الانعام: 69)

اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ہو جا یہاں تک کہ وہ کوئی بات کرنے لگیں۔ اور اگر تجھے شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم کے ساتھ مت بیٹھ۔

2۔ قیامت کے دن اعضاء انسان کے خلاف گواہی دیں گے یہ مقام خوف ہے فرمایا

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

(النور: 25)

جس دن (قیامت کے روز) ان کی اپنی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے کاموں کے متعلق ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ یعنی اعضاء گواہی دیں گے کہ اس شخص کو یہ اعضاء بطور نعمت ملے تھے مگر اس نے ان سے کیا کیا غلط کام لئے خود وہ اعضاء اس بارے میں گواہی دیں گے۔ ان اعضاء میں سے ایک زبان بھی ہے۔ اگر انسان اس دن کا یہ نتیجہ سامنے رکھتے ہوئے زبان کا استعمال کرے گا تو یقینی طور پر محتاط ہوگا۔

3۔ اللہ تعالیٰ کے دو فرشتے ہر وقت انسان کے دائیں بائیں موجود رہتے ہیں۔ اگر انسان کو یہ خوف ہر وقت دامنگیر رہے کہ میں نے زبان سے جو بات بھی نکالی وہ لکھی جائے گی تو وہ ضرور احتیاط کرے گا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ۔

(سورۃ قٓ: 18-19)

یعنی جب دو (فرشتے) لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب ریکارڈ کرتے ہیں اور جب بھی وہ کوئی بات منہ سے نکالتا ہے تو اس کے پاس ایک تیار نگران موجود ہوتا ہے۔

ایک اور جگہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے

وَاِنَّ عَلَیۡکُمۡ لَحٰفِظِیۡنََ۔ کِرَامًا کَاتِبِیۡنَ ۔ یَعۡلَمُوۡنَ مَا تَفۡعَلُوۡنَ

(الْاِنْفِطَارِ: 11-13)

اور تم پر نگران مقرر ہیں جو معزز لکھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں اسے جو تم کرتے ہو۔

4۔ یہ حدیث بھی ہر وقت زیر غور رہنی چاہیئے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ زیادہ لوگ کس عمل کی وجہ سے جنت میں جائیں گے، آپؐ نے فرمایا اللہ کے تقویٰ اور حُسنِ خُلق کی وجہ سے۔ پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے زیادہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ آپؐ نے فرمایا مُنہ اور شرمگاہ کی وجہ سے۔

(سنن الترمذی کتاب البر و الصلہ حدیث نمبر 2004)

آنحضرت ﷺ کی تاکید

آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے لوگوں کو تاکیدی ہدایت فرمائی ہے کہ جس کا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان ہے اسے چاہیئے کہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔

(صحیح بخاری کتاب الادب حدیث 6018)

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان اسلامی اخلاق کو از سرِ نو زندہ کیا جو قریباً معدوم ہو چکے تھے آپ نے رفق، رحمت، رأفت اور عفو کے رنگ اختیار کرنے کا نہ صرف درس دیا بلکہ اس پر خود عمل کر کے اپنے نمونہ کے ذریعہ اپنی جماعت کی تربیت کی اور نہ صرف یہ کہ ان اخلاق کو اختیار کرنے کا درس دیا بلکہ بڑی شدّت سے ان پر زور بھی دیا۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:۔
’’جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیزگاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جُدا ہو جائے۔ کیونکہ ہمارا خدا نہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے اور یقیناً وہ بد بختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ 44)

چوتھی شرط بیعت

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے جو داس شرائط بیعت رکھیں ان میں سے چوتھی شرط بیعت یہ تھی کہ:۔
چہارم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دےگا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔

ترکِ شر کی ایک قسم

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔
’’چوتھی قسم ترکِ شر کی اخلاق میں سے رفق اور قول حسن ہے اور یہ خُلق جس حالتِ طبعی سے پیدا ہوتا ہے ا س کا نام طلاقت یعنی کشادہ رُوئی ہے۔ بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا، بجائے رفق اور قولِ حسن کے طلاقت دکھلاتا ہے۔ یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے۔ طلاقت ہے۔ طلاقت ایک قوت ہے اور رِفق ایک خُلق ہے جو اس خُلق کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہوتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کی تعلیم یہ ہے وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔ (البقرہ: 84) … یعنی لوگوں کو وہ باتیں کہو جو واقعی طور پر نیک ہوں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔صفحہ57-58)

(محمد لقمان)

پچھلا پڑھیں

پریس ریلیز

اگلا پڑھیں

میرا انکار خدا تعالیٰ کا انکار ہے