• 8 مئی, 2024

روزے ہم میں سے ہر ایک کو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ وہ روزے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ کہ وہ روزے جن کا مقصد رمضان کی ایک رَو، رمضان میں جو ایکا چلی ہوتی ہے جو تمام لوگ روزے رکھ رہے ہوتے ہیں، سحری کے لئے اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ اس رَو میں بہتے ہوئے روزے رکھے جائیں۔ صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا روزے کا مقصدنہ ہو بلکہ تقویٰ کی تلاش ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو۔ وہ روزہ ہو جو ڈھال بن جائے۔ وہ روزہ ہو جو ہر شر سے بچانے والا اور ہر خیر کے راستے کھولنے والا ہو۔ وہ روزہ ہو جو صرف دن کا فاقہ نہ ہو بلکہ ذکرِ الٰہی کے ساتھ راتوں کو نوافل سے سجا ہوا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے اُس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر 37)

پھر روزہ صرف دینی شرور سے بچنے کیلئے اور خیر کے راستے کھولنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی شر سے بچانے والا اور خیر کے راستے کھولنے والا بھی ہے۔ مثلاً ایک خیر جس کو اب ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں، سائنسدانوں کے ایک طبقہ نے بھی ماننا شروع کر دیا ہے کہ سال میں ایک مہینے کا جو کھانے پینے کا کنٹرول ہے وہ انسانی صحت کے لئے مفید ہے۔ تو یہ خیر ہے، ایک بھلائی ہے جو اس روزے سے انسانی جسم کو حاصل ہوتی ہے۔

پس نیت اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو جسمانی فائدہ بھی خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں۔ پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے رکھا جائے، وہ رمضان جس میں سے تقویٰ کے حصول کے لئے گزرا جائے، معاشرے کی خوبصورتی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایک دوسرے کیلئے قربانی کی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے غریب بھائیوں کی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور یہ ہونی ضروری ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے اور اُس سے ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات تیز آندھی کی طرح فرمایا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 5 حدیث نمبر 6)

پس ایک مومن کا بھی فرض ہے کہ اس سنت پر عمل کرے۔ یقینا یہ معاشرے میں بے چینیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک مومن کے دل میں دوسرے مومن کے لئے، اپنے کمزور اور ضرورتمند بھائی کے لئے نرمی کے اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک غریب مومن کے دل میں اپنے مالی لحاظ سے بہتر بھائی کے لئے جو روزے کا حق ادا کرتے ہوئے اُس کا بھی حق ادا کر رہا ہے، شکر گزاری اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے ہو، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اُس میں مشقت کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے۔ سحری اور افطاری میں کم خوری اس لئے نہیں ہوتی کہ دوسروں پر اظہار ہو، بلکہ اس لئے ہوتی ہے کہ جسمانی روٹی کم کر کے تزکیہ نفس کی طرف زیادہ توجہ ہو۔

پس وہ لوگ جو اس وہم میں ہیں کہ ہم کم کھا کے کمزور نہ ہو جائیں، سحری اور افطاری میں ضرورت سے زیادہ پُر خوری کرتے ہیں، اُن کے لئے بھی سبق ہے کہ اپنی خوراک کو کنٹرول کرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر ضروری مواقع پر جہاں فتنہ و فساد کا خطرہ ہو، رنجشوں کے بڑھنے کا خطرہ ہو، روزے دار کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ‘‘اِنِّیْ صَآئِم ٌ’’ کہ میں روزہ دار ہوں، کہا کرو۔ اس میں تقویٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ روزے کا حق ادا کرنے کے لئے تقویٰ کے حصول کے لئے اپنے جذبات پرکنٹرول بھی ضروری ہے۔ تم نے اپنے آپ کو جھگڑوں سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو غیبت سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو جھوٹ اور غلط بیانی سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔

پس روزے دار کے لئے زبان کے غلط استعمال سے رُکنا بھی ضروری ہے۔ ایک مہینہ کی زبان کو قابو میں رکھنے اور غلط استعمال سے روکنے کی یہ عادت جو تقویٰ کے حصول کے لئے ضروری ہے، پھر آئندہ زندگی میں بھی بہت سے گناہوں اور غلطیوں سے بچانے کا باعث بنتی ہے۔ ایک مہینہ کی عادت سے مستقل مزاجی سے ایک مہینہ تک برائیوں سے پرہیز کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ تقویٰ پر چلنے کی مستقل عادت پڑ جاتی ہے۔ تقویٰ کی تلاش کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ عادت ہی اصل میں روزہ اور رمضان کا مقصد ہے۔ ورنہ صرف سال میں ایک مہینہ نیکیوں کے عمل اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کوشش اور گیارہ مہینے اپنی مرضی، دنیا کا اثر، برائیوں میں ملوث ہونا تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتا۔

پس اس مہینے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے ہوئے روزے اور رمضان کی روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ حلال اور جائز چیزوں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنے کا جو تجربہ حاصل ہو گا اُسے اپنے اندر عمومی، اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اُسے مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی طرف توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ پس روزوں میں، رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اُسے مستقل اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والوں کی طرف بڑھنے والے ہوں۔ اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ جنت کے دروزے کھول دیتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیتا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان … حدیث نمبر1899)

ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس مہینہ میں عبادتوں، تزکیہ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعہ جنت کے ان دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ یا جنت کے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں جو پھر ہمیشہ کھلے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے جھکیں اور اُن خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جن کی توبہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کو اس رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں جو گمشدہ بچہ کے ماں کو مل جانے سے زیادہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اس کا پہلے بار بار ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی پہنچانے کے لئے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، ان کے معیاروں کو بلند کرنا ہوگا۔ اپنے روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 12؍جولائی 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

آئیوری کوسٹ میں ریجنل جلسے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اپریل 2022