• 5 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 20)

قرآنی انبیاء
حضرت یحییٰؑ
قسط 20

ایک عظیم نبی، جس کے ساتھ حضرت مسیح موعود ؑ کو نسبت دی گئی جوغربت کے حالات میں رہا مگر نیکیوں میں جلدی کرنا اس کا شیوہ رہا، اور جس نے ایمان کے ساتھ لمبی زندگی پائی

’’حضرت اقدس (مسیح موعود علیہ السلام) نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا: ’’يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَالْخَيْر كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ۔ اور فرمایا کہ: ’’اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئی ہے کیونکہ حضرت یحییٰ ؑ کویہود کی ان اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ جو کتاب اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں‘‘

(ملفوظات، جلد دوم صفحہ203)

حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ: قصہ لکھا ہے کہ یحییٰ کو آپ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرے لئے دعا کرو۔ آپ نے فرمایا کہ تم مجھ سے اچھے ہو۔ مسیح نے کہا کہ میں نے سلامتی کا دعویٰ تو آپ کیا ہے وَالسَّلَامُ عَلَيَّ (مریم: 34) مگر تیرے لئے خدا نے سَلَامٌ عَلَيْهِ (مریم: 16) فرمایا ہے۔ اس لئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ یہ صوفیاء کا ذوقی لطیفہ ہے‘‘

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ65)

حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ: صابی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عظیم الشان مانتے ہیں اور حضرت یحییٰ کو بھی‘‘۔

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ117)

حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے زیر آیت: ’’یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ‘‘ (الانعام: 131)، کی تفسیر میں ’’رُسُلٌ مِّنۡکُمْ‘‘، کی شرح میں تحریر فرمایا ہے: ’’تم ہی میں سے رسول ہوئے۔ انبیاء امراء بھی ہوئے ہیں جیسے سلیمان علیہ السلام اور غرباء بھی جیسے یحییٰ علیہ السلام‘‘

(حقائق الفرقان جلد2 صفحہ184)

اورحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت یحییٰ علیہ السلام درمیانی نبیوں میں سے ایک نبی ہیں جن کی حیثیت ایک مجدد کی سی تھی۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ232)

اس کا نام: اسمہ یحییٰ

قرآن کریم میں ان کا نام یحییٰ آتا ہے لیکن اردو بائبل میں یحییٰ کی بجائے یوحنا نام لکھا ہے۔ عبرانی اور یونانی زبان میں انہیں John اور Jhanan بھی کہتے ہیں انگریزی بائبلوں میں بھی ان کا نام John لکھا ہوا ملتاہے۔

یحییٰ لفظ کے معنے زندہ رہنے والا کے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے اس نام کے بارے میں بیان فرمایا ہے کہ: یحییٰ کے نام میں اشارہ ہے کہ ’’أحْيَاهُ اللّٰهُ بِالْاِ يْمَانِ ایمان کے ساتھ لمبی زندگی پائے۔

(حقائق الفرقان جلد3 صفحہ59)

اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس نام کے بارے میں دو باتیں بیان فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں: یحییٰ کے معنے ہیں وہ شخص جو زندہ رہتا ہے پس ’’اِسْمُهٗ یَحۡیٰی‘‘ کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ بچہ زندہ رہے گا تم اس کا نام یحییٰ رکھنا یا اس کی صفت یحییٰ ہوگی اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہوگا۔ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ شہداء ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس لحاظ سے یحییٰ نام میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوگا اور ایسے اعلیٰ درجہ کا روحانی مقام رکھے گا۔ کہ دنیا میں اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ128)

(دوسرے یہ کہ) مسیح جیسا نبی کبھی مر نہیں سکتا اور مسیح اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ ایک نہ مرنے والے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا ارہاص تھا اور یوحنا (یحییٰ) اس لئے نہیں مر سکتا کہ وہ مسیح کا ارہاص تھا۔ جو خود ایک نہ مرنے والے نبی کا ارہاص تھا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اب تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء گزرے ہیں۔ مگر ہمیں تو سو نبیوں کا بھی علم نہیں۔ باقی سب مر گئے ہیں۔پس نبی کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے۔ بعض زندہ رہتے ہیں اور بعض مر جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ ؑ ان نبیوں میں سے ہیں جو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے گئے ہیں کیونکہ ان کی نبوت مسیح ؑ کے ساتھ وابستہ تھی اور مسیح ؑ اس لئے نہیں مر سکتے کہ ان کی نبوت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ تھی جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والے نبی ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ128-129)

قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ایک کامل دعا مانگی جسے خدائے کریم نے قبولیت سے نوازتے ہوئے فرمایا: اے زکریا! ہم تمہیں ایک بچہ کی بشارت دیتے ہیں جو جوانی کی عمر تک پہنچے گا۔ اس کا نام (خدا کی طرف سے) یحییٰ ہوگا۔ ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس نام سے یاد نہیں کیا۔ (مریم: 8)۔ عموماً پیدائش سے پہلے نام نہیں رکھا جاتا بلکہ پیدائش کے بعد نام رکھا جاتا ہے۔ پس اسمہ یحییٰ کے معنے یہ ہیں کہ جب وہ بچہ جس کی خوشخبری دی جا رہی ہے پیدا ہو تو تم اس کا نام یحییٰ رکھنا یعنی اللہ تعالیٰ نےاس بچےکے لئے یہ نام پسند فرمایا ہے۔

لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا کے الفاظ
کے استعمال میں حکمت

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’قرآن شریف اپنے زبردست ثبوتوں کے ساتھ ہمارے دعوے کا مصدق اور ہمارے مخالفین کے اوہام باطلہ کی بیخ کنی کر رہا ہے اور وہ گزشتہ نبیوں کے واپس دنیا میں آنے کا دروازہ بند کرتا ہے اور بنی اسرائیل کے مثیلوں کے آنے کا دروازہ کھولتا ہے۔ اسی نے یہ دعا تعلیم فرمائی ہے: ’’اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ‘‘ (الفاتحہ: 6-7) اس دعا کا ماحصل کیا ہے یہی تو ہے کہ ہمیں اے ہمارے خدا نبیوں اور رسولوں کا مثیل بنا اور پھر حضرت یحییٰ کے حق میں فرماتا ہے: ’’لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا‘‘۔ (مریم: 8)۔ یعنی یحییٰ سے پہلے ہم نے کوئی اس کا مثیل دنیا میں نہیں بھیجا جس کو باعتبار ان صفات کےیحییٰ کہا جائے۔ یہ آیت ہماری تصدیقِ بیان کے لیے اشارۃُ النص ہے کیونکہ خدا ئے تعالیٰ نے اس جگہ آیت موصوفہ میں قبل کی شرط لگائی۔ بعد کی نہیں لگائی۔ تا معلوم ہو کہ بعد میں اسرائیلی نبیوں کے ہم ناموں کے آنے کا دروازہ کھلا ہے۔ جن کا نام خدائے تعالیٰ کے نزدیک وہی ہوگا جو ان نبیوں کا نام ہوگا جن کے وہ مثیل ہیں۔ یعنی جو مثیلِ موسیٰ ہے اس کا نام موسیٰ ہوگا اور جو مثیلِ عیسیٰ ہے اس کا نام عیسیٰ یا ابنِ مریم ہو گا۔ اور خدائے تعالیٰ نے اس آیت میں ’’سَمِي‘‘ کہا مثیل نہیں کہا متا معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ جو شخص کسی اسرائیلی نبی کا مثیل بن کر آئے گا وہ مثیل کے نام سے نہیں پکارا جائے گا بوجہ انطباق کلی اسی نام سے پکارا جائے گا جس نبی کا وہ مثیل بن کر آئے گا‘‘

(ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد3 صفحہ389-390)

مفسرین کے نزدیک اس آیت کے معنے
اور مستشرقین کے اعتراض

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں دو باتیں بیان فرمائی ہیں۔ فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ کے ان الفاظ: ’’لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا‘‘ کا بعض مفسرین نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام سے پہلے دنیا میں کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ حالانکہ یہ درست بات نہیں ہے۔ بائبل میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر آتا ہے جن کا نام یوحنا (یعنی یحییٰ) تھا۔ چنانچہ یہودیوں کے ایک سردار کا نام یوحناہ لکھا ہے۔(نمبر2 سلاطین باب25 آیت23)۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک پڑپوتے کا نام یوحنا تھا۔ (نمبر1 تواریخ باب3 آیت15)۔ اسی طرح عزرا نبی کے ساتھ جو لوگ ایران سے یروشلم بنانے کے لئے آئے ان میں سے ایک شخص کا نام یوحنا تھا۔ (عزرا باب8 آیت12)۔ پس مفسرین کا یہ خیال کہ اس نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گذرا یہ واقعات کے خلاف ہے۔

اسی بات پرجو بعض مسلمان مفسرین نے بیان کی بناء کرتے ہوئے بعض عیسائی مفسرین قرآن نے اعتراض اٹھاتے ہوئے بائبل سے یوحنا کے ہم نام پیش کرکے یہ کہنا شروع کر دیا کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) کسی سے بائبل کی تھوڑی سی باتیں سنی ہوئی تھیں ان سے دھوکاکھا کر آپ نے یہ خیال کر لیا کہ یحییٰ نام کا پہلے کوئی شخص نہیں گزرا۔

حالانکہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ ہی نہیں کیا کہ اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں تھا۔ قرآن کریم کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ قرآن کریم تو یہ کہتا ہی نہیں کہ ان کا ہم نام کوئی نہیں تھا۔ بلکہ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ ’’لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا‘‘ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا سمی (ہم نام) نہیں بنایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی اور کو یہ نام عطاء نہیں فرمایا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ129)

اس آیت کے حقیقی معانی

عموماً بچوں کے نام ان کے والدین رکھا کرتے ہیں وہ بچہ عیسائیوں میں سے ہو۔ ہندوؤں میں سے ہو یا مسلمانوں میں سے ہو۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کے نام رکھا کرتے ہیں مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس سے پہلے کسی کا نام یوحنا نہیں رکھا۔ اب اس قرآنی بیان کے بعد اگریوحنا نام کے لوگ اس دنیا میں دس کروڑ بھی ثابت ہو جائیں تب بھی کیا حرج ہے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ یوحنا نام پہلے تھا یا نہیں۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پہلے کسی اور کا نام خود خداتعالیٰ نے یوحنا رکھا تھا؟ پس یہ ٹھیک بات ہے کہ جتنے نام بھی بتائے جاتے ہیں وہ سب ایسے ہیں جو ماں باپ نے رکھے تھے اور یہاں اس کا نام ذکر ہے جو خداتعالیٰ نے رکھا۔ اس لئے اعتراض کی کوئی بات نہیں۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ130)

دوسرے عربی زبان میں سَمِیًّا کے معنے مثل کے بھی ہوتے ہیں پس ’’لَمۡ نَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ قَبۡلُ سَمِیًّا‘‘ کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی مثل نہیں بنایا۔ گویا اس میں ان کے بے مثل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بے مثل ہونا بھی اپنے اپنے دائرہ میں ہوتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں فلاں شخص گھوڑے کا بے مثل سوار ہے۔ فلاں بے مثل کاتب ہے۔ فلاں بے مثل مقرر ہے۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ جو گھوڑے کی سواری میں بے مثل ہے وہ بے مثل کاتب بھی ہے یا بے مثل رنگساز بھی ہے۔ جو شخص بے مثل کہلاتا ہے وہ اپنی کسی خاص خوبی میں بے مثل کہلاتا ہے۔ یہ مراد نہیں ہوتی کہ سارے جہان کی خوبیاں اور کمالات اس میں پائے جاتے ہیں۔

یحییٰ وہ پہلے نبی ہیں جن کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ الیاس کا نام پا کر آئے ہیں گویا ارہاص والے نبیوں میں سے یہ پہلے نبی تھے۔ جو الیاس کا نام پاکر اسی کی صفات پر آئے۔ اس سے پہلے پرانے نبیوں میں کوئی ایسا نبی نہیں مل سکتا جو کسی دوسرے نبی کے لئے ارہاص کے طور پر آیا ہو۔ لیکن یحییٰ کے بعد حضرت مسیح ؑ آگئے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ارہاص تھے۔ اور پھر حضرت سید احمد صاحب بریلوی آ گئے جوحضرت مسیح موعود ؑکے لئے ارہاص تھے۔

پس یہاں یہی خبر دی گئی تھی کہ ہم نے اس سے پہلے کسی اور کو اس کا مثل نہیں بنایا۔ یعنی یحییٰ وہ پہلے شخص ہیں جو کسی کے مثیل ہو کر آئے ہیں چنانچہ دیکھ لو اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے ہیں تو ہمیں بار بار یحییٰ کا نام لینا پڑتا ہے۔ کیونکہ پیشگوئیوں میں بتایا گیا تھا کہ مسیح آسمان سے نازل ہو گا۔

جب مخالف ہم سے پوچھتے ہیں کہ وہ مسیح کہاں ہے؟ تو ہم کہتے ہیں مسیح ناصری کے وقت میں بھی لوگوں نے یہی سوال کیا تھا۔ جب حضرت مسیح ؑ نے دعویٰ کیا تو لوگوں نے پوچھا کہ ملا کی نبی کتاب میں ایلیاہ ؔ کے دوبارہ نزول کی خبر دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ وہ مسیح سے پہلے آئے گا وہ ایلیاہ کہاں ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے جواب دیا کہ یوحنا ہی ایلیاہ ہے۔ اگر چاہو تو قبول کر لو۔ پس جس طرح وہاں ایلیاہ کے نام پر یوحنا آیا اسی طرح یہاں مسیح ناصری کے نام پر خداتعالیٰ نے ایک دوسرے مسیح کو بھیج دیا۔ اس طرح اب ہماری جماعت بھی مجبور ہے کہ وہ یحییٰ کے نام کو زندہ رکھے کیونکہ مثلیت کا نکتہ انہی کے ذریعہ سے حل ہوا ہے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ130-131)

حضرت یحییٰ علیہ السلام کی آمد بطور ارہاص

قرآن کریم اور انجیل دونوں میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی آمد بطور ارہاص لکھی ہے۔ چنانچہ ’’انجیل میں لکھا ہے کہ وہ مسیح کے لئے بطور ارہاص ہو گا۔ سورہ آل عمران میں لکھا ہے ’’مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللّٰهِ‘‘ جو اللہ کی ایک بات کو پورا کرنے والا ہوگا (اٰل عمران: 40)۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ ایلیاہ کی روح اور اس کی قوت میں مسیح کے آگے آگے چلے گا اور قرآن نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنی آمد سے ایک پیشگوئی کو پورا کرے گا جو صحف سابقہ میں پائی جاتی ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ136)

حضرت یحییٰ اور انجیل کا بیان

انجیل میں بھی حضرت یحییٰ کے بارے میں جو بیان ہے اس بارے میں لکھا ہے زکریا کاہن اور اس کی بیوی الیسبات (یعنی الزبتھ) بڈھے تھے۔ عورت بانجھ تھی۔ لڑکا کوئی نہ تھا۔ دونوں نیک اور راستباز تھے۔ ایک دن وہ خوشبو جلانے کے لئے ہیکل میں گیا تو فرشتہ ملا جس نے کہا کہ: ’’زکریا مت ڈر کہ تیری دعا سنی گئی اور تیری جورو الیسبات تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خورمی ہو گی اور بہتیرے اس کی پیدائش سے خوش ہوں گے۔ کیونکہ وہ خدا وند کے حضور بزرگ ہو گا اور نہ مے اور نہ کوئی نشہ پئے گا اور اپنی ماں کے پیٹ ہی سے روح القدس سے بھر جائے گا اور بنی اسرائیل میں سے بہتوں کو ان کے خداوند خدا کی طرف پھیرے گا اور وہ اس کے آگے الیاس کی طبیعت اور قدرت کے ساتھ چلے گا۔‘‘ (لوقا باب آیت 5 تا 25)۔ پھر لکھا ہے کہ یہ فرشتہ جبریل تھا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ132)

حضرت یحییٰ علیہ السلام اور تورات

قرآن کریم میں ذکر ہے کہ اس کے بعد یحییٰ پیدا ہو گیا اور ہم نے اسے کہا اے یحییٰ تو الٰہی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لے اور ہم نے اسے چھوٹی عمر میں ہی اپنے حکم سے نوازا تھا یعنی ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عطاکی تھی۔ (مریم: 13)

اس آیت سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ تورات اور اس کے صحیفے اس وقت تک منسوخ نہیں ہوئے تھے۔ کیونکہ حضرت یحییٰ علیہ السلام پر کسی نئی کتاب کے اترنے کے نہ مسلمان قائل ہیں اور نہ عیسائی۔ پس الکتب سے مراد تورات ہی ہے جس کو مضبوطی سے پکڑنے کا حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حکم ہوا اور پھر آگے مسیح نے بھی یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ گویا اسی کے دین کی اتباء کا اقرار کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کوئی نئی کتاب نہیں لائے۔ کیونکہ جب ایک ہی زمانہ میں دو نبی ظاہر ہو رہے تھے اور ایک ہی قوم کی طرف آنے والے تھے اور ایک دوسرے کا شاگر دہونے والا تھا۔ تو کس طرح ممکن تھا کہ ایک تو تورات پر مضبوطی سے قائم ہو اور دوسرا اس شریعت کو منسوخ کرکے ایک اور کتاب لے آئے۔ پس یہ الفاظ اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ موسوی شریعت ابھی جاری رہنے والی تھی۔ اگر وہ مسیح ؑ کے ذریعہ منسوخ ہونے والی ہوتی تو اتنی شدت کے ساتھ نہ کہا جاتا کہ: ’’اس کتاب پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرو‘‘۔ یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ اس وقت تک بنی اسرائیل کے لئے تورات ہی واجب العمل تھی۔ اگر وہ جلدی ہی منسوخ ہو جانے والی ہوتی تو ا س قدر تاکید نہ کی جاتی۔ کہ تم پوری مضبوطی کے ساتھ اس پر عمل کرو۔ یہ الفاظ دفعہ الوقتی کے لئے استعمال نہیں ہو سکے۔ بلکہ اسی صورت میں استعمال ہو سکتے ہیں جب اس شریعت نے ابھی کچھ عرصہ تک قائم رہنا ہو۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ146)

چھوٹی عمر میں الہام ہونا

پھر فرمایا: ’’اور ہم نے اس کو بچپن کی عمرسے ہی حکم دیا تھا یعنی ہم نے اسے بچپن ہی سے حکمت عطا کی تھی‘‘۔ ’’صَبِيًّا‘‘ کے لفظ کے معنے بچپن کی عمر کے بھی ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت مراد یہ ہے کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا قرب عطا کر دیا۔ یعنی ابھی لوگ ان کو بچہ ہی جانتے تھے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان پر کلام نازل ہونے لگ گیا۔ ہمارے ہاں بھی محاورہ ہے کہ فلاں تو ابھی کل کا بچہ ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ ابھی تو وہ چھوٹی عمر کا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ دودھ پیتا بچہ ہے لیکن اس کے علاوہ جوانی کے لئے بھی یہ لفظ بول لیتے ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ146)

نرم دل، پاکباز اور متقی

اگلی آیت میں فرمایا: ’’اوریہ بات ہماری طرف سے بطور مہربانی اور شفقت کے تھی اور اسے پاک کرنے کے لئے تھی اور وہ بڑا متقی تھا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نےحضرت یحییٰ علیہ السلام کو اپنی جناب سے نرم دلی اور پاکیزگی بخشی تھی اور وہ پرہیزگار تھے۔ (مریم: 14)

عربی لغت میں حنان کے لفظ کے کئی معنے ہیں اس کے معنے رحمت، رزق، برکت، دل کی نرمی، ہیبت اور وقار کے ہیں (اقرب) اس جگہ ’’وَحَنَانًا مِّنۡ لَّدُنَّا‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اسے دل کی نرمی بخشی۔ ساتھ ہی فرماتا ہے ’’وَزَکٰوۃً‘‘ یعنی اس میں پاکیزگی اور تقدس بھی پایا جاتا تھا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ146)

’’وَكَانَ تَقِيًّا‘‘ اور وہ صاحب تقویٰ تھا۔ پہلے فرمایا کہ اس میں زکوٰۃ یعنی پاکیزگی پائی جاتی تھی پھر فرمایا کہ اس میں تقویٰ پایا جاتا تھا۔ اردو میں جب ہم معنی الفاظ آ جائیں تو انسان سمجھتا ہے کہ ان کے کوئی الگ الگ معنے نہیں صرف ایک ہی مفہوم کو مختلف الفاظ میں حسن کلام کے لئے ادا کیا گیا ہے۔ لیکن عربی زبان میں یہ بات نہیں۔ عربی زبان میں ہر لفظ الگ الگ معنے رکھتا ہے۔ پس کَانَ تَقِیًّا اور مفہوم کا حامل ہے اور زکوٰۃ کا لفظ اور مفہوم کا حامل ہے۔ زکوٰۃ کا لفظ عربی زبان میں اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تقویٰ کا لفظ باہر سے آنے والی خرابیوں کو دور کرنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے اس کو اپنے پاس سے حلم اور نرمی بخشی اور ہم نے اس کے اندرونی خیالات بھی پاکیزہ بنائے اور جو باہر سے خرابیاں آتی ہیں ان کے مقابلہ کی بھی اس کو طاقت بخشی۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ148)

والدین سے حسن سلوک کرنے والا

مزید صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ’’اور اپنے والدین سے حُسنِ سلوک کرنے والا تھا اور ہرگز سخت گیروظالم (اور) نافرمان نہیں تھا۔ (مریم:15)

بَرَّنِيْ يَمِيْنَهٗ کے معنے ہوتے ہیں کہ اس نے اپنی قسم کو پورا کرکے دکھایا یعنی اپنی بات کا پکا اور سچا نکلا۔ اور بَرَّ وَالِدَہٗ کے معنے ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اس کے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کیا۔ اور جو باتیں اس کو پسند تھیں ان کو اس نے اختیار کیا اور جو باتیں اس کو ناپسند تھیں ان کو اس نے چھوڑ دیا ہو تو ایسے شخص کو بَرٌّ بھی کہتے ہیں اور بَارٌّ بھی کہتے ہیں۔

(اقرب)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے باپ کو خوش کرنے کے لئے ظاہری اور باطنی طور پر وہ تمام اخلاق اپنے اندر پیدا کر لے جن کو وہ پسند کرتا ہو اور ان تمام برائیوں کو ترک کر دے جن کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس وقت سے اسے بر اور بار کہتے ہیں۔ لیکن بر کے لفظ میں بار سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اوریہ بھی کہ وہ ہرگز سخت گیروظالم (اور) نافرمان نہیں تھے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ148)

سلامتی اور حضرت یحییٰ علیہ السلام

اور جب وہ پیدا ہوا تب بھی اس پر سلامتی تھی ’اور جب وہ مرے گا اور جب وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا (تب بھی اس پر سلامتی ہوگی)۔

(مریم: 16)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوئے تب بھی اس پر سلامتی تھی اور جب وہ مرے گا تب بھی اس پر سلامتی ہو گی اور جب وہ زندہ کرکے دوبارہ اٹھایا جائے گا تب بھی اس پرسلامتی ہو گی۔ اس سے بعض لوگوں کا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہے کہ یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد ہے اور چونکہ یہ سلامتی ان کی موت کے دن کے لئے بھی مقدر تھی۔ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید نہیں ہوئے۔ حالانکہ اگر آپ سلامتی نازل ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ آپ قتل سے محفوظ رہے تو قیامت کے دن آپ پر سلامتی نازل ہونے کے کیا معنے ہیں۔کیا قیامت کے دن بھی کوئی دشمن آپ کے قتل کی تدبیر کرے گا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی سلامتی آپ کے لاحق حال ہو گی۔ اگر سلامتی کا اس جگہ یہی مفہوم لیا جائے کہ اس میں دشمنوں کی تدابیر قتل کا رد ہے۔ تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ جس دن حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اس دن بھی وہ قتل سے محفوظ رہیں گے۔ جس دن وہ فوت ہوں گے اس دن بھی وہ قتل نہیں ہوں گے اور جب قیامت کے دن وہ دوبارہ زندہ ہوں گے تو اس دن بھی قتل نہیں ہوں گے۔ کیا قیامت کے دن بھی وہ قتل ہو سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے متعلق ’’وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا‘‘ پر بھی سلامتی کا وعدہ کرنا پڑا۔

درحقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں تین مختلف زمانوں کو بیان کیا ہے مگر لوگوں نے غلطی سے اس کا مفہوم کچھ کاکچھ سمجھ لیا۔ دراصل انسانی زندگیاں تین ہوتی ہیں۔ ایک زندگی شروع ہوتی ہے انسانی پیدائش اور ختم ہوتی ہے انسانی موت پر۔ دوسری زندگی موت سے شروع ہوتی اور قیامت تک قائم رہتی ہے۔ اس زندگی کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے۔ مگر اس کے بعد ایک تیسرا زمانہ ہے۔ جسے قرآن کریم نے یوم البعث قرار دیا ہے اور جس دن کامل طور پر جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ یہ تین ابتدائی نقطے ہیں انسانی زندگی کے۔ پیدائش ابتدائی نقطہ ہے حيات دنيا کا۔ موت ابتدائی نقطہ ہے حیات برزخی کا۔ اور یوم البعث ابتدائی ہے حیات اخروی کا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے تینوں نقطہ ہائے حیات میں سلامتی ہی سلامتی ہے اس کی پیدائش پر بھی ہماری طرف سے سلامتی نازل ہو گی اور وہ زندگی بھر اس سے متمتع ہوتا رہے گا۔ پھر جب وہ وفات پا ئے گا تب بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اور وہ عالم برزخ میں بھی سلامتی سے حصہ پائے گا اور اس کے بعد جب یوم البعث آئے گا تو اس دن بھی اس پر سلامتی نازل ہو گی اوروہ اخروی حیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت رہے گا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ149-150)

دیگر مومنین کے لئے بھی اسی سلامتی کا ذکر

غرض اس آیت میں قتل کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ اس میں تین زندگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام ان تینوں زندگیوں میں اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے مورد ہوں گے مگر یہ سلام صرف حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کے لئے نہیں آیا بلکہ سب مومنوں کے لئے آیا ہے۔ چنانچہ سور ہ انعام آیت نمبر55 میں آتا ہے: ’’وَاِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ‘‘۔ یعنی جب تیرے پاس ہماری آیتوں پر ایمان لانے والے لوگ آئیں تو ان کو ہمارا یہ پیغام دے دینا کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے تمہارے لئے اپنے آپ پر رحمت واجب کرلی ہے۔ یہ سلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ حالانکہ ان میں سے کئی شہید ہوئے۔ پھر سب مومنوں کی نسبت آتا ہے۔ ’’اَلَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰٮہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیۡنَ ۙ یَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمُ ۙ ادۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‘‘ (نحل: 33) یعنی جن لوگوں کی روح فرشتےاس حلت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے انہیں کہتے چلے جاتے ہیں کہ تم پرسلامتی ہو۔ جاؤ اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ فرشتے مومنوں کی جان کئی طرح نکالتے ہیں۔ تو کیا اگر سلامتی کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں سے نہ مارے جانے کے ہیں تو یہ عجیب بات نہ ہو گی کہ دشمن ان کو قتل بھی کر رہا ہو گا اور فرشتے ساتھ ساتھ سلام بھی کرتے جا رہے ہوں گے۔ گویا جو بات ہو رہی ہو گی اس کی تردید کر رہے ہوں گے۔ اسی طرح سورہ طہ آیت نمبر 48 میں آتا ہے: ’’وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡہُدٰی‘‘ کہ جو بھی ہدایت کے تابع چلے اس پر سلامتی ہے۔ اگر سلام کے معنے دشمنوں کے قتل سے محفوظ رہنے کے لئے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کبھی کوئی مومن قتل نہیں ہوتا پھر سورہ مائدہ آیت نمبر 17میں مومنوں کی نسبت فرمایا ہے: ’’یَہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ‘‘ یعنی قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو جو خداتعالیٰ کی رضا کے تابع ہوتے ہیں سلام کے راستے دکھاتا ہے۔ اب اگر سلام کے معنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل نہ ہونے کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ایسی زندگی بخشتا ہے کہ وہ کبھی دشمن کے ہاتھ سے قتل نہیں ہوتے جوبالبداہت غلط ہے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ150-151)

سلامتی کا حقیقی مفہوم

اصل بات یہ ہے کہ سلام ایک وسیع معنوں کا حامل لفظ ہے۔ بعض موقعوں پر یقیناً اس کے یہ معنے بھی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے کسی حملہ سے بچا لے گا۔ لیکن بعض جگہ بیماری سے بچانے کے اور بعض جگہ ناکامی سے بچانے کے معنے ہوں گے۔ بہرحال بغیر کسی زبردست قرینہ کے ایک عام لفظ کے کوئی خاص معنے کرنے اور وہ بھی ایسے جو تاریخی واقعات کے سراسر خلاف ہوں کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتے۔ پس یہاں سلامتی سے جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے۔ اگر جسمانی سلامتی مراد ہو تو موت کے دن بھی اس پر سلامتی ہونے کے کوئی معنے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ انسان جب بھی مرتا ہے کسی بیماری یا حادثہ سے مرتا ہے اور جب وہ کسی بیماری یا حادثہ سے ہلاک ہو گا تو اس کے لئے سلامتی کہاں ہوئی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جسمانی سلامتی مراد نہیں بلکہ روحانی سلامتی مراد ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ جس دن وہ پیدا ہو گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی اور وہ تمام دماغی اور جذباتی کمزوریوں سے محفوظ ہو گا اور جس دن وہ مرے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہوگی یعنی وہ تمام روحانی امراض سے پاک ہو گا اور جس دن وہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا اس دن بھی اس پر سلامتی ہو گی۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ149-151)

مسیحیت کے رد کے دلائل

’’یٰیَحۡیٰی خُذِ الۡکِتٰبَ بِقُوَّۃٍٍ‘‘ سے آخر رکوع تک (مریم: 13-16) مسیحیت کے رد کے دلائل بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بیان کرو گے تو عیسائی مانیں گے نہیں۔ ہم تمہیں گر بتاتے ہیں کہ انجیل میں یوحنا کا ذکرپڑھو۔ وہاں تمہیں وہی باتیں ملیں گی جو عیسائی حضرت مسیح ؑ کے بارےمیں بیان کرتے ہیں۔ پس تم انہیں بتاؤ کہ مسیح ؑ میں کوئی نرالی خصوصیت نہیں جس کی وجہ سے اسے خدایا خدا کا بیٹا قرار دیا جا سکے۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ152)

حضرت یحییٰ علیہ السلام کے لئے لفظ ’’حصور‘‘
اور اس کا مفہوم

فَنَادَتۡہُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیۡ فِی الۡمِحۡرَابِ ۙ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحۡیٰی مُصَدِّقًۢا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَسَیِّدًا وَّحَصُوۡرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۰﴾

(اٰل عمران: 40)

اس پر فرشتوں نے اسے جبکہ وہ گھر کے بہترین حصہ میں نماز پڑھ رہا تھا آواز دی کہ اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کی ایک بات کو پورا کرنے والا ہوگا اور (نیز) سردار اور (گناہوں سے) روکنے والا اور نیکوں میں سے (ترقی کرکے) نبی ہوگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس آیت میں مذکور لفظ (حَصُوْرًا) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’مسیح کی راستبازی اپنے زمانے میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی بلکہ یحییٰ نبی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نےآکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پرعطر ملا تھا یا ہاتھوں اورا پنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا یا کوئی بےتعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلد دوم صفحہ31
بحوالہ دا فع البلاء ومعیار اہل الصفاء صفحہ4 آخری ٹائیٹل حاشیہ)

حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : حَصُوْرًا: بدیوں سے پاک۔ یہ غلط ہے کہ وہ ہیجڑے تھے۔ انبیاء کے صفات بِلا ضرورت کے بیان نہیں ہوتے۔ ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتاہے: ’’وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ‘‘ (البقرہ: 103) تو کیا نبی کافر بھی ہو سکتا ہے۔ پس یہ ’’حَصُورًا‘‘ بھی اِس الزام کی تردید میں آیا ہے جو ان پر لگایا گیا۔ ایک کنچنی نے زکریّا کے خاندان پر یہ گند بکا تھا۔

(حقائق الفرقان جلد اول صفحہ468)

اور ہم نے اس کی دعا کو سنا اور اس کو یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کی خاطر تندرست کر دیا۔ وہ سب لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہم کو محبت اور خوف سے پکارتے تھے اور ہماری خاطر عجز کی زندگی بسر کرتے تھے۔

(الانبیاء: 91)

یہاں زکریاؑ کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ وہ بھی اسی جماعت میں شامل تھے۔ اور فرماتاہے کہ زکریا ؑ کو بھی یاد کرو جب اس نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا کہ اے میرے رب مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے تب ہم نے اس کی دعاسنی اور اسکی بیوی کی اصلاح کی اور اس کو یحییٰ عطا کیا۔ پھر وجہ بیان کرتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی تنگیوں کو کیوں بدل دیا اس لئے کہ یہ گروہ نیکی کرنے میں جلدی کرتا تھا اور ہمارے انعام کی رغبت سے اور ہماری سزا کے خوف سے ہمیں پکارتا رہتا تھا۔ اور ہمیشہ ہمارے حضور عاجزی کیا کرتا تھا۔

(تفسیر کبیر جلد5 صفحہ562)

(مرزا خلیل احمد۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

خدمت دین میں مالی قربانی کی اہمیت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2022