بنیادی مسائل کے جوابات
قسط 29
سوال: مکرم انچارج صاحب بنگلہ ڈیسک نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بنگلہ دیش میں قومی ہیروز کے مجسمے بنانے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ کیا اسلام میں کسی ہیرو کا مجسمہ بنانا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:
جواب: قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے قبل انبیاء کے ادوار میں نیک مقصد کیلئے تصاویر اور مجسمہ سازی کا کام کیا جاتا تھا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ایک فرقہ جن ان کے حسب منشاء ان کیلئے مجسمے بناتے تھے۔ (سورۃ سبا: 14) اسی طرح احادیث میں بھی آتا ہے کہ حضورﷺ کی بعثت سے قبل اہل کتاب کے پاس مختلف انبیاء کی تصاویر تھیں، جن میں آنحضورﷺ کی تصویر بھی تھی۔(التاریخ الکبیرمؤلفہ ابو عبداللہ اسماعیل بن ابراھیم الجعفی القسم الاوّل من الجزء الاوّل صفحہ179) علاوہ ازیں بچوں کے کھیلنے کیلئے گڑیاں اور گڈے وغیرہ بھی ہوتے تھے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن میں ان کے پاس بھی کھلونوں میں گڑیاں اور پروں والے گھوڑے تھے، جنہیں حضورﷺ نے بھی دیکھا اور آپ نے ان کے بارہ میں کسی قسم کی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی اللعب بالبنات)
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی بہت ضروری ہے کہ آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں چونکہ شرک اور بت پرستی اپنے انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اس لئے حضورﷺ نے ہر اس کام کو جس سے ہلکا سا بھی شرک اور بت پرستی کے طرف میلان ہو سکتا تھا، نہایت ناپسند فرمایا اور سختی سے اس کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ چنانچہ گھر میں لٹکے ہوئے پردہ یا بیٹھنے والے گدیلے پر تصاویر دیکھ کر حضورﷺ نے سخت ناگواری کا اظہار فرمایا اور انہیں اتارنے اور پھاڑنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لامر اللہ، کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء) اسی طرح حضورﷺ نے اس زمانہ کے مطابق مصوری کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر کی سختی سے ممانعت فرمائی اور مصوری کے کام کو ناجائز اور مورد عذاب قرار دیا۔
(بخاری کتاب البیوع باب بیع التصاویر التی لیس فیھا روح)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم و عدل اپنے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے نقش پا پر چلتے ہوئے حضورﷺ کے نہایت پُرحکمت ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی روشنی میں اس مسئلہ کا یہ حل پیش فرمایا کہ جو کام کسی نیک مقصد کیلئے کیا جائےوہ جائز ہے لیکن وہی کام بغیر کسی نیک مقصدکے ناجائز ہو گا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے تبلیغ اور پیغام حق پہنچانے کی خاطر ایک طرف اپنی تصویر کی اشاعت کی اجازت دی، جس پر اس زمانہ کے نام نہاد ملاؤں نے اس نیک مقصد کی مخالفت کرتے ہوئے بُرے بُرے پیرایوں میں اسے بیان کیا اور اس کے خلاف دنیا کو بہکایا تو حضور علیہ السلام نے ان مخالفین کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ تصویر کو اتنا ہی بُرا سمجھتے ہیں تو پھر شاہی تصویر والا روپیہ اور دونیاں اور چونیاں اپنے گھروں اور جیبوں سے باہر کیوں نہیں پھینک دیتے اور اسی طرح اپنی آنکھیں بھی کیوں نکلوا نہیں دیتے کیونکہ ان میں بھی تو اشیاء کا انعکاس ہوتا ہے۔ تو دوسری طرف حضور علیہ السلام نے اسی کام کو کسی جائز مقصد کے بغیر کرنے پرنہایت ناپسند فرمایا اور اسے بدعت قرار دیتے ہوئے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔اس مسئلہ کے ان دونوں پہلوؤں کوواضح کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا:
’’میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اوراس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آجکل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں کہ اُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کرسکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ میراچہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہل فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ365-366)
اسی طرح فرمایا:
’’وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جنّ حضرت سلیمان کیلئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرتﷺ کی بھی تصویر تھی اور آنحضرتﷺ کو حضرت عائشہ ؓکی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 365)
آپ مزید فرماتے ہیں:
’’افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کرکے مخالفوں کو اسلام پرہنسی کا موقعہ دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے موید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھیرتے اوراہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کردیتے ہیں۔ لیکن باایں ہمہ میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میر ی جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنالیں۔ کیونکہ اسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں اس لئے میں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کیلئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دست کش رہیں۔ بعض صاحبوں کے میں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ میں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ ایک صحیح اور مفید غرض کیلئے کام کرنا اَور اَمر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جابجا درو دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اَور بات ہے۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ367)
پس بنگلہ دیش میں بنائے جانے والے یہ مجسمے اگر کسی نیک مقصد کیلئے بنائے جا رہے ہیں جس سے علمی یا روحانی ترقی مقصود ہے تو پھر ان کے بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر صرف نمود و نمائش اور دکھاوے کیلئے بنائے جا رہے ہیں تو غلط اور ناجائز کام ہے۔
سوال: ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضورﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ سے حضرت علیؓ کے متعلق دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے۔ اسی طرح حضورﷺ نے حضرت عباس ؓاور حضرت ابو طالب کیلئے بھی چچا کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور حضرت علیؓ نے حضرت خدیجہؓ کیلئے چچی کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس لفظ کی کچھ وضاحت فرما دیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:
جواب: ہر معاشرہ کے کچھ رسم و رواج اور روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے محاورے ہوتے ہیں، جو اسی معاشرہ کو سامنے رکھ کر سمجھے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ بعض خاندانوں میں والد کا کسی شخص سے جو رشتہ ہوتا ہے خاندانی رسم و رواج یا محاورہ کے تحت وہی رشتہ اولاد کیلئے بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ حضرت علی ؓ چونکہ حضورﷺ کے چچا کے بیٹے تھے، لہٰذا اسی معاشرتی رواج کے تحت حضورﷺ نے اپنی بیٹی سے دریافت کیا کہ تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے۔
پھر عرب میں يَا ابْنَ عَمِّ اور يَا ابْنَ أَخِیْ یعنی اے میرے چچا کے بیٹے! اور اے میرے بھتیجے! وغیرہ الفاظ کے استعمال کا عام عام رواج تھا اور اب تک ہے۔ چنانچہ بڑی عمر کا شخص اپنے سے چھوٹی عمر کے شخص کو مخاطب کرنے کیلئے يَا ابْنَ أَخِي یعنی اے میرے بھتیجے! کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اسی طرح بیوی اپنے خاوند کا نام لینے کی بجائے يَا ابْنَ عَمِّ یعنی اے میرے چچا کے بیٹے! کے الفاظ استعمال کرتی ہے۔
جہاں تک حضرت علیؓ کے حضرت خدیجہ ؓ کیلئے چچی کے الفاظ استعمال کرنے کا تعلق ہے تو عربی میں پھوپھی اور چچی دونوں کیلئے عمتی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لگتا ہے آپ نے کسی جگہ عمتی کا لفظ پڑھ کر اس کا ترجمہ چچی سمجھ لیا ہے جبکہ حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت علیؓ کے حوالہ سے اس لفظ کا ترجمہ پھوپھی بنے گا۔ کیونکہ حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوطالب ؓ کا نسب پانچویں درجہ پر قصی بن کلاب پر آپس میں ملتا ہے اور اس لحاظ سے حضرت خدیجہ ؓ رشتہ میں حضرت علیؓ کی پھوپھی لگتی تھیں۔
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں خط لکھا کہ بعض دوستوں کی طرف سے اس کے کزن کی وفات پر نامناسب رویہ کا اظہار کیا گیا ہے، جس پر اسے شدید دکھ ہے۔ نیز اس دوست نے حضور انور سے دریافت کیا کہ کیا اسلام کی مخالفت پر فوت ہونے والے کسی عزیز کیلئے دعا کرنے سے قرآن کریم ہمیں منع فرماتا ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں اس بارہ میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:
جواب: آپ کے کزن کی وفات پر اگر کسی احمدی نے کسی نامناسب رویہ کا اظہار کیا ہے تو یقیناً اس احمدی نے غلط کیا ہے۔ہر انسان کی وفات کے بعد اس کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو جاتا ہے، وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے کسی دوسرے شخص کو اس بارہ میں کوئی رائے قائم کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ہر ایک شخص کا خدا تعالیٰ سے الگ الگ حسا ب ہے۔ سوہر ایک کو اپنے اعمال کی اصلا ح اور جانچ پڑتال کر نی چاہئیے۔ دوسروں کی مو ت تمہارے واسطے عبرت اور ٹھوکر سے بچنے کا با عث ہو نی چاہئیے نہ کہ تم ہنسی ٹھٹھے میں بسر کر کے اور بھی خدا تعالیٰ سے غافل ہوجاؤ۔‘‘
(ملفوظات جلدسوم صفحہ 217)
باقی جیسا کہ آپ نے عابد خان صاحب کی ڈائری کے حوالہ سے اپنے خط میں لکھا ہے، میرا جواب تو آپ نے پڑھ ہی لیا ہے کہ ہم اسے کسی قسم کا کوئی خدائی نشان قرار نہیں دے سکتے کیونکہ آپ کے کزن کا نہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ کوئی مقابلہ چل رہا تھا اور نہ ہی اس نے جماعت کو کوئی ایسا چیلنج دیا تھا جسے مقابلہ سمجھا جائے۔
اسلام کسی انسان سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ اس کے فعل سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام اپنے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ میں تمہارے عمل کو نفرت سے دیکھتا ہوں۔(الشعراء: 169) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ہدایت فرمائی کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے استہزاء ہوتا سنو تو ان ہنسی کرنے والوں کے ساتھ اس وقت نہ بیٹھو۔ (سورۃ النساء: 141) گویا انسانوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کے عمل سے بیزاری کے اظہار کی تعلیم دی گئی ہے۔
پس اسلام کی تعلیم ہر معاملہ میں مکمل اور نہایت خوبصورت ہے۔ اسلام تو سخت ترین معاند کی موت پر بھی خوش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اس کی موت پر بھی ایک سچے مومن کو اس لئے دکھ ہوتا ہے کہ کاش یہ شخص ہدایت پا جاتا۔ احمدیت کے سخت ترین دشمن اور ہمارے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی ذات اطہر کے بارہ میں بد زبانی کرنے والے معاند اسلام پنڈت لیکھرام کی الہٰی پیشگوئیوں کے مطابق جب ہلاکت ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی ہلاکت پر بھی اس کی قوم کے لوگوں سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کیلئے۔ کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔‘‘
(سراج منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ28)
باقی جہاں تک اسلام کی مخالفت پر مرنے والے کسی شخص کیلئے دعا کرنے کی بات ہے تو اسلام نے صرف مشرک جو خدا تعالیٰ سے کھلی کھلی دشمنی کا اظہار کرے، اس کیلئے دعائے مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے باقی کسی کیلئے دعا کرنے سے نہیں روکا۔
(التوبہ: 114)
سوال: ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی تیس سال پہلے دودھ پلایا تھا۔ اب میرے بڑے بھائی کے بیٹے کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ تجویز ہوا ہے۔ کیا یہ رشتہ ہو سکتا ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2020ءمیں درج ذیل ارشاد فرمایا:
جواب: رضاعت کے بارہ میں آنحضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جو رشتے نصب کی بناء پر حرام ہیں اگر رضاعت کی بناء پر قائم ہو جائیں تو رضاعت کی وجہ سے ان رشتوں کی بھی حرمت قائم ہو جاتی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات) لیکن شرط یہ ہے کہ بچہ نے اپنی دودھ پینے کی عمر میں پانچ مرتبہ سیر ہو کر دودھ پیا ہو۔
(صحیح مسلم کتاب الرضاع)
اس کے ساتھ یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ رضاعت کی حرمت صرف دودھ پینے والے بچہ اور آگے اس کی نسل کے ساتھ قائم ہوتی ہے، اس دودھ پینے والے بچہ کے دوسرے بہن بھائیوں پر اس رضاعت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پس اس لحاظ سے آپ کی بیٹی کا رشتہ آپ کے اُس بھائی کے بیٹے سے جس نے آپ کا دودھ نہیں پیا ہوا، ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
اللہ تعالیٰ دونوں خاندانوں کیلئے یہ رشتہ بہت مبارک فرمائے، بچوں کی طرف سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے اور ہمیشہ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔ آمین
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ میں نے سنا ہے کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ پہلا سپاہی جس نے قسطنطنیہ میں قدم رکھا جنت میں جائے گا، کیا یہ درست ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو امن و آشتی اور پیار محبت کی تعلیم کے ساتھ دنیا میں مبعوث فرمایا۔ لیکن جب مخالفین اسلام اپنی مخالفت میں حد سے گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی جواباً جہاد کی اجازت دی۔ (الحج: 40) جس کے تحت مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی بدولت جہاں مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا وہاں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایسے علاقوں اور ممالک پر بھی چڑھائی کی جن میں مسلمانوں کی پُر امن جماعت کو ملیا میٹ کرنے کیلئے سازشیں تیار کی جاتیں اور دوسرے قبائل اور علاقوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آنحضورﷺ نےظلم و بربریت کے خلاف لڑی جانے والے ان جنگوں میں مسلمانوں کی فتح و ظفر کے ساتھ کامیابیوں کی کئی پیشگوئیاں فرمائیں ہیں۔ ان میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ (اس زمانہ کی دو بڑی طاقتوں قیصر اور کسریٰ میں سے) قیصر(کی عیسائی حکومت) کے شہر کے خلاف میری امت کے جو لوگ جنگ کیلئے نکلیں گے وہ جنتی ہوں گے۔
(بخاری کتاب الجہاد و السیر)
اسی طرح ایک اور جگہ حضورﷺ نے فرمایا کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والا لشکر اور اس کا امیر کیا ہی اچھا لشکر اور کیا ہی اچھا امیر ہو گا۔
(مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر 18189)
ان دونوں احادیث میں مذکورہ پیشگوئی بھی آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء ہونے والی دیگر الہٰی پیش خربیوں کی طرح اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔
(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)