• 4 مئی, 2024

مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں، کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَمِ آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ بھروسہ اُس کو دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اُس کو خدا تعالیٰ اور عالَمِ آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ حضرت مسیح نے اسی حالت میں یہود کو پایا تھا اور جیسا کہ ضعفِ ایمان کا خاصہ ہے، یہود کی اخلاقی حالت بھی بہت خراب ہو گئی تھی اور خدا کی محبت ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ اب میرے زمانے میں بھی یہی حالت ہے۔ سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین کے نزدیک ہو گا، بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13 صفحہ291-294 حاشیہ)

پس ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کر رہے ہیں۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ مَیں ایمانوں کو قوی کرنے آیا ہوں۔ اُن میں مضبوطی پیدا کرنے آیا ہوں۔ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ایمان مضبوطی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ فرمایا کہ ایمان مضبوط ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کے ثابت ہونے سے، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین سے۔ آپ نے فرمایا کہ آج کل دنیا میں دنیا کے جاہ و مراتب پر بھروسہ خدا تعالیٰ پر بھروسے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف پڑنے کی بجائے دنیا کی طرف زیادہ نگاہ پڑتی ہے۔ وہ یقین جو خداتعالیٰ پر ہونا چاہئے وہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور دنیا والے اور دنیا کی چیزیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہیں۔ اگر ہم اپنے ارد گردنظر دوڑائیں تو یہی صورتحال ہمیں نظر آتی ہے، لیکن اپنے ارد گردنظر دوڑانا صرف یہ دیکھنے کے لئے نہیں ہونا چاہئے کہ آج دنیا خدا تعالیٰ کی نسبت دنیاوی چیزوں پر زیادہ یقین اور بھروسہ کرتی ہے۔ بلکہ یہ نظر دوڑانا اس لئے ہو کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم دنیاوی وسائل پر زیادہ یقین رکھتے ہیں یا خدا تعالیٰ پر۔ اگر ہم بیعت کر کے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کو اُس طرح نہیں پہچان سکے جو اس کے پہچاننے کا حق ہے تو ہماری بیعت بے فائدہ ہے۔ ہمارا اپنے آپ کو احمدی کہلانا کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ اگر آج ہم اپنے دنیاوی مالکوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہیں اور یہ فکر جو ہے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے سے زیادہ ہے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے۔ ہم آپ سے کئے گئے عہدِ بیعت کو نہیں نبھا رہے۔ اگر ہم دنیا کے رسم و رواج کو دین کی تعلیم پر ترجیح دے رہے ہیں تو ہمارا احمدی کہلانا صرف نام کا احمدی کہلانا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ زبانوں سے تو دعوے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین ہے اور ہم خدا تعالیٰ کو ہی سب سے بالا ہستی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ہماری ہر محبت پر غالب ہے، لیکن عملاً دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ ہمیں اب ہمارے چاروں طرف نظر آتا ہے کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم ہر ایک دنیا کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا کی لغویات اور بے حیائیوں نے خدا تعالیٰ کی یاد کو بہت پیچھے کر دیا۔ مسلمانوں کو پانچ وقت نمازوں کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کی محبت کی وجہ سے اس عبادت کا حکم ہے، لیکن عملاً صورتحال اس کے بالکل الٹ ہے۔ ایک احمدی جب اس لحاظ سے دوسروں پر نظر ڈالتا ہے تو اُسے سب سے پہلے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی نمازوں کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی عبادتوں کو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس دعوے کی نفی کر رہے ہیں کہ آپ کے آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ پر ایمان قوی کرنا ہے۔ آپ کے آنے کا مقصد سچائی کے زمانے کو پھر لانا ہے۔ آپ کے آنے کا مقصد آسمان کو زمین کے قریب کرنا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنا ہے۔ یقینا ہمارے ایمان اور اعمال کی کمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کی نفی نہیں ہوتی۔

(خطبہ جمعہ 11؍اکتوبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ڈیلی روٹین برائے اطفال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2022