• 7 مئی, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک 25؍فروری 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک

امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 25؍فروری 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

حضرت ابوبکرؓ نے  بر وفاتِ رسول اللهؐ فرمایا! دیکھو جو محمدؐ کو پوجتا تھا سُن لے کہ محمدؐ تو یقینًا فوت ہو گئے ہیں اور جو الله کو پوجتا تھا اُسے یاد رہے کہ الله زندہ ہے، کبھی نہیں مَرے گا۔

حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا اِس اُمّت پر کتنا بڑا اِحسان ہے کہ اُس کا شُکر نہیں ہو سکتا، اگر وہ تمام صحابہ رضی الله عنہم کو مسجدِ نبویؐ  میں اکٹھا کر کے یہ آیت نہ سُناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ اُمّت ہلاک ہو جاتی۔

اِن دنوں میں خاص طور پر اَحمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہیئے۔ الله تعالیٰ جنگ کے جو  حالات ہیں خوفناک حالات اور تباہ کاریاں جو ہیں اُن کا تصوّر بھی انسان نہیں کر سکتا، ایسی تباہ کاریاں ہو سکتی ہیں۔ الله تعالیٰ اُن سے انسانیت کو بچا کر رکھے۔

حضورِ انور ایّدہ الله نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدّیقؓ کے ذکر کے تسلسل میں ارشاد فرمایا! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے لیئے دسّ ہجری جمعرات کے دن جبکہ ذوالقعدہ کے چھ دن باقی تھے روانہ ہوئے، ایک قول کے مطابق آپؐ ہفتہ کو روانہ ہوئے۔

اِس مُحرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے

حضرت اسماء ؓ بنتِ ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ جب آنحضور ؐ نے حجتہ الوداع کا ارادہ فرمایا تو حضرت ابوبکر صدّیقؓ نے عرض کی ، یا رسول اللهؐ! میرے پاس ایک اونٹ ہے، ہم اِس پر اپنا زادِ راہ لاد لیتے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا! ایسا ہی کر لو۔ آپؐ نے کچھ آٹے اور کچھ ستّو کا زادِ راہ بنوایا اور حضرت ابوبکرؓ کے اونٹ پر رکھ دیا، آپؓ نے اُسے اپنے غلام کے سپرد کر دیا۔ عرج مقام پر غلام کی جانب سے گزشتہ رات اِس اونٹ کی گمشدگی کا معلوم ہونے پرآپؓ نے کہا! ایک ہی اونٹ تھا وہ بھی تم نے گُم کر دیا تو آپؓ اُسے مارنے کے لیئے اُٹھے اور رسول اللهؐ تبسم فرما رہے تھے اور فرمانے لگے اِس مُحرم کو دیکھو یہ کیا کر رہا ہے۔

لو یہ ایک پاکیزہ غذا آگئی ہمارے لیئے جو الله تعالیٰ نے بھیجی ہے

بہرحال جب بعض صحابہؓ کو معلوم ہؤا کہ آنحضرتؐ کا زادِ راہ گُم ہو گیا ہے تو وہ حِیس(ایک عمدہ حلوہ، جو کھجور، آٹے اور مکھن سے تیار کیا جاتا ہے) لے کر آئے اور آپؐ کے سامنے رکھ دیا۔حضرت ابوبکرؓ جو اپنے غلام پر غصّہ کر رہے تھے اُن سے آپؐ نے فرمایا! اَے ابوبکر، نرمی اختیار کرو۔ یہ معاملہ نہ تمہارے اختیار میں ہے اور نہ ہمارے۔ اِس غلام کی کوشش تو یقینًا یہ ہی رہی ہو گی کہ اونٹ گُم نہ ہو۔ آپؐ نے فرمایا! لو یہ ایک پاکیزہ غذا آگئی ہے ہمارے لیئے جو الله تعالیٰ نے بھیجی ہے اور اِس غلام کے ساتھ جو ہمارا کھانا تھا یہ اُس کا بدل ہے۔جب بشمول آنحضورؐ، حضرت ابوبکرؓ ودِیگرسب لوگوں نے اِسے سیر ہو کر کھا لیا تو حضرت صَفَوان ؓ بن مُعَطَّلْ پہنچے اُن کی ذمّہ داری قافلہ کے پیچھے چلنے کی تھی، اُن کے سپرد یہی کام تھا جیسا کہ اِفک کے واقعۂ میں بھی بیان ہو چکا ہے کہ پیچھے سے دیکھتے کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی۔ آپؓ آئے تو اونٹ آپؓ کے ساتھ تھا اور اُس پر زادِ راہ بھی موجود تھا۔

ذوالحلیفہ کے مقام پر محمد بن ابوبکرؓ کی پیدائش

حضرت ابوبکر صدّیق ؓ سے مروی ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر آپؓ رسول اللهؐ کے ساتھ حج کے لیئے نکلے اور آپؓ کے ساتھ آپؓ کی اہلیہ حضرت اسماءؓ بنتِ عُمیس بھی تھیں۔ جب وہ لوگ ذو الحلیفہ میں پہنچے تو وہاں اسماءؓ کے ہاں محمد بن ابوبکرؓ کی پیدائش ہوئی۔

اَے ابوبکر، یہ کون سی وادی ہے؟

رسول اللهؐ جب وادیٔ عُسفان سے گزرے تو آپؐ نے استفسار فرمایا! اَے ابوبکر، یہ کون سی وادی ہے؟ آپؓ نے جواب دیا! یہ وادیٔ عُسفان ہے۔ آپؐ نے فرمایا! یہاں سے حضرت ہودؑ اور حضرت صالحؑ دو سرخ اونٹوں پر سوار ،جن کی مہار کھجور کی چھال کی تھی، چوغہ پہنے ہوئے اور اوپر سفید اور کالی نقشدار چادر اوڑھے ہوئے تلبیہ کہتے ہوئے بیتِ عتیق کے حج کے لیئے گزرے تھے۔

مَیں نے الله تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی جس نے سُہیلؓ کو اسلام کی طرف ہدایت دی

حجتہ الواداع کے سفر میں جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے اُن میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ بھی شامل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حجتہ الوداع میں دیکھا کہ سُہیلؓ بن عَمرو ذِبح کرنے کی جگہ پر کھڑے ہیں اور آپؐ کے قربانی کے جانور کو رسول اللهؐ کے قریب کر رہے ہیں۔ رسول اللهؐ نے اپنے ہاتھ سے اِس کو ذبح کیا پھر سر مُنڈوانے والے کو بُلوایا اور اپنے بال مُنڈوائے، کہتے ہیں کہ مَیں نے سُہیلؓ کو دیکھا کہ آنحضرتؐ کے بال ِ مبارک اپنی آنکھوں سے لگا رہا تھا۔ کہتے ہیں اُس وقت مجھے یاد آ گیا کہ یہی سُہیل صلحٔ حُدیبیہ کے وقت آپؐ کو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ؛ لکھنے سے روک رہا تھا، کہتے ہیں کہ مَیں نے الله تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی جس نے سُہیلؓ کو اسلام کی طرف ہدایت دی۔ اور پھر جب ہدایت دی تو اخلاص و وَفا میں بے انتہاء بڑھے۔

نبیٔ کریمؐ کی آخری بیماری کے دوران حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا نمازیں پڑھانا

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللهؐ نے اپنی بیماری میں فرمایا! ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ مَیں نے عرض کیا! جب حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو سُنا نہ سکیں گے، اِس لیئے آپؐ حضرت عمرؓ کو کہیں کہ وہ لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ حضرت عائشہؓ نے یہی بات حضرت حفصہؓ کو بھی کہنے کے لیئے کہا، اُنہوں نے ایسا ہی کیا تو رسول اللهؐ ناراض ہوئے اور فرمایا! خاموش رہو، تم تو یوسفؑ والی عورتیں ہو۔ ابوبکرؓ سے کہو وہی لوگوں کو نماز پڑھائیں۔

الله اور مسلمان یہ بات نا پسند کرتے ہیں

وفات سے قبل جب آنحضرتؐ بیمار تھے تو حضرت ابوبکرؓ کی غیر موجودگی میں حضرت بلالؓ نے حضرت عمرؓ کو نماز پڑھانے کے لیئے کہہ دیا ، جب حُجرہ میں رسول اللهؐ کو حضرت عمرؓ کی آواز پہنچی تو آپؐ نے فرمایا! ابوبکر کہاں ہے؟ الله اور مسلمان یہ بات نا پسند کرتے ہیں کہ ابوبکر کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھائے۔پھر حضرت ابوبکرؓ کو بُلایا گیا تو وہ اُس وقت پہنچے جب حضرت عمرؓ نماز پڑھا چکے تھے، اِس کے بعد رسول اللهؐ کی بیماری کے دوران اور آپؐ کی وفات تک حضرت ابوبکرؓ ہی نماز پڑھاتے رہے۔

الله آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں دکھائے گا

عُروہؒ بن زُبیرؓ نے نبیؐ کی زوجۂ مُطہّرہ حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللهؐ فوت ہو گئے اور حضرت ابوبکرؓ اُس وقت سُنح (مضافاتی گاؤں)میں تھے۔ یہ خبر سُن کےحضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، الله کی قسم! رسول اللهؐ فوت نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں کہ حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے ، الله کی قسم! میرے دل میں یہی بات آئی تھی کہ الله آپؐ کو ضرور ضرور اُٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیں گے۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آگئے اور اُنہوں نے رسول اللهؐ کے چہرہ سے کپڑا ہٹایا ، آپؐ کو بوسہ دیا اور کہنے لگے ! میرے ماں، باپ آپؐ پر قربان ہوں آپؐ زندگی میں بھی اور موت کے وقت بھی پاک و صاف ہیں۔ اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، الله آپؐ کو کبھی دو موتیں نہیں دکھائے گا۔

الله زندہ ہے، کبھی نہیں مَرے گا

یہ کہہ کر آپؓ باہر چلے گئے اور کہنے لگے ، اَے قسم کھانے والے! ٹھہر جا۔ جب آپؓ بولنے لگے ، حضرت عمرؓ بیٹھ گئے، آپؓ نے حمد و ثناء بیان کی اور کہا! اَلَآ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللهَ فَاِنَّ اللهَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ؛ دیکھو جو محمدؐ کو پوجتا تھا سُن لے کہ محمدؐ تو یقینًا فوت ہو گئے ہیں اور جو الله کو پوجتا تھا اُسے یاد رہے کہ الله زندہ ہے، کبھی نہیں مَرے گا۔اور آپؓ نے یہ آیت پڑھی۔ اِنَّكَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّھُمۡ مَّیِّتُوۡنَ (الزُّمر: 31)؛ تم بھی مَرنے والے ہو اور وہ بھی مَرنے والے ہیں۔

محمدؐ صرف ایک رسول ہیں، آپ ؐسے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں

پھر اُنہوں نے یہ آیت پڑھی۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مَّاتَ اَوۡ قُتِلَ انۡقَلَبۡتُمۡ عَلٰۤی اَعۡقَابِکُمۡ ؕ وَمَنۡ یَّنۡقَلِبۡ عَلٰی عَقِبَیۡهِ فَلَنۡ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ وَسَیَجۡزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیۡنَ (اٰلِ عمرٰن: 145)؛ محمد صرف ایک رسول ہیں ۔ آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو چکے ہیں تو پھر کیا اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کیئے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بَل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی اپنی ایڑیوں کے بَل پھر جائے تو وہ الله کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب الله شُکر کرنے والوں کو بدلہ دے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ سُن کر لوگ اتنا روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔

لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ الله نے یہ آیت نازل بھی کی تھی

حضرت ابنِ عبّاسؓ کہتے ہیں ۔الله کی قسم! ایسا معلوم ہؤا کہ گویا لوگ اُس وقت تک کہ حضرت ابوبکرؓ نے وہ آیت پڑھی، جانتے ہی نہ تھے کہ الله نے یہ آیت نازل بھی کی تھی۔ گویا تمام لوگوں نے اِن سے یہ آیت سیکھی پھر لوگوں میں سے جس آدمی کو بھی مَیں نے سُنا یہی آیت پڑھ رہا تھا۔

جب حضرت ابوبکرؓ کو یہ آیت پڑھتے سُنا تو مَیں نے جان لیا کہ نبیؐ فوت ہو گئے

راوی کہتے ہیں سعیدؒ بن مُسیّب نے مجھے بتایا کہ حضرت عمرؓ نے کہا! الله کی قسم، جونہی کہ مَیں نے ابوبکرؓ کو یہ آیت پڑھتے سُنا، مَیں اِس قدر گھبرایا کہ دہشت کے مارے میرے پاؤں مجھے سنبھال نہ سکے اور مَیں زمین پر گر گیا ۔ جب مَیں نے حضرت ابوبکرؓ کو یہ آیت پڑھتے سُنا تو مَیں نے جان لیا نبیؐ فوت ہو گئے۔

حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی شجاعت پربہت بڑی دلیل

 مذکورہ بالا تفصیلات کے تناظر میں حضرت عبداللهؓ بن عمرؓ سے مروی حدیث کی تشریح میں ابوعبداللهؒ قُرطبی بیان کرتے ہیں کہ اِس بات میں حضرت ابوبکر صدّیقؓ کی شجاعت پربہت بڑی دلیل ہے کیونکہ شجاعت کی انتہاء یہ ہے کہ مصائب کے نازل ہونے کے وقت دل کا ثابت قدم رہنا اور کوئی مصیبت نبیٔ کریمؐ کی وفات کی مصیبت سے بڑھ کر نہ تھی مسلمانوں کو اُس وقت ، پس اُس وقت آپؓ کی شجاعت اور علم دونوں ہی ظاہر ہوئے۔ بہادری بھی ظاہر ہوئی کہ صدمہ کو برداشت کیا اور قرآنِ کریم کی آیت کی جوتشریح کی اُس سے علم بھی ظاہر ہؤا۔

صحابہؓ کا پہلا اجماع، ابوبکرؓ کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے

حضرت مسیحِ موعود علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام ارشاد فرماتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدّیقؓ کا اِس اُمّت پر کتنا بڑا اِحسان ہے کہ اُس کا شُکر نہیں ہو سکتا، اگر وہ تمام صحابہ رضی الله عنہم کو مسجدِ نبویؐ میں اکٹھا کر کے یہ آیت نہ سُناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ اُمّت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اِس زمانہ کے مُفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہؓ کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں۔ مگر اب صدّیقِ اکبر کی آیتِ ممدوحہ پیش کرنے سے اِس بات پر کُل صحابہؓ کا اجماع ہو چکا ہے کہ کُل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اُس اجماع پر شعر بنائے گئے ہیں۔ ابوبکرؓ کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچا لیا اور اِس اجماع میں تمام صحابہؓ بھی شریک تھے، ایک فرد بھی اُن میں سے باہر نہ تھا اور یہ صحابہؓ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابلِ رشک اور قابلِ شُکر کاروائی تھی۔

حضرت ابوبکرؓ اور مسیحِ موعودؑ کی باہم ایک مشابہت ہے

اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآنِ شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہو گی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب اُن کا ظہور ہو گا۔ سو حضرت ابوبکرؓ اور مسیحِ موعودؑ کے وقت میں ایسا ہی ہؤا یعنی حضرت ابوبکرؓ کے وقت میں آنحضرتؐ کی وفات کے بعد صد ہا جاہل عرب مرتد ہو گئے اور صرف دو مسجدیں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے دوبارہ اُن کو اسلام پر قائم کیا اور ایسا ہی مسیحِ موعودؑ کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآنِ شریف میں مذکورہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر اُن کا ذکر ہے۔

انصار کا ثقیفۂ بنی ساعدہ میں اجتماع اور مسئلہ خلافت پر گفتگو

جب صحابۂ کرامؓ کو رسول اللهؐ کی وفات کا علم ہو گیا تو انصار ثقیفہ ٔبنی ساعدہ میں جمع ہوئے ، اِس اجتماع میں مسئلہ خلافت پر گفتگو ہوئی۔انصار، خزرج کے رہنما سعدؓ بن عُبادہ کے گرد جمع ہو گئے، آپؓ اُن دنوں علیل تھے۔ اُنہوں نے انصار کی قربانیوں اور خدمتِ اسلام کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے اُنہیں خلافت کا حقدار قرار دیا مگر انصار نے حضرت سعدؓ بن عُبادہ کو ہی خلافت کے لیئے موزوں قرار دے دیا۔ مگر انصار نے ابھی اُن کی بیعت بھی نہ کی تھی تو اُنہی میں سے کسی نے یہ سوال کر دیا کہ اگر مہاجرین نے اِن کی خلافت کو تسلیم نہ کیا تو کیا ہو گا؟ اِس پر ایک آدمی نے تجویز دی کہ ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی مہاجرین میں سے خلیفہ ہو۔ مگر حضرت سعدؓ بن عُبادہ نے اُسے بنو اَوس کی کمزوری قرار دیا۔

کسی کو خلافت کے بارہ میں ہوش نہ تھا

جب انصار ثقیفہ ٔبنو ساعدہ میں خلافت کے متعلق بحث کررہے تھے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور دوسرے اہلِ بیعت رسولِ کریمؐ کی تجہیز و تکفین کے انتظامات میں مصروف تھے۔کسی کو خلافت کے بارہ میں ہوش نہ تھا اور انصار کے اِس مسئلہ پر غور کے لیئے جمع ہونے نیز انصار میں سے کسی کو امیر چننے کی رائے سے بے خبر تھے۔

کیا تم میری بیعت کرو گے جبکہ تم میں صدّیق و ثانی اثنین موجود ہیں

طبقات الکبریٰ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ ، حضرت ابو عُبیدہ ؓ بن الجّراح کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ مَیں آپؓ کی بیعت کروں، رسول اللهؐ کی زبانِ مبارک سے آپؓ کو اِس اُمّت کا امین قرار دیا گیا ہے۔ اِس پر آپؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا! جب سے آپؓ نے اسلام قبول کیا ہے مَیں نے اِس سے پہلے کبھی آپؓ میں ایسی غفلت والی بات نہیں دیکھی۔ کیا تم میری بیعت کرو گے جبکہ تم میں صدّیق اور ثَانِىَ اثْنَيْنِ یعنی حضرت ابوبکرؓ موجود ہیں۔

امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر

اجتماعِ انصار کی خبر اور اُن کےاراداہ کی بابت اطلاع پانے پر حضرت ابوبکر صدّیقؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عُبیدہؓ بن الجّراح کے ہمراہ ثقیفہ ٔبنو ساعدہ پہنچے، وہاں ابھی بحث جاری تھی۔اِس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے جو تقریر کی اُس کا ماحصل یہ تھا کہ الله نے آپؐ کی قوم میں سے اوّلین مہاجرین کو آپؐ کی تصدیق ، ایمان لانے ،غمگساری اور آپؐ کے ساتھ اپنی قوم کی سخت ایذاء رسانی اور تکذیب کے وقت ڈٹے رہنے کے لیئے خاص کر لیا۔۔۔وہ پہلے تھے جنہوں نے زمین میں الله کی عبادت کی اور الله اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لائے اور وہ رسول اللهؐ کے دوست اور خاندان والے ہیں اور آپؐ کے بعد لوگوں میں سے اِس منصب کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، اِس معاملہ میں سوائے ظالم کے کوئی اور اُن سے تنازعہ نہیں کرے گا۔ اَے انصار کے گروہ! اور تم وہ ہو جن کی دین میں فضیلت اور اسلام میں سبقت لے جانے کے متعلق انکار نہیں کیا جا سکتا۔ الله کے دین اور اُس کے رسول ؐ کے مددگار بننے کی وجہ سے الله تم سے راضی ہو گیا اور اُس نے رسول اللهؐ کی ہجرت بھی تمہاری طرف ہی رکھی۔ آپؐ کی اکثر ازواج ؓاور اصحابؓ تمہارے یہاں رہتے ہیں۔ مہاجرین اوّلین کے بعد ہمارے نزدیک تمہارے مرتبہ کا کوئی بھی نہیں۔ امیر ہم میں ہوں گے اور تم وزیر، ہر اہم معاملہ میں تم سے مشورہ لیا جائے گا اور تمہارے بغیر اہم معاملات کے متعلق فیصلہ نہیں کریں گے۔

حضرت ابوبکر صدّیق ؓ کی ثقیفۂ بنو ساعدہ میں کی گئی تقریر کا سیرتِ حَلَبِیَّہ میں تذکرہ

آپؓ نے فرمایا! اَمَّا بَعْدُ، جہاں تک خلافت کا معاملہ ہے تو عرب کے لوگ اِس کو سوائے قریش کے کسی دوسرے قبیلہ کے لیئے قبول نہیں کریں گے۔ قریش کے لوگ اپنے حسب و نسب کے اعتبار سے اور اپنے وطن کے اعتبار سے جو مکّہ ہے سب سے افضل اور اعلیٰ ہیں ۔ ہم نسب میں تمام عربوں سے جُڑے ہوئے ہیں کیونکہ کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح قریش سےرشتہ اور قرابت نہ رکھتا ہو۔ ہم مہاجرین وہ لوگ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، ہم ہی آنحضرتؐ کی برادری اور خاندان کے لوگ اور آپؐ کے رحمی رشتہ دار ہیں۔ ہم اہلِ نبوّت ہیں اور خلافت کے حقدار ہیں۔

رسول اللهؐ نے فرمایا کہ خلافت کے حقدار قریش ہوں گے

اِنہی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے امام احمدؒ بن حنبل نے اپنی مُسند میں حضرت ابوبکرؓ کا کردارنیز بیان کیا کہ بعد ازاں اعلانِ وفات نبیؐ حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ تیزی کے ساتھ روانہ ہو کر ثقیفۂ بنو ساعدہ کی طرف پہنچے، آپؓ نے اپنی گفتگو میں قرآنِ کریم میں انصار کی بابت جو کچھ بھی نازل ہؤااُس میں سے کچھ نہ چھوڑا اَور نبیٔ کریمؐ نے انصار کی فضیلت کے بارہ میں جو کچھ فرمایا تھا ، وہ سب بیان کیا۔ نیزفرمایا!تم لوگوں کو علم ہے کہ رسول اللهؐ نے فرمایا تھا کہ اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو مَیں انصار کی وادی میں چلوں گا۔ پھر حضرت سعدؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اَے سعدؓ ! تجھے علم ہے کہ تُو بیٹھا ہؤا تھا جب رسول اللهؐ نے فرمایا کہ خلافت کے حقدار قریش ہوں گے، لوگوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ قریش کے نیک افراد کے تابع ہوں گے اور جو فاجر ہوں گے وہ قریش کے فاجروں کے تابع ہوں گے۔ حضرت سعدؓ نے کہا! آپؓ نے سچ کہا، ہم وزیر ہیں اور آپ لوگ اُمراء ہیں۔

اِن دنوں میں خاص طور پر اَحمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہیئے

موجودہ جو دنیا کے حالات ہیں اِس بارہ میں بھی دعا کے لیئے کہنا چاہتا ہوں ، انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں اور ہو سکتے ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں یہ۔ صرف ایک ملک نہیں بلکہ بہت سے ممالک اِس میں شامل ہو جائیں گے اگر یہ اِسی طرح بڑھتا رہا اور پھر اِس کا اثر نسلوں تک رہے گا، اِس کے خوفناک انجام کا۔ خدا کرے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور اپنی دنیاوی خواہشات کی تسکین کے لیئے انسانوں کی جانوں سے نہ کھیلیں۔ بہرحال ہم تو دعا کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں، سمجھا سکتے ہیں اور سمجھاتے ہیں اور ایک عرصہ سے ہم یہ کام کر رہے ہیں لیکن بہرحال اِن دنوں میں خاص طور پر اَحمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہیئے۔ الله تعالیٰ جنگ کے جوحالات ہیں خوفناک حالات اور تباہ کاریاں جو ہیں ، جواُن کا تصوّر بھی انسان نہیں کر سکتا ایسی تباہ کاریاں ہو سکتی ہیں۔ الله تعالیٰ اُن سے انسانیت کو بچا کر رکھے۔

مکرم خوشی محمد شاکر صاحِب کا تفصیلی تذکرۂ خیر

حضورِ انور ایّدہ الله نے خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحوم مُربّیٔ سلسلہ مکرم خوشی محمد شاکر صاحِب کا تفصیلی تذکرۂ خیر کیا نیزنماز کے بعد اُن کا جنازہ غائب پڑھانے کا ارشاد فرمایا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آنلائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 فروری 2022

اگلا پڑھیں

سرائے خام