• 3 مئی, 2024

رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ حضرت مہدی معہودؑ کی ایک علامت کا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی ذات میں عظیم الشان ظہور

امت مسلمہ میں ظاہر ہو نے والے حضرت امام مہدی ؑکے بارہ میں بہت سی روایات پیشگوئیوں کے رنگ میں بکھرے موتیوں کی طرح کتب حدیث میں موجود ہیں۔ان روایات میں حضرت امام مہدیؑ کے ظہور سے متعلق بے شمار علامات بیان فرمائی گئی تھیں۔ جن کی غرض یہ تھی کہ امت ان علامات کے ذریعہ سچے مہدی کو پہچان سکیں اور اس پر ایمان لا کر اپنی نجات کا سامان کر سکیں ۔ ان علامات میں سے کچھ تو ظاہری لحاظ سے پوری ہوئیں اوراکثر علامات استعارہ کا رنگ رکھتی تھیں وہ کسی اَور رنگ میں اور کسی اَور طرح سے پوری ہوئیں کیونکہ پیشگوئیوں میں اکثر اخفاء اور امتحان کا پہلو ہوا کرتا ہے۔

انہی روایات میں سے ایک روایت کا ذکرحضرت علیؓ سے مروی ایک مرفوع روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اَلْمَہْدِیُّ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ‘‘ کہ مہدی ہم میں سے اور ہمارے اہل بیت سے ہیں اللہ تعا لیٰ انہیں ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔ ایک دوسری سند کے ساتھ یہ الفاظ آئے ہیں کہ اَلْمَہْدِیُّ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ کہ مہدی کو اللہ تعالیٰ ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔

(سُنَن ابنِ مَاجَہ کِتَابُ الْفِتَن بَاب34 خُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ، حدیث نمبر4085)

اس حدیث کی شرح میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ اہل عرب اَصْلَحُ اللّٰہُ کا کلمہ کسی کی مدح اور دعا کے لئے استعمال کرتے ہیں اور جب امراء کو مخاطب کرنا ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’اَصْلَحُ اللّٰہُ الْاَمِیْرَ اَیْ وَفَّقَہٗ وَسَدِّ دْ خُطَاہَ وَاَصْلِحْ شَاْ نَہٗ‘‘ کہ اللہ امیر کو نیکی کی توفیق دے، اسے راہ سداد پر قائم رکھے اور اس کے سارے کام درست کر دے۔ اور دوسرے معنی یہ بیان کیے گئے ہیں کہ ’’وَمَعْنَی یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ اَیْ یَتُوْبُ اِلَیْہِ وَ یُوَفَّقْہُ وَ یُلْہِمُہُ رُشْدَہٗ بَعْدَ اِنْ لَمْ یَکُنْ کَذَالِکَ وَ یَعُدُّہٗ لِلْخِلاَفَۃِ وَ لِلْقِیَادَۃِ کہ حدیث میں یہ جو آیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ امام مہدی کو ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا اور ان کوتو فیق عطا فرماکر اپنی طرف سے علم وہدایت الہام کرے گا اور انہیں خلافت کے لئے اور مسلمانوں کی قیادت کے لئے تیار کرے گا۔‘‘

(اَلْمَسِیْحُ الْمُنْتَظَرُ وَ نِہَا یَۃُ الْعَالَمِ از عبد الوہاب عبد السلام طویلۃ صفحہ59۔61)

اس حدیث کی شرح میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک غیراحمدی عالم دین لکھتے ہیں ’’یعنی اپنی تو فیق و ہدایت سے ایک ہی رات میں نسبتِ نبوت کا نور عطا فرما کر ولایت کے اس مقام پر پہنچا دے گا جہاں وہ اس سے پہلے نہ تھے۔‘‘

(ظہور مہدی تک از ابو عبد اللہ آصف نقشبندی صفحہ 52)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس مقام مہدیؑ کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’مہدی کے کامل مرتبہ پر وہی پہنچتا ہےجو اول عیسٰیؑ بن جائے یعنی جب انسان تبتّل اِلَی اللّٰہ میں ایسا کمال حاصل کرے جو فقط روح رہ جائے تب وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک روح اللہ ہو جاتا ہے اور آسمان میں اس کا نام عیسٰی رکھا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ایک روحانی پیدائش اس کو ملتی ہے۔‘‘

(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ368)

نبی کریم ﷺ کی امام مہدیؑ سے متعلق اس علامت کا ظہور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی مبارک زندگی میں کیسے اور کس طریق پر ہوااس تعلق میں 3 واقعات قارئین کی دلچسپی اور علم میں اضافہ کے لئے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں۔

ایک ہی رات میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں۔
’’تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے کہ میں گورداسپورہ میں تھا کہ مجھے یہ خواب آئی کہ میں ایک جگہ چارپائی پر بیٹھا ہو ں اور اُسی چار پا ئی پر بائیں طرف میرے مولوی عبداللہ صاحب مرحوم غزنوی بیٹھے ہیں جن کی اولاد اب امرتسر میں رہتی ہے۔ اتنے میں میرے دل میں محض خدا تعا لیٰ کی طرف سے ایک تحریک پیدا ہو ئی کہ مولوی صاحب موصوف کو چار پائی سے نیچے اتار دوں۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ کو چھوڑ کر مولوی صاحب کی جگہ کی طرف رجوع کیا۔ یعنی جس حصہ چارپائی پر وہ بائیں طرف بیٹھے ہو ئے تھے اس حصے میں میں نے بیٹھنا چاہا۔ تب انہوں نے وہ جگہ چھوڑ دی اور وہاں سے کھسک کر پا ئینتی کی طرف چند انگلی کے فاصلے پر ہو بیٹھے۔ تب پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی میں ان کو اٹھا دوں پھر میں ان کی طرف جھکا تو وہ اس جگہ کو بھی چھوڑ کر پھر چند انگلی کی مقدار پر پیچھے ہٹ گئے۔ پھر میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس جگہ سے بھی ان کواَور زیادہ پائینتی کی طرف کیا جائے۔ تب پھر وہ چند انگلی پائینتی کی طرف کھسک کر ہو بیٹھے۔ القصہ میں ایسا ہی ان کی طرف کھسکتا گیا اور وہ پائینتی کی طرف کھسکتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کو آخر چارپائی پر سے اُترنا پڑا اور وہ زمین پر جو محض خاک تھی اور اس پر چٹائی وغیرہ کچھ بھی نہ تھی اُتر کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں تین فرشتے آسمان سے آئے۔ ایک کا نام ان میں سے خیراتی تھا۔ وہ بھی ان کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور میں چارپائی پر بیٹھا رہا ۔ تب میں نے ان فرشتو ں اور مولوی عبداللہ صاحب کو کہا کہ آؤ میں ایک دعا کرتا ہوں تم آمین کرو۔ تب میں نے یہ دعا کی کہ رَبِّ اَذْھِبْ عَنِّی الرِّجْسَ وَ طَہِّرْ نِیْ تَطْہِیْرًا، اس کے بعد وہ تینوں فرشتے آسمان کی طرف اُٹھ گئے اور مولوی عبداللہ صاحب بھی آسمان کی طرف اٹھ گئے۔ اور میری آنکھ کھل گئی۔ اور آنکھ کھلتے ہی میں نے دیکھا کہ ایک طاقت بالا مجھ کو ارضی زندگی سے بلند تر کھینچ کر لے گئی اور وہ ایک ہی رات تھی جس میں خدا نے بتمام و کمال میری اصلاح کردی اور مجھ میں وہ تبدیلی واقع ہو ئی کہ جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہو سکتی۔‘‘

حضور علیہ السلام یہ واقعہ درج کرنے کے بعدمزید تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اور انہی دنو ں میں شاید اس رات سے اوّل یا اس رات کے بعد میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص جو مجھے فرشتہ معلوم ہوتا ہے مگر خواب میں محسوس ہوا کہ اس کا نام شیر علی ہے۔ اس نے مجھے ایک جگہ لٹا کر میری آنکھیں نکالی ہیں اور صاف کی ہیں اور میل اور کدورت ان میں سے پھینک دی اور ہر ایک بیماری اور کوتاہ بینی کا مادّہ نکال دیا ہے اور ایک مصفّا نور جو آنکھوں میں پہلے سے موجود تھا مگر بعض مواد کے نیچے دبا ہو اتھا اس کو ایک چمکتے ہو ئے ستارہ کی طرح بنا دیاہے اور یہ عمل کرکے پھر وہ شخص غائب ہو گیا اور میں اس کشفی حالت سے بیدار ی کی طرف منتقل ہو گیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ 351-352)

حضور علیہ السلام نے جولائی 1899ء میں ’’تریاق القلوب‘‘ کا آغاز فرمایا اور 1900ء میں اس کی اشاعت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واقعہ کے شروع میں جو یہ تحریر فرمایا ہے کہ ’’تخمیناً پچیس برس کے قریب عرصہ گزر گیا ہے‘‘ اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ یہ واقعہ اندازاً 1874ء یا 1875ء کا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مذکورہ بالا پہلے رؤیا کا ذکر اپنی 1902 ء کی تصنیف ’’نزول المسیح‘‘ میں بھی فرمایا ہے۔ اور یہ رؤیا ذکر کرنے کے بعد حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’آنکھ کھلتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ مولوی عبد اللہ کی وفات قریب ہے میرے لئے آسمان پر ایک خاص فضل کا ارادہ ہے اور پھر میں ہر وقت محسوس کرتا رہا کہ ایک آسمانی کشش میرے اندر کام کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ وحی الٰہی کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ وہی ایک ہی رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بہ تمام و کمال میری اصلاح کر دی اور مجھ میں ایک ایسی تبدیلی واقع ہو گئی جو انسان کے ہاتھ سے یا انسان کے ارادہ سے نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18صفحہ 615-614)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مذکورہ بالا پہلے رؤیا میں جن مولوی عبد اللہ غزنویؒ کا ذکر فرمایا ہے یہ اپنے وقت کے صلحاء اور اہل اللہ میں سے تھے اور یہ وہی ہیں جن سے حضور علیہ السلام نے اپنے مدعا کے لئے دعا کی درخواست بھی کی تھی اور جب انہو ں نے دعا کی تو بہت جلد الہاماً بتا دیا گیا تھا۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 251)

2۔محبت رسول ﷺ اور درود کی برکت سے الہام الٰہی کے دروازے کھول دیئے گئے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1882ء کے ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ ’’ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہی وہ برکات ہیں جو تو نے محمدکی طرف بھیجی تھی ﷺ۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لو گ خصومت میں ہیں یعنی ارادہ الہیٰ احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیّی کی تعین ظاہر نہیں ہو ئی اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلُ اللّٰہِ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ598 حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

انہی ایام (1882ء) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مبشر رؤیا، خوابیں اور کشف بھی دکھائے گئے جن کا ذکر حضور علیہ السلام نے اپنی کتب میں تحریر فرمایا ہے۔ حضور علیہ السلام اپنی تصنیف ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ (ترجمہ از عربی عبارت) ایک رات میں لکھ رہا تھا کہ اسی اثناء میں مجھے نیند آگئی اور میں سو گیا۔ اس وقت میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا۔ آپ ﷺ کا چہرہ بدر تام کی طرح روشن تھا۔ آپ ﷺ میرے قریب ہو ئے اور میں نے ایسا محسوس کیا کہ آپ ؐ مجھ سے معانقہ کرنا چاہتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ سے نور کی کرنیں نمودار ہو ئیں اور میرے اندر داخل ہو گئیں۔ میں ان انوار کو ظاہری روشنی کی طرح پاتا تھا۔ اور یقینی طور پر سمجھتا تھا کہ میں انہیں محض روحانی آنکھوں سے ہی نہیں بلکہ ظاہری آنکھوں سے بھی دیکھ رہا ہوں۔ اور اس معانقہ کے بعد نہ تومیں نے محسوس کیا کہ آپؐ مجھ سے الگ ہو ئے ہیں اور نہ ہی یہ سمجھا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔ ان دنو ں کے بعد مجھ پر الہام الٰہی کے دروازے کھو ل دئے گئے اور میرے رب نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا۔ یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ ۔ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ ۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا اُنْذِرَ اٰبَائُھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ ۔ قُلْ اِنِّیْ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ ……‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 550)

3۔ ایک ہی رات میں عربی زبان کا چالیس ہزار مادہ سکھا دیا گیا
1893ء میں ہندوستان کے بعض علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی پر اعتراض کیا اور حضور علیہ السلام کو علوم عربیہ سے بے بہرہ قرار دیا۔ مخالف علماء کی اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس معاملہ میں اللہ تعا لیٰ سے دعا کی اور مدد طلب فرمائی۔ اس دعا کو اللہ تعا لیٰ نے اس رنگ میں قبول فرمایا کہ ایک ہی رات میں عربی زبان کے 40 ہزار مادے آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائے گئے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے عربی زبان کا علم دیئے جانے کے بعد حضور علیہ السلام نے عرب و عجم کے علماء کے کبر کو تو ڑنے کے لئے اور اہل عرب پر حجت قائم کرنے کے لئے فصیح و بلیغ عربی زبان میں کم و بیش 24 کتب بھی تحریر فرمائیں جن میں ہزارو ں روپیہ کے انعامی چیلنج بھی دیئے لیکن کسی کو مقابلہ کی جرأت نہ ہو سکی۔

(انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11صفحہ 234)

عربی کتب کی تصنیف و اشاعت کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عربی زبان میں تقریر کرنے کا کبھی موقع نہ آیا تھا۔ اس کا انتظام بھی اللہ تعا لیٰ نے خود ہی فرمایا ۔ وہ اس طرح پر کہ اپریل 1900ء میں عید الاضحیّہ سے ایک روز قبل یعنی یوم عرفہ کے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی حکیم نورالدین ؓ کو ایک رقعہ کے ذریعہ یہ اطلاع دی کہ میں آج کا دن اور رات کا کچھ حصہ دعا میں گزارنا چاہتا ہوں موجودالوقت دوستوں کے نام اور پتے مجھے لکھ کر بھیج دیں۔تا دعا کے وقت وہ مجھے یاد رہیں۔ حضور علیہ السلام کے اس حکم کی تعمیل کی گئی اور ایک بڑی فہرست احباب کے ناموں اور پتوں کی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا دی گئی۔ دوسرے دن عید تھی۔ حضرت مولوی عبد الکریم سیالکوٹیؓ صبح کے وقت حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض کی میں آج خصوصیت سے عرض کرنے آیا ہو ں کہ حضور تقریر ضرور کریں خواہ چند فقرے ہی ہو ں۔ آپؑ نے فرمایاکہ ’’خدا نے مجھے بھی یہی حکم دیا ہے۔ آج صبح کے وقت الہام ہوا ہے کہ مجمع میں عربی میں تقریر کرو۔ تمہیں قوت دی گئی ہے ۔ میں کو ئی اور مجمع سمجھتا تھا ، شاید یہی مجمع ہو اور نیز الہام ہو اہے کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔‘‘

عید کی نماز کے لئے حضورؑ نے مسجد اقصیٰ ہی میں جمع ہونے کا ارشاد فرمایا تھا۔ آٹھ بجے صبح تک مسجد کے اندر کا حصہ اور صحن سارے کا سارا بھر گیا ۔ اندازاً دو سو کے قریب مجمع ہو گا ۔ حضرت اقدسؑ ساڑھے آٹھ بجے تشریف لائے۔ نماز حضرت مولانا عبدالکریم ؓ نے پڑھائی اور خطبہ کے لئے حضرت اقدس ؑ مسجد کے درمیانے دروازے میں کھڑے ہو گئے۔ پہلے خطبہ اردو زبان میں شروع کیا جس میں اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر ایک شاندار تقریر کی۔ ابھی تقریر ختم نہیں ہو ئی تھی کہ حضرت مولوی عبدالکریم ؓ نے عرض کی کہ حضور کچھ جماعت کے اتحاد و اتفاق کے موضوع پر بھی فرمایا جائے۔ چنانچہ حضرت اقدس ؑ نے اس موضوع پر بھی کچھ وعظ فرمایا۔ اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ اب میں الہام الٰہی کے ماتحت عربی زبان میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب میرے نزدیک ہو کر بیٹھ جائیں اور خطبہ کے الفاظ نوٹ کرتے جائیں۔ حضرت اقدس ؑ اس خطبہ کا ذکر کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔‘‘ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی۔ اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی، ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے، کو ئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الہیٰ کے بیان کر سکے۔ جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا ہے، لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دو سو کے قریب ہوگی۔ سبحان اللہ! اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھایا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے۔ اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا۔ ….. یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا۔‘‘

خطبہ کے بعد حضرت مولوی عبد الکریم ؓ نے اس کا اردوترجمہ سنایا۔ اسی دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرط جو ش کے ساتھ سجدہ میں جا پڑے۔ آپ ؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔ سجدہ سے سر اٹھا کر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 375۔376،نشان نمبر 165)

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام اپنے دعویٰ سے پہلے کو ئی بہت بڑے عالم نہ تھے، نہ کسی مدرسہ کے تعلیم یافتہ تھے اور نہ ہی آپؑ کا شمار علماء میں کیا جاتا تھا۔ لیکن جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا انبیاءؑ اور فرستادوں کے ساتھ یہی طریق ہے کہ وہ خود ان کا معّلم ہو کر ان کو خود علوم آسمانی سے بہرہ ور فرماتا ہے جیسا کہ حضرت آدمؑ کو وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآء کُلَّھَا (البقرۃ:32) بیان فرما کر علوم عطا فرمائے گئے۔ حضرت لوطؑ، حضرت یوسف، حضرت موسٰی ؑ، حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے بارہ میں یہی فرمایا کہ وَاٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا اسے ہم نے حکمت و علم عطا کیا تھا۔ اور سورۃ انبیاء میں مذکوردیگر انبیاء کے بارہ میں بھی یہی فرمایا گیا وَ کُلاًّ اٰتَیْنَا حُکْمًا وَّ عِلْمًا اور ہر ایک کو ہم نے حکمت اور علم عطا کئے (الانبیاء:80) اور سب سے بڑھ کر نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعا لیٰ نے فرمایا وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ اور تجھے وہ کچھ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا (النسآء: 114) بعینہ اسی طریق پر حضرت مرزا غلام احمدؑ کوعربی زبان کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس طرح علم دیا جانا آپؑ کے لئے ایک عظیم الشان نشان تھا۔اس کا ذکر کرتے ہو ئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہو ں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 496)

یہ وہ تین خاص واقعات ہیں جو حضرت نبی کریم ﷺ کی اپنی امّت میں ظاہر ہو نے والے مہدی کی ایک علامت کو پورا کرنے والے ہیں۔یہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں ان واقعات کے ظہور نے اَصْدَقُ الصَّادِقِین نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کی بھی تصدیق کردی ہے کہ اَلْمَہْدِیُّ یُصْلِحُہُ اللّٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ وَاحِدَۃٍ کہ مہدیؑ کواللہ تعا لیٰ ایک ہی رات میں صالح بنا دے گا۔

علامات مہدی سے متعلق حکم و عدل حضرت مسیح موعودؑ کی ایک فکر انگیز تحریرسیدنا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اپنی تصنیف ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اور یہ خیال بھی اپنے دلوں میں سے نکال دوکہ جب تک وہ تمام علامتیں مسیح موعود اور مہدی معہود کی (جو صرف ظنّی روایات کی بناء پر تمہارے دلوں میں ہیں) پوری نہ ہو لیں تب تک قبول کرنا ہر گز روا نہیں۔ یہ قول ان یہودیوں کے قول سے مشابہ ہے جنہوں نے نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو قبول کیا اور نہ ہمارے نبی ﷺ کو۔ کیونکہ جو کچھ اپنی روایتوں کی بناء پر نشانیاں قرار دی تھیں وہ سب پوری نہ ہوئیں۔ پس کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تمہاری قراردادہ علامتیں پوری ہو جائیں گی۔ نہیں بلکہ ایسی پیشگوئیوں میں ایک امتحان بھی مخفی ہوتا ہے اور خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کے نشانوں کو عزت کی نگہ سے دیکھتے ہو یا نہیں۔ تمام روایات کب سچی ہو سکتی ہیں۔ بہت سی جھوٹی باتیں مل جاتی ہیں ان پر پورا تکیہ کرنا خطرناک امر ہے۔

یہ توبتلاؤ کہ کس نبی کی نسبت مقرر کردہ علامات پوری ہو گئیں جو پہلی قوم نے مقرر کر رکھی تھیں۔ پس خدا سے ڈرو اَور پہلے بدقسمت منکروں کی طرح خدا کے مرسل کو اس بناء پر ردّ مت کرو کہ تم نے اس میں وہ تمام مقرر کردہ علامتیں نہ پائیں اور یقیناً یاد رکھو کہ یہ بات کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کہ ان کی مقرر کردہ علامتیں آنے والے نبی میں پائی جائیں اسی لئے انہوں نے ٹھوکریں کھائیں اور جہنم میں پڑے۔ ورنہ تمام علامتیں پا کر پھر انکار کرنا انسان کی فطرت میں داخل نہیں۔ کو ئی بات ٹھوکر کھا نے کی ہوتی ہے جس سے بدقسمت انسان ٹھوکر کھاتا ہے۔ یہود کا گمان تھا کہ مسیح آنے والا ایک بادشاہ کی صورت میں آئے گا اور اس سے پہلے الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہو گا۔ پس اسی وجہ سے آج تک انہوں نے حضرت عیسٰی ؑ کو قبول نہیں کیا کیونکہ نہ تو ان سے پہلے الیاس نبی آسمان سے اُترا اور نہ حضرت عیسٰی ؑ بادشاہ ہوئے، کوشش تو کی گئی مگر اس میں ناکام رہے۔ اور پھر ہمارے نبی ﷺ کی نسبت یہودیو ں کے عالمو ں بلکہ ان کے تمام نبیوں نے بھی یہی سمجھ رکھا تھا کہ وہ آخرالزّمان نبی ﷺ بنی اسرائیل میں سے پیدا ہو گا۔ مگر ایسا ظہور میں نہ آیا بلکہ وہ نبی بنی اسماعیل میں سے پیدا ہو گیا۔ تب لا کھوں یہودی دولت قبول سے محروم رہ گئے۔ اگر خدا چا ہتا تو ایسی صراحت سے علامتیں بیان کر دیتا کہ یہودی ٹھوکر نہ کھاتے۔ مگر جبکہ آنحضرتﷺ کے لئے یہ صراحت نہیں کی گئی تو پھر اَور کس کے لیے کی جاتی۔ پس یاد رکھو کہ ایسی پیشگوئیوں میں امتحان بھی مقصود ہو تا ہے۔ جو لوگ عقل سلیم رکھتے ہیں وہ اس امتحان کے وقت تباہ نہیں ہو تے اور روایات کو صرف ایک ظنی ذخیرہ خیال کر لیتے ہیں اور یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اگر کوئی روایت یا حدیث صحیح بھی ہو تب بھی اس کے معنی کرنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ پس وہ تمام مدار شناخت کا خدا کی نصرت اور خدا کی تائید اور خدا کے نشانوں اور شہادتوں کو قرار دیتے ہیں اور جس قدر علامتیں روایتوں کے ذریعہ سے میسر آگئی ہیں ان کو کافی سمجھتے ہیں اور باقی روایتو ں کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ یہی طریق سعید فطرت یہودیوں نے اختیار کیا تھا جو مسلمان ہو گئے تھےاور یہی طریق ہمیشہ سے راستبازوں کا چلا آیا ہے اور اگر راستبازوں اور خدا ترسوں کا یہ طریق نہ ہوتا تو ایک نفس بھی یہودیوں اور عیسائیوں میں سے آنحضرتﷺ پر ایمان نہ لا سکتا اور نہ کوئی یہودی حضرت عیسٰیؑ کو قبول کر سکتا۔ بہت سے یہودی اس ملک میں رہتے ہیں۔ ان کو پوچھ کر دیکھ لو کہ کیوں وہ لوگ حضرت عیسٰی ؑ اور آنحضرت ﷺ پر ایمان نہیں لائے آخر وہ دیوانہ نہیں ہیں کوئی عذر تو ان کے پاس ہے۔ پس تم یاد رکھو کہ ان کی طرف سے تم یہی جواب پاؤ گے کہ وہ علامتیں جو ان کی احادیث اور روایتوں میں لکھی تھیں پوری نہیں ہو ئیں اور اس طرح پر وہ اس ضد پر قائم رہ کر واصل جہنم ہو گئے اور ہو تے جاتے ہیں۔ اب جبکہ ثابت ہوا کہ تمام قرار دادہ علامتوں کا پورا ہو نا شرطِ ایمان قرار دینا جہنم کی راہ ہے جس کی وجہ سے کئی لاکھ یہودی واصل جہنم ہو چکے تو اس راہ کو تم کیوں اختیار کرتے ہو۔ مومن کو چاہئے کہ دوسرے کے حالات سے عبرت پکڑے۔ کیا تم تعجب کرتے ہو کہ جس امتحان میں خدا تعالیٰ نے یہودیوں کو ڈالا تھا وہی امتحان تمہارا بھی کیا گیا ہو۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے الٓمٓ۔ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ (العنکبوت2۔3) یقینا ًسمجھو کہ یہ کاروبار خدا کا ہے نہ انسان کا۔ پس قبول کر نے میں سابقین میں داخل ہو جاؤ۔ اور خدا سے مت لڑو کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اور اگر تم تقویٰ کی نظر سے دیکھو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ جس قدر تم نے مخالف روایات کو مضبوط پکڑ لیا ہے عقل اور انصاف تم پر یہ واجب نہیں کرتا کہ تم ضرور ایسا کرو۔ کیونکہ وہ سب مجموعہِ ظنّیات ہے کہ جو احتمالِ کذّب بھی رکھتا ہے اور قابلِ تاویل بھی ہے۔ پس اپنی جانوں پر رحم کرو یقین کے پہلو کو کیو ں چھوڑتے ہو۔ کیا ظنّ یقین کے ساتھ برابر ہو سکتا ہے۔ کیا ممکن نہیں کہ وہ روایتیں صحیح نہ ہو ں جن کو تم صحیح سمجھتے ہو یا اَور معنی ہوں۔ کیا وہ بلا جو یہودیوں کو تمام علامتوں پر ضد کرنے سے پیش آئی وہ تمہیں پیش نہیں آسکتی سو تم ان کی لغزشو ں سے فائدہ اٹھا لو۔‘‘

(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 599۔601)

اپنے مقام سے غافل لوگوں کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔’’وَلَیْسَ اَحَدٌ اَشْقٰی مِنَ الَّذِیْ یَجْہَلُ مَقَامِیْ‘‘ اس شخص سے زیادہ بد بخت کوئی نہیں جو میرے مقام سے بے خبر ہے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، عربی حصہ رو حانی خزائن جلد 20صفحہ91 )

حضور علیہ السلام اپنے ایک فارسی شعر میں فرماتے ہیں۔

امروز قوم من نشناسد مقام من
روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم

’’آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کے لو گ رویا کریں گے۔‘‘

(قمر داؤد کھوکھر۔آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر39، 25 مئی 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 مئی 2020