• 2 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری مکرم عابد خان سے کچھ حصے
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ایئرپورٹ کےٹرمینل پر یادگار لمحات

پھر ہم سیکیورٹی ایریا میں پہنچے تو ہم نے حضور انور کو دوبارہ اس وقت دیکھا جب ہم جہاز میں بیٹھنے کے لیے تیار تھے۔ بعد ازاں احمد بھائی نے مجھے بتایا کہ جب حضور انور اور محترمہ خالہ سبوحی صاحبہ لاؤنج میں تشریف لائے تو ان دونوں نے ایک بگی کے ذریعے یہ راستہ طے کیا۔ تو ایسا ہوا کہ درجنوں احمدی جو ملائیشیا اور انڈونیشیا واپس جانے کے لیے اسی وقت اپنی flights کے انتظار میں تھے، اپنے مجوزہ gates پر کھڑے تھے۔ حامد بھائی نے بتایا کہ جب ان احمدیوں نے اچانک حضور انور کو دیکھا کہ آپ کو بگھی کے ذریعے سے لایا جا رہا ہے تو وہ اس کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگے اور اپنے ہاتھ آگے بڑھانے لگے تاکہ حضور انور کے دست مبارک کو چھو سکیں۔ اس کے جواب میں حضور انور مسکرائے اور احمدیوں کی سمت میں ہاتھ ہلایا۔ جبکہ مجھے یقین ہے کہ ایئرپورٹ پر موجود دیگر غیر احمدی احباب ضرور ان لمحات کو دیکھ کر پریشان اور حیرت زدہ رہ گئے ہوں گے۔ اس واقعہ کے بارے میں ہمیں بعد میں پتہ چلا تو مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ مجھے یہ سوچ کر کس قدر تکلیف ہوئی کہ ہمیں کیونکر جلدی جانا تھا اور ایسے یادگار لمحات سے مستفید نہ ہو سکے۔

خلیفہ وقت اور لوکل احمدیوں کی محبت کے اس نظارے کے ساتھ حضور انور برٹش ایئر ویز کی فلائٹ کے ذریعے اپنے باقی دورہ کی تکمیل کی طرف آگے بڑھتے ہوئے سڈنی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ سنگاپور کا سفر ابتداء سے اختتام تک خدا کے فضلوں کے نظارے لیے ہوا تھا اور مجھے یقین تھا کہ دورے کا باقی حصہ بھی ضرور ایسا ہی ہوگا۔

احمدیوں کے جذبات

آپ میں ایک خاص قوت قدسیہ ہے اور اس نے مجھ پر ایسا اثر کیا جو ناقابل بیان ہے

دن کی مصروفیات کے بعد مجھے سنگاپور کے چند احمدیوں سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ کے حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا اور چند ایسے احباب بھی تھے جو ہمسایہ ممالک سے سفر کر کے پہنچے تھے۔ ایسے ہی ایک خادم مکرم خالد احمد صاحب جن کی عمر بائیس سال ہے جو ملائیشیا سے تعلق رکھتے ہیں نے بتایا کہ ’’میں حضور انور سے مل کر بہت خوش ہوں کیونکہ میں نے آپ کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھا تھا۔ اب میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ سے حقیقی زندگی میں ملاقات کی ہے۔ آپ میں ایک خاص قوت قدسیہ ہے اور اس نے مجھ پر ایسا اثر کیا جو ناقابل بیان ہے۔ میری شدید خواہش ہے کہ آپ انڈونیشیا تشریف لائیں اور میں سخت افسردہ ہوں کہ حضور انور کل واپس جا رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ حضور انور کے دورے کے بعد میں پہلے سے بہتر انسان بن چکا ہوں۔ اب میں خود کو اللہ تعالی کے زیادہ قریب محسوس کرتا ہوں اور یہ سب محض حضور انور کے دیدار سے ممکن ہوا ہے۔‘‘

ہے تو خلیفہ وقت کی

مجھے مکرم شفیق احمد صاحب جو ایک معمر بزرگ ہیں اور سری لنکا سے تعلق رکھتے ہیں، سے بھی ملنے کا موقع ملا۔ جب میں ان کے پاس بیٹھا تو وہ رونے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچا تھاکہ وہ حضور انور کی قربت میں وقت گزارنے کی سعادت پا سکیں گے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سری لنکا میں رہنے والے بہت سے احمدیوں کو ذاتی اور مالی مشکلات کا سامنا ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی اپنے ذاتی مسائل کی کوئی فکر نہیں۔ اگر فکر ہے تو خلیفہ وقت کی۔

آپ (حضور انور) نے سب احمدیوں کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول رکھے ہیں

میری ملاقات احمد ہدایت اللہ صاحب سے بھی ہوئی جو ایک معمر انڈونیشین احمدی ہیں۔ جنہوں نے 1972 میں بیعت کی تھی۔ انہوں نے بھی حضور انور کے دورہ کے متعلق اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ ’ہمارے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہم حضور انور کی زیارت سے مشرف ہو رہے ہیں۔ تبلیغ کی شاہرائیں گزشتہ سات دنوں میں خوب عیاں ہوئی ہیں۔ یہ دورہ محض احمدیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ سنگاپور کے لیے بطور ملک بھی بہت فضلوں کا متحمل ہو گا۔ میں اُمید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ انڈونیشیا میں اگلے دو سے تین سالوں میں حالات بہتر ہوں گے اور حضور ہمارے ملک کا دورہ فرما سکیں گے۔ ہم بہت بے تابی سے آپ کے منتظر ہیں۔حضور انور کی قیادت ایک عظیم قیادت ہے۔آپ کی قیادت کا محرک دل کی نیکی ہے۔ کیونکہ آپ نے سب احمدیوں کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ اسی لیے ہم سب آپ کی طرف لپکتے ہیں۔ ہم آپ کی محبت کے باعث کھچے چلے آتے ہیں۔ آپ کے جانے سے ہم سخت افسردہ ہو جائیں گے۔میں نہیں جانتا کہ پیارے حضور سے دوبارہ ملنے کا موقع کب ملے گا۔

ایک نہایت جذباتی گفتگو

میری رائے میں اس دورہ کے دوران میری نہایت جذباتی گفتگو مکرم عارف رحمان حاکم صاحب جن کی عمر بتیس سال ہے سے ہوئی جو انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ اسی جگہ کے قائد علاقہ ہیں جہاں ہمارے تین احمدی بھائیوں کو نہایت سفاکانہ طور پر 2011 میں شہید کر دیا گیا تھا۔ وہ خود بھی اس حملے کے دوران زخمی ہوئے تھے۔ جب میں ان کے ساتھ بات کرنے کے لیے بیٹھاتو میں ان کو نہیں جانتا تھا۔ اور اسی لیے میں شدید سکتہ میں تھاجب میں نے ان پر گزرے حالات سنے اور ان کا علم ہوا۔ جب انہوں نے اس واقعہ کا ذکر شروع کیا تو مجھے ایسا لگا کہ میں Cikeusik گاؤں میں اس افسردگی بھرے دن میں پہنچ گیا ہوں، جو فروری 2011 کو رونما ہوا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اس دن کے بارے میں غصے، خوف یا دہشت میں نہیں تھے بلکہ وہ اس دن کا ذکر نہایت فخر اور اکرام سے کر رہے تھے۔

مکرم عارف صاحب نے مزید بتایا کہ، میں Cikeusik کے غازیوں میں سے ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس واقعہ کا مشاہدہ کیا ہےاور میں خود بھی زخمی ہوا تھا۔ بہرحال یہ ایک غم زدہ اور افسردہ کر دینے والا واقعہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ میری زندگی کا ایک خوبصورت واقعہ ہے جو میری زندگی میں پیش آیا۔ میری زندگی میں اس سے بہتر واقعہ کوئی نہیں ہے جو میں نے اس دن مشاہدہ کیا۔ کیونکہ اپنے دین اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے زخمی ہونا اور حملہ کیا جانا، اللہ تعالی کے غیر معمولی فضلوں میں سے ہے۔

میں اس دن کے متعلق حضور انور تک اپنے جذبات پہنچانا چاہتا ہوں۔ چند روز قبل میری حضور انور کے ساتھ ملاقات تھی اور میں اس نیت سے گیا تھا کہ اس دن کے بارے میں حضور انور کو کچھ بتاؤں گا مگر میں کچھ بھی بیان نہ کر سکا اور رونے لگا۔ (فرط جذبات میں) میرا دل کانپ رہا تھا۔ میں حضور کو بتانا چاہتا تھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں بھی وہاں موجود تھا اور میں حضور کو بتانا چاہتا تھا کہ میں ان تین شہداء کا قائد تھا اور یہ ہے کہ وہ میرے دوست اور بھائی تھے۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میں انہیں بچانہ سکا۔ لیکن میں انہیں کبھی نہیں بھولوں گا۔

مکرم عارف صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ ان شہداء کے خاندانوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان سے باقاعدگی سے ملتے ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ دنیا بھر میں بسنے والے احمدیوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔

(مترجم : ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

پریس ریلیز

اگلا پڑھیں

میرا انکار خدا تعالیٰ کا انکار ہے