• 19 مئی, 2024

قبولیت (دعا) کے واسطے اضطراب شرط ہے

بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا۔ یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔

قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (النمل: 63)

(ملفوظات جلد10 صفحہ137 ایڈیشن 1984ء)

• یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بَک بَک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہے

جو منگے سو مررہے۔ مرے سو منگن جا

دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے۔ وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

(ملفوظات جلد10 صفحہ62 ایڈیشن 1984ء)

• یہ بھي ياد رکھو کہ خداتعاليٰ کي نظرجذر قلب تک پہنچتي ہے۔ پس وہ زباني باتوں سے خوش نہيں ہوتا۔ زبان سے کلمہ پڑھنا يا استغفار کرنا انسان کو کيا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جب وہ دل و جان سے کلمہ يا استغفار نہ پڑھے۔ بعض لوگ زبان سے استغفر اللہ کرتے جاتے ہيں مگر نہيں سمجھتے کہ اس سے کيا مراد ہے۔ مطلب تو يہ ہے کہ پچھلے گناہوں کي معافي خلوص دل سے چاہي جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہي اس کے فضل و امداد کي درخواست کي جائے۔ اگر اس حقيقت کے ساتھ استغفار نہيں ہے تو وہ استغفار کسي کام کا نہيں۔ انسان کي خوبي اسي ميں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور ميں جھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے۔ عذاب آنے پر گڑ گڑانا اور وَقِنَا وَقِنَا پکارنا تو سب قوموں ميں يکساں ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ357-358 ایڈیشن 1984ء)

پچھلا پڑھیں

خدمت دین میں مالی قربانی کی اہمیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2022