• 6 مئی, 2024

’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
گزشتہ خطبہ جمعہ میں مَیں نے مہمان نوازی کے حوالے سے ایک میزبان کی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی ایک جوش اور جذبے سے خدمت کریں۔ آج مختصراً مَیں مہمانوں کو، شاملینِ جلسہ کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں تا کہ جلسے کے ماحول کے تقدس کا اُنہیں بھی خیال رہے۔ اُنہیں بھی پتہ ہو کہ یہاں شامل ہو کر اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور اسی طرح انتظامیہ سے تعاون کی طرف بھی اُن کی توجہ رہے۔ دو ذمہ داریاں ہیں۔ ایک یہ کہ جس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اُس کو پورا کرنا۔ روحانی، علمی اور تربیتی لحاظ سے اپنے آپ کو بہتر کرنا۔ دوسرے جو انتظامیہ ہے اُس سے تعاون کرنا۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ ہم نے صرف اپنے حقوق لینے کی ہی خواہش نہیں رکھنی بلکہ دوسرے کے حقوق بھی دینے ہیں اور اپنے ذمّہ جو فرائض ہیں اُنہیں بھی ادا کرنا ہے۔ اور مہمانوں کی جو ذمہ داریاں ہیں اُنہیں بھی ادا کرنا ہے۔

سب سے بڑی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے جو اس بات پر کرنی ہے کہ اُس نے ہمارے لئے، جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے، اس جگہ اور ان حالات میں جہاں عام حالات میں کوئی سہولت بھی نہیں ہوتی سہولت مہیا فرمائی، اس کا انتظام فرمایا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کے بعد اُن تمام کارکنان کے شکر گزار ہوں اور اُن کے لئے دعائیں کریں جو دن رات کام کر کے آپ کو سہولت مہیا کرنے کے لئے محنت کرتے رہے اور اپنی اَنتھک محنت اور کوشش سے آپ لوگوں کے لئے آرام پہنچانے کے یہاں سامان کئے۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ایک حدیث کے حوالے سے کارکنان کو کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور اس کی بہت ہدایت فرمائی اور اسے بڑی نیکی قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء حدیث نمبر 6690ء)

پس یہ ہدایت ہر احمدی کے لئے ہے۔ ہر آنے والے مہمان اور جلسے میں شامل ہونے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ اس بات کو اپنے پلّے باندھے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ اگر کارکنوں سے کوئی غلطی ہو جائے تو صَرفِ نظر سے کام لیں اور عارضی انتظام کی مجبوری کو سمجھیں۔ ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کا یہاں آنا نیکیوں کے حصول کے لئے ہے اور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ اسی طرح آپس میں مہمان جو ہیں، جو یہاں آنے والے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کا احترام کریں۔ بعض دفعہ ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپس کی رنجشیں، جو پرانی رنجشیں ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کو یہاں آمنے سامنے دیکھ کر بھڑک جاتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی پیدا ہوتے ہیں جو ایک احمدی ماحول میں نہیں ہونے چاہئیں کہ جلسوں پہ آپس میں دو گروہوں کی، دو لوگوں کی تُو تکار بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ ہاتھا پائی ہو جاتی ہے، تو ایسے لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے ماحول میں آ کر پھر ایسی حرکتیں کریں۔ ایسے لوگ اس پاکیزہ ماحول کو گندہ کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ پس بہتر ہے کہ ایسے لوگ جن کے دل ایک دوسرے کے لئے کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے ہیں جلسے پر نہ آئیں اور جو آئے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کے دل میں اگر ایسی رنجش ہے تو آج یہ عہد کرے کہ اس کو دُور کر دے گا۔ اس ماحول میں جو نیکیاں پھیلانے کا ماحول ہے، جو اپنی حالتوں کو بدلنے کا ماحول ہے، اس میں اگر اپنے دلوں کو بغض اور کینوں سے بھر کر رکھنا ہے تو یہاں آنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہاں آنے کا مقصد تو نیکیاں کرنا ہے۔ یہاں آنے والے کو اُس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواہش کی ہے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں۔ صرف اور صرف ربّانی باتوں کا سننا اپنا مقصد رکھیں۔ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں خاص طور پر سب کے پیشِ نظر ہو۔ پھر جلسہ کی کارروائی کو سنجیدگی سے اور غور سے سننا بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے۔

(خطبہ جمعہ 30؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خدمت دین میں مالی قربانی کی اہمیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2022