ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
طنز و مزاح میں شگفتگی
قسط 34
قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَبِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ
(یونس: 59)
تُو کہہ دے کہ (یہ) محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے۔ پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں.
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَلَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۳﴾
(یونس: 63)
سنو کہ یقیناً اللہ کے دوست ہی ہیں جن پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
جو لوگ خدا کے ہو کے رہتے ہیں ان کو کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہتا اور وہ غم نہیں کرتے
(ست بچن، روحانی خزائن جلد10 صفحہ229)
آنحضورﷺنفس مطمئنہ رکھتے تھے اورمقام رضا پر فائز تھے اطمینان قلب نصیب تھا۔ بشاشت اور لطیف حس مزاح رکھتے تھے آپ ؐ کے کھِلے کھِلے متبسم چہرہ، خندہ پیشانی، شائستہ گفتگو سےماحول روشن اور خوشگوار رہتا۔ آپؐ کی ذات بابرکات میں رؤوف و رحیم خدا کی صفات کا رنگ نظر آتا۔ نور کی کرنیں مخاطبین کے دل موہ لیتیں۔ آپؐ لطیف اور پاکیزہ مزاح ’صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے۔ حق اور سچ سے ہٹ کر کوئی بات نہ ہوتی حتیٰ کہ زیب داستاں کے لئے رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی بھی نہ کرتے۔
حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا،میں مزاح تو کرتا ہوں، لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں۔
(مشکوٰۃ صفحہ416)
ام الموٴ منین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے فرمایا کہ حضورﷺ گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے۔
(شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی جلد 4 صفحہ253)
حضورﷺ سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے، ہنستے اور مسکراتے بھی تھے۔ لیکن آپﷺ کی شانِ ظرافت، خوش طبعی،دل لگی اور دل آویز تبسّم اعتدال اور میانہ روی کا مرقّع تھا۔
میں نے آنحضرتﷺ کو کبھی زور سے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپؐ کا ہنسنا تبسم کے انداز سے ہوتا تھا۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب التبسم)
حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ کے مدینہ منورہ میں ابتدائی زمانے کے ایک سفر کا ذکر ہے، میں لڑکی سی تھی، ابھی موٹا پا نہیں آیا تھا۔نبی کریمؐ نے قافلہ کے لوگوں کو آگے جانے کی اجازت دے دی۔پھر مجھے فرمانے لگے آؤ،دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں۔میں نے دوڑ لگائی تو آپؐ سے آگے نکل گئی۔ حضورؐ خاموش رہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ بعد میں جب میرا جسم کچھ فربہ ہوگیا اوروزن بڑھ گیا ہم ایک اور سفر کے لیے نکلے۔ رسول اللہؐ نے پھر قافلہ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے نکل جائیں۔ اور مجھے فرمایا آؤ آج پھر دوڑ لگاتے ہیں۔ ہم نے دوڑ لگائی اس دفعہ رسول کریمؐ آگے نکل گئے۔ اور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے لو پہلی دفعہ تمہارے جیتنے کا بدلہ بھی آج اُترگیا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ264)
حضرت عبداللہ بن حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ مسکراتے ہوئے کسی اور شخص کو نہیں دیکھا۔
(سنن ترمذی ابواب المناقب باب بشاشتہ النبیؐ)
حضرت سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے جابرؓ بن سمرہ سے پوچھا کہ کیا آپ حضورؐ کی مجالس میں بیٹھا کرتے تھے ؟ فرمایا بہت کثرت کے ساتھ۔ حضورؐ فجر کی نماز پڑھانے کے بعد جائے نماز پرہی سورج طلوع ہونے تک تشریف فرما رہتے تھے۔ صحابہؓ آپس میں زمانہ جاہلیت کی باتیں کرکے ہنسا کرتے تھے اور حضورؐ بھی ان کے ساتھ تبسم فرمایا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب تبسم)
ایک دفعہ ایک شخص حضورﷺ کے پاس آیا اور آپؐ سے اپنے لئے سواری مانگی۔ حضورؐ نے فرمایا ٹھیک ہے میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دے دوں گا۔ اس نے کہا یا رسول اللہ! میں اونٹنی کے بچہ کوکیا کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا ’’کوئی اونٹ ایسا بھی ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو۔‘‘
(سنن ترمذی ابواب البرو الصلۃ باب فی المزاح)
ایک بوڑھی عورت نے عرض کیا کہ حضورؐ کیا میں جنت میں جاؤں گی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنت میں تو صرف جوان عورتیں جائیں گی وہ افسردہ ہوگئی تو فرمایا ’’جنت میں بوڑھے بھی جوان کرکے لیجائے جائینگے۔‘‘
(الشمائل المحمدیہ للترمذی صفۃ مزاح رسول اللہ)
حضورﷺ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی آپؐ نے اس کے شوہر کی بابت پوچھا تو اس نے نام بتایا۔ جس پر آپؐ نے فرمایا۔ وہی جس کی آنکھوں میں سفیدی ہے جونہی وہ عورت گھر پہنچی تو اپنے شوہر کی آنکھوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ اس کے خاوند نے کہا۔ تجھے کیا ہوگیا ہے۔عورت نے جواب دیا کہ رسول کریمﷺ نے مجھے بتایا ہے کہ تیری آنکھوں میں سفیدی ہے۔یہ سن کراس نے کہا میری آنکھوں میں سفیدی سیاہی سے زیادہ نہیں ہے۔
(شرف النبیؐ ازعلامہ ابوسعید نیشا پوری مترجم صفحہ 109)
حضورﷺ ایک دفعہ سواری پر سوار ہو کر قباکی طرف جانے لگے۔ ابوہریرہؓ ساتھ تھے۔ حضورؐ نے ان سے فرمایا کیا میں تمہیں بھی سوار کرلوں انہوں نے عرض کیا جیسے حضورؐ کی مرضی تو فرمایا آؤ تم بھی سوار ہوجاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ نے سوا ر ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے اور گرتے گرتے حضور کو پکڑلیا اور حضورؐ کے ساتھ گرپڑے۔
حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ کو سوار ہونے کی دعوت دی مگر وہ دوسری دفعہ بھی حضورؐ کو لے کر گر پڑے۔ حضورؐ پھر سوار ہوئے اور ابوہریرہؓ سے پوچھا کیا تمہیں بھی سوار کرلوں تو کہنے لگے اب میں آپ کو تیسری دفعہ نہیں گراناچاہتا۔
(المواہب اللدنیہ۔ زرقانی جلد4 صفحہ265 دارلمعرفہ بیروت)
حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ پر جب وحی آتی یا جب آپؐ وعظ فرماتے تو آپؐ ایک ایسی قوم کو ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب کا خطرہ ہو مگر آپؐ کی عمومی کیفیت یہ تھی کہ سب سے زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپؐ کا ہوتاتھا۔
(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ17)
ایک دفعہ رسول اللہﷺ اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کے ہاں تشریف لائے تو حضرت علیؓ کو گھر میں موجود نہ پایا تو آپؐ نے پوچھا تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے مابین کچھ تکرار ہوگئی۔ وہ مجھے ناراض پاکر چلے گئے اور گھر میں دوپہرآرام بھی نہیں کیا۔رسول کریمﷺ نے ایک شخص کوبھجوایا کہ دیکھو وہ کہاں گئے؟ اس نے آکر بتایا کہ وہ مسجد میں ہیں۔ رسول اللہﷺ وہاں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ زمین پر لیٹے تھے ان کی چادر جسم سے سرکی ہوئی تھی اور پہلو غبار آلود تھا۔ رسول کریمﷺ پہلے تو پیار سے حضرت علیؓ سے مٹی پونچھنے لگے پھر فرمایا: اٹھو اے ابوتراب (مٹی کے باپ)! اور یوں حضرت علیؓ کی ایک یہ کنیت بھی معروف ہوئی۔
(صحيح مسلم کتاب الفضائل بَابُ مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ)
اسی طرح رسول اللہﷺبعض دفعہ اپنے گھر کےخادم حضرت انسؓ کو دوکانوں والاکہہ کریاد فرماتے۔ اب ظاہر ہے کہ ہر شخص کے دوکان ہی توہوتے ہیں۔ مگر رسول اللہؐ کا پیار سے انسؓ کو یوں پکارنا کہ اے دوکانوں والے! ذرا ادھر آنا۔ کیسا مزاح پیدا کر دیتا ہوگا۔
(شمائل الترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللہؐ)
حضرت محمود بن ربیع ؓنے کم سنی میں حضور ؐکے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یادرکھی۔ وہ فرماتے تھے کہ میری عمرپانچ سال تھی حضورؐ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے۔ آپؐ نےہمارے کنویں سے پانی پیا اور ڈول سے پانی منہ میں لے کر اس کی ایک پچکاری میرے اوپر پھینکی تھی۔
(بخاری کتاب العلم باب 13)
ایک اور صحابی حضرت سفینہ ؓبیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپناسامان تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتایہاں تک کہ میرے پاس بہت ساسامان اکٹھا ہوگیا۔ نبی کریمؐ نے یہ سب دیکھ کر فرمایا تم تو واقعی سفینہ (یعنی کشتی) ہو۔ جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ221، ابوداؤد کتاب الادب باب 18)
ایک دفعہ حضرت صہیب ؓرسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضورؐ کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی۔آپؐ نے صہیبؓ کو بھی دعوت دی کہ کھانے میں شامل ہوجائیں۔صہیبؓ روٹی کی بجائے کھجوریں زیادہ شوق سے کھانے لگے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے۔اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہیے۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہؐ! میں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھجوریں کھارہا ہوں۔ نبی کریم ؐاس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے اور اس صحابی کی حاضر جوابی پر تبسّم فرمانے لگے۔
حضرت براء بن عازب ؓبیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور خوش اخلاق تھے۔
(بخاری کتاب المناقب۔ باب صفۃ النبیﷺ
مسند احمد جلد4 صفحہ61 دارالکتاب العربی بیروت)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دیہاتی زاہر نامی دوست تھے جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدئے بھیجا کرتے تھے۔ ایک روز وہ بازار میں اپنی کوئی چیز بیچ رہے تھے۔ اتفاق سے حضورﷺ ادھر سے گزرے ان کو دیکھا تو بطور خوش طبعی چپکے سے پیچھے سے جاکر ان کو اپنے جسم کے ساتھ لگا لیا اور ہنستے ہنستے آواز لگائی کہ اس غلام کو کون خریدتا ہے؟ زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو کون ہے؟ مڑ کر دیکھا تو حضورﷺ تھے۔حضرت زاہر ؓ نے کہا: یارسول اللہ! مجھ جیسے غلام کو جو خریدے گا نقصان اٹھائے گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم خدا کی نظر میں ناکارہ نہیں ہو۔
(محسن انسانیت،اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’انبیاء علیہم السلام کا وجود بھی ایک بارش ہوتی ہے۔ وہ اعلیٰ درجہ کا روشن وجود ہوتا ہے۔ خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ دنیا کے لئے اس میں برکات ہوتے ہیں۔ اپنے جیسا سمجھ لینا ظلم ہے۔ اولیاء اور انبیاء سے محبت رکھنے سے ایمانی قوت بڑھتی ہے‘‘
(ملفوظات جلد5 صفحہ213 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰٓ اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَعَلیٰٓ اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزاج میں اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا عکس ودیعت کیا گیا تھا۔ وہی خندہ پیشانی بشاش چہرہ، نرم لہجہ جو دوسروں کے دلوں کو اسیر کرلیتا اور ماحول کو ترو تازہ کر دیتا۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل ؓ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے چہرہ مبارک کی قلمی تصویر بناتے ہوئے لکھتے ہیں: آپ ؑ کا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا۔ اور حالانکہ عمر شریف70 اور 80 کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام نشان نہ تھا اور نہ متفکر اور غصہ ور طبیعت والوں کی طرح پیشانی پر شکن کے نشانات نمایاں تھے۔ رنج۔ فکر۔ تردد یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار دیکھتا تھا۔
(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل حصہ اول صفحہ528)
حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی ؓ نے حضرت اقدس ؑ کی سیرت پر مختصر سی کتاب لکھی ہے مگر جامعیت میں بحر بے کنار ہے۔ آپؑ کے مزاج مبارک کی دلآویزی کے بارے میں رقم طراز ہیں: سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جو طمانیت اور جمعیت اور کسی کو بھی آزار نہ دینا حضرت کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے وہی سکون حالتِ بیماری میں بھی ہے اور جب بیماری سے افاقہ ہؤا معاً وہی خندہ رُوئی اور کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں۔ مَیں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جب کہ ابھی ابھی سردرد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپؑ کو افاقہ ہؤا آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہؤاکہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دل کشا نزہت افزا باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جو یہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے۔
(سیرت مسیح موعودؑاز عبد الکریم سیالکوٹی صفحہ25-26)
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓ ایک بڑا ہی پرلطف واقعہ لکھتی ہیں۔ لینڈو پرسیر کے لئے نکلے‘ سامنے گھوڑوں کی جانب پشت کی طرف حضرت اقدس علیہ السلام اور حضرت اماں جان ؓ ہوتی تھیں اور سامنے میں۔ لاہور اس وقت اتنا بڑا نہ تھا۔ باہر نکل کر غیر آباد سڑکوں کے چکر کاٹ کر ہم واپس آتے۔ آپؑ فرماتے تھے ’’نقاب اٹھا دو گاڑی چل رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا۔ کھیتوں میں ہوگا کوئی بیچارہ کسان اپنے کام میں مصروف ہوگا‘‘
ایک دن اسی طرح بیٹھے ہوئے آپؑ نے فرمایا: ’’اب ذرا نقاب نیچی کرلینا میاں محمود گھوڑے پر آرہے ہیں اس کو پردہ کا بہت خیال رہتا ہے۔ غصہ چڑھے گا۔‘‘
یہ الفاظ آپؑ کے لبوں سے بہت پیاری مسکراہٹ کے ساتھ نکلے تھے۔ میں نے گردن نکال کر دیکھا ’سڑک سے اگلی سڑک کے موڑتے کہیں ان کا گھوڑا نظر نہیں آرہا تھا۔ چند منٹ کے بعد وہی ہؤا کہ حضرت بھائی صاحب گھوڑا دوڑاتے پاس سے گزرے اور مجھے جھانکتے دیکھ کر گھورا۔
(مبارکہ کی کہانی مبارکہ کی زبانی صفحہ15-16)
ایک دفعہ مولوی کرم الدین صاحب کے مقدمہ میں حضور ؑگورداسپور تشریف لے گئے اور بوجہ روزانہ پیشیوں کے حضور ؑنے وہاں قیام فرما لیا۔ حضرت میاں عبد الرحیم صاحب ولد میاں محمد عمر صاحب کھانا پکوا کر اوپربھجوا دیتے اپنے لئے نہیں نکالتے تھے سارا بھجوا دیتے تھے حضورؑ جب کھانا کھا لیتے تو پھر خودکھاتے تھے۔ ایک دن مہمان زیادہ آگئے کھانا نہ بچا اس لئے حافظ حامد علی صاحب مرحوم ان کو کھانا نہ بھجوا سکے۔ حضرت میاں عبد الرحیم بیان کرتے ہیں ’مَیں حافظ صاحب سے غصے ہو گیا اور یونہی سوگیا۔ صبح حضور ؑنے آواز دی کہ کیا کھانا تیار ہے۔ حافظ حامد علی صاحب ؓنے حضورؑ سے عرض کیا کہ ابھی تو کھانا پکانے والا ہی نہیں اُٹھا اور ہم سے غصّہ ہیں۔ پھر حضور ؑنے کھڑکی کی طرف سے آواز دی۔ کھڑکی چوبارے کی تھی اور باورچی خانے کے سامنے تھی مگر مَیں نے پھر بھی آواز نہ دی۔ اس پر حضور نے پھر آواز دی مَیں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ پھر حضور خود تشریف نیچے لے آئے اور فرمایا کہ ’’کاکا‘‘ آج کیا ہو گیا ہے، کھانا کس طرح تیار کرو گے؟ اس پر حافظ حامد علی صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ حضور! یہ رات سے ناراض ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ حضور کے کھانے کے بعد میرا کھانا لانا، مگر چونکہ کھانا بچا نہیں تھا اس لئے اس کو نہ دے سکا۔ اس پر حضور ؑنے فرمایا کہ اس کو پہلے دے دیا کرو۔ اُس نے عرض کیا (حافظ حامد علی نے) کہ یہ پہلے نہیں لیتا۔ پھر حضورؑ نے حافظ صاحب کو کہا کہ اس کے لئے ایک سیر دودھ روزانہ لایا کرو۔ اُس بات کو سن کے مَیں مچلا بنا ہوا سو رہا تھا۔ مَیں فوراً اُٹھا اور عرض کی کہ آدھے گھنٹے کے اندر اندر کھانا تیار ہو جائے گا۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی آگ جلا کر آدھا گھنٹہ گزرنے سے پہلے کھانا تیار کر دیا۔ جب حضور ؑکے پاس کھانا گیا تو مَیں بھی اوپر چوبارے پر چلا گیا۔ حضور ؑنے پوچھا تم نے کیا طلسمات کیا ہے؟ کیا جادو کیا ہے؟ مَیں نے عرض کیا پھر بتاؤں گا۔ دوسرے دن صبح جب مہندی لگانے کے لئے گیا تو فرمایا کل کیا جادو کیا تھا کہ کھانا اتنی جلدی تیار ہو گیا۔ چونکہ حضورؑ اکیلے تھے مَیں نے حضور سے عرض کیا کہ دراصل خالی گوشت پک رہا تھا، گوشت رکھ کے تو ہلکی آنچ مَیں نے رکھ دی تھی، اور تیز آگ بند کی ہوئی تھی۔ اُس وقت جب آپ نے کہا تو مَیں نے جلدی سے سبزی ڈالی اور کھانا تیار ہو گیا۔ حضرت صاحب اس سے بڑے ہنسے اور خوش ہوئے۔
(مأخوذ از روایات حضرت میاں عبدالرحیم ؓ
رجسٹر روایات غیر مطبوعہ جلد8 صفحہ228-230)
حضرت حکیم اللہ بخش صاحبؓ نے بیان فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب ایک ماہر طبیب تھے۔ ایک دفعہ بیاس کے پار سے ایک نوجوان قادر بخش نام،ان کا نام سن کر قادیان آیا۔ مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں۔ اس پر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت صاحب نے رہنے کو مکان دیا۔ دوا اور غذا سب اپنے پاس سے مہیا فرماتے رہے۔ خدا کے فضل سے وہ جلد صحت یاب ہو گیا اور بعد میں کئی دن یہاں رہا۔ ایک روز اس نے بانگ کہی چونکہ اُس کی آواز بہت اعلیٰ تھی اس لئے حضرت صاحب نے حکم دیا کہ میاں قادر بخش پانچ وقت تم ہی بانگ کہا کرو۔ چونکہ اس کی آواز بہت ہی بلند تھی۔ مسلمان تو بہت ہی خوش ہوتے تھے۔ مگر ہندوؤں کو تکلیف ہوتی تھی۔ وہ دل میں بُرا مناتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ مرزا جی اس قادر بخش کی آواز بہت دور جاتی ہے۔ فرمایا آپ کو اس سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچتی؟ کہنے لگے واہ گرو واہ گرو گئودی سَوں تکلیف نہیں اسیں سگوں راجی ہوندے آں۔ پر ایس نوں تُسی کہو ایڈی اُچی نہ آکھے ذرا نیویں آکھ لیا کرے۔ (واہے گرو، واہے گرو، گائے کی قسم تکلیف نہیں ہم تو بلکہ خوش ہوتے ہیں پر آپ اس کو کہیں اتنی اُونچی نہ دیا کرے ذرا ہلکی آواز میں دیا کرے۔ ناقل) حضور نے فرمایا جب آپ کو تکلیف نہیں دیتی تو اس سے بھی اُونچی کہا کرے گا ’’نیویں‘‘ کی کیا ضرورت ہے
ایک روز میاں قادر بخش کو فرمایا کہ اب تو تُو خوب تندرست ہے۔ عرض کی۔ حضور دیکھنے میں ایسا نظر آتا ہوں میرے بیچ میں کچھ نہیں۔ حضور نے ہنس کر فرمایا (مجھے مخاطب کر کے) دیکھو اللہ بخش! قادر بخش سچ کہتا ہے۔ واقعی لہو اور چربی کے سوا اس کے بیچ میں کچھ نہیں۔
روایات بیان فرمودہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحب
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر4 صفحات60تا67)
حضرت مفتی محمد صادق ؓتحریر فرماتے ہیں (قریباً 1902ء) میں ایک لیڈی مس روز نام تھی جس کے مضامین اُس ملک کے اخباروں میں اکثر چھپا کرتے تھے میں نے اُس کے ساتھ تبلیغی خط و کتابت شروع کی اور اُس کے خط جب آتے تھے میں عموماًحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ترجمہ کر کے سنایا کرتا تھا اور ہماری مجلسوں میں اُسے مس گلابو کہا جاتا تھا۔ ایک دفعہ مس گلابو نے اپنے خط کے اندر پھولوں کی پتیاں رکھ دیں حضرت صاحب نے اُنہیں دیکھ کر فرمایا۔
’’یہ پھول محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی یَأْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں۔‘‘
(ذکر حبیب صفحہ 99)
حضرت پیر سراج الحق نعمانی ؓ حضرت اقدسؑ کی پاکیزہ محافل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض وقت میں کوئی لطیفہ سنا دیتا تو ہنستے اور فرماتے کہ صاحبزادہ صاحب اتنے لطیفے تم نے کہاں سے یاد کرلئے؟ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تھا وہ اتفاق سے ایک کام کے لئے مسجد مبارک میں گیا مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے کہا آج تم کیسے مسجد میں آگئے نماز تو پڑھتے نہیں۔ حضرت اقدس ؑ نے کچھ نہ فرمایا میں نے کہا کہ حضرت اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک مراثی کا گھوڑا مسجد میں گھس گیا لوگوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ مراثی تیرے گھوڑے نے مسجد کی بے ادبی کی۔ مراثی نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا اس نے مسجد کی بے ادبی کی اور مسجد میں گھس گیا کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں نے کبھی مسجد کی بے ادبی کی ہو اور مجھے کبھی مسجد میں گھستے اور بے ادبی کرتے دیکھا ہے؟ حضرت اقدس ؑ ہنسے اور فرمایا اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آئی بے شک یہ آج بھولے سے مسجد میں آگیاہے۔
وہ شخص ایسا خفیف اور شرمندہ ہؤا کہ اسی روز سے نماز پڑھنے لگا۔
(تذکرۃ المہدی صفحہ 179)
درجِ ذیل واقعہ بھی حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ نے بیان کیا:
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا ’’آج ہمیں دکھایا گیا ہے کہ ان موجوداور حاضر لوگوں میں کچھ ہم سے پیٹھ دئے بیٹھے ہیں۔ اور ہم سے رُو گرداں ہیں اور کراہت کے ساتھ ہم سے دوسری طرف پھیر رکھا ہؤا ہے۔ یہ باتیں حضرت اقدسؑ کی سن کر میں اور دوسرے اکثر احباب ڈر کر خوف زدہ ہوگئے اور استغفار پڑھنے لگے۔ خیر حضرت اقدسؑ جب اندر مکان میں تشریف لے گئےاور اندر سے کنڈی لگالی سید شاہ صاحب بہت ہی گھبرائے اور چہرہ فق ہوگیا اور جلدی سے آپ کے دروازہ کی کنڈی ہلائی حضرت اقدس ؑ واپس تشریف لائے مسکرا کر فرمایا شاہ صاحب کیا ہے۔ کیا کام ہے۔ شاہ صاحب نے عرض کیا کہ میں حضور ؑ کو حلف تو نہیں دے سکتا کہ ادب کی جگہ ہے اور نہ میں اوروں کا حال دریافت کرتا ہوں صرف اپنا حال پوچھتا ہوں کہ رُوگردان لوگوں میں مَیں ہوں یا نہیں۔ حضرت اقدس ؑ شاہ صاحب کی بات سن کر بہت ہنسے اور اپنا دایاں ہاتھ اُٹھا کر اور ہلا کر فرمایا شاہ صاحب تم ان میں نہیں۔ شاہ صاحب تم رُوگردان لوگوں میں نہیں ہواور ہنستے ہنستے یہ فرماکر دروازہ بند کرلیا تب فضل شاہ صاحب کی جان میں جان آئی۔
(تذکرۃ المہدیؑ صفحہ314)
کھیل اور مذاق میں بھی شائستگی رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت اقدسؑ کی مثال دی فرمایا:
’’ہنسی اور مذاق کرنا جائز ہے۔ رسول کریمﷺ مذاق کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ بھی مذاق کرتے تھے۔ ہم بھی مذاق کر لیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مذاق نہیں کرتے۔ ہم سو دفعہ مذاق کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں، اپنی بیویوں سے کرتے ہیں۔ لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی کی تحقیر کا رنگ ہو۔ا گر منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جس میں تحقیر کا رنگ پایا جاتا ہو تو ہم استغفار کرتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی۔۔۔میں اس لحاظ سے برا نہیں مناتا کہ ہنسنا کھیلنا جائز نہیں۔ تم بے شک ہنسو اور کھیلو لیکن بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی۔ (یعنی) کھیل کھیل ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر باپ کی داڑھی سے بھی کھیلا جائے تو یہ جائز نہیں۔ خداتعالیٰ کا مقام خدا تعالیٰ کو دو۔ فٹبال کا مقام فٹبال کو دو۔ مشاعرے کا مقام مشاعرے کو دو اور پیشگوئیوں کا مقام پیشگوئیوں کو دو۔ اگر تمہیں کھیل اور تمسخر کا شوق ہو تو لاہور جاؤ اور مشاعروں میں جا کر شامل ہو جاؤ۔ اگر تم لاہور جا کر ایسا کرو گے تو لوگ یہی کہیں گے کہ لاہور والوں نے ایسا کیا۔ یہ نہیں کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا۔ لیکن یہاں اس کا دسواں حصہ بھی کرو گے تو لوگ کہیں گے کہ احمدیوں نے ایسا کیا۔ پس میں تمہیں ہنسی سے نہیں روکتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہنسی میں اس حد تک نہ بڑھو جس میں جماعت کی بدنامی ہو۔‘‘
(الفضل 12 مارچ 1952ء صفحہ 4)
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)