دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 20
دعا کے قانون
ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی شخص کامیاب نہیں ہوا جو جسم اور روح دونوں سے کام نہ لے۔ اگر روح کوئی چیز نہیں تو ایک مردہ جسم سے کوئی کام کیوں نہیں ہوسکتا؟ کیا اس کے سارے قویٰ اور اعضاء موجود نہیں ہوتے۔ اب یہ بات کیسی صفائی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے کہ روح اور جسم کا تعلق جبکہ ابدی ہے۔ پھر کیوں کسی ایک کو بیکار قرار دیا جاوے۔دعا کے لئے بھی یہی قانون ہے کہ جسم تکالیف اٹھاوے اور روح گداز ہو اور پھر صبر اور استقلال سے اللہ تعالےٰ کی ہستی پر ایمان لا کر حسن ظن سے کام لیا جاوے۔
(الحکم جلد7 نمبر10 صفحہ2,1 مورخہ 17 مارچ 1903ء)
دعا کے زمانے میں بھی ابتلا آتے ہیں
دعا کے زمانہ میں بھی ابتلا آتے ہیں۔ ہر ایک کام کے لئے زمانہ ہوتا ہے اور سعید اس کا انتظار کرتے ہیں۔ جو انتظار نہیں کرتا اور چشم زدن میں چاہتا ہے کہ اس کا نتیجہ نکل آوے وہ جلد باز ہوتا ہے۔ اور بامراد نہیں ہوسکتا۔ میرے نزدیک یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا ہے کہ دعا کے زمانہ میں ابتلا کے طور پر اور بھی ابتلا آجاتے ہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آئے تو ان کو پہلے مصر میں فرعون نے یہ کام دیا ہوا تھا کہ وہ آدھا دن اینٹیں پاتھا کریں اور آدھا دن اپنا کام کیا کریں۔ لیکن جب حضرت موسےٰ علیہ السلام نے ان کو نجات دلانے کی کوشش کی۔ تو پھر شریروں کی شرارت سے بنی اسرائیل کا کام بڑھا دیا گیا اور انہیں حکم ملا کہ آدھا دن تو تم اینٹیں پاتھا کرو اور آدھا دن گھاس لایا کرو۔ حضرت موسےٰ علیہ السلام کو جب یہ حکم ملا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو سنایا تو وہ بڑے ناراض ہوئے۔ اور کہا کہ موسیٰ خدا تم کو وہ دکھ دے جو ہم کو ملا ہے اور بھی انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بددعائیں دیں مگر موسےٰ علیہ السلام نے ان کو یہی کہا کہ تم صبر کرو۔ تورات میں یہ سارا قصہ لکھا ہے کہ جوں جوں موسیٰ علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے وہ اور بھی برافروختہ ہوتے تھے۔ آخر یہ ہوا کہ مصر سے بھاگ نکلنے کی تجویز کی گئی اور مصر والوں کے کپڑے اور برتن وغیرہ جو لئے تھے وہ ساتھ ہی لے آئے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو لے کر نکل آئے تو فرعون نے اپنے لشکر کو لے کر ان کا تعاقب کیا۔ بنی اسرائیل نے جب دیکھا کہ فرعونیوں کا لشکر ان کے قریب ہے تو وہ بڑے ہی مضطرب ہوئے چنانچہ قرآن شریف میں لکھا ہےکہ اس وقت وہ چلائے اور کہا اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ (الشعراء: 62) اے موسیٰ ہم تو پکڑے گئے مگر موسیٰ علیہ السلام نے جو نبوت کی آنکھ سے انجام کو دیکھتے تھے۔ انہیں یہی جواب دیا کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ (الشعراء: 63) ہر گز نہیں۔ میرا رب میرے ساتھ ہے۔
تورات میں لکھا ہے کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا مصر میں ہمارے لئے قبریں نہ تھیں۔ اور یہ اضطراب اس وجہ سے پیدا ہوا کہ پیچھے فرعون کا لشکر اور آگے دریائے نیل تھا وہ دیکھتے تھے کہ نہ پیچھے جا کر بچ سکتے ہیں اور نہ آگے جا کر مگر اللہ تعالےٰ قادر مقتدر خدا ہے۔ دریائے نیل میں سے انہیں راستہ مل گیا اور سارے بنی اسرائیل آرام کے ساتھ پار ہوگئے۔ مگر فرعونیوں کا لشکر غرق ہوگیا۔ سید احمد خاں صاحب اس موقعہ پر لکھتے ہیں کہ یہ جوار بھاٹا تھا۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ کچھ ہو اس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ عظیم الشان معجزہ تھا جو ایسے وقت پر اللہ تعالےٰ نے ان کے لئے راہ پیدا کردی۔ اور یہی متقی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر ضیق سے اسے نجات اور راہ ملتی ہے۔ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا (الطلاق: 3)
غرض ایسا ہوتا ہے کہ دعا اور اس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلا پر ابتلا آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آجاتے ہیں جو کمر توڑ دیتے ہیں مگر مستقل مزاج سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعد نصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہیئے۔ اور بے صبری اور بیقراری سے اپنے اللہ پر بد ظن نہیں ہونا چاہیئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہ چاہیئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی۔ ایسا وہم اللہ تعالےٰ کی اس صفت سے انکار ہوجاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ انسان ایک امر کے لئے دعا کرتا ہے مگر وہ دعا اس کی اپنی ناواقفی اور نادانی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یعنی ایسا امر خداتعالےٰ سے چاہتا ہے جو اس کے لئے کسی صورت سے مفید اور نافع نہیں ہے تو اللہ تعالےٰ اس کی دعا کو تو ردّ نہیں کرتا لیکن کسی اور صورت میں پورا کردیتا ہے۔ مثلاً ایک زمیندار جس کو ہل چلانے کے لئے بیل کی ضرورت ہے۔ وہ بادشاہ سے جا کر ایک اونٹ کا سوال کرے اور بادشاہ جانتا ہے کہ اس کو دراصل بیل دینا مفید ہوگا اور وہ حکم دے دے کہ اس کو ایک بیل دے دو وہ زمیندار اپنی بیوقوفی سے کہہ دے کہ میری درخواست منظور نہیں ہوئی۔ تو اس کی حماقت اور نادانی ہے۔ لیکن اگر وہ غور کرے تو اس کے لئے یہی بہتر تھا۔ اس طرح پر اگر ایک بچہ آگ کے سرخ انگارے دیکھ کر ماں سے مانگے تو کیا مہربان اور شفیق ماں یہ پسند کرے گی کہ اس کو آگ کے انگارے دیدے۔ غرض بعض اوقات دعا کی قبولیت کے متعلق ایسے امور بھی پیش آتے ہیں۔ جولوگ بے صبری اور بدظنی سے کام لیتے ہیں وہ اپنی دعا کو رد ّکرالیتے ہیں۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی قبولیت کے زمانہ میں اور بھی درازی ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل اسی وجہ سے چالیس برس تک ارض مقدس میں داخل ہونے سے محروم ہوگئے کہ ذرا ذرا سی بات پر شوخیوں سے کام لیتے تھے۔ میں کہتا ہوں کہ جس طرح بنی اسرائیل سے غلامی کے دنوں میں وعدے کئے گئے تھے اسی طرح پر اس امت کے لئے بھی ایک مماثلت ہے۔ ان پر بھی ایک غلامی کا زمانہ آنے والا تھا۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ432 436-آن لائن ایڈیشن 1984ء)
اسم اعظم دعا
خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القاء کی گئی:
رَبِّ کُلُّ شَیۡئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحۡفَظۡنِیۡ وَانۡصُرۡنِیۡ وَارۡحَمۡنِیۡ
اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے اسے نجات ہوگی۔
الہامی دعا میں واحد متکلم کو جمع متکلم کے صیغہ کے ساتھ دعا کرنا۔ میر ناصر نواب صاحب نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ یہ دعا رَبِّ کُلُّ شَیۡئٍ خَادِمُکَ والی جو الہام ہوئی ہے اگر اس میں بجائے واحد متکلم کے جمع متکلم کا صیغہ پڑھ کر دوسروں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے تو حرج تو نہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا: کوئی حرج نہیں ہے۔
… قرآن مجید میں دونوں طرح دعائیں سکھائی گئی ہیں۔ واحد کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیَّ الخ (ابراہیم: 42) اور جمع کے صیغہ میں بھی جیسے رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرہ: 202) اور اکثر اوقات واحد متکلم سے جمع متکلم مراد ہوتی ہے۔ جیسے اس ہماری الہامی دعا میں فاحفظنی سے یہی مراد نہیں ہےکہ میرے نفس کی حفاظت کر بلکہ نفس کے متعلقات اور جو کچھ لوازمات ہیں سب ہی آجاتے ہیں۔ جیسے گھر بار۔ خویش و اقارب اعضاء و قویٰ وغیرہ۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 285, 269, 264)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)