• 12 مئی, 2024

موبائل فونز اور آداب مساجد

آج کے سائنسی دور میں نت نئی ایجادات کی وجہ سے جو سہولتیں انسان کو مل رہی ہیں اُن میں سے ایک موبائل فونز کا کثرت سے استعمال بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کی ضرورت بن چکا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے گھرکے بھی توبعض آداب ہیں۔ مجھے چونکہ بڑے شہروں میں بطور مربی سلسلہ خدمات بجالانے کی توفیق ملتی رہی ہے۔جہاں سرکاری اور نجی قسم کے مختلف کمپنیوں کے دفاتر ہوتے ہیں اور میں نے بارہا دیکھا ہے کہ ماتحت اپنے افسرکے دفتر میں جانے سے قبل اپنے موبائل فونز بندکرلیتے ہیں۔ایک دفعہ مجھے اپنے ایک دوست سے ضروری کام تھا۔ میں اُن سے اُن کے موبائل پر رابطہ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔مگر اُن کے موبائل سے عارضی طورپر بندہے کے الفاظ سنائی دیتے تھے۔ کچھ دیر بعدرابطہ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ دوست اپنے افسرکے پاس گئے ہوئے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنا موبائل بند کیاہوا تھا۔

تو خداتعالیٰ تو تمام افسروں کا افسر بلکہ احکم الحاکمین ہے۔ اس کے دفتر میں آتے وقت۔اس کے گھر میں آتے وقت اپنے موبائلز بند کرلینے چاہئیں۔ ورنہ دیکھا گیا ہے کہ نماز کے دوران یا خطبات، تقاریر کے دوران اور درسوں کے دوران مختلف نغموں کے سازوں پر مشتمل گھنٹیاں سنائی دیتی ہیں۔ایک طرف نمازباجماعت ہورہی ہو اور انسان اپنے آپ کو اس دنیا سے منقطع کرکے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہواہے اچانک کسی نغمے کے الفاظ کان میں پڑیں یا کسی فلمی نغمے کا ساز سنائی دے تو بہت پریشانی ہوتی ہے۔

اب تو اس کا استعمال اس کثرت سے ہے کہ قریباً ہر بیت الذکرسے باہر مین گیٹ پر اور اندر بھی جگہ جگہ نوٹس آویزاں نظر آتے ہیں کہ ’’براہ کرم اپنے موبائلز بند کرلیں‘‘

نسیان چونکہ انسان کی طبیعت کا حصہ ہے۔وہ بھولن ہار ہے۔ اگر وہ کسی وقت بند کرنا بھول گیا اور نماز کے دوران گھنٹی ہوگئی تو وہ اب شرمانے کے باعث فوراً بند بھی نہیں کرتا۔اُسے چاہئے کہ وہ فوری طورپر فون نکال کر بند کرلے۔یوں فون نکال کربند کرنے سے اس کے ارد گرد دو تین نمازیوں کی نماز خراب ہوگی کجا یہ کہ بند نہ کرکے بیت الذکر میں موجود تمام نمازیوں کی نماز میں خلل کا باعث ہو۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ فوری طورپرکال منقطع کرنے کا بٹن دباتا ہے اور چند لمحوں کے بعد پھرگھنٹی بجنی شروع ہوجاتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوکہ وہ آن کا بٹن دبائے تاکہ فون کرنے والا اللہ اکبر یا نماز میں کسی حصہ کی تلاوت سُن کر سمجھ جائے کہ میرا مطلوبہ شخص اس وقت نماز میں مصروف ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل تک جب آنے والی کال کے بھی چارجز ہوتے تھے یہ مشورہ نہیں دیا جاسکتا تھا۔ مگر اب تووہ فری ہے صرف بیٹری استعمال ہوتی ہے۔ کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ بعض لوگ دوران درس،تقریر یا خطبہ ہم کسی کے موبائل پر گھنٹی کی آواز سنتے ہیں اوردوسرے اس کی طرف خفگی کی نگاہ سے دیکھ کر اُسے یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ تم نے اچھا نہیں کیا لیکن اپنے موبائل کوچیک نہیں کرتے کہ کہیں وہ آن تو نہیں رہ گیا۔کہیں چند لمحوں تک اس کے موبائل پرگھنٹی بجنے والی ہے۔اس لئے چاہیے تو یہ کہ کسی کے موبائل پر گھنٹی کی آواز سُن کر فوراً ہر شخص اپنا اپنا موبائل چیک کرلے۔دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی نشست میں یا ایک ہی نماز میں مختلف جہت سے تین چار دفعہ فون کی آوازیں آجاتی ہیں۔جن سے باربار نمازی کی توجہ بٹتی ہے۔

ہاں اس سلسلہ میں ایک اور اہم بات جس کی بعض پڑھے لکھے اور سمجھدار بھی خطا کرجاتے ہیں۔ مدنظر رکھنی ضروری ہے۔آج کل برق رفتاری کے ساتھ ایجادات کے ماڈل بدل رہے ہوتے ہیں اور نیا ماڈل یا ڈیزائن پہلے کی نسبت بہت زیادہ سہولیات کومدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہوتا ہےاور طبعاً ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سہولیات والا ماڈل یا ڈیزائن والا لوں۔آج کل فون کو وائبریشن پر کردیا جاتا ہے۔ معمولی سی حرکت سے انسان کو احساس دلادیتا ہے کہ فون آیا ہے۔بالخصوص التحیات کے آخری لمحات میں جب آتا ہے تو بعض لوگ اما م کے التحیات سے فارغ ہونے کے فوراً بعد کاندھے پھلانگتے ہوئے پیچھے کو بھاگتے ہیں کہ فون سن سکیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک روحانی رابطہ اما م کے توسط سے اللہ تعالیٰ سے بھی ہوا ہے۔ خداتعالیٰ سے بھی تار ملی ہوئی ہے۔خداتعالیٰ سے بھی فون پر باتیں ہورہی ہیں۔امام نے تو ابھی آپ کو پوری طرح فارغ نہیں کیا۔ آپ تو دوسرا آدھا سلام چھوڑ کر ہی بھاگ نکلے۔ابھی تسبیحات باقی ہیں۔ جو نماز کا تتمہ ہے۔کجا یہ کہ آپ اپنی تسبیحات مکمل کریں بلکہ پچھلی صفوں پر کھڑے ہوکر بلند آواز سے فون پر باتیں شروع کردیتے ہیں۔ جس سے باقی نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے۔وہ نماز کے بعد تسبیحات میں مصروف ہیں۔ وہ نوافل اور سنتوں میں مصروف ہیں اور یہ دوست مساجد میں اپنے کاروبار کے بارے میں ہدایات دے رہے ہیں۔جبکہ احادیث کے مطابق مساجد میں نہ تو کاروبار ہوسکتا ہے اور نہ ہی مساجد سے باہر گُم ہونے والی چیز کا اعلان ہوسکتا ہے۔

بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات یہ کال ضائع ہوگئی ہوتی ہے۔ اب وہ ضائع ہونے والی کال دومنٹ کے لئے بھی ضائع اور چارمنٹ یا زیادہ وقت کے لئے بھی ضائع ہے تو پھر نماز کو ادھوری چھوڑ کراس کو سننے کا فلسفہ سمجھ سے بالا ہے۔

بعض دفاتر میں دو دو تین تین مختلف نوعیت کے فونز ہیں۔ کوئی عام نمبر ہے۔کوئی انٹرکام ہے۔ موبائل بھی ساتھ ساتھ ہیں اور بعض دوستوں نے تو مختلف کمپنیوں کے موبائل نمبرز اپنی سہولت کی خاطر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے مشاہدہ میں یہ بات روزانہ ہی آتی ہے کہ ایک ہی وقت میں دو یا تین فونز پر اکٹھے ہی گھنٹی بج جاتی ہے یا ایک فون سن رہے ہوتے ہیں تو دوسرے فون پر گھنٹی سنائی دیتی ہے۔ تو اُسے ہم کہہ دیتے ہیں کہ میں ابھی ٹھہر کے بات کرتا ہوں یا آپریٹر کی آواز آتی ہے کہ صاحب دوسرے نمبر پر مصروف ہیں اور اگر کوئی ماتحت بڑے کو فون کرے تو افسر یا اس کا آپریٹر کہہ دیتا ہے کہ دوسری لائن پر مصروف ہیں۔ٹھہر کے بات کریں۔ تو پھر خداتعالیٰ جو خالق کائنات ہے۔ اس سے انسان رابطہ میں ہو۔راز ونیاز کی باتیں ہورہی ہوں۔انسان کے دل کی تار اس خدائے عزوجل سمیع وعلیم اور مجیب الدعوات سے ملی ہوئی ہو تو پھر وہ دنیاوی افسر کی طرح نماز کے دوران فون آنے پر کیوں نہیں انتظار کرواتایا کیوں اس امر کا عندیہ نہیں دیتا کہ میں ٹھہر کے بات کروں گا یا ٹھہر کے بات کرلیں۔ وہ اپنی نماز میں اس طرف توجہ رکھتا ہے اور ختم ہوتے ہی روحانی دنیا سے نکل کر مادی دنیا میں چلاجاتا ہے۔ جبکہ اَللّٰهُمَّ افْتَحْ لِیْ أَبْوَابَ فَضْلِکَ کی دعا بھی ابھی پڑھی نہیں ہوتی۔

بلکہ اب تو حیرانگی اس وقت انتہاء کو پہنچ جاتی ہے جب رمضان کے مبارک مہینہ کے آخری دس مبارک دنوں میں جب انسان دنیا سے مکمل انقطاع کی خاطر اپنے خالق حقیقی سے دل کی باتیں کرنے اور لقائے باری تعالیٰ کی خاطر اپنے آقاومولیٰ حضرت محمدﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے مساجد میں اعتکاف کرتا ہے۔ اس دوران بھی بعض لوگ اپنے موبائلز اپنے ہمراہ رکھتے ہیں اور خود تو دنیا سے رابطہ میں رہتے ہیں اور اپنے ساتھی معتکفین کی عبادت میں بھی خلل کا باعث بنتے ہیں۔یہ دن تو کلیتاً اس دنیا کو چھوڑ کر دربار الہٰی میں بیٹھ رہنے اور اُس خداکے ہوکر رہ جانے کے دن ہوتے ہیں۔

اکثر جگہوں پر ہماری مساجد چونکہ کمیونٹی سنٹرز کا بھی درجہ رکھتی ہیں۔جہاں مختلف نوعیت کی تربیتی میٹنگز منعقد ہوتی ہیں۔کہیں جماعت کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہورہی ہے،کہیں مشاورتی کمیٹی کی، کہیں ذیلی تنظیموں کی میٹنگز ہیں۔ان میں بھی یہی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے موبائلز کوسائلنٹ موڈ پر کرلیں۔ مگر بعض ہمارے نوجوان فون آنے پر میٹنگ کے دوران ہی سر نیچے کرکے فون سُن لیتے ہیں یا فوراً بغیر اجازت صدر اجلاس کے فون سننے کے لئے اُٹھ کر باہر چلے جاتے ہیں اور اپنے کاروبار اور تجارت بارے باتیں شروع ہوجاتی ہیں جبکہ امیر یا اس کے نمائندہ کی اجازت کے بغیر اُٹھ کر جانے کی تو دینی آداب اجازت نہیں دیتےاور کاروبار وتجارت کی باتیں تو ویسے ہی مساجد میں منع ہیں اور یوں میٹنگ کی خاموشی تارتار ہو کر رہ جاتی ہے۔

بالعموم دوست یہ سمجھتے ہیں کہ خریدوفروخت تو لین دین کا نام ہے۔اس لئے منع کیا گیا ہے اگر تجارت اور خریدوفروخت کی ممانعت پر باریکی سے غور کریں تو دکان یافیکٹری یا کمپنی میں بیٹھے اپنے ورکرز کو کاروبار خریدوفروخت کے بارے ہدایات دینا بھی تجارت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس سے بھی پرہیز چاہئے۔

مساجد کے آداب کے تعلق میں موبائلز کے بارے میں چند باتیں تحریر میں لے آیا ہوں۔اس نیت سے کہ

؎ شائد کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات

کیونکہ مساجد کی ظاہری وباطنی صفائی رکھنے کا حکم ہے۔ اللہ کے گھر میں جب فلمی نغموں کے سازوں پر مشتمل گھنٹیاں بجتی ہیں تولازماً اللہ تعالیٰ کے گھروں کی روحانی صفائی متاثر ہوتی ہےاور وہ فضا جو نور اور روحانیت سے پُر ہوتی ہے۔لازماً متعفن ہوتی ہےاور یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ایسی ساری گھنٹیوں سے لازماً اور لازماً فرشتے جو اپنے مومن بندوں کی دعاؤں کے پیغامات کو بار گاہ الٰہی میں لے جانے کے لئے حاضر ہوئے ہوتے ہیں۔کراہت کرتے ہوں گے۔

اس لئے اول تو مساجد کے حوالہ سے آداب جن کا تعلق خاموشی اختیار کرنے،شورشرابا نہ کرنے، اونچی آواز میں باتیں کرنے سے ہے، کو مدنظر رکھتے ہوئے مساجد میں داخلہ کے وقت ہی اپنے موبائلز بند کر لینے چاہئے۔اور اگر فلمی نغموں یا اس کے سازوں کی جگہ قرآن کریم کی تلاوت، نداء یا سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانیت سے پُر،اللہ تعالیٰ سے تعلق میں پُر معارف منظوم کلام بطور رنگ ٹون کے بھرا ہوتو اگر نسیان یابھولن ہار ہونے کی وجہ سے فون بند کرنا بھی رہ جائے تو اچھی آواز،دعاؤں پر مشتمل کلمات ہی کانوں میں پڑیں گے۔

(حنیف احمد محمود۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

ڈیلی روٹین برائے اطفال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 اگست 2022