• 28 اپریل, 2024

حیاتِ نورالدینؓ طبیب بے مثال (قسط 9) (حصہ دوم)

حیاتِ نورالدینؓ
طبیب بے مثال
قسط9 (حصہ دوم)

غریب وامیر کے لئے برابری کی سطح پر خدمت

ایک دفعہ آدھی رات کے وقت مہاراجہ کشمیر کی طبیعت کی خراب ہوگئی تو مہاراجہ نے آپ کے پاس اپنا ملازم بھیجا کہ جلدی آئیں۔ اسی وقت ایک مہترانی بھی آپ کی خدمت میں آئی کی میرے خاوندکے پیٹ میں بہت درد ہے، اور بڑی لجاجت سے منتیں کیں۔ اور رونے لگی۔ آپ نے مہاراجہ کے ملازم سے کہا کہ تم جاؤ میں اس کے شوہر کو دیکھ کر مہاراجہ کی خدمت میں آتا ہوں (۔ملازم نے جا کر آپ کی شکایت کی کہ مہاراجہ سے پہلے آپ نے اس کو دیکھا ہے)۔ آپ نے اس کا علاج کیا وہ ٹھیک ہوگیا اور دعائیں دیں اور کہا کہ پرمیشر تینوں سکھی رکھے۔ تے اونہوں وی جو تینوں ایتھے لیایا اے۔

آپ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے دل سے یہ دعا نکلی ہے ضرور قبول ہوگی۔ مہاراج ضرور اچھے ہوگئے ہونگے۔ چنانچہ آپ جب مہاراجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ آپ کے انتظار میں تھا۔ آپ نے ساری بات اس کو سنائی۔ وہ کہنے لگا کہ ایسا ہی ہے میں اب بہتر ہوں پھر کہنے لگا کہ طبیب کو ایسا ہی ہونا چاہئے اور دو سونے کی چوڑیاں آپ کو تحفہ میں دیں۔ آپ نے اس ملازم کو بلوایا اور فرمایا کہ اس میں تمہارا بھی حصہ ہے اگر تم مہاراج کے پاس میری شکایت نہ کرتے تو مجھے یہ انعام نہ ملتا۔

(حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ434۔435)

غرباء کو مفت دوا دینا

بھیرہ میں آپ نے خدمت خلق کے جذبہ کے تحت مطب بھی جاری کر دیا۔ مطب چلنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ آپ مریضوں سے مانگتے نہیں تھے اور غرباءکو دوا مفت دیتے تھے (اور یہی دستور آپ کا آخر دم تک رہا)۔

(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ77)

مریضوں سے مناسب یا کم فیس لینا تو کجا آپ خود فرماتے ہیں کہ مخلوق پر کبھی بھروسا نہیں کیا اور ارادہ بھی نہ کیا کہ کسی کو قیمتاً دوائی دوں بلکہ یقین کامل تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص کارخانہ سے رزق بھیجے گا۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ95)

طبابت بطور خدمت خلق نہ کہ بطور ذریعہ آمدن

حضرت خواجہ غلام فرید سجادہ نشین چاچڑاں شریف کے مشورہ پر نواب بہاولپور نے ان کو اپنے علاج کیلئے مدعو کیا۔ شفایاب ہونے پر ان کو خواہش ہوئی کہ حکیم نورالدین صاحب ریاست بہاولپور ہی میں بس جائیں تاکہ اور لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ نواب صاحب نے چاہا کہ ان کو ہزاروں ایکڑ کی ایک جاگیر دے کر فکرمعاش سے آزاد کردیں۔ آپ نے کہا: اب تو آپ اپنی ضرورت کیلئے چل کر بھی میرے پاس آتے ہیں اور جب میں ریاست کا ایک ذیلی جاگیردار ہوا تو حاضری دینا میرا فرض ہوگا … میں سرمایہ کے بدلے وقار کا سودا کرنے سے معذور ہوں۔

(بیاض نورالدین صفحہ20)

طبی کتب کا درس

قادیان میں ابتدائے ہجرت سے لے کر تا وصال حضرت مسیحِ موعودؑ قربا 15سال آپ صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے تھے۔ اس کے بعد طالب علموں کو درس حدیث وطبی کتب دیتے تھے۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ309)

قادیان میں آپؓ کی طبی خدمت

آپ نے قادیان میں اپنے خرچ سے ایک شفا خانہ کھول رکھا تھا۔ جنوری 1900ء کے الحکم میں گزشتہ سال کی رپورٹ کچھ یوں درج ہے۔

روزانہ اوسط مریضوں کی 20سے لے کر 50 تک رہی۔ چنانچہ سال میں جن لوگوں نے جسمانی فیض حاصل کیا ان کی تعداد قریباً 20 ہزار ہے۔

1901ءکاتذکرہ کرتے ہوئے اخبار الحکم 20 فروری 1902ء میں لکھا ہے

سال تمام میں قریبا ً40 ہزار انسان کو حضرت حکیم الامت کے شفاخانہ سے فائدہ پہنچا۔

دوا کے ساتھ دعا پر کامل یقین

حضرت چوہدری حاکم دین صاحب کی بیوی کو پہلا بچہ ہونے والا تھا اور سخت تکلیف تھی۔ آپ رات کو گیارہ بجے حضرت مولوی صاحب کے گھر گئے۔ چوکیدار سے پوچھا کہ کیا میں حضرت مولوی صاحب سے مل سکتا ہوں۔ اس نے نفی میں جواب دیا لیکن اندرون خانہ میں حضرت مولوی صاحب نے آواز سن لی اور پوچھا کون ہے۔ چوکیدار نے عرض کی چوہدری حاکم دین ملازم بورڈنگ ہیں۔ فرمایا آنے دو۔آپ اندر چلے گئے اور زچگی کی تکلیف کا ذکر کیا۔حضرت مولوی صاحب اندر جاکر ایک کھجور لے آئے اس پر کچھ پڑھ کر پھونکا اور چوہدری صاحب کو دے کر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی کو کھلا دیں اور جب بچہ پیدا ہوجائے تو مجھے اطلاع کر دیں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بچی پیدا ہوئی۔ چوہدری صاحب نے سمجھا کہ اب دوبارہ حضرت مولوی صاحب کو جاکر جگانا مناسب نہیں اس لئے وہ سو رہے۔ صبح وہ حاضر ہوئے۔ حضرت مولوی صاحب اس وقت وضو کر رہے تھے۔ چوہدری صاحب نے عرض کی کھجور کھلانے کے بعد بچی پیدا ہوگئی تھی۔ آپ نے فرمایا بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی آرام سے سو رہے، اگر مجھے بھی اطلاع کردیتے تو میں بھی آرام سے سو رہتا میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا ررہا۔

(رفقاء احمد جلد ہشتم صفحہ76)

آپریشن خود کرنا

ایک غریب ملازم نے ایک بیماری بیان کی۔ تو اسے ہندوستان کے مشہور اطباء اور ڈاکٹروں کے نام ذاتی خط لکھ کر دئے کہ وہ اُن کے پاس جاکر اپنی بیماری کا حال بتائے، اُن سے نسخہ لکھوائے اور جو فیس وہ طلب کریں وہ آپؓ کی طرف سے ادا کر دے۔ یہ مریض آپؓ کے مصارف پر چھ ماہ میں پچاس حکیموں اور ڈاکٹروں کے مشورے لے کر واپس آیا۔ امرتسر کے انگریز سول سرجن کرنل سمتھ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے آپؓ نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ کرنل سمتھ کے آپریشن سے جب فائدہ نہ ہوا تو ایک دیہاتی سنار سے چاندی کے اوزار بنوائے اور باقی ماندہ آپریشن خود کیا۔ مریض تندرست ہو گیا۔ اس مریض کی روداد میں دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ اسے پورا ہندوستان گھمایا۔ ہزاروں روپیہ اپنی گرہ سے خرچ کیا تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ دوسرے طبیب اس بیماری کا کیا علاج کرتے ہیں؟ پھر آپریشن کے دوران اوزاروں کا صاف ہونا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ ہسپتالوں میں اس غرض کے لئے لاکھوں روپے کے آلات نصب کئے جاتے ہیں لیکن چاندی میں یہ منفرد صلاحیت ہے کہ وہ جراثیم کو خود ہلاک کر سکتی ہے۔ اسی لئے چاندی کے اوزار سے لگایا گیا زخم خراب نہیں ہوتا۔

(بیاض نورالدین صفحہ19)

طبیب شاہی وسادگی

حضورؓ فرماتے ہیں۔
میں کشمیر میں تھا ایک روز دربار کو جا رہا تھا۔ یار محمد خان ایک شخص میری اردلی میں تھا۔ اس نے راستہ میں مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس جو یہ پشمینہ کی چادر ہے یہ ایسی ہے کہ میں اس کو اوڑھ کر آپ کی اردلی میں بھی نہیں چل سکتا۔ میں نے اس سے کہا کہ تجھ کو اگر بری معلوم ہوتی ہے تو میرے خدا کو تجھ سے بھی زیادہ میرا خیال ہے۔ میں جب دربار میں گیا تو وہاں مہاراجہ نے کہا کہ آپ نے ہیضہ کی وبا میں بڑی کوشش کی ہے آپ کو خلعت ملنا چاہئے۔ چنانچہ ایک قیمتی خلعت دیا۔ اس میں جو چادر تھی وہ نہایت ہی قیمتی تھی۔ میں نے یار محمد خان سے کہا کہ دیکھو ہمارے خداتعالیٰ کو ہمارا کیسا خیال ہے۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ250)

طبابت میں محض خدا کی ذات پر کامل یقین

آپؓ لکھتے ہیں کہ میری ایک بہن تھی۔ ان کا ایک لڑکا تھا۔ وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہو ا اور مرگیا۔ اس کے چند روزبعدمَیں گیا۔ میرے ہاتھ سے انہوں نے کسی پیچش کے مریض کو اچھا ہوتے ہوئے دیکھا۔ مجھ سے فرمانے لگیں کہ بھائی اگر تم آ جاتے تو میرا لڑکا بچ ہی جاتا۔ مَیں نے ان سے کہا کہ تمہارے ایک لڑکا ہو گا اور میرے سامنے پیچش کے مرض میں مبتلا ہو کر مرے گا۔ چنانچہ وہ حاملہ ہو ئیں اور ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا۔ پھر جب وہ پیچش کے مرض میں مبتلا ہوا، ان کو میری بات یادآئی۔ مجھ سے کہنے لگیں کہ اچھا دعا ہی کرو۔ مَیں نے کہا خداتعالیٰ آپ کو اس کے عوض میں ایک اور لڑکا دے گا لیکن اس کو تو اب جانے ہی دو۔ چنانچہ وہ لڑکا فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جو زندہ رہا او ر اب تک زندہ اور برسرروزگار ہے۔ یہ الٰہی غیرت تھی۔

(مرقاۃ الیقین صفحہ202 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

آپ نے بے شمار نادر طبی نسخے اطباء کو دے کر دنیا پر بہت سا احسان کیا ہے آپ کے چند مشہور مجرب نسخے در ذیل ہیں

نسخہ حب اٹھرا۔، اکسیر جگر۔ صند ل پاؤڈر۔حب سعال۔نور نظر۔ اکسیر شافی۔وغیرہ

اکسیر شافی اور مے اینڈ بیکر کمپنی کی دوا

تبخیر معدہ کے لئے آپؓ نے دافع تعفن اور کاسر الریاح ادویہ کی اکسیر شافی ترتیب دی۔ آپ کی وفات کے بعد انگلستان کی مے اینڈ بیکر کمپنی نے ہیضہ اور آنتوں کی سوزش کے لئے ایک دوائی

Essential oil mixture

کا نام سے تیار کی جسے عالمگیر شہرت ملی اور حسن اتفاق دیکھیں کہ اس میں حرف بحرف وہی اجزاء شامل تھے جو آپؓ کی اکسیرِ شافی میں موجود ہیں۔

(بیاض نورالدین صفحہ24)

غیر معمولی شہرت

آپ کی خوبیوں اور کمالات کے نہ صرف اپنے قائل تھے بلکہ غیر بھی اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ چنانچہ شفاء الملک جناب حکیم محمد حسین قرشی اپنی مرتبہ ’’بیاض خاص‘‘ میں لکھتے ہیں
حکیم (نورالدین) صاحب موصوف دور گزشتہ کے ان تین چار طبیبوں میں سے ہیں جن کا اسم گرامی ہندوستان کے طول و عرض میں غیرمعمولی شہرت حاصل کئے ہوئے تھا۔

(حیات نورمصنفہ شیخ عبدالقادر صفحہ770)

طبیب بے مثال

اخبار ’’بھارت‘‘ نے 20مارچ 1914ء کی اشاعت میں آپ کو ’’طبیب بے مثال‘‘ قرار دیا۔

خصوصیت سے قابل ذکر باتیں

اخبار ’’طبیب‘‘ دہلی یوں رقمطراز ہے

افسوس کہ ہندوستان کے ایک مشہور معروف طبیب مولوی حاجی حکیم نورالدین صاحب جو علوم دینیہ کے بھی متبحر عالم باعمل تھے اور جماعت احمدیہ کے محترم پیشوا۔ کچھ عرصہ عوارض ضعف پیری میں مبتلا رہ کر آخر جمعہ گزشتہ کو قریباً اسّی سال کی عمر پا کر رحلت فرما گئے۔ حکیم صاحب مغفور بلالحاظ احمدی وغیراحمدی یا مسلم یا غیر مسلم سب کے ساتھ شفقت علیٰ خلق اللہ کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔ آپ کے طریق علاج میں یہ چند باتیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں:

  1. یارواغیار، مومن و کافر سب کو ایک نظر دیکھنا
  2. طب یونانی وویدک کے علاوہ مناسب موقعہ پر ڈاکٹری مجربات سے بھی ابنائے ملک و ملت کو مستفید فرمانا،
  3. بعض خطرناک امراض کا علاج قرآن شریف سے استخراج کرنا
  4. دوا کے ساتھ دعا بھی،
  5. علاج معالجہ کے معاملہ میں کسی کی دنیوی وجاہت سے مرعوب نہ ہونا،
  6. مریضوں سے مطلق طمع نہ رکھنا اور آپ کا اعلیٰ درجہ توکل و استغناء
  7. نادار و مستحق مریضوں کا نہ صرف علاج مفت کرنا بلکہ اپنی گرہ سے بھی ان کی دستگیری و پرورش کرنا خصوصاً طلباء قرآن و حدیث و طب کی۔

(طبیب دہلی 23مارچ 1914ء بحوالہ حیات نور صفحہ766-767)

علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ نے لکھا

قطع نظر اپنے مختص الفرقہ بعض خاص معتقدات کے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حکیم صاحب مرحوم ایک نہایت بلند پایہ عالم عامل اور علوم دینیہ کے بہت بڑے خادم تھے۔ اس پیرانہ سالی اور ضعف و مرض کی حالت میں بھی آپ کا بیشتر وقت تعلیم و تعلم میں صرف ہوتا تھا اور ایک طبیب حاذق ہونے کی حیثیت سے بھی آپ خلق اللہ کی بہت خدمت بجا لاتے تھے۔ اس لحاظ سے مرحوم کا انتقال واقعی سخت رنج و ملال کے قابل ہے۔

(حیات نور صفحہ766)

اللہ تعالیٰ حضرت حکیم الامۃ مولانا نورالدین صاحبؓ کی ذات بابرکات پر اپنی بے انتہاء رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

(مریم رحمٰن)

پچھلا پڑھیں

خدمت دین میں مالی قربانی کی اہمیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2022