• 28 اپریل, 2024

’’یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا‘‘ (حضرت مصلح موعود ؓ)

’’یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا‘‘
(حضرت مصلح موعود ؓ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت میاں سوہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ اب مَیں صداقت خلیفہ ثانی بیان کرتا ہوں جو میرے پر ظاہر ہوئی۔ جس وقت احرار کا بہت زور تھا اور مستریوں نے بھی حضور پر بہت تہمت لگائی تھی۔ مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے اللہ! میرے پیر کی عزت رکھ۔ وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے۔ بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا۔ خواب عالمِ شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا۔ اُس نے بیان کیا کہ مشرق کی طرف بڈھا گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے۔ اور بندہ(یعنی یہ میاں سوہنے خان صاحب) کہتے ہیں کہ میں، برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو اپنے ساتھ لے کر خواب میں ہی اُن کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں مولوی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ موضع پنڈدری قد پہنچے، اُس وقت نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ مَیں نے امام بن کر ہر دو احمدیوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی۔ اتنے میں خِرد خان اور غلام غوث احمدی پھگلانہ بھی آ گئے۔ مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر دو چاند ہیں۔ ایک چاند بہت روشن ہے۔ دوسرا جو مربع شکل اُس کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ بے نور ہے۔ روشنی نہیں ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونی شروع ہو گئی۔ غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا۔ مَیں نے دعا کی، یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے۔ اُس وقت مجھے آواز آئی کہ پہلا چاند مرزا صاحب مسیح موعود ہیں اور یہ دوسرا چاند جو اب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی ہیں۔

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 199-200 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)

جیسا کہ مَیں نے کہا مستریوں کا بھی قادیان میں بڑا فتنہ اُٹھا تھا، جس میں حضرت خلیفہ ثانیؓ پر بڑے غلیظ الزامات بھی ان لوگوں نے لگائے تھے اور مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔ اس کا خلاصۃً کچھ ذکر کر دیتا ہوں، اکثر کو شاید نہیں پتہ ہو گا۔ ویسے تو یہ تفصیل پڑھنے والی ہے۔ حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ۔ ‘‘ایک مقدمہ پچھلے دنوں میرے خلاف کیا گیا کہ گویا مَیں نے آدمی مقرر کئے تھے کہ بعض لوگوں کو مروا دوں۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشین سویّاں کی دوکان سے تعلق رکھتے ہیں اور اُنہی کی طرف سے یہ مقدمہ کیا گیا تھا اور دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ آئندہ کے لئے میری ضمانت لی جائے۔‘‘ پھر آگے فرماتے ہیں ’’ان لوگوں کوقتل کروانا تو بڑی بات ہے۔ مَیں نے اُن کے لئے کبھی بددعا بھی نہیں کی۔ مگر انہوں نے اپنے اوپر قیاس کیا۔ پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں (بعض ایسی وجوہات جو خیالی تھیں) اُن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اُن کے خلاف کوشش کی جا رہی ہے۔ (اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اُن کے خلاف کوئی کوشش کر رہے ہیں) ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار میں بھی بیان کر دی گئی ہیں، کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں۔‘‘ پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اخلاق میں گر جاتے ہیں وہ اپنے بُغض کا بدلہ غیراخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں۔‘‘ اور بڑے گندے گندے الزامات لگائے تھے لیکن آپ نے اُس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تاریخ احمدیت میں جو لکھا ہوا ہے۔ اُس کا بھی خلاصۃً بیان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی کامیابیوں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہر حلقے میں بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر بعض لوگوں نے جن سے سلسلہ کی عظمت اور آپ کی شہرت دیکھی نہیں جاتی تھی، آپ کی زبردست مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ اس غرض کے لئے قادیان کے بعض مستری جو مشین سویّاں کی دوکان چلاتے تھے آلہ کار بنائے گئے جنہوں نے حضرت خلیفہ ثانی پر اقدامِ قتل کا مقدمہ کرنے کے علاوہ ایک اخبار ’’مباہلہ‘‘ نامی جو قادیان سے جاری ہوتا تھا، جاری کر کے آپ کی ذات مقدس پر شرمناک حملے کئے اور اپنی دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی سے جماعت کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا۔ یہ فتنہ دراصل ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے سلسلہ احمدیت کے مخالف عناصر کام کر رہے تھے اور جنہوں نے احمدیوں کو بدنام کرنے بلکہ کچلنے کے لئے پوری کوشش سے ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کئے۔ اس فتنہ نے جہاں دشمنانِ احمدیت کی گندی اور شکست خوردہ ذہنیت بالکل بے نقاب کر دی، وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی یوسفی شان کا اظہار ہوا اور آپ نے صبر اور تحمل کا ایک ایسا عدیم النظیر نمونہ دکھایا کہ ملک کا سنجیدہ اور متین طبقہ ورطۂ حیرت میں پڑ گیا اور انہوں نے گند اُچھالنے والوں کے خلاف نفرت اور بیزاری کا کھلا اظہار کیا اور کئی اخباروں نے پھر اس بات کو لکھا بھی۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ627)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جلسہ سالانہ 1927ء میں اپنی تقریر میں اس فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایسی باتیں الٰہی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت لگی رہتی ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہمارا فرض کام کرنا ہے۔ دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں۔ جو چیز خدا تعالیٰ کی ہو اُسے وہ خود غلبہ عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے۔ اگر سلسلہ احمدیہ کسی بندہ کا سلسلہ ہوتا تواتنا کہاں چل سکتا تھا۔ یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اُس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا۔‘‘ (ان شاء اللہ) ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ شوکت و سلامتی، سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے۔ کہنے والے نے کہا ہے، دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے۔ مگرمَیں بھی دیکھوں گا کہ میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اُس شخص کی‘‘

(تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ628-629)

چنانچہ وہ فتنہ بھی عجیب طرح ختم ہوا کہ وہ لوگ جس کو بعض حکومتی کارندے بھی مدد کر رہے تھے، وہ حکومت کے خلاف ہی بدل گیا اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی بات پوری ہوئی اور یہ فتنہ آپ مر گیا اور بہت بری طرح مرا۔ اب بھی جو، کبھی بھی جماعت کے خلاف Planning کی جاتی ہے، سکیمیں بنائی جاتی ہیں، منصوبے بنائے جاتے ہیں، اگر اُن کو حکومتیں مدد کریں تو وہ حکومتوں کے خلاف ہی ہو جاتے ہیں، یہی ہم نے دیکھا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں ترقیات دکھاتا چلا جائے۔ ان صحابہ کا جن کا ذکر ہوا ہے ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ ان کی نسلوں کو بھی ان کی دعاؤں کا بھی وارث بنائے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جماعت کے تمام افراد کو بھی ہر قسم کے شر اور فتنہ سے بچائے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 15 فروری 2013ء)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ساموا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2022