• 19 مئی, 2024

جماعت احمدیہ اور نصرتِ الٰہی

الٰہی جماعتوں کا الٰہی نصرتوں کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ان کے انگ انگ، موڑ موڑ اور قدم قدم پر خداتعالیٰ کی تائید اور نصرت شاملِ حال ہوتی ہے۔ اور ہر قدم آگے بڑھنے پر جب وہ اپنے پیچھے نگاہ ڈالتے ہیں تو طے شدہ فاصلہ بہت لمبا سفر محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ جماعت احمدیہ بھی ایک الٰہی جماعت ہے۔ شروع دن سے ہی اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت نے اس جماعت کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ حوادث کی آندھیاں چلیں، مصائب کے پہاڑ ٹوٹے، جگہ جگہ پر مشکلات کھڑی کی گئیں اور یہ اعلان کیے گئے کہ اس جماعت کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے رکھ دیں گے۔ مگر یہ ننھا منا پودا اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور سائے تلے پھلتا رہا، پھیلتا رہا، پھولتا رہا۔ اور آج سو سال سے کچھ زائد عرصہ گزرنے پر یہ درخت اس قدر گھنا اور سایہ دار ہو گیا ہے اور اس کی شاخ اور ٹہنی اس قدر پھلدار ہو گئی ہے کہ کروڑوں روحانی پرندے اس پر بسیرا کر رہے ہیں۔ اس کا پھل کھاتے ہیں اور اس کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پناہ لے رہے ہیں۔

جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے
پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے

بات اگر جماعت کی بنیاد سے شروع کی جائے تو 23 مارچ 1889ء کو پہلی بیعت کے واقعہ کو جب چالیس کے قریب دوست شامل ہورہے تھے اس قدر معمولی واقعہ سمجھا گیا کہ خود لدھیانہ کے باشندوں نے بھی اس کو لائق التفات نہ سمجھا اور پریس نے دو سطری خبر بھی شامل نہ کی۔ اور آج جب جماعت احمدیہ 212 کے قریب ممالک میں اپنا جھنڈا بڑی مضبوطی سے گاڑ چکی ہے۔ جماعت کو ایسی بین الاقوامی حیثیت اور عظمت حاصل ہو چکی ہے کہ اپنے اور پرائے بھی معترف ہیں۔ فردِ واحد کروڑوں کے دلوں میں بس گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ آخر یہ معجزہ نہیں، نصرت الٰہی نہیں، کیا یہ خدا کی نازل شدہ مدد وتائید نہیں تو اور کیا ہے؟

اک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا

اگر اس قطرہ کو جماعت احمدیہ اور نصرت ِالٰہی کے حوالے اس کے ہر پہلو کو دیکھا جائے تو یہ قطرہ ہر براعظم میں، ہر ملک میں، ہر شہر میں، ہر بستی میں، ہر محلہ میں، ہر گلی میں، ندی میں اور دریاؤں اور ٹھاٹے مارتے سمندر میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ کسی جگہ راوی بن کر بہ رہا ہے اور کسی جگہ گنگا اور کسی جگہ سیوا۔

پہلا جلسہ سالانہ جو 75 احباب سے شروع ہوا تھا اور ابتداء میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے زیور بیچ کر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا تھا۔ آج یہ لنگر 75 سے زائد ملکوں میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ جہاں یہ جلسہ نیشنل سطح پر منعقد ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے جوتے بٹالہ اسٹیشن پہنچ کر قادیان کا رُخ کرنے والوں کو روکنے کے لیے گِھس جاتے اور آج نصرت الٰہی ہی کے نتیجہ میں ڈش پر گھر گھر جلسہ گاہ بنا ہوا ہے۔ اور ہزاروں گھروں میں افراد جماعت جلسہ کی تقاریر سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔

یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا پھیلتی جائے گی شش جہت میں صدا
تیری آواز اے دشمنِ بد نوا دو قدم دور دو تین پل جائے گی

جماعت احمدیہ کا ہر پہلو نصرتِ الٰہی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ ایم ٹی اے کا باوجود مالی اور مادی وسائل کی کمی کےاجراء خود اپنی ذات میں نصرت ِالٰہی ہے۔ 212 سے زائد ممالک میں جماعت کا قیام کیا نصرتِ الٰہی نہیں؟ خدا تعالیٰ کی مدد کی ایک جھلک ہمیں 70 سے زائد زبانوں میں قرآن کریم کے ترجموں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر عشاق، فدائیوں اور پرستاروں کی جماعت بھی نصرت ِ الٰہی کی جھلک ہے۔ جو اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہیں۔ ان کی قربانیوں، اخلاص، ایثار اور پیار بھری داستانوں نے صحابہ رسول ﷺ کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ کوئی عالی شان بیت الذکر بنانے کا پورا خرچ دیتا دکھلائی دیتا ہے تو کوئی قرآن کریم کے ایک زبان میں ترجمہ شائع کروانے کے اخراجات کی ذمہ داری لے رہا ہے۔ عورتیں اپنی سب سے زیادہ پیاری چیز زیورات کو اپنے ہاتھوں سے اتار کر اپنے پیارے امام کے حضور پیش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر کسی کے پاس زیور نہیں تو اپنی گائے جس کے دودھ پر اپنا گزارہ ہے وقف کر دیتی ہے۔ اسیرانِ راہ مولیٰ بلال فنڈ سے پیش کی جانے والی رقم کو قرآن کی اشاعت پر وقف کر رہے ہیں۔ نو بیاہتی دلہنیں اپنی ساری سلامی سے گاؤں میں ایم ٹی اے لگوا رہی ہیں تا خلیفۃ المسیح کی آواز سے تمام مستفیض ہوں۔ ایک موصی کی مرغی اگر 10 انڈے دیتی ہے تو وہ ایک انڈا چندہ میں دے رہا ہے۔

الغرض ہر ایک چھوٹا بڑا، مرد عورت مثالی خدمت سر انجام دے رہا ہے

کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا
سچے دل اس کی دولت ہیں اخلاص اس کا سرمایہ ہے

نصرت الٰہی کا مضمون بیان کرتے ہوئے اگر غیروں کا اعترافِ حقیقت بیان نہ ہو تو مضمون ادھورا رہ جائے گا۔ مولوی مودودی کے پرچہ ’’ترجمان القرآن‘‘ نے لکھا!
’’مرزائیوں کی حفاظت کے سامان غیب سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف مرزائیوں کے مخالفین کی تباہی کے سامان بھی غیب سے ظہور میں آجاتے ہیں‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس نصرتِ الٰہی کی خبر پیش از وقت ان الفاظ میں دی
’’میں نامرادی کے ساتھ ہر گز قبر میں نہیں اُتروں گا۔ کیونکہ میرا خدا میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے۔ اور میں اس کے ساتھ‘‘

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ساموا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2022