• 14 مئی, 2025

ایڈیٹر کے نام خطوط

• ڈاکٹر نصیر احمد طاہر ۔نیوپورٹ یوکے سے تحریر کرتے ہیں ۔
روزنامہ الفضل 5 اگست 2021ء، میں ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور طب‘‘ قسط نمبر 3شائع ہوا پہلی دو اقساط بھی بہت بہت مفید اور معلوماتی تھیں، یہ تیسری قسط بھی بہت معلوماتی اور بابرکت الفاظ پہ مشتمل ہے، ہم سب کو خدا تعالٰی اور حکمت کا تعلق سمجھ کر اس پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہاں مجھے ایک اقتباس پڑھ کر بہت دعا نکلتی ہے، کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں، علم پہ ناز کی بجائے عاجزی اور دعا کے ساتھ اللہ تعالی پہ توکل کا طریق سمجھایا ہے گویا اصل حکمت ماتحت خدا تعالی ہے۔

فرماتے ہیں:
’’یہ سب ظنّی باتیں ہیں۔ علاج وہی ہے جو خدا تعالےٰ اندر ہی اندر کر دیتا ہے جو ڈاکٹر کہتا ہے کہ یہ علاج یقینی ہے وہ اپنے مرتبہ اور حیثیت سے آگے بڑھ کر قدم رکھتا ہے۔ بقراط نے لکھا ہے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک بیمار آیا۔ میں نے بعد دیکھنے حالات کے حکم لگایا کہ یہ ایک ہفتہ بعد مرجائے گا۔ تیس سال کے بعد میں نے اس کو زندہ پایا۔

بعض ادویہ کو بعض طبائع کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے۔ اسی بیماری میں ایک کے واسطے ایک دوا مفید پڑتی ہے اور دوسرے کے واسطے ضرر رساں ہوتی ہے۔ جب بُرے دن ہوں تو مرض سمجھ میں نہیں آتا۔ اور اگر مرض سمجھ میں آجائے تو پھر علاج نہیں سُوجھتا۔ اسی واسطے مسلمان جب ان علوم کے وارث ہوئے تو انہوں نے ہر امر میں ایک بات بڑھائی۔ نبض دیکھنے کے وقت سُبۡحٰنَکَ لَا عِلۡمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا کہنا شروع کیا اور نسخہ لکھنے کے وقت ھُوَ الشَّافِیْ لکھنا شروع کیا۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ383)

• پھر آپ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
12، اگست کے الفضل آن لائن کے اداریہ میں مدیر صاحب نے اپنے پہلے سے شائع شدہ، ’’لوہے کے قلم‘‘ کے تسلسل میں، سورۃ صٓ کی آیت46 یعنی اُولِی الۡاَیۡدِیۡ وَالۡاَبۡصَارِ سے جو استنباط کیا ہے۔ بہت اعلیٰ پائے کا استدلال ہے۔ ایک یاددھانی ہے۔ ایک ترغیب ہےجو دراصل نبی کریم ﷺ کی امت کیلئے بدرجہ اتم مقدر کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے جہاد کو لوہے کی تلوار کی بجائے لوہے کے قلم کے ساتھ بدل کر ’اسلام‘ دین کامل کی تشہیر کرے اور موثر ترین کر دے۔

چنانچہ آپؑ نے لوہے کے قلم سے براہین احمدیہ لکھنے کا عظیم الشان علمی جہاد شروع کیا۔ جو بہت سی معرکہ آراء تصانیف سے اسلام کی فتح عظیم کا اعلیٰ سبب بنا۔

یہ سلسلہ خلفاء کرامؓ، علماء کرام سے چلتا ہوا حبل المتین نیک روحوں کے مقدر بھی چلا آرہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’… قلم کو روکنا نہیں چاہیے۔ نبیوں کو خدا تعالیٰ نے اِ سی لئے اُولو الۡاَیۡدِیۡ وَالۡاَبۡصَارِ ہے کیونکہ وہ ہاتھوں سے کام لیتے ہیں۔ پس چاہیے کہ تمہارے ہاتھ اور قلم نہ رُکیں اس سے ثواب ہوتا ہے۔ جہاں تک بیان اور لسان سے کام لے سکو لیےجاؤ اور جو جو باتیں تائید دین کے لئے سمجھ میں آتی جاویں انہیں پیش کئے جاؤ وہ کسی نہ کسی کو فائدہ پہنچائیں گی‘‘

(ملفوظات جلد ششم صفحہ328 ایڈیشن 1984ء)

اور سورة قلم آیت: 2، نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡن۔ ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں۔ بھی اسی زمانہ میں بدرجہ اتم پورا ہونے کی قرآنی پیشگوئی ہے، اگرچہ قلم نے ہی قرآن لکھا، اور بہت کچھ لکھا گیا۔

مجھے لگتا ہے مدیر الفضل آن لائن کا یہ استدلال اور بھی کئی مضامین کا پیش خیمہ بنے گا، بلکہ اور لکھنے والے ہاتھوں کو ترغیب دے گا ، کہ قلم رکنے نہ پائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

٭٭٭

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2021