• 17 مئی, 2024

جاپان میں احمدیت

جاپان میں احمدیت
دنیا کے مشرقی کنارے اور چڑھتے سورج کی سرزمین

جاپان دنیا کی قدیم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے اور اس ملک کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ اسی طرح جاپان کا شاہی خاندان دنیا کا سب سے قدیم ترین شاہی خانوادہ تصور ہوتا ہے تو ریاستِ جاپان بھی اپنے اسی نام اور حدود اربع کے ساتھ ہزاروں برس سے قائم ودائم ہے۔ جاپان کا روایتی مذہب شنتو مت ہے لیکن جاپانیوں کا طرزِ زیست اس بات کا غماز ہے کہ اس قوم کی نشونما میں حضرت کنفیوشس اور حضرت لاؤتزے کے فکر وفلسفے کا بھی عمل دخل ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں جاپان میں بدھ مت کی آمد ہوئی اوردیکھتے ہی یہ مذہب بھی ملک کے طول و عرض میں مقبول ہونے لگا۔ اسی طرح بعض محققین شنتو مت پر یہودیت کے اثرات کے بھی قائل ہیں۔

سو لہویں صدی عیسوی میں نوآبادیاتی نظام کے پھیلاؤ کے نتیجہ میں مسیحی مبلغین بھی چہار دانگ عالم پھیلنے لگے تو انہی میں سے ایک مشہور پرتگیزی مناد مسیحیت کی تبلیغ کے لئے جاپان پہنچے۔ جاپانی عوام نے اس نئے مذہب کو بھی خوش آمد ید کہا او ر ناگاساکی شہر کے گردو ونواح میں ہزاروں لوگ حلقہ بگوش مسیحیت ہوگئے، لیکن یہ نیا مذہب جاپانیوں میں تو مقبول ہوا مگرمسیحیت کو حکام وقت کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بعد کی دو صدیاں جاپان کے مسیحیوں پر ظلم و ستم کی صدیاں کہی جاسکتی ہیں۔ جور وستم کا یہ دور میجی بادشاہت کے دوران اپنے اختتام کو پہنچا اور بالآخر 1889ء میں جاپانی آئین نے ملک میں مذہبی آزادیوں کا اعلان کردیا۔ یہی وہ سال ہے جب اسلام کی نشاة ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمدقادیانی علیہ السلام کو امام مہدی و مسیح موعود کے طور پر مامور فرمایا۔

جاپانی تاریخ کے مطالعہ سے ایسے کوئی قرائن یا ثبوت نہیں ملتے کہ یہ قوم قرون اولیٰ یا قرون وسطی میں اسلام یا مسلمانوں سے رُوشناس ہوئی ہو۔ جاپان میں اسلام پر تحقیق کرنے والے حضرات کے مطابق 1900ء کے قریب ایک جاپانی تاجر بمبئی گئے اور ایک مسجد دیکھ کر اسلام کی طرف متوجہ ہوئے اور مسلمان ہوگئے۔ ان کا نام AHMAD ARIGA تھا۔ اسی طرح جنگ عظیم اول کے ایام میں جاپانیوں اور سلطنت عثمانیہ کے مابین تعلقات قائم ہو گئے۔ گویا مسلمانوں اور جاپانیوں کے مابین قائم ہونے والے یہ اولین مراسم تھے۔ اخبارات کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جاپانیوں کی اسلام کی طرف رغبت کی خبر پہنچی توآپ نے اس قوم کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے پر جوش تڑپ کا اظہار فرمایا۔ آپ نے فرمایا:۔
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ اس لئےکوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے۔ اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ371)

جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلا ش ہے

26/اگست 1905ء نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک قادیان میں ذکر آیا کہ جاپان میں اسلام کی طرف رغبت معلوم ہوتی ہے اور ہندوستان سے بعض مسلمانوں نے وہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’جن کے اندر خود اسلام کی روح نہیں وہ دوسروں کو کیا فائدہ پہنچائیں گے۔ جب یہ قائل ہیں کہ اب اسلام میں کوئی اس قابل نہیں ہو سکتا کہ خدا اس سے کلام کرے اور وحی کا سلسلہ بند ہے تو یہ ایک مردہ مذہب کے ساتھ دوسروں پر کیا اثر ڈالیں گے۔ یہ لوگ صرف اپنے پر ہی ظلم نہیں کرتے ہیں ان کو اپنے عقائد اور خراب اعمال دکھا کر اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان کے پاس کونسا ہتھیار ہے جس سے غیرمذاہب کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔

’’جاپانیوں کو عمدہ مذہب کی تلاش ہے۔ ان کی بوسیدہ اور ردی متاع کون لے گا۔ چاہئے کہ اس جماعت میں سے چند آدمی اس کام کے واسطے تیارکئے جائیں جو لیاقت اور جرأت والے ہوں اور تقریر کرنے کا مادہ رکھتے ہوں‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 351بحوالہ بدر جلد1 نمبر21 صفحہ2 مورخہ 24اگست 1905ء)

خدا چاہے گا تو جاپان میں طالب اسلام پیدا کر دے گا

’’خدا چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کردے گا جو خود ہماری طرف توجہ کرے گا۔ اب آخری زمانہ ہے۔ ہم فیصلہ سننے کے انتظار میں ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ297تا299۔ بحوالہ بدرجلد1 نمبر13 صفحہ2 مورخہ 29جون 1905)

ہمیں حکم ہو تو بغیر زبان سیکھے آج ہی چل پڑیں

جاپانی قوم کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلی کیفیات ان الفاظ سے ظاہر ہیں۔ آپ نے فرمایا:
’’اگر ہمیں خدا کا حکم ہو تو بغیر زبان سیکھنے کے آج ہی چل پڑیں۔ ہم ایسے معاملات میں کسی کے مشورہ پر نہیں چل سکتے۔ خدا کے منشاء کے قدم بقدم چلنا ہمارا کام ہے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ297تا299۔ بحوالہ بدرجلد 1 نمبر13 صفحہ2مورخہ 29جون 1905)

جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جاپانی قوم کو تبلیغ اسلام کے لئے ایک جامع کتاب لکھنے کی خواہش ظاہرکرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’اس ضعف اسلام کے زمانے میں جبکہ دین مالی امداد کا سخت محتاج ہے۔ اسلام کی مدد ضرور کرنی چاہیے جیسا کہ ہم نے مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ جاپانیوں کے واسطے ایک کتاب لکھی جاوے اور کسی فصیح وبلیغ جاپانی کو ایک ہزار روپیہ دے کر ترجمہ کرایا جائے اور پھر اس کا دس ہزار نسخہ چھاپ کر جاپان میں شائع کر دیا جائے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ373)

’’اس مضمون کے پڑھنے کے لئے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے۔ ان کی آواز بڑی بارعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہوا ہو تو اسے خوب پڑھ سکتے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک اور شخص بھی چاہیے۔ الرفیق ثم الطریق‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ234۔ 235)

ایک مشرقی طاقت کے ظہور کی خبر

1905ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو روس اور جاپان کے معرکہ میں دنیا کے نقشہ پر ایک مشرقی طاقت کے ظہورکی خبر دی اور یہ الفاظ الہام فرمائے۔

’’ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت‘‘

(الہام 1904ء شائع شدہ الحکم 10جولائی 1905ء)

اس جنگ کے بعد مشرق میں ’’جاپان‘‘ ایک زبردست طاقت بن کر اُبھرا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامی الفاظ حرف بہ حرف پورے ہوئے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ زمانوں یہ پیشگوئی کسی اور شان سے پوری ہو مگرروس اور جاپان کے معرکہ میں خلاف توقع جاپان کی فتح، کوریا کی نازک حالت اور روس کی شکست و ریخت نے یہ ثابت کیا کہ منصہ عالم پر جاپان کے ایک زبردست فوجی اور اقتصادی طاقت کے ظہور سے نظام عالم کی ترتیب میں اس مشرقی کو طاقت کو ایک کلیدی مقام حاصل ہوا ہے۔

جاپان میں اشاعت اسلام کی اولین کاوشیں

جاپانیوں کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کی تکمیل کا سب سے پہلا بیڑا حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اٹھایا اور قادیان سے جاپانیوں کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کئے۔ اور جنگ عظیم دوم سے قبل حکومت جاپان سے خط وکتابت کا ریکارڈ بھی تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد18صفحہ563)

تحریک جدید کا اجراء اور
جاپان میں اشاعتِ اسلام کی مستقل بنیادیں

حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ:۔
’’تحریک جدید کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ہم دنیا کے ہر ملک میں کم از کم ایک آدمی ایسا کھڑا کر دیں جو اسلام کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے رکھے ۔ ۔ ۔ جاپان میں ایک ہندوستانی اسلام جھنڈے کو نہ لہرا رہا ہو بلکہ چند جاپانی اسلامی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہوں‘‘

ایک موقع پرا ٓپ ؓ نے فرمایا کہ:۔
’’جاپان کتنا عظیم الشان ملک ہے، اگر ہم وہاں مشن کھول دیں اور خدا کرے، وہاں ہماری جماعت قائم ہوجائے تو احمدیت کی آواز سارے مشرقی ایشیا میں گونجنے لگ جائے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 نومبر1954ء بحوالہ تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد سوم صفحہ 408)

مبلغین اسلام کی جاپان آمد اور باقاعدہ تبلیغی مشن کا قیام

تحریک جدید کے قیام کے بعد مبلغین اسلام کا پہلا قافلہ 6مئی 1935ء کو قادیان سے دنیا کے مختلف ممالک کو روانہ ہوا۔ مبلغین کے پہلے قافلہ کے لئے جن ممالک کا انتخاب ہوا چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان بھی ان میں شامل تھی۔ حضرت صوفی عبد القدیر صاحب نیاز اوائل جون 1935ء میں جاپان پہنچے اور یوں اس سرزمین اشاعتِ اسلام احمدیت کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ آپ ابھی جاپان میں ہی مقیم تھے کہ حافظ عبد الغفور صاحب مبلغ سلسلہ جاپان تشریف لائے۔ اس دوران جنگ عظیم دوم کے شعلے بھڑکنے لگے اور مبلغین کے لئے تبلیغ اسلام کی کاوشوں کا جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے لئے جاپان اور جاپان کے زیر اثر ممالک میں خدمت اسلام پر مامور مبلغین کو قید و بند کی صعوبتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ مبلغین کی اسیری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فرماتے ہیں:۔
’’تحریک جدید کے بعض مبلغین اس وقت دشمن کے ہاتھوں میں قیدی ہیں۔ سٹریٹ سیٹلمنٹس میں ہمارے مبلغ مولوی غلام حسین ایاز صاحب تھے۔ جاوا، سماٹرامیں مولوی شاہ محمد صاحب اور ملک عزیز احمدصاحب گئے تھے اور یہ تینوں اس وقت جاپانیوں کی قید میں ہیں تو گویا یہ تین قید ہیں اور ایک اس وقت تک لاپتہ ہیں‘‘

(تحریک جدید ایک الٰہی تحریک جلد دوم صفحہ 451)

جاپان میں مذہبی کانفرنس کے لئے
حضرت مصلح موعود ؓ کا پیغام

جنگ عظیم دوم جاپان کی شکست پر منتج ہوتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ جاپانی قوم جو صدیوں سے امن پسندی میں مشہور تھی، جنگی جنون کو الوداع کہہ کر دوبارہ اپنے اصل کی لوٹ آئی تھی۔ اس حوالہ سے جنگ کے اختتام کے فوری بعد جاپان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے خیالات نے جنم لیا اور جاپانی مذاہب میں یہ تحرک پیدا ہوا کہ اسلام جو جاپان میں غیر معروف مذہب ہے اس کو بھی جانا اور سمجھا جائے۔ اس طرح کی ایک کانفرنس وسطی جاپان کے علاقہ Shizuoka میں منعقد ہوئی اور انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓ سے درخواست کی کہ آپ اس کانفرنس کے لئے کوئی پیغام ارشا د فرمائیں۔ آپ نے درج ذیل دعائیہ پیغام ارشاد فرمایا
’’اے خدا !ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کرلیا تھا چلے تھے۔ ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں۔ ہماری نیتیں درست ہوں۔ ہمارے خیالات ہربدی سے پاک ہوں۔ ہمارے عمل ہر قسم کی کجی سے منزہ ہوں۔ سچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور رغبتیں قربان کردیں۔ ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں آئے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سچا امن قائم کرنے والے بن جائیں۔ جس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیااور تو ہمیں ایسے کاموں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے اور تو ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم جوش عمل سے اندھے ہو کر ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے بے راہ ہوجائیں جو تیری طرف لے جاتے ہیں‘‘

(روزنامہ الفضل 9جولائی 1952)

ہیروشیما پر ایٹمی حملہ اور
حضرت خلیفۃ المسیح کی پُر زور مذمت

6اگست 1945ء کا دن انسانی تاریخ کا ایک المناک دن ہے جب اتحادی افواج نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا۔ ہزارہا انسان لمحوں میں لقمہء اجل بن گئے۔ مؤرخ احمدیت اس المیہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامًا خبر دی گئی تھی کہ ’’ان شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا‘‘ یہ دردناک نظارہ چشم فلک نے پہلی دفعہ جاپان میں دیکھا۔

حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ نے 10اگست 1945ء کو ڈلہوزی میں ایک خطبہ دیا جس میں ایٹم بم ایسے مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور بتایا کہ :۔
’’ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کردیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائزنہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا‘‘

نیز فرمایا کہ:۔
’’ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اٹامک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اُن کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کر سکے گا۔ یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے……. یاد رکھو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے۔ مَا یَعْلَمُ جُنُودَرَبِّکَ اِلَّا ھُوْ۔ یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔

اگر بعض کو اٹامک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتہ کی طرف توجہ دلادے اور وہ ایسی چیز تیار کرے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹریوں کی ضرورت نہ ہو بلکہ ایک شخص گھر بیٹھے بیٹھے اس کو تیار کرے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آوے اور اس طرح وہ اٹامک بم کا بدلہ لینے لگ جائے‘‘

حضور نے اس ضمن میں اہل عالم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لطیف نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مسلمانوں کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب وتکلیف دیں۔ چنانچہ فرمایا:۔
’’تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑائیوں کو کم کرنے کا راستہ بتایا تھا۔ جب تک دنیا اس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں ان آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہیے۔ اس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہوگا‘‘

(تاریخ احمدیت جلد نہم صفحہ 519۔ 520)

جاپانی قوم کے بارہ میں مبشر رؤیا

خواب میں بتایا گیا ہے کہ جاپانی قوم جو اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں احمدیت کی طرف رغبت پیدا کرے گا اور وہ آہستہ آہستہ پھر طاقت اور قوت حاصل کرے گی اور میری آواز پر اسی طرح لبیک کہے گی جس طرح پرندوں نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا تھا۔

(الفضل19 اکتوبر 1945ء صفحہ1-2، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 285-287)

ایک احمدی ڈاکٹر کی ہیروشیما
کے متاثرین کے لئے شاندار خدمات

جنگ عظیم دوم میں شکست وریخت او رایٹمی تباہی کا شکار ہونے کے بعد تعمیر نو کا مرحلہ شروع ہو ا تو اللہ نے اپنے خاص فضل سے ایسا انتظام کر دیا کہ ایک بزرگ احمدی مکرم کیپٹن ڈاکٹر محمد شاہ نوازخان صاحب ہیروشیما کے متاثرین کی امداد کے لئے ایک برطانوی فوجی قافلہ کے ساتھ جاپان تشریف لائے اور ہیروشیما کے ایک مشہور ہسپتال سے مریضوں اورزخمیوں کی دیکھ بھال کا آغاز کیا۔

آپ کی بے لوث اور اعلیٰ خدمات کی بنا پر شہنشاہ جاپان کی طرف سے ایک تلوار بطور انعام دی گئی۔ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہدایات کے پیش نظر آپ جتنا عرصہ جاپان میں مقیم رہے تبلیغی مہمات میں حصہ لیتے رہے۔

حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان ؓ
کا تاریخی کردار

1951ء میں سان فرانسسکو میں جنگ عظیم دوم کے اختتام کا معاہدہ عمل میں آنا تھا۔ اس موقع پر حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ اس کانفرنس کی رُوداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی صاحب سابق سفیر ٹوکیو لکھتے ہیں :۔
’’ظفر اللہ خان نے جو پاکستان کی قیادت کر رہے تھے، پر جوش الفاظ میں جاپان کے لئے تقریرکی جس میں انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح کی مثالیں دیتے ہوئے ایک فاتح کے مفتوح سے ہمدردانہ سلوک کی لاثانی مثال بتایا فصاحت کے اس نمونہ سے چند الفاظ یہاں درج کئے جاتے ہیں۔ چونکہ اب یہ تقریر تقریباً نایاب ہو گئی ہے۔ ظفر اللہ خان نے کہا: ‘‘سوائے اس ایک تابندہ اور شاندار مثال کے جس نے عرصہ دراز تک مسلمانوں میں روایت قائم کر دی تھی تاریخ شاید ہی ایسی کوئی گواہی پیش کرتی ہے جس میں فاتح نے مفتوح سے بڑی فیاضی کے جذبے کے تحت ایسا شاندار سلوک کیا ہو (جس کی) نہایت نمایاں مثال فتح مکہ تھی۔ جسے ہوئے اب تیرہ سو سال ہو گئے ہیں مگر اس کی چمک دمک آج تک ماند نہیں پڑی۔ صلح مکہ نے بیس سال کے خون کے پیاسے دشمنوں کو ایک دوسرے کا دوست اور برادری بنادیا۔ (اس کے برعکس) ہمیں جو صلح دی جاتی ہے اس سے خرابیوں اور تباہیوں کا ایک سلسلہ پیدا ہوتا ہے۔ جن کے اس قسم کی صلح سے بیج بوئے جاتے ہیں‘‘

(سفیر اور سفارتکاری۔ ایک دور کی کہانی از ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی۔ پیرا ماؤنٹ پبلشنگ کراچی)

اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا :۔

The peace with Japan should be a premised on justice and reconciliation, not on vengeppression. In future Japan would play an important role as a result of the series of reforms initiated in the political and social structure of Japan which hold out a bright promise of progress and which qualify Japan to take place as an equal in the fellowship of peace loving nations.

ایک سعید روح کی قبول اسلام احمدیت کی داستان

ابتدائی مبلغین کی تبلیغ اسلام سے بعض جاپانی اسلام کی طرف مائل ہوئے اور بعض سعید روحیں اسلام احمدیت کی آغوش میں آگئیں۔ مگرجنگ عظیم دوم کی وجہ سے مبلغین کو جاپان سے واپس جانا پڑا اور ذرائع ڈاک وغیرہ میں تعطل کے باعث ایسے احباب کا مرکز سے رابطہ استوار نہ رہ سکا جنہوں نے اسلام احمدیت قبول کی تھی۔ اسی اثناء میں1950ء کی دہائی میں ایک سعید فطرت جاپانی مکرم کوبایاشی صاحب اسلام میں دلچسپی کے بعد مزید تعلیم اور غور وفکرکے لئے پاکستان کے لئے عازم سفر ہوئے اور رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز میں مقیم ہوگئے۔

رائے ونڈ میں قیام کے دوران ایک دن آپ لاہور چڑیا گھر کی سیر کو گئے ہوئے تھے کہ حسن اتفاق سے ایک احمدی مسلمان سے ملاقات ہوگئی۔ اس احمدی مسلمان نے انہیں چینی خیال کیا اور جماعت کا تعارف کروانے کی کوشش۔ مکرم کوبایاشی صاحب نے بتایا کہ وہ جاپان سے حصول تعلیم کے لئے پاکستان آئے ہیں اور اس وقت ایک مدرسہ میں تحصیل علم کر رہے ہیں۔ احمدی دوست نے اس جاپانی نوجوان کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے آئے ہیں تو پھر احمدیت کا بھی تعارف حاصل کر رہے ہیں۔ احمدیت اسلام کی ہی حقیقی شکل ہے۔ مکرم کوبایاشی صاحب کواس موضوع میں دلچسپی پیدا ہوئی اور رائے ونڈ کے مدرسہ میں واپس آکر آپ نے یہ داستان اپنے ساتھیوں کو سنائی اور ربوہ جا کر احمدیت کا تعارف حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ مگر ہم مکتب دوستوں اور اساتذہ کی طرف سے مخالفت کی گئی اور اس معصوم جاپانی کو یہ کہہ کر ورغلانے کی کوشش ہوئی کہ آپ نے ربوہ جا کر کیا کرنا ہے؟ وہاں تو شیاطین کا بسیرا ہے وہ آپ کو گمراہ کر دیں گے۔

مکرم کوبایاشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا زندگی میں انسانوں سے توبارہامل چکا ہوں کیوں نہ شیطانوں سے ملا جائے اور دیکھا جائے کہ یہ مخلوق کیسی ہوتی ہے ؟آپ نے رائے ونڈ کے مدرسہ کے دوستوں کی مخالفت اور آپ کو ربوہ جانے سے روکنے کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے یہ ترکیب سوچی کہ رات کے اندھیرے میں ہی مدرسہ چھوڑ دیا جائے۔ لیکن آپ رائے ونڈ سے لاہور تک کے راستہ سے واقف نہ تھے، اچانک آپ کے ذہن میں یہ ترکیب آئی کہ رائے ونڈ سے بذریعہ ریل لاہور گئے تھے، اس کا مطلب ہے ٹرین کی پٹری پر چلتے چلے جائیں تو لاہور پہنچا جا سکتا ہے۔ لہذا آپ ٹرین کی پٹری کے سنگ چل پڑے اور ساری رات چلتے ہوئے صبح کے وقت لاہور پہنچے۔ وہاں سے آپ راستہ پوچھتے پچھاتے ربوہ آپہنچے۔ کچھ یوم دارلضیافت میں قیام کیا اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ آپ کو جامعہ احمدیہ میں داخلہ مل گیا اور مکرم میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے آپ سے غیر معمولی شفقت کا سلوک فرمایا۔ جامعہ میں داخلہ کے کچھ ہفتوں بعد ہی آپ نے اسلام احمدیت قبول کر لی۔ مکرم عثمان چینی صاحب اس زمانہ میں آپ کے ہم عصر تھے۔ آپ نے دو سال جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی مگر بعدازاں ویزہ میں توسیع نہ مل سکی اور تحصیل علم کا یہ سفر یہیں پر روکناپڑا۔ آپ جاپان واپس تشریف لے آئے اور بذریعہ خط و کتابت مرکز سے رابطہ رکھتے۔

قبول اسلام کے بعد آپ کا نام دور دراز دیس کی نسبت سے محمد اویس رکھا گیا۔ محمد اویس کوبایاشی صاحب اس وقت 92 برس کی عمرمیں جماعت احمدیہ جاپان کے فعال ممبر ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کے جاپانی ترجمہ کی توفیق عطا فرمائی۔ آپ نہایت بے لوث خدمت کرنے والے اور جماعت سے اخلاص ووفا رکھنے والے وجود ہیں۔

جاپان میں اسلام احمدیت کے مشن کا احیائےنو

اب جاپان میں کچھ ایسی سعید روحیں موجود تھیں جو اسلام احمدیت قبول کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کو پورا کر چکی تھیں کہ ’’اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو اس ملک میں طالب اسلام پیدا کردے گا‘‘ جنگ عظیم دوم کی شکست و ریخت کے بعد جب جاپان دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوچکا تھا تو خلافت ثالثہ کے دور میں مؤرخہ 8ستمبر 1969ء کو مکرم میجر (ر) عبد الحمید صاحب اسلام احمدیت کے مبلغ کی حیثیت سے جاپان پہنچے اور چڑھتے سورج کی سرزمین جاپان میں تبلیغ اسلام کے مشن کا احیاءنو عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جماعت کو یہ خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’پس جاپان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن قائم ہو گیا ہے اور وہ پیشگوئی جس کا ذکر قرآن کریم میں تھا ذوالقرنین کے بیان کے مطابق اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک اور جلوہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں دکھایا ہے……………میں یہ تحریک کروں گا کہ آپ یکم مئی کے بعد جب سالِ رواں کی مختلف ذمہ داریاں ادا کرچکے ہوں تو جتنا خوشی اور بشاشت سے دوسرے چندوں پر اثر ڈالے بغیر آپ جاپان مشن میں دے سکتے ہوں دے دیں‘‘

(سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ؒخطاب جلسہ سالانہ1969۔ بحوالہ خطبات ناصر جلد اول صفحہ 659)

احمدیہ اسلامک ریسرچ سنٹر کا قیام

ابتدائی دور کے مخلص احمدی احباب میں سے نور احمد تھاکائی صاحب بھی تھے۔ ایک مخلص پاکستانی احمدی مکرم عبد المنان خان صاحب کی مساعی کا ذکران الفاظ میں محفوظ ہے :۔
1960ء میں لاہور پاکستان کے ایک مخلص احمدی دوست مکرم عبدالمنان خان صاحب میرین انجینئرنگ کی تعلیم کے سلسلہ میں جاپان تشریف لے گئے اور 1963ء تک وہاں مقیم رہے۔ آپ نے تعلیم کےساتھ ساتھ وہاںا حمدیت کی نشرو اشاعت کے لئے بھی خدمات سر انجام دیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی اجازت سے آپ نے تین جاپانی احمدیوں سے ملکر ’’احمدیہ اسلامک ریسرچ سنٹر‘‘ قائم کیا اور بہت سا لٹریچر جاپانی زبان میں چھپوا کر ٹوکیوکے بازاروں میں تقسیم کیا 1963ء میں ایک جاپانی احمدی مکرم نور احمد صاحب تاکائی (NUR AHMAD TAKAI) کے ہمراہ آپ نے اوساکا, ناگویا اور کیوتوکاتبلیغی دو ر ہ بھی کیا آپ 26جولائی 1963ء کو ’’احمدیہ ریسرچ اسلامک سنٹر‘‘ کا کام مکرم نور احمد صاحب تاکائی کے سپرد کر کے واپس لاہور آگئے۔

(تاریخ مشن جاپان از دفتری ریکارڈ فائل وکالت تبشیر ربوہ صفحہ19)

جاپانی احمدی مسلمانوں کا اخلاص ووفا

خلفائے احمدیت کی قیادت میں اسلام احمدیت کی کاوشیں کامیاب ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاپان میں ایسی سعید فطرت روحوں کی ایک جماعت قائم ہوگئی جو امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو سمجھ کر اسلام کی آغوش میں آچکی تھی۔ ان جاپانی احمدی مسلمانوں کے اخلاص ووفا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر ہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’جاپانی احمدیوں میں ان دنوں میں جتنے دن وہاں رہا پہلے دن جو ان کا رویہ تھا وہ میں دیکھتا رہا ہوں۔ ہر روز اس میں ایک تعلق اور وفا کی کیفیت بڑھتی رہی۔ تبدیلی محسوس ہوتی رہی۔ اللہ کرے کہ یہ لوگ بھی اپنی قوم میں اسلام کے حقیقی پیغام کو پہنچانے کا ذریعہ بن جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کو پورا کرنے والے ہوں جو آپ نے جاپان کے بارہ میں کہی تھی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 19 مئی 2006ء خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ254)

جاپانی احمدیوں کے اخلاص ووفا کا ذکرکرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں
’’اکثر جاپانی مرد اور عورتیں جو احمدی ہوئے وہ خود بھی اور ان کی اولادیں بھی ماشاء اللہ جماعت سے تعلق اور وفا رکھتے ہیں اور عہد بیعت پر پختگی سے قائم ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 مئی 2006ء خطبات مسرور جلد چہارم صفحہ 232)

جاپانی ترجمہ قرآن کی اشاعت

1988ء کا سال تاریخ احمدیت جاپان کے لئے ایک یاد گار سال ہے۔ اس سال جماعت احمدیہ جاپان کو جاپانی زبان میں ترجمہ قرآن شائع کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خصوصی توجہ اور شفقت کے نتیجہ میں جاپانی احمدی مسلمان مکرم محمد اویس کوبایاشی صاحب اور مکرم مغفور احمد منیب صاحب مبلغ سلسلہ نے دو سال کی محنت کے بعد جاپانی زبان میں ترجمہ کی توفیق پائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی جاپان تشریف آوری

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م نے جاپانیوں کو تبلیغ اسلام کا ایک جامع منصوبہ پیش فرمایا تھا۔ اس مقدس خواہش کی تکمیل کے لئے نصف صدی سے زائد عرصہ کی انتھک کاوشوں کے بعد جاپان میں تبلیغ اسلام کا ایک باقاعدہ مرکز قائم ہو چکا تھا۔ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مبلغین سلسلہ کے ذریعہ جاپانی قوم تک زمانے کے امام کا پیغام پہنچ چکا تھا۔

1989ء کا سال سر زمین جاپان کے لئے ایک یادگار اور ناقابل فراموش لمحہ ہے۔ جب پہلی مرتبہ اس سرزمین نے خلیفۃ المسیح کی قدم بوسی کا اعزاز حاصل کیا۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 24جولائی 1989ء کو ورود فرمایا۔ آپ نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ آپ کے اعزاز میں ٹوکیو اور ناگویا میں استقبالیہ تقاریب منعقد کی گئیں۔ سر زمین جاپان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ پہلی دفعہ کسی خلیفۃ المسیح نے جاپان میں خطبہ جمعہ ارشادفرمایا۔ آپ نے خطبہ جمعہ کے دوران جاپانی قوم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’آج تک میں کسی قوم کے اخلاق سے اتنا متاثر نہیں ہو اجتنا کہ جاپانی قوم کے اخلاق سے متاثر ہوا ہوں۔ ان کے اندر سچائی ہے، انکساری ہے، اور یہ ایسے خلق ہیں جنہیں ہمیشہ خدا پیا رسے دیکھتا ہے۔ یہ لوگ معاملات کے صاف ہیں اور وعدے کے سچے لیکن بعض ممالک نے ان کے ساتھ بد مثالیں قائم کی ہیں جس کی وجہ سے اسلام کی نہایت بھیانک تصویر یہاں قائم کی گئی ہے۔ اس لیے جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ اِن اخلاق میں آپ اِن سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کے پیچھے ایک عظیم الشان مذہب کی تعلیم ہے۔‘‘

(سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒخطبہ جمعہ فرمودہ 28جولائی 1989ء)

خلفائے احمدیت کے دورے

جماعت احمدیہ جاپان کو یہ اعزاز اور اکرام حاصل ہے کہ یہ سرزمین خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور توجہ کا مرکز بنی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جاپان میں اشاعتِ اسلام کی خواہش کی تکمیل میں خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف جاپان میں تبلیغ اسلام کے منصوبوں کی راہنمائی فرمائی بلکہ بنفس نفیس جاپان تشریف لاکر اشاعتِ اسلام کی مہم کی قیادت فرمائی۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ جولائی 1989ء میں ایک مرتبہ اور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مئی 2006ء، نومبر2013ء اور نومبر 2015ء میں جاپان رونق افروز ہوئے جماعت احمدیہ جاپان کو میزبانی کا شرف بخشا۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک

مبلغین اسلام احمدیت کی تبلیغی کاوشیں

تحریک جدید کے اجراء کے فوری بعد 4جون 1935ء کو پہلے مبلغ اسلام کے طور پر مکرم صوفی عبد القدیر صاحب نیاز جاپان تشریف لائے، آپ ابھی جاپان ہی تھے کہ مکرم حافظ عبد الغفور صاحب جاپان کے ساحلی شہر کوبے پہنچے۔ جنگ عظیم دوم کے نتیجہ میں کچھ وقت کے لئے تبلیغی مشن معطل کرنا پڑا لیکن حالات معمول پر آنے کے بعد 1969میں مکرم میجر (ر) عبدالحمید صاحب اور 1975ء میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب تبلیغ اسلام کے مشن پر جاپان تشریف لائے۔ بعد ازاں مکرم مغفور احمد منیب صاحب، مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب، مکرم فہیم احمد خالد صاحب، مکرم نصیر احمد بدر صاحب، مکرم ظہیر احمد ریحان صاحب، مکرم صباح الظفر صاحب بطور مبلغ تبلیغ اسلام کے فرائض بجا لاتے رہے۔ اس وقت خاکسار کے علاوہ مکرم حزقیل احمد صاحب اور مکرم محمد ابراہیم صاحب جاپان میں تعینات ہیں۔

جاپان میں نظام جماعت کا قیام

مکرم عطاء الجیب راشد صاحب جاپان تشریف لائے تو سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے آپ کو جاپان کا امیر مقرر فرمایا۔ گو یا آپ جاپان کے پہلے امیر جماعت تھے۔ آپ کی تعیناتی کے دوران، جاپان میں ذیلی تنظیموں کا قیام عمل میں آیا۔ 1981ء میں جاپان کی پہلی مجلس شوریٰ اور پہلا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا۔ تبلیغ اسلام کے متعدد منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی اور 1981ء میں ایک عمارت خرید نے کی توفیق ملی، جس کے نتیجہ میں جاپان میں اسلام احمدیت کی تبلیغ کا مستحکم مرکز قائم ہوا۔

جماعت احمدیہ جاپان کی خدمت خلق

1995ء میں جاپان کے ساحلی شہر کوبےمیں آنے والے زلزلہ کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ولولہ انگیز قیادت میں جماعت احمدیہ جاپان نے مشکلات میں گھرے ہوئے جاپانی بھائیوں کی خدمت کر کے اسلامی تعلیم کا خوبصورت عملی نمونہ پیش کیا۔ جاپان کے اخبارات اور میڈیا میں اس کا خوب چرچا ہوا اور مسلمان رضاکاروں کی ان خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

اسی طرح مارچ2011ء میں آنے والے بد ترین زلزلہ اور تسونامی کے بعد جماعت احمدیہ جاپان اور ہیومنٹی فرسٹ کو شمال مشرقی جاپان کے علاقہ Sendai اور I shinomakiشہر میں کئی ماہ تک خدمت خلق کی سرگرمیاں جاری رکھنے کی توفیق ملی۔ جماعت کی ان خدمات کے اعتراف میں جاپان کی متعدد یونیورسٹیوں کے طلباء اور پروفیسرز نے تحقیقی مقالے اور ریسرچ پیپرز تحریر کئے، اس موضوع پر بننے والی دوڈاکومنٹری فلموں میں ان خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور جاپانی وزیر خارجہ جناب Koichiro Genba صاحب نے جماعتی وفد کو وزارت خارجہ مدعو کرکے ان خدمات پر شکریہ ادا کیا۔

جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر اور شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں تبلیغ اسلام کا دروازہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مئی2006ء کے دورہ جاپان کے دوران جاپان میں پہلی مسجد کی تحریک فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ پورے فرمادیے اور معجزانہ طور پر 2013ء میں جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر کے سامان فرما دیئے۔

جماعت احمدیہ جاپان کی خوش بختی اور سعادت ہے کہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے نومبر2013ء میں دوبارہ ورود مسعود فرمایا۔ آپ کی جاپان تشریف آوری کی برکات میں سے ایک غیر معمولی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ جاپان میں پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ عطا ہوگئی اور جاپانی حکام کی طرف سے باقاعدہ مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ مل گیا۔

اللہ تعالیٰ کے خاص فضل واحسان سے مسجد کے لئے جگہ کی خرید اور تعمیر تک کے تمام مراحل بخیریت مکمل ہوئے اور نومبر 2015ء میں مسجد بیت الاحد جاپان کی تعمیر مکمل ہوئی۔ مسجد کی جگہ کی خرید کی اطلاع سیدنا حضور انور کی خدمت میں عرض کی گئی تو آپ نے مشفقانہ دعاؤں سے نوازتے ہوئے فرمایا:
آپ کی فیکس محررہ 20دسمبر 2013ء مل گئی ہے کہ ’’مسجد بیت الاحد‘‘ جاپان کی رقم کی ادائیگی، انتقال اور Handover کی کارروائی مکمل ہو گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ وَبَارِکْ۔ اللہ تعالیٰ کرے ا س مسجد کے ذریعہ جاپان میں اسلام کی تبلیغ کی راہیں کھلیں اور یہ مسجد عبادت گذاروں سے بھر جائے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو جماعت کی ترقی اور مضبوطی کے لئے نمایاں خدمات سر انجام دینے کی توفیق بخشے۔ آمین

(مکتوب حضور انور۔ 31.12.2013)

مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانی
اور جماعت کی ذمہ داری

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ جاپان کی طرف سے مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کی گئی مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت کو ان کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی توجہ دلائی اور فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی دوسری جماعتوں کی طرح جماعت احمدیہ جاپان بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی اوراس طرف قدم مارنے والی جماعتوں میں سے ہے۔ اخلاص ووفا اورمالی قربانیوں میںبڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے…….جماعت احمدیہ جاپان نے اس (مسجد) کی خرید کے لئے بڑی مالی قربانیاں بھی دی ہیں۔ اورمالی قربانیوں کا حق بھی ادا کیا ہے لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ حقیقی حق ادا ہوتا ہے جب ہم ان باتوں کو سمجھیں اوراُن پر عمل کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں کرنے کے لئے کہی ہیں۔ آپ کی بیعت میں آکر ہمیں ان باتوں کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو ایک حقیقی مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔‘‘

(فرمودہ مورخہ 8 نومبر 2013ء بمقام ناگویا، جاپان)

شمال مشرقی ایشیائی ممالک میں پہلی مسجد

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الاحد کے افتتاح کے موقع پر اس مسجد کی جغرافیائی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔
’’یہ مسجدنہ صرف جاپان بلکہ جو شمال مشرقی ایشیائی ممالک چین، کوریا، ہانگ کانگ، تائیوان وغیرہ ہیں، ان میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو باقی جگہوں میں بھی راستے کھولنے کا ذریعہ بنائے اور وہاں بھی جماعتیں ترقی کریں اور مسجدیں بنانے والی ہوں‘‘

(فرمودہ مورخہ 20 نومبر 2015ء بمقام مسجد بیت الاحد جاپان)

اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان سے مسجد بیت الاحد کی تعمیر کی صورت میں ایک ایسا مستقل مرکز قائم ہوچکا ہے جو اس سرزمین میں خدائے واحد کے پیغام کی اشاعت و تبلیغ کے لئے رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔ اسی طرح جماعت احمدیہ جاپان کی ویب سائٹ https://www.ahmadiyya-islam.org/jp  جاپانی زبان میں اشاعت اسلام میں ممدو معاون ثابت ہورہی ہے۔ قرآن کریم کے علاوہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جاپانی تراجم اور جاپانی ڈیسک کے قیام کے ذریعہ سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی مستحکم بنیادیں قائم ہوچکی ہیں۔ جماعت احمدیہ جاپان کا آفیشل ٹوئٹر ہینڈل اور فیس بک اکاؤنٹ شبانہ روز اشاعت اسلام احمدیت کے لئے وقف ہے۔

ٹوئٹر amjJapan@
فیس بک islamforjapanese@

خلیفہٴ وقت کے خطبات کے براہ راست جاپانی ترجمہ کے علاوہ، ایم ٹی اے کی جاپانی سروس، واقفین نو کی ایک بڑی تعداد، ذیلی تنظیمیں اور مخلص احمدی احباب کا ایک گروہِ کثیر جاپان کے طول وعرض میں خدمت دین میں مصروف اس یقین پر قائم ہے کہ خدائے واحد کے وعدے ضرور پورے ہوں گے اور مشرق و مغرب اسلام کے نور سے منور ہوگا لیکن روئے زمین کو حق سے آشکار کرنے اور ساری دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے کے لئے الہی منشاء یہ ہے کہ ہم مزید محنت اور جانفشانی سے کام کریں اور دعائیں کرتے ہوئے محبت وخلوص سے خدمت دین میں مگن رہیں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اسلام کے لئے پھراس تازگی اورروشنی کا دن آئے گاجو پہلے وقتوں میں آ چکاہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیساکہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے کھو نہ دیں۔

اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتاہے۔ وہ کیاہے؟ ہمارا اس راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے ۔ ۔ ۔

ضرور تھا کہ وہ اس مہمِّ عظیم کے روبراہ کرنے کے لئے ایک عظیم الشان کارخانہ جو ہر ایک پہلو سے مؤثر ہو اپنی طرف سے قائم کرتا۔ سو اس حکیم و قدیر نے اس عاجز کو اصلاحِ خلائق کے لئے بھیج کر ایسا ہی کیا‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ15-18)

نیز اسلام کی یہ فتح دلائل و براہین کی رو سے اور امن و محبت کی راہ سے ممکن ہوگی۔ ا ٓپ فرماتے ہیں :۔
’’خدا ایک ہوا چلا جائے گا جس طرح موسم بہار کی ہوا چلتی ہے اور ایک روحانیت آسمان سے نازل ہوگی اور مختلف بلاد اور ممالک میں بہت جلد پھیل جائے گی جس طرح بجلی مشرق و مغرب میں اپنی چمک ظاہر کر دیتی ہے ایسا ہی روحانیت کے ظہور کے وقت میں ہوگا۔ تب جو نہیں دیکھتے تھے وہ دیکھیں گے اور جونہیں سمجھتے وہ سمجھیں گے اور امن اور سلامتی کے ساتھ راستی پھیل جائے گی‘‘

(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ311-312حاشیہ)

(انیس رئیس۔ مبلغ جاپان)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ساموا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مارچ 2022