تعارف صحابہ کرام ؓ
حضرت چوہدری علی محمد گوندلؓ۔چک 99 شمالی ضلع سرگودھا
حضرت چوہدری علی محمد صاحب گوندل 1883ء میں چوہدری نتھو خان کے ہاں کوٹ گوندل ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ آپ کی بہنوں میں محترمہ روشن بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری حاکم علی سدھو، محترمہ فضل بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری حسین خان ججہ، محترمہ رسول بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری غلام محمد چیمہ تھیں اور بڑے بھائی حضرت چوہدری غلام محمد گوندل حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے اصحاب میں سے تھے۔
آپ نے 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی۔ اس موقع کے بارے میں آپ کی تفصیلی روایت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 29 جنوری 2010ء کے خطبہ میں بیان فرمائی ہے جو درج ذیل ہے۔
پھر حضرت چوہدری علی محمد صاحب گوندل چک 99 شمالی ضلع سرگودھا لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات سے سات دن پہلے (جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے) بہ ہمراہی مولوی غلام حسین والد مولوی محمد یار عارف چک 98شمالی اور دو اَور ہمراہی جن کے اب نام یاد نہیں، ہم چاروں بیعت کی غرض سے قادیان گئے۔ اس سے پہلے مَیں نے بذریعہ خط بیعت کی ہوئی تھی۔ ہم چاروں آپ کے مکان پر چلے گئے۔ آواز دینے پر آپ باہر تشریف لائے۔مکان کے باہر دو چار پائیاں، ایک بڑی اور ایک چھوٹی پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے ہماری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ بڑی چارپائی پر بیٹھ جاؤ اور آپ چھوٹی چار پائی پر بیٹھ گئے۔ ہم چونکہ آگے پِیروں سے ڈرے ہوئے تھے۔ ہم نیچے بیٹھنے لگے مگر آپ نے دوبارہ مجبوراً کہا کہ چارپائی پر بیٹھو۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر ہمیں مجبوراً چار پائی پر بیٹھنا پڑا ۔اس سے آپ کے اخلاق حسنہ کا پتہ لگتا ہے کہ کس قدر وسیع القلب تھے، کہتے ہیں کہ مَیں چونکہ سب سے چھوٹا تھا اس لئے مَیں سب سے نچلی طرف بیٹھا ۔مولوی غلام حسین جو حضرت مولوی محمد یارعارف صاحب کے والد تھے ، مجھ سے بڑی عمر کے تھے اور خوب مولویانہ بالشت بھر چمکدار سیاہ داڑھی تھی اور بیٹھے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے عین سامنے تھے۔ مَیں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام مولوی غلام حسین صاحب پر اپنی نظرشفقت فرماویں گے مگر آپ نے میرے اس خیال کے برخلاف کیا اور آپ نے میرے ہی ہاتھ پر دست شفقت رکھا باقی ساتھیوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور آپؑ نے ہماری بیعت لی۔ عین اس وقت جبکہ آپ نے اپنا دست مبارک میرے ہاتھ سے مس کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے ہاتھوں سے کوئی چیز بجلی کی طرح میرے تمام جسم میں سرایت کر گئی ہے۔ اس وقت آپ کا جلال اس قدر تھا کہ مَیں سمجھتا تھا کہ اس دنیا میں اس وقت آپ کی شان کا کوئی انسان نہیں ہے۔ اس وقت ہم نے آپ کو نبی سمجھ کر بیعت کی تھی۔ اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کی نظر میں بڑوں کا ہی لحاظ نہ تھا بلکہ چھوٹوں پر بھی دست شفقت تھا۔ آپ کی وفات پر ہمارے چک میں بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور احمدیت سے منحرف ہونے لگے، مگر باوجود اَن پڑھ ہونے کے مجھ پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے اور احمدیت کے جلال نے وہ اثر ڈالا ہوا تھا کہ مَیں نے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی احمدیت چھوڑ جائے مگر مَیں احمدیت کو نہ چھوڑوں گا۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ (غیر مطبوعہ) جلد نمبر1 صفحہ70-69 روایت چوہدری علی محمد صاحب گوندل)
آپ نماز باجماعت کے بہت پابند تھے اور حتی المقدور سب نمازیں بیت الذکر میں جا کر ادا کرتے تھے۔ سب بچوں کو بھی نمازیں باجماعت ادا کرنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ بیت الذکر سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ اس دور میں جب سب مکانات کچےتھے اوربیت الذکر کی تعمیر بھی کچی تھی، آپ نے ریلوے کے کچھ کوارٹر جو نیلام ہوئے، نیلامی میں خریدے اور وہاں سے ملنے والی پختہ اینٹوں سے بیت الذکر کے بیرون پختہ اینٹیں لگوادیں جس سے بیت الذکر خوش نما اور مضبوط ہوگئی۔
جب انگریز سرکار کی طرف سے زمین الاٹ کی گئی آپ کے بڑے بھائی حضرت چوہدری غلام محمد صاحب کو دو مربع اراضی چک 99 شمالی میں الاٹ ہوئی تو اس خاندان نے کوٹ گوندل سے ہجرت کرکے سرگودھا کے اس گاؤں میں سکونت اختیار کر لی۔ آپ کے بڑے بھائی نے غیر معمولی ایثارکا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو پیشکش کی کہ مجھے دو مربع اراضی ملی ہے اس میں سے آدھی یعنی ایک مربع آپ اپنے نام منتقل کرا لیں لیکن آپ نے کہا کہ آپ کثیر العیال ہیں نیز اس زمین کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمد بھی آپ کا نہیں ہے اس لیے مجھے آدھی کی بجائے چوتھا حصہ دے دیں میں اس میں گزارہ کر لوں گا اور پھر یہی ہوا کہ آپ نے اپنی شبانہ روز محنت سے زمیندارہ میں خوب نام کمایا اور سرگودھا میں لگنے والی منڈی کے موقع پر آپ اکثراعلی درجہ کا گڑاور شکر بنانے پر انعام حاصل کرتے رہے۔ زمیندارہ کے ساتھ ساتھ آپ کو اعلیٰ درجے کے مویشی پالنےکا بھی بہت شوق تھا، خاص طور پر دودھ دینے والی بھینسوں کو اولیت کا درجہ حاصل تھا۔
ملازمین سے حسن سلوک آپ کا امتیازی وصف تھا، ہر ملازم کو وہی خوراک ملتی جوآپ خود استعمال کرتے تھے سب کوکھا نے کے علاوہ دودھ بھی دیا جاتا تھا۔ آپ کے اس سلوک کی وجہ سے ملازمین سالہاسال تک آپ کے ساتھ کام کرتے رہتے تھے۔۔
فن پہلوانی سے آپ کو عشق تھا، اس شعبہ میں آگے آنے والے نوجوانوں کی بہت قدر کرتے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ایک پہلوان جو اپنے حالات کی وجہ سے دودھ پینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، ان کے گھر دودھ کے لیے بھینس بھیجی کہ آپ رکھ لیں لیکن اس بھینس نے وہاں دودھ دینا بند کردیا، پھر دوسری بھینس بھیجی تو اس نے بھی نئی جگہ پہ دودھ نہیں دیا، اس پر آپ کی طرف سے ایک جگ دودھ روزانہ اس پہلوان کے لیے بھجوایا جاتا رہا۔ آپ کے سارے بیٹے بھی شہ زور تھے، خاص طور پر آپ کے بڑےبیٹے بشیر احمد گوندل جو ملک خضر حیات ٹوانہ کی کبڈی ٹیم کے کپتان تھے اوران سے چھوٹے بیٹے رفیق احمد جن کا سالہا سال تک کبڈی اور کشتی کے میدانوں میں ڈنکا بجتا رہا۔ آپ کے زہد اور تقویٰ کی وجہ سے علاقہ میں آپ کا بہت احترم تھا۔ اپنوں کے علاوہ سکھ برادری بھی آپ کو بہت عزت دیتی تھی۔ سکھوں میں مے خوری عام ہے لیکن آپ کو ایسا خداداد رعب عطاہوا تھا کےوہ ایسی کیفیت میں آپ کے سامنے نہیں آتے تھے بلکہ چھپنے کی کوشش کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت سکھ جب سامان چھوڑ کر جارہے تھے تو آپ نے اس سامان سے کچھ بھی لینا پسند نہیں کیا۔ آپ کے بڑے بیٹے بشیر احمد باڈرتک ان سکھوں کے ساتھ گئے اور باڈر پار کرا کے واپس آئے۔
بزرگانِ سلسلہ سے بہت پیارکا تعلق تھا، خاص طور پر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اورحضرت مولانا ابراہیم صاحب بقا پوری ؓسے برادرانہ تعلقات تھے۔ گھر میں ہر نوع کی نعماء کی فراوانی تھی، مہمانوں کی خوب خدمت کرتے تھے اور اس سلسلے میں آپ کی اہلیہ محترمہ فتح بی بی صاحبہ کا کردار بہت نمایاں تھا، آپ مہمانوں کی بہت کشادہ دلی کے ساتھ خدمت کرتی تھیں۔
1960ء میں آپ نے پنجاب والی زمین فروخت کر کے سندھ میں پتھورو کے قریب زمین خریدی اور گوٹھ احمدیہ کے نام سے گاؤں کی بنیاد رکھی جو الله تعالیٰ کے فضل سے آج تک موجود ہے۔ آپ کو الله تعالیٰ نے سات بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیں جن کی آئندہ نسلیں دنیا کے کئی ممالک میں پھیلی ہوئی ہیں، آپ کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تا دم تحریر حیات ہیں۔
مجھے آپ سے ذاتی تعلق اس حوالہ سے ہے کہ آپ میری والدہ مرحومہ کے ماموں تھے اور میری اہلیہ آپ کی نواسی ہیں۔ آپ کی وفات 26 مارچ 1971ء کو گوٹھ چوہدری سلطان احمد صاحب ضلع حیدرآباد میں ہوئی، جہاں آپ اپنی بیٹیوں کے پاس آئے ہوئے تھے، آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
؎ کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے
کچھ ایسا نور دیکھا کہ اس کے ہی ہوگئے
(منصور احمد کاہلوں ۔آسٹریلیا)